2 Episode - Khushbu Ka Janam - Para Para By Nusrat Zahra

دوسرا باب ۔ خوشبو کا جنم - پارہ پارہ - نصرت زہرا

سید شاکر حسین اور بیگم افضل النساء کے گھر دوسرے بچے کی پیدائش کا وقت ہے ،
کراچی کی مضافاتی بستی چاکیواڑہ میں مقیم اپنے وقت کے بہترین شاعر کے ہاں پہلی اولاد دو برس قبل ہوئی تھی، بچی کا نام نسرین شاکر رکھا گیا۔
کراچی جسے عروس البلاد کہا جاتا ہے،ہزاروں تخلیق کاروں کو جنم دینے کا اعزاز رکھتا ہے،22 صفر 1373ھ بہ روز سوموار 24 نومبر 1952 کو لیڈی ڈفرن ہسپتال میں ڈیزی کے پھولوں کی رنگت والی بچی نے جنم لیا اور بیگم افضل النساء کو دوسری بار اپنے وجود کا اثبات ملا۔

سیّد شاکر حسین ، شاداں و فرحاں  ہر ایک سے تہنیتی پیغامات وصول کر رہے تھے ، بچی کی پیشانی کو دیکھ کر ماں نے اُس کا نام ایک ستارے کے نام پر رکھا،جس کے معنی ہیں عقدِ ثریا ، یعنی سات ستاروں کا جھرمٹ!!!
پروین ، جسے گھر میں پارہ کہہ کر بلایا جاتا، یوں تو ایک ہر دلعزیز بچی تھی لیکن خود اس کا رُجحان ماں کی محبت اور کتاب سے عقیدت کے بعد، جس شخصیت کی طرف سب سے زیادہ رہا وہ اُس کے نانا سیّد حسن عسکری عظیم آبادی کی ہے۔

(جاری ہے)


وہ بچپن ہی سے بے حد شریر اور ذہین واقع ہوئی تھی اُس کی مضطرب مزاجی کے باعث ہی اسے پارہ کہہ کر بلایا جاتا مگر اُس نے بڑوں کے احترام کو ہمیشہ محلوظِ خاطر رکھا وہ اپنے بچپن کی تمام تصاویر میں انتہائی خاموش طبع اور سنجیدہ دکھائی دیتی بہرحال  وہ گھر میں اور عزیزوں  رشتے داروں میں اپنی نت نئی شرارتوں کے باعث ہی پہچانی جاتی تھی۔
پروین کی ہمشیرہ ڈاکٹر نسرین شاکر جنہوں نے اس کتاب میں شامل پروین سے
متعلق انتہائی ذاتی معلومات کو اُس سے محبت رکھنے والوں کے لیے عظیم تحفے کے طور پر بتایا ، وہ کہتی ہیں کہ نانا سید حسن عسکری عظیم آبادی کہا کرتے تھے ۔
’’پارہ جہاں جاتی ہے وہاں زلزلہ آ جاتا ہے‘‘ گویا اُس کی شرارتوں سے تمام لوگ پناہ مانگتے تھے۔
یہ وہی عسکری عظیم آبادی ہیں کہ جنہوں نے پروین کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اُنہی کے فیضان نے اُسے نابغۂ روزگار تخلیق کار کے طو رپر پیش کیا۔
اُس کی علم سے محبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی بڑی بہن کو اسکول جاتا دیکھ کر خود بھی وہاں پہنچ جاتی 3 شعبان 1376ھ 1955ء کو جب عالم اسلام میں ایک خوش بخت ساعت کا جشن منایا جاتا ہے ، حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت ،اسی موقع پر مولانا جوادی سے اُس کی مکتب کروائی گئی اور یوں پروین کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔

ابتدائی طور پر اسے  بہن کے ساتھ اسلامیہ اسکول میں داخل کروایا گیا جہاں اس نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی پروین نے دوہری ترقی پائی اور اپنی بہن کے ساتھ پانچویں جماعت میں داخل کروایا گیا جو کچھ عرصے کے بعد بند ہو گیا، تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے دونوں بہنوں کو رضویہ گرلز سیکنڈری اسکول میں داخل کرایا گیا۔
رضویہ گرلز اسکول نے اس کی صلاحیتوں کو خوب خوب پروان چڑھایا۔
آٹھویں جماعت سے ہی وہ وظیفے پاتی رہی اور یہ سلسلہ ایم ۔ پی ۔ اے تک جاری رہا۔
اُس کے بچپن کے دوستوں میں شاہدہ حسن کے علاوہ اسکول کی ایک دوست فردوس
فاطمہ کا نام بھی شامل ہے جسے وہ پیار سے دوشی کہا کرتیں، دونوں بیت بازی او رمباحثوں میں انعامات جیت کر لاتیں۔
پروین کو کہانیاں سننے اور وہ بھی دن کے وقت بہ اصرار سننے کا بے حد شوق تھا ، نانا حسن عسکری کہا کرتے کہ بی بی دن کو کہانیاں سننے والے راستہ بھول جایا کرتے ہیں
مگر پارہ پھر پارہ ہے اسے اپنی ضد پوری کر کے ہی  قرار آتا۔
کسے خبر تھی کہ وہ خود بھی ایک دن کہانی بن جائے گی۔ برج قوس سے تعلق رکھنے کی بناء پر وہ خاصی سوشل بھی تھی، تقریبات اور مجالس میں اہتمام سے شرکت کرتی اپنی پسندیدہ ذاکرہ بتول ترابی کی طرح مجالس پڑھنے کا اسے بے حد شوق ہوا کرتا تھا۔
پارہ کی جانوروں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس کے پاس ٹوٹو نامی ایک بلا تھا جو محض اُسی کے ہاتھ سے کھانا کھاتا آٹھ برس تک وہ مسلسل اُس کے پاس رہا۔
1978ء میں اس بلے کے انتقال پر وہ انتہائی غمگین ہو گئی۔ بچپن میں اسے قربانی کے جانوروں سے بھی بے حد لگاؤ ہوتا اور وہ ان کی خدمت میں دن بھر مصروف رہا کرتی۔اُسے تتلیاں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا ایک بار جب وہ بھارت گئی تو تمام منصب وجاہ کے باوجود تتلیاں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
پلاسٹک کی یہ تتلیاں اسے اتنا بھا گئیں کہ وہ انہیں پا کر ایک بچے کی طرح مسرور ہو گئی اسکول کے زمانے میں جب اُس نے کتابیں پڑھنے کا مشغلہ اپنایا تو شرارتوں کی جگہ انہماک اور ارتکاز نے لے لی۔
وہ تاریخی واقعات میں دلچسپی لیتی ، پیغمبروں کے متعلق قصائص سنتی اور اس پر ان واقعات کا گہرا اثر ہوتا۔
اردو شاعری سے اُس کا ناطہ اس زمانے میں قائم ہوا کہ جب وہ محض اسکول کی طالبہ تھی وہ میر انیس و دیبر کو پڑھتی اُس کے شوقِ مطالعہ اور فہم فراست نے اسے جلد اساتذہ کرام کی نظروں میں اہم طالبہ کے طور پر روشناس کروایا۔ اردو کی استاد کے ریماکس الگ اُسے بڑھنے میں مدد دیتے۔
اُسے آٹھویں جماعت سے ہی مستقبل کی شاعرہ اور ادیبہ کے طور پر شناخت کر لیا گیا تھا۔
شعری سفر کی باقاعدہ ابتداء سر سید گرلز کالج سے ہوئی جہاں سے اُس نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ایک دن اُس کی استاد محترمہ عرفانہ عزیز نے اسے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر نظم لکھنے کو کہا تو نظم ہو گئی۔وہ کہتی تھی میں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا اور کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی۔
(ٹی وی انٹرویو سخن ور) نظم ہو گئی اور یہ نظم حسن عسکری عظم آبادی کے سامنے رکھ دی۔
نانا ابا میں نے نظم لکھی ہے ”اچھا ایسا کرو میری آنکھوں پر ہاتھ رکھو اور نظم سنا دو ،نانا نے جواب دیا اور پھر اُس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جو کہتی تھی“ میری زندگی میں کوئی خوشی اتنی شدید نہ ہو کہ مجھے شاعری سے دور لے جائے۔ (خطوط نظیر صدیقی، صفحہ 41)پروین شاکر کے خطوط نظیر صدیقی کے نام)
یوں آمد نے پروین کا گھر دیکھ لیا ، ابتداء میں اُس کے نانا سید حسن عسکری عظیم آبادی اسے اصلاح دیا کرتے تھے جو کالج میں لیکچرار ہونے ،علم عروض کے ماہر ہونے کی وجہ سے رموز اوقاف سکھانے میں بھی معاون رہے البتہ شاعری پروین کو عطیۂ خدا وندی بن کر ملی۔

پروین کے سگے نانا سیّد کاظم حسین بھی شاعر تھے اور اس کے والد سید شاکر حسین کے اشعار پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے خدائے بزرگ و برتر نے اُس کے خاندان کو شاعری ورثۂ افتخار کی مانند عطا کی۔
اُن کے اشعار اُن کے ذہنی ،رحجانات، مذہب سے عقیدت، سچائی سے محبت اور راست گوئی کا پتا دیتے ہیں۔
یہ خودار مٹ سکتا ہے لیکن جُھک نہیں سکتا
لگائے لاکھ طاقت ظلم اپنی خوب باطل سے
 
خود پوچھتے ہیں خانۂ دل میں لگا کے آگ
جلتا ہوا یہ کیسا مکاں دیکھتا ہوں میں

مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی
کچھ کھو دی گئی میری تو پتھریلی زمین نکلی

کتنی نادیدہ تمناؤں کی حسرت لے کر
چاند ہر روز اندھیروں سے گزر جاتا ہے
 
جبکہ سیّد شاکر حسین کے لے پالک فرزند اور سید حسن عسکری عظیم آبادی کے سگے نواسے ناظم جعفری بھی کہنہ مشق شاعر ہیں وہ کئی کتابوں کے مصنف اور پیشے کے اعتبار سے (M.B.B.S) ڈاکٹر ہیں۔
تنویرِ خیال،تنویر عزا،تنویر کربلا،تنویر مصائب،تنویر غم،گُہر،تنویرِ قصائد،قرطاس آگہی،عکس خیال،شام کربلا،جذبات عسکری،نقشِ ناتمام اورنقشِ دوام ان کی تصنیفات ہیں۔
جہاں ہر طرف شاعری بکھری ہوئی تھی، پروین کے ذوقِ شعر کو کسی قسم کی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اُس کے ابتدائی دنوں  کے بیشتر اشعار زبان زدوعام ہیں۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی میں
ہاروں تو پیا تیری جیتوں تو تجھے پاؤں

ماں سے کیا کہیں دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھُلتیں

بہت ابتداء ہی سے اُس کا ذوق شعر اس حد تک نکھر چکا تھا کہ اسے فی البدیہہ اشعار لکھنے کو دئیے جاتے تو وہ اول انعام جیت کر لاتی بقول پروفیسر عرفانہ عزیز”عام طو ر پر لوگ سمجھتے تھے کہ اس طرح کے اشعار لکھنا اس عمر کی لڑکی کے بس کی بات نہیں ہو سکتے تھے“
(رونامہ جنگ میری پروین 8 جنوری 95 راولپنڈی)
یادوں کا دریچہ وا کرتے ہوئے انہوں نے گُل رعنا کلب کا واقعہ رقم کیا کہ جب پروین نے مَصرعہ طرح پر فی البدیہہ دس اشعار لکھ کر پورے پاکستان سے خود کو منوایا تھا۔
مگر اُس کے فن کی اصل تراش خراش کا زمانہ ریڈیو سے شروع ہوا۔اُس نے ایک مضمون میںیہ بات یوں تسلیم کی کہ میری نمو میں ریڈیو کا بڑا ہاتھ ہے۔
پروین پندرہ برس کی عمر میں ریڈیو پر پروگرامز کرنے لگی ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر جناب یاور مہدی صاحب کی جوہر آشنا بصیرت نے اُس کی صلاحیتوں کو ایک نظر میں بھانپ لیا اور سر سید کالج میں جب وہ فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی اسے بزم طلباء میں شرکت کی دعوت دی جسے اُس نے خوش دلی سے قبول کر لیا اپنی زمین کے لیے 14 اگست 1968 کی شب اس نے یوں خراجِ تحسین لکھا۔


دفعتہ نور ہوا آگے بڑھا اک جبریل
دل میں روشن کئے آزادی کی نوریں انجیل

عزم کی آگ تھی ایمان کی حرارت دل میں
ظلمتیں پگھلیں ترشنے لگی اک صبحِ جمیل

اسی دوران معروف شاعر عبید اللہ علیم نے اسے فنون میں متعارف کروایا۔عبید اللہ علیم جو پروین کی بہترین دوست نگار یاسمین کے شریکِ حیات تھے۔

اُس نے ریڈیو پر موسیقی، سیاست، شاعری،دستاویزی پروگرامز کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے لیے ڈرامہ آئینہ ساز بھی تحریرکیا۔اُس کے لکھے ہوئے ڈرامے کو ریڈیو کے سات بہترین ڈراموں میں شمار کیا گیا۔اُس نے ریڈیو پر اپنی آواز کا بھی جادو جگایا۔اُسے 1970ء میں بزم طلباء کے تحت ہونے والے جشنِ طلباء مشاعرے میں اول انعام دیا گیا۔ بقول پروین مجھے یہ اعزاز اپنے تمام اعزازات سے زیادہ عزیز ہے۔
ریڈیو پر اُس نے دیگر پروڈیوسرز کے ساتھ بھی کام کیا جن میں عصمت زہرا، انعام صدیقی، نجم الحسنین، جمیل زبیریاور ضمیر علی کے نام قابل ذکر ہیں۔ انہی دنوں اسے موسیقی سیکھنے کا شوق پیدا ہوا تواُس نے علم موسیقی سے متعلق کتب بینی شروع کی، موسیقی کا یہ عرفان اس کے کلام میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔
جناب احمد ندیم قاسمی صاحب جنہیں وہ عمو جان کہا کرتی تھی او رجن کی انگلیاں تھامے اس نے فن کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
ان کے پرچے فنون نے اُس کے ہنر کو چار چاند لگائے اور آسمان اِدب نے اپنے سب سے حیران کن سیارے کو طلوع ہوتے دیکھا دوسری جانب اُس کا تعلیمی سفر بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا اور وہ جامعہ کراچی میں شعبۂ انگریزی میں داخل ہو چکی تھی۔ابتداء میں وہ بینا تخلص کرتی تھی۔
جامعہ کراچی کی فضا اُن دنوں تخلیق کاروں کے لیے نہایت موزوں تھی جبکہ کربِ تخلیق اُس پر عطیۂ خداوندی بن کر اُترتی رہی۔

جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کو اپنا روحانی باپ اور استاد ماننے کے باوجود اُس نے کسی گروپ سے وابستگی نہیں رکھی اُس نے اپنی علیحدہ شناخت بنائی اور یہی امتیاز تمام عمر برقرار رکھا۔احمد ندیم قاسمی صاحب کے علاوہ پروین کے ہم عصر شعراء میں ابن انشاء ، عبید اللہ علیم، پروین فنا سید، امجد اسلام امجد وہ شخصیات ہیں جن سے وہ فکری اور ذہنی طور پر بے حد قریب تھی اور اُن سے دوستی اور احترام کا مثالی رشتہ بھی رہا۔

پروین کی شہرت چار سو پھیلی تو اسے نت نئے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر پروین کے والد سید شاکر حسین ثاقب ایک روشن خیال شخصیت کے مالک تھے اس لئے انہوں نے اس کے کسی شوق کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے اُس کی رہنمائی کی بلکہ اگر کوئی فیصلہ اُس کی شخصیت سے متضاد پایا تو اسے تبدیل بھی کیا۔انہوں نے پروین کی نسبت بہت بچپن ہی میں طے کر دی تھی مگر جب انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ رشتہ نامناسب رہے گا تو اسے ختم کرنے میں کسی تامل سے کام نہ لیا۔

اُس کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں اعتماد کرنا سکھایا جاتا ہے اور والدین اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی خاطر ایسے فیصلے بھی کر گزرتے ہیں جو بظاہر ناممکن العمل دکھائی دیتے ہیں مگر بعض اوقات اعلیٰ تعلیم یافتہ پس منظر اور تہذیب یافتگی بھی زمانے کی تیز روری اور تضادات کو بھانپنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔پروین اس لحاظ سے پھر بھی خوش بخت رہی
کہ اس کی راہ میں حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے والے بہت کوششوں کے باوجود بھی تہی دست رہے۔
شاید اسی لیے اُس نے کہا تھا۔

مہتاب پر جو خاک نہ ڈالیں تو یہ کھلے
ہم جیسے لوگ اتنے سیہ بخت بھی نہیں

کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران پارہ کی حساس اور موزوں طبیعت پر ایک احساس اُترا جب اسے محبت کا وجدان ملا اور بہار نے  اُس کی آنکھوں پر پھول باندھ دئیے۔وہ محبت کہ جس نے شاعری کو جنم دیا، زخم کو لو بخشی اور گلے میں نور اتارا۔

اور اُس نے لفظ و معانی کا نیا جہاں آباد کیا۔خوشبوئیں ،بادل اور چاند اس  پر طلسم حرف اور شہر ہزار در کے اسم عطا کرتے رہے۔پروین کی محبت، تضادات، آزمائشوں اور بالآخر شکست سے دوچار ہوئی اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اُس نے اسی شکست کو شاعری میں امید اور پیہم تمنا کرتے رہنے کا ذریعہ بنایا۔اُس نے ایک پامال موضوع کو اپنے پُروقار اور تہذیب آشنا احساس سے بلندیوں تک پہنچایا۔
دوسری جانب یہ امر بھی حیرت انگیز ہے کہ جذباتی ناآسودگی نے اُس کے تعلیمی کیریئر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔اُس نے جس فنکارانہ چابکدستی اور ذی شعور تخلیق کار ہونے کا ثبوت دیا اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔البتہ جاگتے رہنے کی بے انت رتوں نے اس پر شہر ہزار در کو وا کیا اور اس کی ہری سوچوں نے زندگی سے نظر ملانے کا حوصلہ عطا کیا۔

پروین نے ایک نظر کاتمنائی بننے کے بجائے سَر اُٹھا کر چلنے کا اعلان کیا اور تمام عمر اسی روش پر قائم رہی۔
اسی دوران اسے ریڈیو کے ساتھ ساتھ،اخبارات جرائد اور ٹیلی ویژن پر بھی پہچان ملی۔مشاعرے اور ادبی پروگرامز کی کمپیئرنگ کرتے ہوئے دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کہیں بھی اُس نے اپنے انداز اور مشرقیت کو فراموش نہیں کیا۔سلیقے سے خوش لباسی اپنائے اُس نے ہمیشہ مشرق کے انداز نبھائے۔

اسی شکست کو اُس نے نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے خط میں یوں واضح کیا ۔27 فروری 1978ء کو لکھے گئے خط کے جواب میں وہ لکھتی ہے۔
’’خوشبو کے حوالے سے جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے میرا خیال ہے اس کا جواب اسی میں موجود ہے۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔دونوں میں سے کوئی نہ سمجھ سکا۔بس یوں جان لیجیے کہ (Civil Service) اور محبت میں اوّل الذکر کی جیت ہو گئی۔زندگی کے متعلق جب نظریہ تبدیل ہوا تو اردگرد رہنے والے لوگوں کے بارے میں رائے کی تبدیلی ناگزیر تھی اور میں نے اس فیصلے کے آگے سرجھکا دیا۔
کیونکہ اس نے میری تربیت اسی طرح سے کی تھی۔
اُس کی آنکھوں میں شرارت کی طرح رقصاں رہنے والے جگنو بن باس پر روانہ ہو گئے مگر وہ آئینے کے مقابل کھڑی تھی اور سرخرو تھی۔
معاشرے کی جھوٹی اور منافقانہ اقدار نے اُس نے ذوق محبت کو ہر طرح کے امتحان
سے گزارا مگر وہ اس کے اندر کی روشنی کو نہ بجھا سکے رت جگوں کے عذاب اور مسلسل تنہائیوں نے اس پر’اسم اعظم‘ کا درد وا کیا ، اس نے پایا کہ ہاں ابھی دعائے نور پڑھی جا سکتی ہے!

فراق میں ہی رہے ہم تو ساری عمر مگر
ستارہ سا کوئی نزدیکِ جان روشن تھا

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra