15 Episode Dosra Hissa - Parveen Ki Yaadein - Para Para By Nusrat Zahra

پندرھواں باب دوسرا حصہ۔ پروین کی یادیں - پارہ پارہ - نصرت زہرا

اب جبکہ پروین کو اس دنیا سے گزرے سولہ برس ہو چکے ہیں آپ اس گھر سے کہ جس نے اسے بیٹی کہا اُس کی یادوں کو کس طرح سمیٹیں گے؟
میں ا پنے بچن سے ہی گھر میں مختلف ادیبوں کے نام،ان کی تخلیقات کا تذکرہ سنتا آیا ہوں لہٰذا پروین شاکر کا نام میرے لیے ہر گز اجنبی نہیں تقریباً روزانہ ہی دن کے مختلف اوقات میں مجھے بابا (جناب احمد ندیم قاسمی صاحب) سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا۔
یہ قاسمی صاحب کا کمال تھا کہ کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی عمر اور مزاج کا ہو ان کے پاس بیٹھ کر بور نہیں ہوتا تھا۔وہ سب کی شخصیت کے مطابق انتہائی دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔عالم کے ساتھ عالمانہ اور بچوں کے ساتھ شوخی اور شرارت سے بھرپور۔ پروین شاکر کی زندگی میں اور بعد میں اکثر اوقات گفتگو میں جب پروین شاکر کا ذکر آتا تو قاسمی صاحب نہایت شفقت اور اپنائیت سے یاد کرتے تھے۔

(جاری ہے)

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ قاسمی صاحب نے بتایا کہ پروین کو کم عمری سے ہی اپنے اور اپنے قریبی عزیزوں سے متعلق حادثات اور واقعات کا قبل از وقت احساس ہو جاتا تھا۔اور وہ ان واقعات کو ایک فلم کی طرح دیکھ لیتی تھی۔یہ نہیں معلوم کہ ان کو اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا علم ہو گیا تھا۔یا نہیں۔قاسمی صاحب کے علاوہ گھر میں پروین کا میری والدہ ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ سے بھی رابطہ تھا۔

اور ان کی اکثر و بیشتر خط و کتابت اور بالمشافہ ملاقات بھی رہتی تھی۔آج جب پروین کو دنیا سے رخصت ہوئے سولہ سال گزر چکے ہیں تو یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ قاسمی صاحب کی اپنی بیٹی نشاط کو بھی پندرہ سال ہو چکے ہیں دونوں دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب قاسمی صاحب کو ہم نے انتہائی افسردہ دیکھا پروین شاکر کی ناگہانی وفات سے ایسا لگا جیسے کوئی انتہائی قریبی شخصیت جدا ہو گئی۔

قاسمی صاحب اس کے لیے (Mentor) مینٹر کا درجہ رکھتے تھے وہ اس کے دکھ سکھ کے بھی گواہ تھے کیا اُس وقت جب وہ مسلسل موت لکھ رہی تھی اور پیشہ ورانہ زندگی میں عدم تحفظ کا شکار تھی،قاسمی صاحب سے رابطے میں تھی؟
قاسمی صاحب ہمیشہ نوجوان ادیبوں کے لیے ایک مثالی شخصیت رہے۔پروین بھی ان ادیبوں میں سے ایک تھیں۔اپنی حساس طبیعت کے باعث قاسمی صاحب ہمیشہ دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے۔
پروین کی کسی عمدہ تخلیق پر وہ ان کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے اور غلطی کی صورت میں شائستگی سے سرزنش بھی۔اس دور کا قاسمی صاحب نے خود ذکر کیا ہے جب پیشہ ورانہ امور کے سلسلے میں پروین کراچی میں تھیں تو قاسمی صاحب نے اپنے ایک انتہائی دوست کو ذمہ داری سونپی کہ وہ پروین کا مکمل خواہاں رکھیں تاکہ ان کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
بعد ازاں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں حد درجہ مصروفیت اور تبادلوں کی وجہ سے پروین کا قاسمی صاحب سے رابطہ تعطل کا شکار رہنے لگا،جس کا ادراک اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ پروین نے اپنے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے دوران قاسمی صاحب کی مکمل راہنمائی حاصل کی مگر بعد میں یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔اور قاسمی صاحب نے بھی اپنی عادت کے مطابق ان کے پیشہ ورانہ امور میں مداخلت سے گریز کیا۔
لہٰذا رابطہ تھا مگر کسی حد تک سرسری نوعیت کا۔
آپ اس کی مقبولیت کو کس طرح ڈیفائن کریں گے؟
مقبولیت بلاوجہ نہیں ملتی،گوکہ اس میں قسمت کا بھی دخل ہوتا ہے مگر کوئی انفرادیت اورانوکھا پن اس کو چار چاند لگا دیتا ہے پروین شاکر کی وجہ شہرت میں جہاں ایک حصہ ان کی شخصیت کا تھا وہاں بنیادی طور پر ان کی شاعری میں موجود وہ سادہ،معصوم،سچی باتیں اور صاف صاف سلیقے سے بیان خالص جذبات و احساسات تھے جنہیں پہلے دبایا اور چھپایا جاتا تھا اور شاعری کے ذریعے ان کے اظہار سے اجتناب کیا جاتا تھا۔
پروین نے اپنی ہم عصر اور بعد میں آنے والی شاعرات کے لیے بے شمار نئے امکانات روشن کئے۔یوں شاعرات کے لیے متنوع موضوع پر شاعری کرنا آسان ہو گیا۔مقبولیت کی اونچائیوں کو چھونے کے بعد پروین کی شاعری زوال کا شکار نہ ہوئی۔بلکہ آج بھی سولہ سال بعد اس کلام کی تر و تازگی اور خوشبو اسی طرح برقرار ہے۔
زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب قاسمی صاحب نے ایک مضمون میں لکھا کہ بیٹی نے اس تقریب میں جانا گوارا کیا جہاں مجھے مدعو نہیں کیا آپ ان حالات کو کس طرح بیان کریں گے؟
انسانوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ ایک ہی نہج پر نہیں چلتے،ان میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔
ہاں یہ بات اہم ہے کہ عمومی طور پر تعلقات کی نوعیت تلخ رہی یا شیریں۔قاسمی صاحب ہر گز شدت پسند نہیں تھے اور کسی کے معاملات میں مداخلت کرنا ہر گز پسند نہیں کرتے تھے وہ ایک صاف گو اور سچے انسان تھے جو لحاظ اور پاسداری کی انتہا کے باوجود سچائی اور حقیقت کو کبھی نظر انداز نہ کرتے تھے۔
خاص کر ان کے اپنوں کی جانب سے ان کا دل دکھا ہو تو وہ انہیں اس بارے میں مطلع ضرور کرتے تھے مگر بہت جلد یہ بھنور بھی ان کے سمندر جیسے دل میں اُتر جاتا اور پہلے کی طرح پرسکون ہو جاتے بہر طور ان حالات کے بارے میں قاسمی صاحب بذات خود اظہار خیال فرما چکے ہیں کہ انہوں نے پروین سے اس معاملے کا ذکر کیا تو کچھ عرصے کے بعد پروین کی جانب سے وضاحت پر یہ گلہ ختم ہو گیا اور کوئی رنج باقی نہ رہا۔

دنیا بھر میں اس کے فن کی پذیرائی کی جاتی ہے آپ کے نانا نے اسے ادبی دنیا میں متعارف کروایا آپ کے گھر میں اُس کا کیا مقام ہے؟جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اس حوالے سے ان کی ہر ممکن مدد اور راہنمائی فرماتے تھے لہٰذا آج کے دور کے بے شمار نامور اور معیاری اردو ادب کے خالق وہ لوگ ہیں جن کی آبیاری قاسمی صاحب نے اپنے رسالے فنون میں کی اور آج وہ تناور درخت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے اپنے حصے کی خوشبو بکھیر کر رخصت ہو چکے ہیں مگر یہ ان کا معیار فن ہے کہ وہ آج بھی کل کی طرح مقبول عام ہیں ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ قاسمی صاحب ادب کی دنیا کے قد آور شخص تھے جن کے زیر سایہ نوجوان ادیبوں کی پوری نسل پروان چڑھی اور پروین شاکر کی طرح شہرت کی انتہا پر بھی پہنچی۔ایسی جگہ جہاں بڑے بڑے اہل لوگوں کو بھی آگے نہیں آنے دیا جاتا وہاں قاسمی صاحب ایک ننھی سی چنگاری چھوٹی سی کرن اور ہلکی سی خوشبو کو بھی کھوج لیتے تھے اور انہیں پوری روشنی،مکمل سورج اور مہکتا باغ بننے میں بھرپور مدد دیتے تھے۔
وہ یہ سب کچھ کسی صلے کے لیے نہیں کرتے تھے۔البتہ تعلقات کو اپنی جگہ اور فنی مقام کو اپنی جگہ رکھتے تھے۔انہیں آپس میں گڈ مڈ نہیں کرتے تھے۔
قاسمی صاحب زندہ ہوتے تو اس کتاب کے لیے کیا پیغام دیتے؟
 یہ تو قاسمی صاحب خود ہی بہتر بتا سکتے تھے،مجھ ناچیز کی کیا مجال جو اس حوالے سے کوئی رائے دوں،بہرحال اتنا اندازہ ضرور ہے کہ وہ اپنی اگائی پھلواری کو پھلتا پھولتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا کہ ان کا انتخاب اور بھروسہ رائیگاں نہ گیا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا بڑی بات ہو سکتی ہے۔کہ ایک شخص کی دریافت جو اس کے لیے اولاد کی طرح ہو اس مقام پر پہنچ جائے جہاں اس کی شخصیت اور فن پر کتاب کی صورت اظہارِ خیال کیا جائے ادب کی بڑی شخصیت کے بارے میں خیالات کا اظہار ہر مرتبہ ان کے فن کے کچھ نئے پہلو اجاگر کرتا ہے یہ ان کے فن کی آفاقیت ہوتی ہے۔پروین شاکر کے مداح یقینا ان کی شخصیت اور کلام کے حوالے سے ایک مستند کتاب کے منتظر ہیں۔
آپ کی محنت،لگن اور کاوش کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے آپ کی کتاب کی شکل میں پوری ہو جائے گی۔
26 دسمبر کے سانحے سے قبل پروین کی آخری بار قاسمی صاحب سے کیا اور کب بات ہوئی؟
اس سانحے سے قبل حالات کچھ اس طرح تھے کہ پروین سمجھ رہی تھی قاسمی صاحب ان سے خفا ہیں جبکہ ہم ایک اتوار کے دن بابا کو ملنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ پروین کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے کارڈز اور تحفہ بذریعہ ڈاک پروین کو اسلام آباد بھجوایا ہے۔
اس کے وصول کرتے ہی پروین نے بے حد خوشی سے قاسمی صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ وہ جلد لاہور آئیں گی اور خود اس کا شکریہ ادا کریں گی مگر اس دوران قاسمی صاحب کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک تقریبات میں چلے گئے اور وہیں ان کو اس اندوہناک سانحے کی اطلاع ملی۔لہٰذا یہی ان کی آپس میں آخری بات ثابت ہوئی۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra