10 Episode - Parveen Ke Columns Gosha E Chashm - Para Para By Nusrat Zahra

دسواں باب ۔ پروین کے کالمز،گوشہِ چشم - پارہ پارہ - نصرت زہرا

’’جب میں باہر سے پڑھ کر آئی یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی کہ ہم نے سیاسی طور پر اپنے ملک کو کس حال تک پہنچا دیا ہے۔اس صورتحال کے خلاف میں اپنا احتجاج رجسٹر کرنا چاہتی تھی۔احتجاج کا براہ راست طریقہ میرے پاس نہیں تھا میں نے ارشاد حقانی صاحب سے اپنی خواہش کا اظہار کیا انہوں نے میرے کالمز کی حوصلہ افزائی کی وہ میرے کالمز پر بہت توجہ دیتے ہیں۔
‘‘
سرکاری گھوڑوں کے لیے چارہ،میں تو وہی موٹر لوں گا،گورایا صاحب کو چھٹی کس نے دی،آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا،دیوانہ بکار خویش ہشیار،لوٹا بدستور موجود ہے،یہ دستور زبان بندی ہے کیسا تیری محفل میں تجھے اے جگر مبارک پر شکست فاتحانہ،مرغی کا دوسرا گھر،ہم الزام ان کو دیتے تھے،گربہ کشتن روزِ اول،موازنہ پنگھٹ و ہینڈ پمپ،پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ،عرض دوگونہ عذاب است جاں مجنون راہ،اے بسا آرزو کہ خاک شدہ،ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانو، تیمم اور آب برخاست،برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم،مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال،پیر صاحب سیکریٹریٹ شریف،مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔

(جاری ہے)


تاثر یامی رو دیوار کج،دیکھنے ہم بھی گئے اور ’’تماشہ‘‘ بھی ہوا،خانہ خالی راد یومی گیرد،حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔
پروین کے اُن 25 پچیس کالمز کے عنوانات ہیں جو اُس نے ہمیشہ کے لیے چھپ جانے سے قبل روزنامہ جنگ راولپنڈی کے لیے تحریر کئے۔مرحوم ارشاد حقانی صاحب کی رہنمائی میں اُس نے دوبارہ کالمز لکھنا شروع کئے جبکہ وہ اس سے قبل اپنے کالج کے دنوں سے ہی کالمز لکھ رہی تھی اس کے کالمز چھپنے سے پہلے اخبارات کی زینت بنے۔

فریاد کچھ تو ہے کے عنوان سے اُس نے روزنامہ جنگ ہی کے لیے کالمز لکھنا شروع کئے بدقسمتی سے ہم ان کی نقول حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
محترم احمد پراچہ نے اپنی تصنیف پروین شاکر احوال و آثار،میں لکھا ہے کہ پروین شاکر کے انداز تحریر میں فعالیت کے ساتھ ساتھ محاکات کا عنصر بھی نمایاں ہے۔وہ جو بات کہتی ہے اس کے مضمرات کا تجزیہ کر کے ایک ایسی تصویر کھینچ دیتی ہے اور اس تصویر کشی میں اکثر محسوس پیکروں کا استعمال کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جس طرح اس کے شعر کا آہنگ بُلند ہے اسی طرح اُس کی نثری تحریر کا رنگ شوخ ہے۔
(صفحہ نمبر 255)
ممکن ہے اگر ہمارے عزیز قارئین اور وہ لوگ کہ جو پروین کے فن کے قدردان ہیں ان کے ذوق کی تسکین کی خاطر ہمیں فریاد کچھ تو ہے کے چند کالمز مل جاتے تو بات کچھ اور بھی سوا ہو جاتی!
کالم نگاری ادبِ عالیہ تو بہرحال نہیں کیونکہ یہ تو سیاسی داؤ پیچ بدلتی ہوئی صورتِ حال اور خبر میں غرق ہونے سے وجود میں آتا ہے۔
لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ یہ بھی کسی نہ کسی انداز میں معاشرے کو مستفید کرنے،حالات کی صحیح تصویر کشی کرنے اور عام آدمی تک معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
پروین نے 1993ء سے لے کر 1994ء تک 25 کالمز تحریر کئے کالمز کو پڑھ کر پارہ کے نانا اور معروف شاعر سید حسن عسکری عظیم آبادی کی بات ذہن کے کسی دریچے سے صاف سنی جا سکتی ہے۔

’’پارہ جہاں جاتی ہے وہاں زلزلہ آ جاتا ہے‘‘

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا

بچپن میں یاد کیا ہوا یہ شعر ایک بار پھر پارہ کے حافظے میں سرایت کر گیا جب داعئی اجل اُس کے رختِ سفر کو باندھنے کی تیاری کر رہا تھا۔
پروین نے ہر محکمے کی بدعنوانی پر قلم اُٹھایا مگر کمال بے ساختہ ظرافت سے یہ ظرافت محض طنز و مزاح نہیں ایک ایسی ہستی کے قلم سے نکلا ہوا سچ ہے کہ جو خود ایک بہت اعلیٰ عہدے پر فائز تھی۔

وہ لوگ کہ جنہوں نے ایک عرصے تک سنجیدہ و متین پروین کا دکھ اور سکھ کے امتزاج کا شاعرانہ لہجہ دیکھا تھا،اس تبدیلی پر چونکے ضرور مگر پذیرائی اس بار بھی پروین کی دہلیز پر کھڑی تھی،ڈھیروں ڈھیر ستائش اس بار بھی اس کی ہمسفر تھی مگر ہمیشہ کی طرح اس کے نستعلیق ذہن سے نالاں وہ لوگ بھی تھے کہ جن کے ترکش میں جتنے تیر تھے سب استعمال ہو چکے تھے انہیں علم نہیں تھا کہ ابھی ماہِ تمام کو جمال آفتاب کہنا باقی ہے!۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے خود کلامی کی پروین کو یہ کہہ کر داد دی تھی کہ معاشرے کا شاید ہی کوئی سچ ہو جو اس نے قلم زد نہ کیا ہو۔یہی صورتحال اس کے کالمز کا حسن بنی۔اخبارِ جنگ کے قارئین کہتے ہیں کہ انہیں ہر روز پروین کے کالم کا شدت سے انتظار رہا کرتا ایک بار اس نے اپنی والدہ کے اصرار پر کالم لکھنا ترک کر دیئے مگر کچھ عرصے کے بعد سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

انہی کالمز پر اسے بعد از مرگ (Apns) کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔
محض 25 کالمز میں اُس نے ہر ادارے کی کارکردگی کو موضوعِ بحث بنایا اور بے لاگ تبصرے کئے وہ کالم کے لغوی معنی کے عملی تفسیر بن کر کالم لکھتی رہی کالم کے لغوی معنی ستون،مینار اور کھمبا کے ہیں۔
تخلیق کاروں کے ہجوم بے پناہ میں ہونے والی ادبی کانفرنس میں لسانی بنیادوں پر تفرقے بازی کو اس نے یوں پیش کیا کہ مزاحمتی ادب کی ان تعریفوں میں بہت سوں کے سر پھٹتے پھٹتے بچے اور زمانوں کے عالم (پروفیسر کرار حسین ) کے علم کا جذب کیا ہوا ایک جملہ کہ ماں کی گود اچھی چیز ہے مگر ’’It's time to grow up‘‘ اور یہ کہ دنیا کے کاروبار کو سنبھالا جائے۔

ایک اور کالم میں جس کا عنوان دیکھنے ہم بھی گئے اور تماشا بھی ہوا۔میں وہ لکھتی ہے جیسی شاعری اس مشاعرے میں پڑھی گئی کہیں نہیں پڑھی جاتی یہ مشاعرہ مارچ 1994ء میں لاہور کے الحمرا ہال میں اس کی رحلت سے 9 ماہ قبل منعقد کیا گیا۔
متذکرہ بالا کالم سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی اُس کی سماعت پر کسی شئے کی بگڑی ہوئی ہیئت ٹکراتی اس کا قلم حرکت میں آ جاتا حالانکہ وہ نرم خو اور نرم مزاجی میں ایک شہرت رکھتی تھی۔
مگر مزاج اور طبیعت کی اس تبدیلی کے پیچھے وہ تمام جرائم ہیں جو قالین کے نیچے چھپا کر سب اچھا ہے کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دراصل وہ اس نظام سے نالاں تھی کہ جس میں کرپٹ افراد اپنی تمام تر کارگزاریوں کے باوجود سسٹم پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ اپنے تمام اقدامات کو جائز اور عین حق قرار دیتے ہیں کبھی اس کا لہجہ کرخت،کبھی شیریں اور شرارت سے بھرا ہوا اور بسا اوقات ناقابلِ برداشت کرب کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

’’سویلین لوگوں کے ساتھ یہی خرابی ہے ایک دفعہ بات سمجھ میں نہیں آتی تین مارشل لاء لگ چکے ہیں پھر بھی کہیں کہیں سے مکرر کی فرمائش جاری ہے۔
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
(مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال!)
پھر ایک کالم جو این جی اوز کے خلاف ایک جہاد کی صورت نظر آتا ہے۔
’’اگر آپ کو تھوڑی سی انگریزی آتی ہو اور آپ اپنی گفتگو میں جنڈر بائیس (Gender bias) مارجنلائز (Marginalize) اور (participatory) پارٹیسپیٹری جیسے (Buzzwords) کا بے دریغ استعمال کر سکتے ہیں اور انگریزی اخباروں سے آپ کے مراسم اچھے ہوں تو سمجھیں آپ کی لاٹری نکل آئی عورتوں،بچوں،ماحولیات،یا کسی قسم کی معذوری کا انتخاب کر لیجئے اور اپنی سات پشتوں کی فلاح و بہبود سے بے نیاز ہو جائیے ایک خوبصورت رائیٹنگ پیڈ پر خوبصورت تر انگریزی میں ایک رائٹ اپ اور آخر میں اپنا پروپوزل بھیج دیجیے ڈالر آپ کے قدموں میں (سنگدل محبوب اس کے علاوہ)
کہیں کہیں اسے ملال بھی ہوتا ہے اور وہ گہرے دکھ پر اپنی ذات کے سب سے طاقتور ذریعے،حوصلے اور مزاح کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اُس نے اپنے آپ پر ہنسنے کی صلاحیت اور استعداد سے بہت سا حوصلہ پایا۔
(ٹی وی انٹرویو،نعیم بخاری)
اس کا پورا کالم ایک نظم کی طرح ہوتا ہے وہ آخر میں کوئی ایسی بات کہتی ہے جو پورے کالم کی جان ہوتی ہے۔
کیا ستم ہے کہ اُس کے آخری کالم کا پہلا جملہ موت ہی سے شروع ہوتا ہے۔موت کا تذکرہ…کہ جیسے اپنی اڑان کی تیاری مکمل کر کے کوئی اذنِ پرواز کا منتظرمسافر اپنی باری کا انتظار کر رہاہو!!
یہ کالم اس کی موت کے اگلے دن روزنامہ جنگ کو موصول ہوا۔
سارا کالم کراچی کی ناگفتہ بہ حالت کا عکاس ہے۔
’’موت برحق ہے مگر مشاعرہ پڑھتے ہوئے جاں بحق ہونے کا ہمیں کوئی شوق نہیں۔

اور منزل تھی غبار راہ میں گم
اور رختِ سفر جلا ہوا تھا

آج 94ء ہے۔اور فرق کوئی نہیں،حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔
پروین کی ناگہانی رحلت کے بعد محترمہ رفعت حیدر نے محنت شاقہ کے بعد ان کالمز کو جمع کیا جنہیں لفظ لوگ پبلی کیشنز نے2000ء میں شائع کیا۔

پروین کے تمام کالمز اس کی بھرپور تخلیقی زندگی کی ایک جھلک ہیں جو اس کے گہرے مشاہدے،سیاسی تجزیوں اور لطیف طنز سے بھرپور ہیں،مزین ہیں۔
جب بھی اس کی شخصیت اور فن پر تحقیقی کتب طبع ہوتی ہیں یا آئندہ ہوتی رہیں گی اس کے تخلیقی سفر کا کوئی نہ کوئی نیا پہلو اجاگر ہوتا رہے گا۔
’’خوشبو پھول تحریر کرتی ہے‘انہی کتابوں میں سے ایک ہے جسے لفظ لوگ پبلی کیشنز نے شائع کیا۔
کتاب سلطانہ بخش صاحبہ نے مرتب کی وہ لکھتی ہیں۔
’’مراد یہ کہنا نہیں کہ پروین زیادہ بڑی کالم نگار تھی یا یہ کہ وہ کوئی کمتر درجہ کی شاعرہ تھی بلکہ یہ تو صرف اس کا مشاہدہ ہے کہ اس کے شعر نے باہر جاتی ہوئی جن گیندوں کو چھوئے بغیر گزرنے دیا تھا اس کی نثر نگاری نے ان گیندوں کے Swing اور (Cutter) بڑی وضاحت سے دیکھ لئے تھے سو اس کی نثری تحریریں معاشرے کے ایسے حوادث کو بے تبصرہ گزرنے نہیں دیتی‘‘۔

مزید لکھتی ہیں۔
’’عام قاری کے لیے بعض اوقات اس کی ستائی ہوئی اندر کی باتیں دلچسپ ہوتی ہیں۔(صفحہ 251)
پروین نے جس دور میں نمو کے مراحل طے کئے وہ ایک سنہری دور تھا جس میں چہار جانب تخلیقی سرگرمیاں،مواقع اور ستائش و پذیرائی اور علم دوستی ایک ہنر اور وصفِ میں شمار ہوتے تھے پروین نے محض قلبی وارداتیں ہی رقم نہیں کیں اسے تحریر و تقریر کا سلیقہ آتا تھا وہ اپنا مطمع نظر اچھی طرح بیان کرنا خواہ وہ تجربہ ہو کہ مشاہدہ قرطاس سادہ کو روشنی کا جامہ پہنانا بہت ابتداء ہی میں سیکھ چکی تھی۔

کالمز خواہ یونیورسٹی کے زمانے میں لکھے گئے ہوں یا اس دور میں کہ جب وہ ایک پریکٹیکل وومن کے طور پر زندگی کے گرم و سرد دیکھ چکی تھی۔آگہی،علمیت اور دانش و تہذیب اس کی ہر تخلیق کا خاصہ رہی!
اُس کے اسی وصف کو ہارورڈ میں اس کے استاد پروفیسر مارون نے یوں بیان کیا۔
’’پروین ایک سنجیدہ اور ہونہار طالبعلم ہے جو سیاست صحافت اور پبلک پالیسی کے ارتقاء و اثرات میں بہت دلچسپی لیتی،وسیع مطالعہ،تصورات و تخیلات کی سوجھ بوجھ رکھتی تھی اور بہت جلد انہیں سمجھ لیتی ہیں۔
اور وہ خود اپنے کالم میں اپنی ذہانت کو ایک لطیف طنز کے پیرائے میں اس طرح اجاگر کرتی ہے۔پروین نے سول سروس کے ایک محکمہ کے لیے امتحان دیا،امتحانی سوالات میں پروین کے فن پر بھی سوال کیا گیا۔پروین کے فن پر مضمون لکھنے کا سوال بھی پرچے میں شامل تھا۔
’’وائیوا کے بارے میں البتہ ناکام امیدوار فضول باتیں کرتے رہتے ہیں انٹرویو میں ہمارے تراسی فیصد نمبر تھے جس پر اوروں کو تو چھوڑئیے خود ہمارے بیٹے کی حیرانی نہیں جاتی۔

اُس کے کالمز میں ایک خوش کن پہلو ادب آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ہے اس نے ایک کالم لوٹا بدستور موجود ہے۔میں نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ محض ان کی سیاسی جوڑ توڑ کو موضوع بنایا۔سیاسی حکومتوں میں وفاداریاں تبدیل کرنا ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
’’نوابزادہ صاحب کو جتنی محبت اپنے حقے سے ہے اس کی آدھی بھی کسی حکومت سے ہوتی تو وہ اپنی طبعی عمر کو تو پہنچ ہی جاتی جب سے آنکھ کھولی ہم نے تو یہی دیکھا کہ پہلے تو نواب زادہ صاحب کسی ایک حکومت کے خاتمے اور دوسری کی آمد کے لیے تن من دھن تینوں جتنے جتنے باقی بچے ہیں سے جٹ جاتے ہیں اور جب مطلوبہ حکومت آ جاتی ہے تو اسی خلوصِ نیت سے اُس کی رخصت کا کام شروع کر دیتے ہیں۔
درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
آگے چل کر یوں گویا ہوتی ہے

’’نوابزادہ صاحب کے دشمن انہیں جو بھی کہیں۔اس سارے قصے میں ایک بات طے ہے کہ وہ اپنے کاز کے ساتھ (وہ جو بھی ہو) بالکل سچے ہیں۔وفاداری بشرطِ استواری ہی اصل ایماں ہے وہ جو کچھ بھی ہیں لوٹے نہیں ہیں۔!
پروین کے وسیع المطالعہ،محبِ وطن اور اسلوب تازہ پر ایک مہر اثبات اس کے کالمز پڑھ کر بھی ہو جاتی ہے۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra