1st Episode - Mitti Ki Gawahi - Para Para By Nusrat Zahra

پہلا باب ۔ مٹی کی گواہی - پارہ پارہ - نصرت زہرا

 مٹی کی گواہی بارش رات بھر روتی رہی اور مٹی کی آنکھوں نے ضبط کے سارے بندھن تو ڑ ڈالے ہوا کالہجہ کیا کم پُرنم ہے! میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو تاحدِنگاہ سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیا وہی سبزہ جو سرشاری کے عالم میں پارہ کے دل میں شعر کے پھول کھلا یا کرتا تھا اب ایک گہر ا سکوت لئے تماشائے عالم ہے ، آج 26،مارچ  2009 ہےاور مجھے  پروین کامدفن دیکھنے کے لیے اسلام آباد قبرستان پہنچنا ہے ۔

سُرمئی پہاڑ اور نارنجی سورج، تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا جادو او راس جادو بھرے رمز میں ایک ملال ہے جو کھینچ لیتا ہے۔ اپنے حصار میں ایسے کہ دیر تک کوئی خیال تک پاس نہ آئے اس ملال بھرے جادو میں کوئی بات ایسی ضرور  ہے کہ جو پرواز کرنے کے لیے کسی اُڑان بھرے بازؤں کی متلاشی ہے جن پر سر رکھ کر یہ اپنی گونگی گفتگو کے اسرار کھول سکے۔

(جاری ہے)


آہستہ آہستہ ڈھلتی ہوئی شام کے دامن میں ایک ایسا جادو ہے جسے اہلِ دردہی جان سکتے ہیں۔

’’بس بی بی یہ جنازہ گاہ کے سامنے والی قبرہے۔ ڈرائیور کی آواز سے میرے ذہن میں  ہونے والی بار ش کا زور کچھ کم ہوا وہ مسلسل کچھ کہہ رہاتھا مگر میرا ذہن تو اب کبھی نہ پلٹنے والے اس ماضی میں بھٹک رہا تھا کہ جس جس شاہراہ سے میں گذررہی ہوں کبھی پارہ بھی انہی راستوں پر سفر کرتی تھی، سفر کے دوران کبھی کوئی خیال اُس کے ذہن میں اُترتا تھا  تو نوٹ بُک میں قلمبند بھی کرتی جاتی تھی کیا ہوائیں کسی گزرے لمحے کو یوں قید نہیں کرسکتیں کہ جب بھی ان میں سانس لینا چاہیں تو ایک پل میں رسائی حاصل کرلیں زندگی لاکھ بے رحم سہی مگر کبھی کبھی وہ بھی تو سوچتی ہوگی کہ اُس کی زد میں کیسے کیسے لعل وگوہر آئے۔
زمین تو پھر بھی مہر بان ہے کہ جو زخموں سے چور ہونے والے مصلوب پھولوں کو اپنے چہرے سے ڈھک دیتی ہے!
زندگی کی سفاکی کی اس سے بڑھ کر دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ آنکھیں جو اپنے پیاروں کو دیکھ دیکھ کر سرشار ہوتی ہیں،انہی کے مدفن تک لے آتی ہے!
پلاٹ نمبر57اور قبر نمبر48اڑتالیس، بہت سی قبروں کے درمیان پارہ کی ابدی آرام گاہ کی شناخت ہے ،میں زندگی کے اس عجیب رویے کے درمیان اپنی چاہ،خلوص او رسچائی کا راستہ تلاشنے لگی ہے بے ساختہ پارہ کا وہ شہر ذہن کے کسی دریچے نے واکیا۔


دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گرانِ شہر  کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

میں نے محسوس کیا ، پارہ کی گورسے ’’محبت بیان نہیں رویہ ہے، کی نویدآئی وہ مسکرائی توضرور مگر اُس کی پلکیں بھیک گئیں۔ زخموں سے چور چور ہونے کے باوصف اُس کا سراُٹھا ہوا تھا میںنے دوپٹے کے کناروں سے قبر پر جمی گرد کی تہہ صاف کی اور اس مٹی کی خوشبو کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کیا،یہی وہ لمحہ تھا کہ جب اس مٹی نے میرے قدموں کو زنجیر کیا اور نہ جانے کتنے زخم کھل گئے۔
۔ پروین شاکر بنت سید شاکر حسین ثاقب      تاریخ پیدائش:- 24 نومبر 1952۔   تاریخ وفات:- 26 دسمبر 1994۔یہ گرد،گردمہ و سال ہی نہ تھی یہ لمحہء آگہی بھی تھی جو نجانے کب سے میرے قلم
کو زبان دینا چاہتی تھی پارہ پارہ اسی لمحہء انقلاب کی دین ہے! مجاور نے اگر بتیاں،پھول اور عطر سے قبر کو مہکانے میں میری مدد کی اسے پھولوں سے جو التفات رہا اس کا احوال اس کے شعروں میں جینے سے بخوبی ہوتا ہے ،عذابوں کی پذیرائی کرتے ہوئے بھی اس کے ہاتھوں میں پھول ہی پھول تھے ۔
بہار اس پر شبنم شبنم لمحوں کی طرح مہربان ہوچکی تھی مگر اس سمے موت کی آہٹوں کو گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔جب اس کے وجود کو محبت کا وجدان ملا تو شاعری نے جنم لیا اور جب اس کے وجدان نے اسے موت کی آہٹوں سے آگاہ کیا تو چہار جانب اسے موت کے تصور نے اپنے دام میں جکڑلیا تھا۔جانےںسے قبل ڈھیروں اشعار و خیالات اس آگہی کو تو ثیق دکھائی دیتے ہیں۔پروین نے کبھی اپنے کسی دشمن کو بھی جواب نہ دیا ،ساری عمر وار کرنے والے اس لحاظ سے بھی تہی دست رہے کہ ان کے پاس سنگباریوں کا کوئی جواز نہ تھا پذیرائی پھولوں کی ہو کہ سنگباری کی اس کے ہاتھوں ٫ے گلابوں کی مہک آتی رہی خواہ وہ پتھر اس کے جنم دینے والے شہر سے ہوں کہ اس شہر کے جہاں کا سکون اور سکوت دونوں ہی اسے عزیز رہت۔
پروین ایک خوشنما اتاری اور بکھرجانا جس کا مقدر ٹھہرا مگر یہ بکھرنا اس کی طرح یکتا ، منفرد اور جداگانہ ہے وہ موےبسے خوفزدہ نہیں جینے سے ڈرتی رہی اور ایک ہی تمنا کے لئے کہ مراد جو اس کے وجود کا سب سے خوبصورت اثبات ہے،معاشرے کا زمہ دار شہری بنے وہ گیت جو اس کی سبز سوچوں کے ساتھ اس کا جگر پارہ بھی تھا محض 15 برس کی عمر میں ماں کی شفقتوں سے محروم ہوا اب جبکہ اسے دنیا سے کوچ کئے 27 برس گزر گئے مراد پروین کے خوابوں کا  مکمل پرتو ہے۔
کامیاب اور زمے دار شہری اور پروین کی ہم قافیہ عرشین کہ جس کے خوش لمس دست یاسمین کی پیشنگوئی اس نے کئی برس پہلے کردی تھی۔کوئی خوش لمس دست یاسمیں آکر گلابی رنگ حدت تیرے ہاتھوں میں سمودے گا/ میرا دل تجھ کو کھودے گا/ میں باقی عمر تیرا راستہ تکتی رہوں گی/ میں ماں ہوں اور میری قسمت جدائی ہے۔اج یہ خوش لمس دست یاسمین مراد کی تنہائیوں  کی رفیق ہے خدا کرے یہ سفر خوشیوں اور محبتوں کے لمس سے آشنا رہے ( امین) مراد پروین کا حاصل زیست کہ جس نے اسے آباد کیا اور اس کی بھیگی پلکیں مسکرا اٹھیں مگر موت کے بے رحم۔
ہاتھوں نے خواب دیکھنے کی عادی رتجگوں کی مزاج آشنا پارہ کو 26 دسمبر 1994 کی صبح جبکہ بارش گنگنانے کی تیاری کررہی تھی پارہ پارہ کردیا وہ اپنے دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلی اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئی دیر تک بے کسی کے عالم میں فیصل چوک پر موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد کچھ بندگان خدا نے اسے پمز اسپتال پہنچایا ۔معالجین نے اسے بچانے کی کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہوسکی ۔
پارہ کا خوبصورت و خوب سیرت وجود سرد ہوگیا ۔نرگس کے پھول اس کے گھر میں اس کی آمد کے منتظر راہ تکتے رہ گئے اور نجانے کتنے خیال اس کے دام میں آنے کو بے تاب تھے پارہ کی جدائی پر بارش اس طرح روئی کہ جیسے زمین کو پرسہ دے رہی ہو ⁦.ہر آنکھ سیلاب کی مانند بہہ رہی تھی کون تھا جو اس کے لئے اشکبار نہ ہو نہ جانے اسے کس کی نظر لگ گئی ! آخری بار اس نے جس آواز پر لبیک کہا وہ داری اجل کی آواز تھی! اب اسلام آباد قبرستان میں اندھیرا بڑھنے لگا مٹی نے مجھ سے ایک وعدہ لیا اور پنکھ اپنے آشیانوں کو لوٹنے لگے میں اس شہر سے کہ جس کا سکوت اور سکون پارہ کو بے حد عزیز تھے⁦۔
واپس عازم سفر ہوئی اس شہر کی جانب کہ جس نے پارہ کو ج دیا تھا!  میں پھر خاک کو خاک پر چھوڑ آئی/ رضائے الہٰی کی تکمیل کردی!۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra