16 Episode - Parveen Ka Ghair Matbua Kalam - Para Para By Nusrat Zahra

سولہواں باب ۔ پروین کا غیر مطبوعہ کلام - پارہ پارہ - نصرت زہرا

کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے اور کیسے نہ ملے کہ وہ شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اگر انسان سچے دل سے کسی شئے کی تمنا کرے تو کیا کچھ ممکن نہیں اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب پارہ پارہ کا کوئی وجود نہ تھا۔شاید اُس کے کلام میں اتنا اثر اور اتنی زندگی ہے کہ اس غیر مطبوعہ کلام کے سامنے آتے ہی پارہ پارہ وجود میں آ گئی!
پروین کی ہمشیرہ محترمہ نسرین شاکر کے پاس اُس سے متعلق نادرو نایاب تصاویر،اُس کے ملبوسات،کتب،سنگھار و آرائش کا سامان،اُس کے ہاتھ کا کڑھا ہوا وہ رومال جو اس نے آٹھویں جماعت میں تیار کیا تھا انہی اشیاء کے درمیان کہیں کچھ ایسے کاغذات تھے جن میں پارہ کے ذاتی اور ضروری کاغذات کے نام سے دو فائلیں بھی موجود تھیں جن میں اس کا کلام  کچھ مکمل،ادھورا مگر موجود تھا۔

(جاری ہے)

یہ کلام پی۔آئی۔اے کی ڈائری،سینٹرل بورڈ آف ریونیو نیشنل اسمبلی کے رائٹنگ پیڈز پر درج ہے۔کچھ کلام پینسل سے بھی لکھا ہوا ہے جسے ہم نے تبرکاً محفوظ بھی کیا اور پروین کے فن سے سچی محبت رکھنے والوں کے ذوق کی تسکین کے لیے اس کتاب میں شائع کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر رہے ہیں۔
یہ کلام اس سے قبل کہیں شائع نہیں ہوا اور نہ ہی پارہ کے کسی مجموعہ کلام میں شامل ہے

غزل

آنکھیں کھلیں تو سامنے ایک اور خواب تھا
رکھا ہوا سرہانے پہ تازہ گلاب تھا

ایسے سما گیا کوئی آغوش خاک میں
جیسے کہ قبر جام تھی اور وہ شراب تھا

ملاح کیسے بولتا دریا کے سامنے
اسوار مال آب تھا اور پیشِ آب تھا

ہر چشمہ سفر نے مسافر سے یہ کہا
اب تک کا دیکھنا تو محض اک سراب تھا

بچھڑا ہے آج کوئی تو یہ بھی کھلا کہ کیوں
کچھ دن سے شہر جاں میں بہت اضطراب تھا

غزل

عَرصہ خواب میں کھونے نہیں دیتا مجھ کو
ایک چہرہ ہے کہ سونے نہیں دیتا مجھ کو

لو بجھاتا بھی نہیں آ کے چراغ جاں کی
اور بے آس بھی ہونے نہیں دیتا مجھ کو

ڈال دیتا ہے وہ ہر روز نئی الجھن میں
خود سے غافل کبھی ہونے نہیں دیتا مجھ کو

پوچھنے تک نہیں دیتا کبھی دل کا احوال
بوجھ اپنا کبھی ڈھونے نہیں دیتا مجھ کو

دکھ تو ایسا ہے کہ دل آنکھ سے کٹ کٹ کے گرے
ایک وعدہ ہے کہ رونے نہیں دیتا مجھ کو

بڑھ گیا دل مرا ایذا طلبی میں حد سے آگے
اب تو وہ زخم بھی دھونے نہیں دیتا مجھ کو

ایسی بارش میں ہو کیا صورتِ سیرابی دل
وہ تو آنچل بھی بھگونے نہیں دیتا مجھ کو

دل کی مانند شکستہ بھی ہے بے منزل بھی
ناؤ لیکن وہ ڈبونے نہیں دیتا مجھ کو

راستہ اُس کو بھی معلوم نہیں ہے شاید
پھر بھی جنگل میں وہ کھونے نہیں دیتا مجھ کو

انتظار اُس سے بہاروں کا نہیں ہو سکتا
بیج وہ خا ک میں بونے نہیں دیتا مجھ کو

کن فضاؤں سے بلاوا مرا آتا ہے کہ جو
چادرِ خاک پہ سونے نہیں دیتا مجھ کو

دکھ کو سینے سے لگاتے ہوئے چلتا ہے کوئی
اپنا اسباب بھی ڈھونڈنے نہیں دیتا مجھ کو

دکھ تو کیا اس کا بٹاتی کہ مرا ہمراہی
ہمسفر درد کے رستوں کا بھی ہونے نہیں دیتا مجھ کو

کچھ غزلیں جو اس سے قبل اُس کے مختلف مجموعوں میں شائع ہو چکی ہیں ان کے کچھ اشعار شائع ہونے سے رہ گئے ہیں
پروین کی ایک غزل

کریں ترکِ زمیں یا جائیں جاں سے
(جو کچھ اس طرح بھی تحریر کی  گئی تھی)

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمین کی خیر مانگیں آسماں سے

فنانی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کارِ جہاں سے

(خود کلامی)
کھلے گی اُس نظریہ چشم تر آہستہ آہستہ،اس غزل کے دو اشعار بھی غیر مطبوعہ ہیں۔


میری شعلہ مزاجی کو وہ جنگل کیسے راس آئے
ہوا بھی سانس لیتی ہو جدھر آہستہ آہستہ

ابھی تو زندگی اک مستقل سورج گہن میں ہے
مگر جب چاند آئے گا نظر آہستہ آہستہ

(خود کلامی)
اس مجموعے کی دو غزلیں،چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں اور دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا۔

کبھی شجر کبھی دیوار و در پہ لکھتی ہوں
میں بھول جاؤں یہی نام کچھ عجب بھی نہیں

ہر عکس دوسرے سے جدا تھا شکست میں
اور جیتنے میں آئینہ خانہ عجیب تھا

(خود کلامی)
ایک شعر

دیکھا تھا اس نے اور ہنسا تھا جواب میں
اک خواب مجھ کو اور نظر آیا خواب میں

(مکمل غیر مطبوعہ)

ایک اور شعر

دن بھر اپنے ترکِ وفا کے عہد پر قائم رہنا
شام ہوئی اور اُس کے در پر دستک دینے لگنا

(مکمل غیر مطبوعہ)
انکار جو اس کی زندگی میں شائع ہونے والا آخری مجموعہ کلام تھا
اُس کی ایک نہایت خوبصورت غزل

کچھ خبر لائی تو ہے بادِ بہاری اُس کی
شاید اِس راہ سے گزرے گی سواری اس کی

اُس کے چند غیر مطبوعہ اشعار بھی اہلِ نظر کے لیے سُرمہ چشم ہوں گے

کیا کریں اور اگر اُس سے محبت نہ کریں
دل کا بھی پیارا ہے وہ شکل بھی پیاری اُس کی

اس سے پہلے میں فقط اپنے لئے زندہ تھی
اب جو باقی ہے تو یہ زندگی ساری اُس کی

ساری محفل ہی کَن اکھیوں سے ہمیں دیکھا کی
اور پہچان  سے عاری رہیں آنکھیں اُس کی

سبز بیلوں میں آباد رہے گھر اس کا
سرخ پھولوں سے مہکتی رہے کیاری اس کی

مکمل غیر مطبوعہ نظمیں جو اس سے قبل نہ تو ماہِ تمام میں موجود ہیں اور نہ ہی کفِ آئینہ کی زینت بن سکیں۔


نظم
عرصہ جاں میں
کچھ عرصے سے
عجب سماں ہے
ایک ہی شام
اور ایک ہی نام
اور ایک کام

ایک ایسی غیر مطبوعہ نظم جس میں قائد اعظم کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا بڑی پُرتاثیر اور پُرمعنی ہے مگر بدقسمتی سے یہ نظم،عنوان سے خالی تھی میں نے اپنی بساط میں اس کا عنوان تراشا،کئی راتیں گزر گئیں اور چاند نظر نہ آیا پھر ایک شب ہلکی سی ایک دستک ہوئی اور نظم کو عنوان ملا!

چراغِ راہ
بچے کی ہنسی
اور ماں کی دعا سے بڑھ کر
دنیا کی سماعت گر میں
بس ایک صدا پیاری ہے
زنجیر کے کھلنے کی آواز
زنجیر کی سینکڑوں قسمیں ہیں
اور قید کی لاکھوں شکلیں ہیں
وہ طوق جو عزت نفس کی گردن
وہ ہتھکڑیاں جو
طیب رزق کمانے کی خواہش رکھنے والے
کو ٹوکتی ہیں
وہ بیڑی جو
دشوار مگر سچے رستوں کے سفر میں
آسیبی ہنسی ہنستی ہے
وہ نشہ آور خواب
جو جاگنے والی آنکھوں کی مشکیں کس دیں
وہ موہ جو اپنی رسی میں انکار لپیٹتی جائے
وہ بھوپ جو ہر ناراض بپھرتے بازو پر
پل بھر میں رسن بن جاتی ہے
دستارو کلاہ،اکرام وعطا
سب دانہ،و دام کے قصے ہیں
ہر طائر کی شخصیت ذہن میں رکھ کر
صیاد قفس بنواتے ہیں
ہم وہ پابستہ قوم تھے جو
 تقریباً ایک صدی تک
ہر نسل کے خرچ کی خاطر
ترکے میں غلامی چھوڑتے تھے
آزادی کے سارے گہنے
تقدیر کے خون آشام مہاجن کے ہاتھوں
گروی رکھواتے جاتے ہیں
پھر بھی صیاد کا قرض نہ چُکنے پاتا
اور سود،قصاص کی صورت
نسلوں کا سفر طے کرتا جاتا تھا
زندانی شب تھا وہ بھی
سورج لیکن اس حافظے میں
اب تک زندہ تھا
زنجیر بجاں کو
نغمہ گل کے استھائی اور انترے اب تک ازبر تھے
خوشبو کا تکلم ذہن میں تھا
جاں اپنی رہن رکھا کے
وہ اپنے سارے قبیلے کو
دشمن سے چھڑا کے لایا تھا
پیاروں کے لہو کی گرمی سے
سرسبز کیا اک پرچم
بازو کے نیل مٹائے
تلوؤں پہ لگائی شبنم
اقرار کے مدھم ماتوں کو
انکار کا سُر سکھلایا
خواہش کے بھٹکتے پرندوں کو
ہر دھات کی تتلیاں توڑنے کا فن سکھلایا
ہر جال کا دل،ہر گھات کا چہرہ دکھلایا
جب صبح ہوئی تو
شب کے بندی خانے میں
سارے قیدی
جلادوں سے تلواریں چھین چکے تھے!

غزل

بند بنانے کی تھوڑی فرصت بھی نہیں دے
اب کے تو شاید دریا مہلت بھی نہیں دے

آندھی گھر میں بے دستک آ جائے تو
دروازوں کو کھلنے کی زحمت بھی نہیں دے

بچے آنگن میں ہوں اور نظر نہیں آئیں
خوف مری آنکھوں کو یہ راحت بھی نہیں دے

فصل بہار اب کے اتنی بے فیض ہوئی ہے
خواب تو کیا ان آنکھوں کو وحشت بھی نہیں دے

مالک یہ کیسا اندھیرا کہ چھن کے اس سے
مجھ کو تنہا رہنے کی ہمت بھی نہیں دے!

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra