6 Episode - Parah Ki Mili Aur Siyasi Nazmein - Para Para By Nusrat Zahra

چھٹا باب ۔ پارہ کی ملی اور سیاسی نظمیں - پارہ پارہ - نصرت زہرا

’’مٹی سے محبت کی حکایت ہی الگ ہے‘‘اگرچہ پروین شاکر کبھی سیاسی شخصیت نہیں رہیں مگر ان کے سیاسی شعور نے ایک نصب العین کا تعین بہت ابتداء ہی میں کر دیا تھا


دفعتا نور ہوا آگے بڑھا اک جبریل
دل میں روشن کئے آزادی کی نوریں انجیل

عزم کی آگ تھی ایماں کی حرارت دل میں
ظلمتیں پگھلیں ترشنے لگی اک صبحِ جمیل


یہ شعور محض پندرہ برس کی نوخیز کلی کا اپنے وطن سے محبت پر اصرار کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ اصرار جز وقتی سر گرمی نہیں کہ جو ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرنے اور اسے استعمال کرنے کی خاطر اپنایا جاتا ہے یہ وہ احساس ہے جو دنیا کے ہر کونے میں اپنے پرچم کی آبرو بن کر اپنے علیحدہ تشخص کا وقار قائم کرتا ہے اور اس طرح کہ جو خواب وطن کی محبت میں دیکھے جاتے ہیں حاصلِ زیست بن جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پارہ کا گھرانہ بھی جون 1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی کی مضافاتی بستی میں آباد ہوا تھا اُن کے لئے چھوٹی بڑی تکالیف اور آزمائشیں کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں کہ انہیں آزادی کی صبح جمیل کو اپنے وطن میں خوش آمدید کہنا تھا۔پارہ کے خون میں چاند بن کر چمکنے والی اس مٹی کے نم نے اُس کے قلب میں جڑیں اتاریں اور اس میں شعر کے پھول کھلائے اُس نے ساری سچائیوں کے ساتھ حب الوطنی کو اپنی شاعری کا خاص موضوع نہیں بتایا بلکہ یہ رویہ ان کی شاعری میں ایک عمومی رویہ ہے۔
وہ بات اپنے وطن کی ہریالی مٹی کی کر رہی ہوں کہ بانیانِ پاکستان کو خراج عقیدت،ہر نظم اور ہر جذبہ اپنے نصب العین اور محور کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔
وطن کی محبت میں ڈوبی نظمیں اور اس رویے کو اُنہوں نے یوں بیان کیا۔
اتفاق کی بات ہے کہ میری شاعری کی ابتداء 1965ء کی جنگ کے بعد ہوئی۔پہلی نظم 1966ء میں لکھی یعنی شاعری کی ابتداء وطن سے ہی ہوئی۔

(ملاقاتوں کے بعد ص۔292از احمد سلیم)
البتہ اُن کا ارتقاء پذیررویہ اپنی نمو میں پوری کائنات کی طرح پھیلا ہوا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے آدرشوں اور آشوبِ وِطن نے نت نئے معنی اجاگر کئے وہ اپنے عہد کے ممتاز شعراء کو بھی ملک دشمنی کے باعث ناصحانہ انداز میں ہدفِ تنقید بنانے سے نہیں چوکتیں۔وہ وطن سے محبت کرتے ہوئے۔یونہی سرشاری کے عالم میں ڈوبی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ جیسے اپنے محبوب کو لکھتے ہوئے ان کے استعارے جذبوں کی نزاکتوں میں ڈوبے ہوئے ملتے ہیں۔


تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے (صد برگ)

جن دنوں وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں اور فاضل وقت میں ٹرینٹی کالج میں جنوبی ایشیاء کا ادب پڑھاتی تھیں۔ایک موقع پر انہیں اپنے مقالے کے ساتھ ایک فلم دکھانا بھی لازم تھا۔پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا تو خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔

پارہ کے ایم پی اے سپر وائزر نے کہا کہ ہندوستانی فلم دکھائی جائے جس پر پارہ نے بھرپور احتجاج کیا اور امریکیوں کے ذہن میں یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کا اپنا علیحدہ تشخص ہے اور ہماری مملکت کا حصول اپنے جدا گانہ طرز کے تحفظ کی خاطر تھا۔یہ رویہ نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ لائق تحسین بھی ہے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ وطن سے محبت کا رویہ معروضیت کا دوسرا نام ہے تو بے جا نا نہ ہو گا۔
ان کے اس رویے کو محترم ضمیر جعفری مرحوم نے یوں اجاگر کیا تھا۔
یورپ کے کوہستانوں میں برف پگھل رہی ہو۔یا کسی شہزادی کا المیہ یا بے شک کہیں انقلاب کی آگ بھڑک رہی ہو۔الغرض جو بھی کچھ ہو بس اسی قدر ہوتا ہے کہ شاعری کے لیے بھی وہاں بہت وافر جگہ موجود رہتی ہے۔پاکستان کے فیوڈل لینڈ لارڈوں والی بات نہیں کہ ملک بے شک ختم ہو جائے مگر جاگیر ختم نہ ہو۔
پروین ایک انقلابی شاعرہ ہے مگر اس کے شعر میں نعرے کا واویلا دھیمے سُروں میں ہے اس کے ہاں رباب کا انقلاب ہے ڈھول کا انقلاب نہیں۔اس شہر میں جمہوریت تو آتی ہے،اُس کے ہاتھ میں آٹے کا تھیلا بھی۔نئی دنیا کے لیے بشارتیں اور سماجی عدل مع روٹی،کپڑا اور مکان وغیرہ کے مگر تھیلا ریشمی جارجٹ کا ہوتا ہے!
اور یہ بات سچ ہے کہ وہ ہر بات کو سجا کر پیش کرنے کا ہُنرجانتی ہیں۔
کھردرے الفاظ،نعرہ بازی اور جذبات کو برا نگیختہ کرنے والی الفاظی سے بہت دور رہ کر وہ اپنے نصب العین کے ساتھ ساتھ سفر کرتی جاتی ہیں۔اور یہ جذبہ ان کے پانچوں مجموعہ ہائے کلام میں بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور جس طرح زمانے کے اندھے رواجوں نے ان کے جذبہ محبت کو ہر طرح کی آزمائشوں سے گذارا اسی انداز میں اُنہوں نے وطن عزیز سے محبت کی بہت قیمت چکائی کہ حاکم شہر کے ہر کارے آدھی رات اُس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم نے یہ نظمیں کس تناظر میں لکھی ہیں۔
جس پر اُنہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل ہونا پڑتا ہے۔مگر وہ پیہم محبت مزاجی سے دستبردار نہیں ہوتی۔
گورنمنٹ سرونٹ ہونے کے باعث وہ بہت سی باتیں اشاروں کنایوں میں کہتی رہیں مگر انہوں نے آمر کا راج پاٹ قبول کرنے کے بجائے قلم کو ڈھال بنا لیا اور جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے کے عہد کی پاسداری کرتی رہی۔
1971ء کے سقوط ڈھاکہ کے عنوان پر وہ اعلیٰ ترین تحقیقی مقالہ (Ph.d) کرنا چاہتی تھیں اس واقعے نے ان کے حساس و باشعور ذہن کو بے حد متاثر کیا۔
1977ء میں ملک میں مارشل لاء اور 1978ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی تحلیل کے نتیجے میں پھانسی نے اُنہیں سورج کے قتل،ہونے کے مترادف احساس دیا اور یہ احساس بڑھتے بڑھتے پڑوسی ملکوں میں ہونے والی شورہ پستیوں پر بھی خاموش نہیں رہا۔کہا جاتا تھا کہ وہ نسائی شاعری کرتی ہیں اور اُن کے دکھ ہی ان کا موضوع ہیں مگر ان کی ارتقاء پذیر شاعری کا شباب آخر تک قائم رہا۔
ایک بار اُنہوں نے کہا تھا کہ۔
’’(میں فیمینسٹ ہوں لیکن اس کی (Militant) صورت میں نہیں۔عورت کا دکھ میرے ہاں ہے کیونکہ میں خود عورت ہوں میں نے اپنے آپ کو لکھا ہے اپنے دکھ کو لکھا ہے،وہی دکھ دوسری عورتوں کے بھی تو ہیں نا! ان کی مجموعی شکل بھی تو ہے لیکن میں نے اسے مقبول عام سیاسی نعرے کے طور پر نہیں اپنایا کیونکہ نہ مجھے کوئی N.G.O بناتی ہے نہ مجھے کسی قسم کی سیاسی مراعات درکار ہیں میں وہی لکھتی ہوں جو ایمانداری سے محسوس کرتی ہوں۔

(ملاقاتوں کے بعد ص 304) احمد سلیم
جب وہ محکمۂ کسٹمز سے وابستہ ہوئیں تو اس وقت بھی اظہار رائے پر پابندیاں عائد تھیں۔انہوں نے فکری پابندیوں کے باوجود محکمۂ کسٹمز میں نوکر شاہی اور ہر اس طبقے کی نشاندہی کی جو خاکِ وطن کو حکم بنانے پر تلے ہوتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے کے باوجود وہ کبھی مال و منال اور ارباب حل و عقد سے قربت کی خواہاں نہیں رہی۔

ڈاکٹر ناظم جعفری جو ان کے لے پالک بھائی تھے،نے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ
’’بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ اُس کا شمار پاکستان کی چند اہم شخصیات میں ہونے لگا تھا اور وہ وزیر اعظم یا صدرِ پاکستان سے بغیر اپائنٹمنٹ کے مل سکتی تھی۔ویسے یہ اُس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی اُس کی شخصیت بڑی پُر اثر تھی ایک بار ملنے کے بعد اسے فراموش کرنا آسان نہ تھا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں یہ اللہ کا عطیہ ہے پارہ تو اللہ سے ملنے والے بہت سے عطیات کی مالک تھی۔اسی کتاب میں ڈاکٹر نسرین شاکر کے حوالے سے ایک بات سامنے آئی کہ "پروین کو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تقریر لکھنے کا کہا گیا پروین نے تقریر لکھی جو یوم پاکستان کے لئے تھی تقریر کو بے حد پسند کیا گیا بعد ازاں محکمہ پریس اینڈ پبلیکیشن نے دوبارہ بھی وزیر اعظم ہاؤس آنے کی دعوت دی لیکن ان کے ذہن میں اپنے حق سے زیادہ مراعات یا رعایت لینے کا تصور نہ تھا" اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک فطری اور دوسری وجہ ان کی تربیت،جو گھرانہ اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے آزادی کی کرن کو بے سر و سامانی کے عالم میں بھی خوش آمدید کہنے کی لگن رکھتا ہو اس کے لئے ترجیح بہرحال زمین سے وفاداری ہی قرار پا سکتی ہے پروین کی ملی نظموں پر نگاہ کی جائے تو ان کی تعداد اور میعار دونوں قابل ستائش ہیں اپنے وطن کے بانیان کو جس انداز سے پروین نے خراج عقیدت پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی دوسری جانب ان کی حساس طبیعت پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور ہر لمحہ بدلتے ہوئے حالات نت نئے معنی اجاگر کرتے رہے جیسے قدروں کے نمبر منسوخ ہونا،شہر رسن بستہ کے بازو کے گہرے ہوتے نیل،ان کے ذہن رسا نے منافقت سے بھرے ہوئے معاشرے اور جھوٹی اقدار کے ہر عمل کو اپنے شعروں میں بیان کیا ہے بالخصوص گل صد برگ میں ان کے لہجے کی کاٹ نے بڑے بڑوں کو حیرت زدہ کر دیا۔
خاکم بدہن،تقیہ،اے میرے شہر رسن بستہ،کسے کہ کشتہ نہ شد،مارگزیدہ،ظل الٰہی کے پرابلمز،ایران،ٹکٹکی،روز سیاہ اور (Demonization) نے ان کے فنی ارتقاء کو بہت جلا بخشی۔جبکہ دائرہ،(The Missing Link)،ہمارا المیہ یہ ہے کے چہرے تاریخ،سماج،اور سیاست پر ان کی گہری گرفت کا پتا دیتے ہیں۔حبس بہت ہے،چیلنج،6 ستمبر 1987ء کے لئے ایک دعا،اسٹ ملز کا ایک خصوصی مزدور،یاسر عرفات کے لئے ایک نظم،دوست ملک کے لئے ایک نظم،ہم سب ایک طرح ڈاکٹر فاسٹس ہیں،پھر وہی فرمان اور کف آئینہ کی متعدد نظمیں انہیں ایک دانشور کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔
مزاحمت اور ظلم کے خلاف ان کا رویہ یا کلام کسی الگ خانے میں مقید نہیں بلکہ یہ ان کا عمومی رویہ ہے،پسے ہوئے طبقے اور تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے ساتھ ان کی وابستگی ایک اجتماعی حوصلے کو جنم دیتی ہے۔وہ کہتی تھیں میں کبھی انتہا پسند نہیں رہی دوسرے مجھے جو (Delusions) اپنی ذاتی زندگی اور قومی حوالے سے ہوئے تو اس کے اثرات بھی میری شاعری پر پڑے خصوصاً 71 کے قومی المیے سے تو میں آج تک نہیں نکل پائی۔
میں نے آج بھی ہتھیار نہیں ڈالے دبی،کچلی اور گری پڑی مخلوق کے ساتھ میری وابستگی جو اس وقت تھی اب بھی ہے لیکن میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سامنے کوئی نظام نہیں ہے۔( 299,ص،ملاقاتوں کے بعد) پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جو ان کی پسندیدہ شخصیت اور رہنما تھیں ان پر ہزاروں نہیں لاکھوں تخلیق کاروں نے اپنے انداز میں خراجِ تحسین و عقیدت لکھا مگر شہزادی کا المیہ خود شہزادی کو بھی بہت پسند تھا۔
بہت دل چاہتا ہے،انکار کی شاہکار نظم کہی جا سکتی ہے۔قلم کا چھیننا آساں نہیں ہے!یہ درویشوں کی بستی ہے دبے پاؤں بھی تم یہاں آنے کی جرات نہیں کرنا کرائے پر قصیدہ خواں اگر کچھ مل بھی جائیں تو قبیلے کے کسی سردار کی بیعت نہیں ملتی ہمارے آخری ساتھی کے تکمیل شہادت تک تمہیں نصرت نہیں ملنی۔وہ مسلسل سفر میں رہیں لیکن دو برس وطن سے دور رہنے کے بعد جب انہیں مٹی کی۔
محبت کی حکایات کا اس طور آدرش ہوا جو پردیس جا بسنے والوں کے حصے میں آتی ہے تو اس کے پیکر کا افسوں عجب تھا۔یہاں وہ اپنے عہد کے ممتاز شاعر فیض احمد فیض کے ہم قافلہ نظر آتی ہیں یہ نظم چونکہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی اس لئے یہ عنوان سے خالی ہے مگر معنویت کا حسن پھر بھی وہی ہے۔پہلے بھی یہ دل ہجر سے بے حال ہوا ہے۔پہلے بھی بچھڑنے کی سزا پائی ہے اس نے رخصت کی اذیت میں جو شدت ہے سہی ہے آیا ہے بہت یاد کسی چشم کا جادو خود سے بہت آئی کسی ملبوس کی خوشبو۔
کھینچا ہے بہت قلب کو گزرے ہوئے کل نے دن بھر کبھی دوری نے زبوں حال رکھا ہے رخصت کی گھڑی ٹھہر گئی روح میں جیسے اس بار جو آیا ہے مگر ہجر کا موسم اس میں دل بیمار کی وحشت ہی الگ سے کچھ دیر کی تاخیر جو ہوتی ہے وطن سے۔لگتا ہے کہ اب جان نکل جائے گی تن سے! وہ کہتی تھیں اگر انہیں ایک دن کی حکومت مل جائے تو وہ کوشش کریں گی کہ ملک میں کوئی بھوکا نہ سوئے ملک میں جو بھی نظام ہو وہ اعتدال اور مساوات پر مبنی ہونا چاہئے۔( خالد یزدانی۔مضمون روزنامہ نوائے وقت،23،مارچ 2010ء ص،18)

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra