20 Episode - Zard Gulab - Para Para By Nusrat Zahra

بیسواں باب ۔ زَرد گُلاب - پارہ پارہ - نصرت زہرا

ہاتھوں میں سرخ گلاب لئے ایک شہزادی،سراپا اضطراب ایک شہزادے کے مقابل جلوہ افروز ہے۔گجر بجنے کی آواز آئی اور ستاروں سے بنا ملبوس خس و خاشاک کی مانند بکھر گیا مضطرب شہزادہ نجانے کون ملک کا قاصد ہوا اور وعدے رزق ہوا! اب شہزادی تنہا ہے اور ہونے کی مجبوری کا اندھا کنواں جس کے گرد گھومتے گھومتے اُس کے پاؤں پتھر کے اور آنکھیں پانی کی ہو چکی ہیں!
جُگ بیتے شہزادی نے اپنے اندر کی لڑکی کے منکشف ہونے کی دعا کی تھی جس کے جواب میں اُسے شہر ہزار در کا اسم عطا کیا گیا۔
شہرِ ہزار در جس کا کوئی دروازہ باہر کی طرف نہیں کھلتا۔سب دروازے اندر کی طرف کھلتے ہیں۔اور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں،اب جنگل کی رات ہے اور بھیڑیے ہر جا اس کے منتظر ہیں!
تتلی کے پر اُڑان کی گرمی سے جُھلس گئے مگر اُسے کہانی کہنی ہے۔

(جاری ہے)

27 راتیں گزریں تو اسے یہ اداراک دے گئیں کہ سچائی جب اپنے وقت عصر کو  پہنچ جائے تو زندگی کے دشتِ بلا میں ایک ہی پکار باقی رہ جاتی ہے۔


ہَل مِن ناصر ینصرنا!
مگر جہاں قدروں کے نمبر منسوخ ہو چکے ہیں وہاں نیکی کی نصرت کو کون آئے اور جرم بس اتنا کہ جنم ایک ایسے قبیلے میں جنم ہو جہاں سوچ رکھنا جرائم سے بڑھ کر ہو۔
قدیم عرب کی روایتوں کے پیروکاروں نے کچھ نئے ستم ایجاد کئے ہیں اب پیدا ہوتے ہی زمین میں نہیں گاڑا جاتا نہ ہی دیوار میں چنوایا جاتا ہے۔بس اونٹ کا حافظہ رکھنے والے لفظِ عُفو کو فراموش کر بیٹھے ہیں!
شہزادی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمنڈنے لگا کہیں سے کوئی آنسو آنچل میں جذب ہوا،اور وہ اسے دل پر ہوا کرنے کی غرض سے جھلنے لگی مگر آگ بجھنے کے بجائے دل پر آبلے ہی پڑتے گئے۔

جوان سروں کو نیزوں پر سجتے ہوئے وہ بے بسی سے بس دیکھا کہ اُس نے قتل ہو جانے والوں کے نام نہیں پوچھے،مجرئی خلق میں اُس کی آنکھیں بھی کسی نیزے پہ سجا دی گئیں وہ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا چاہتی تھی مگر اُس کے دونوں ہاتھ پشت سے باندھ دیئے گئے۔
شہرِ جاں کی سبز بیلیں جنہیں دیکھ کر بہار شرما جاتی تھی بارشوں نے ان کے سارے بھرم توڑ ڈالے اور کھلا کہ اپنے ہی شہر کا رنگ کچا تھا۔
سو دنیا سے ملنے والے غموں کا تو ذکر ہی کیا۔جب خوابوں کا سونا مٹی ہو جائے۔جنگل کہ جہاں بھیڑیے گھات لگائے اُس کا انتظار کرتے اور کہیں مار دینے والی ہنسی،فقرے کستی بارش،اور چیتھڑے اُڑا دینے والے قہقہے اپنے ارادوں کی تمہید باندھ رہے تھے۔
کوئی فرشتہ صفت غیب سے خُدا کے دیئے ہوئے سارے عطیات سے بڑھ کر نیکی کی پہچان کرنے کی بصیرت پا گیا جسے کسی کی پروا نہیں کہ شہزادی کا وجود اسے عزیز ہے!
شہزادی کے آنسو تھم کر نہیں دیتے،مگر اب اُسے کہانی نہیں کہنی کہ رستہ دیکھنے والی آنکھیں سارے شکوے بُھلا چکی ہیں۔!!!

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra