18 Episode - Fasl E Gul Aayi Ya Ajal Aayi - Para Para By Nusrat Zahra

اٹھارواں باب ۔ فصلِ گُل آئی یا اَجل آئی - پارہ پارہ - نصرت زہرا

کھول دیں زنجیر در اور حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
 (انکار)
پارہ محکمہ کسٹمز میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھی اُس کی ذمہ داریاں بھی کچھ اور بڑھ چکی تھیں آنے والے دنوں میں اُسے جنوری 1995ء میں پی۔ٹی وی۔پر ’’مخزن‘‘ نامی ادبی پروگرام کی میزبانی کرنا تھی تومارچ 1995ء میں اس کے (Thesis) کے ری اوپن ہونے کا امکان تھا۔
نجانے اور کیا کیا باتیں اُس نے سوچ رکھی تھیں اور سب سے بڑھ کر ایک دعا کہ مراد کو کامیاب انسان بننے تک زندگی کی مہلت جو قبولیت کے عرش کو نہ چھو سکی…!انہی دنوں اُس کے کالمز ہر روز پاکستان کے ایک موقر روزنامے میں شائع ہوتے رہے اُس نے جہاں زندگی کو ناہموار ہوتے دیکھا اُس کا قلم حرکت میں آ گیا اُس نے وہی لکھا کہ جو اُس کے ضمیر کی آواز تھی بالخصوص آخری دنوں کے کالمز میں اُس نے معاشرے کے کرپٹ ترین افراد کی کھل کر نشاندہی کی جس پر ادبی حلقے اُس کی صلاحیتوں کے اور بھی معترف ہو گئے وہ تمام عمر سنجیدہ ادب لکھتی رہی مگر جب اُس کی رخصتی کا وقت قریب آیا تو دنیا پر اُس کا ایک نیا روپ آشکار ہوا اور وہ ایک دانشور اور مدبر کے طور پر سامنے آئی۔

(جاری ہے)

ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار تھی اور دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی ایک دھڑا محترمہ بے نظیر بھٹو تو دوسرا میر مرتضیٰ بھٹو کی حمایت میں مصروف تھا اس صورتحال کو پارہ نے بڑی خوبصورتی سے اپنے محسوسات کا رنگ دیا۔

خلقت نہیں ہے ساتھ تو پھر بخت بھی نہیں
کچھ دن یہی رہے گا تو یہ تخت بھی نہیں

اس بار ہم سے خیمہ کشی کیوں نہ ہو سکی
اس بار تو زمین بہت سخت بھی نہیں

مہتاب پر جو خاک نہ ڈالیں تو یہ کُھلے
ہم جیسے لوگ اتنے سیہ بخت بھی نہیں

کھینچا ہے جب بھی طول وراثت کی جنگ میں
وارث بھی تخت پر نہ رہا،تخت بھی نہیں

سابق سینیٹر اعتزاز احسن کو اُس نے ماہِ تمام بھجوائی تو انہوں نے اس نام کو دیکھتے ہی کہا۔

’’تم نے ابھی سے اپنا منتخب کلام کیوں شائع کروایا ابھی تو عمر باقی ہے۔پارہ خاموش ہو گئی اور تھوڑے توقف سے گویا ہوئی۔زندگی کا یقین کس کو ہے اور یہ کون جانتا ہے کہ اُس نے کتنے سانس اور جینا ہے۔
(مرتبہ محمد ارشد ملک ص 25)
جمیل الدین عالی کہتے ہیں کہ میں نے اِس نام پر اعتراض کیا تو بولی یقین جانئے یہ تعلی نہیں لفظوں سے کھیلنا میرے اندر کا عجیب اور نیا عیب ہے۔

(روزنامہ جنگ اتوار،یکم جنوری 1995ء)
اُس کے آخری دن بڑے مصروف اور یادگار تھے اُن دنوں کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے باعث امن مارچ کی دعوت دی گئی جس پر اُس کا جواب تھا کہ اس کا تعلق کسی ایک صوبے یا شہر سے نہیں وہ پاکستان کا حصہ ہے۔
خواتین کے مشاعرے میں مدعو کیا گیا تو اُس کا جواب تھا وہ ایک شاعر ہے اُسے مردانہ  یا زنانہ ڈبے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
18 دسمبر کو وہ پروین قادر آغا کے ہمرا اُن کے کسی عزیز کی شادی میں شریک ہونے لاہور گئی،23 دسمبر بیگم پروین آغا سے آخری بار ملاقات ہوئی۔
اُس نے نئے شادی شدہ جوڑے کے اعزاز میں اسلام آباد کلب میں دعوت دی۔
25 دسمبر جو اُس کے قائد اعظم کا جنم دن ہے اُس نے اپنے کچھ قریبی پڑوسیوں کی دعوت کی اور کہا آج کا دن آپ کی وجہ سے بہت اچھا کٹ گیا۔
بالوں میں مہندی لگائی کہ بادل گھر آئے اور موسلا دھار بارش ہونے لگی اسے یاد آیا کہ اُس کے پاس اُس کی دیرینہ دوست رفاقت قاضی کے زیورات رکھے ہیں جنہیں لوٹانے وہ مراد کے ساتھ ان کے گھر گئی۔
’’یہ اپنی امانت واپس لے لو‘‘ رفاقت خفا ہوئی اور کہنے لگی یہ زیوارت کہاں بھاگے جا رہے تھے۔
پارہ نے کہا
’’زندگی کا کیا بھروسہ‘‘
اُس کی موت کے دن جو کالم روزنامہ جنگ کو موصول ہوا اُس کا پہلا جملہ تھا۔

’’موت برحق ہے‘‘
کسی کو گمان بھی نہ ہو گا کہ اگلی شام بعد از مغربین پارہ کے لیے ایک نئے مسکن کی تیاری کے سامان ہو رہے ہوں گے۔22،صفر بروز سوموار اذان سے قبل خوشبو نے شبنم شبنم آنکھوں سے اپنے ہونے کا اعلان کیا تھا جس کا ذکر اس نے بائیسویں صلیب میں بڑے دل موہ لینے والے انداز میں کیا۔جن دنوں داعئی اجل اس کے رختِ سفر کو باندھنے کی تیاری کر رہا تھا وہ کہہ رہی تھی۔


ایک آسیب کے مکان میں ہوں
اور رد بلا نہیں ملتا

بستیاں آخری دموں پر ہیں
اور حرفِ شفا نہیں ملتا

گردِ رہ بن کر کوئی کوئی حاصل سفر کیا ہو گیا
خاک میں مل کر کوئی لعل و گہر ہونے کو ہے

آخری صبح پروین کی آخری بیداری!!!
نجانے اُسے صبح خوشبو نے جگایا ہو گا کہ اُس کی روح میں سرسراتے ہوئے احساس آخرت نے،کہ جو کئی دن سے اُسے اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا۔

بہرحال اُس نے اپنے ’’گیتو‘‘ کے لیے ناشتہ تیار کیا،اپنے کپڑوں پر استری کی،خالدہ حسین سے فون پر بات چیت کی،ناشتہ کرنے کے بعد 9،بجے کے قریب وہ مراد کو ناشتہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے دفتر کو روانہ ہوئی!
زندگی سے آخری بار نظر ملانے کے بعد پروین مارگلہ روڈ پر اپنی موت کے انتظار میں کھڑے آخری سفر کی جانب روانہ ہوئی اسے یہ راستہ بہت پسند تھا،پہاڑی راستے اور خوبصورت مناظر اسے نئی دنیاؤں میں لے جاتے!
اُس دن پروین نے سبز رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا جس وقت وہ دفتر جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئی موسم اُس کی پسند کے عین مطابق تھا،بارش گنگنانے کی تیاری میں مصروف تھی اور یخ بستہ اُجالا کُہر کی کوکھ  میں دھیرے دھیرے سانس لے رہا تھا۔
بارش،کُہر اور سناٹے کو چیرنے والی صبحِ جمیل تو یوں بھی پارہ کے لیے ایک محبوب تصور ہوا کرتی تھی وہ ہمیشہ اس منظر سے لطف اندوز ہوا کرتی تھی اور اس حبس بھری دنیا میں بارش کو اپنا دوست کہا کرتی اُس کی سواری دفتر کی سمت گامزن تھی۔
بارش جو اُس کے ذہن میں شعر کے پھول کھلایا کرتی تھی،اسلام آباد کی صبح یوں بھی بہت حسین ہوتی ہے نجانے پارہ نے اس حسین منظرکو اپنی نئی خوشبو کے لیے کس طرح تراشا ہو گا۔

اُس دن لوڈ شیڈنگ کے باعث ٹریفک سگنلز بند تھے پارہ کا ڈرائیور یوسف جس کا بیٹا بھی اس شاہراہ پر جاں بحق ہوا تھا۔وہ کئی برس تک غیر ممالک میں مسلسل ڈرائیونگ کرتا رہا اور جس کے کہنہ مشق ڈرائیور ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔
مخالف سمت سے ایک مسافر بس ایک چھوٹی سی نیلی کار جس کا نمبر IDC 4362 تھا روندتی چلی گئی اور ایک درخت کے قریب جا ٹکرائی۔
کئی ثانئے تک وہ گاڑی اور اس میں موجود دو افراد موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہے،جس وقت ایک بندہ خدا نے انہیں پہچانا۔گاڑی کو کاٹ کر اسے باہر نکالا گیا،پرس کو ٹٹولا گیا ایک کارڈ برآمد ہوا جس سے ایک نازک اور زخمی سراپے کی پہچان ہو سکی،پروین شاکر! اوہ خدا یہ پروین شاکر ہے! اجنبی نوجوان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ڈرائیور جاں بحق ہو چکا تھا جبکہ زخمی پروین کے جسم میں ابھی جان باقی تھی۔
اُس کا سر،چہرہ بُری طرح زخمی تھے اسے پمز اسپتال پہنچایا گیا۔جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ کوما میں ہے،آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔اسی اثناء میں گیارہ بج گئے دو گھنٹے تک بے ہوش رہنے والی زخمی پروین پر نزاع کا عالم طاری ہے! اور اُدھر ایک اور پروین جسے وہ پروین آپا کہا کرتی تسبیح کے دانوں کو حرکت دینے میں مصروف ہیں کہ تسبیح بھی قضائے الٰہی سے ساکت ہے،دعا کا حرف اب اپنا آخری سفر مکمل کرنے کو ہے! اور وہ مراد کہ جس کی خاطر اُس نے ہر ہوا،ہر بادل اور ہر بارش سے منہ موڑ لیا تھا آپریشن تھیٹر کے باہر حسرت کے عالم میں اس نئی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا،نرس نے زخمی پروین کی انگوٹھی،پرس اور جوتے اُس کی پروین آپا کے حوالے کئے۔
Sorry. She's No More With Us
 کوئی کونج ڈار سے بچھڑ گئی اور اُس کے خوبصورت چہرے کو سفید چادر سے چھپا دیا گیا۔
پروین اب ہم میں نہیں رہی
جب دنیا اندھیر ہو جاتی ہے تو آسمان بھی سر چھپانے کے لیے کافی نہیں ہوتا شاید اسی لئے پارہ نے کہا تھا۔


شریک ہو گئی سازش میں کسی کے کہنے پر
یہ کس کے قتل پہ اب ہاتھ مَل رہی ہے ہوا

وہ اپنی زندگی کے ہر دور میں علم سے لبریز رہی،علم نجوم پر بھی اسے اعتماد رہا وہ اس علم کی مدد سے زندگی کے پوشیدہ رمُوز کو جاننے کے لیے کوشاں رہتی کسی نجومی نے کہا۔آپ چار کتابیں ہی لکھ پائیں گی!آپ اپریل اور دسمبر کے مہینوں میں سفر سے گریز کریں لیکن وہ یہی جواب دیتی۔

میں موت سے نہیں ڈرتی زندگی کے مختلف ادوار میں وہ موت کے تصور پر لکھتی رہی مگر جانے سے کچھ عرصہ قبل وہ محض موت کے خدشات میں گھری ہوئی ملتی ہے ایک ایک لفظ کسی روحانی اطلاع کے مل جانے پر وہ ایک باشعور روح کی مانند اپنا اسباب سمیٹ رہی تھی۔اس کے جسِد خاکی کو اس کے سرکاری گھر واقع G/10 میں لانے کے بجائے پروین آغا کے گھر لے جایا گیا جہاں نوبیاہتا جوڑے کے لیے دعوت کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔
پروین کی آمد سے قبل تمام انتظامات سفید چاندنیوں میں تبدیل کر دیئے گئے!
بارش مسلسل برس رہی تھی! اور پروین کا نیا سفر بھی بارش کی ہمراہی میں شروع ہو چکا تھا کہ جس کا سربری طرح زخم زخم تھا اور ان زخموں کو چھپانے کے لیے سفید پٹی باندھی گئی تھی بالکل اُس کی چشم پوش فطرت کی طرح! اتنے زخموں سے چور سراپے کو اُسی شام سپرد خاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا،چہرے پر صدیوں کی تھکن اوڑھے اور اندیشے لیے پروین کا چہرہ آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

کم از کم پروین کی یہ دعا تو قبول ہوئی تھی کہ
مجھ سے میرا مان نہ لینا
میری ماں کی جان نہ لے لینا۔وہی ماں کہ جسے اُس نے چند دن قبل یہ تلقین کی تھی کہ آنگن میں نہ جانا وہاں گولیاں چلتی ہیں،موزے پہن لینا اور شال ضرور اوڑھ لینا اُس ماں نے اُس کا چہرہ دیکھا تو بے اختیار پکاری۔
پارہ پارہ!۔ میری پارہ کو کیا ہو گیا کہ اب اس گھر کا چراغ روشنی بکھیرتا ہوا اپنے آخری سفر کی جانب جانے کی تیاری میں ہے دنیا بھر میں یہ خبر دکھ کے ساتھ سنی گئی۔
اس ہجوم میں کئی چہرے جانے پہچانے تھے کسی دیوار سے ٹیک لگائے افتخار عارف نے کہا مجھ سے کچھ نہ پوچھو وہ میری چھوٹی بہن تھی وہ میری بہت عزت کرتی تھی آج وہ اپنے بھائی کو اس طرح چھوڑ گئی میرا دل تڑپ رہا ہے میں کیا کروں اور اس کو کہاں سے لاؤں وہ اپنے تمام دکھ مجھ سے کہتی رہی اپنی ہر غزل سب سے پہلے مجھے سناتی میرے ساتھ ضد کرتی بحث کرتی مجھے آج پتہ چل رہا ہے کہ وہ میرے لیے کتنی اہم تھی۔

وہیں شبنم شکیل بھی دھاڑے مار کر رو رہی تھیں،پروین بہت خوبصورت تھی اُسے نظر لگ گئی تو کہیں کشور ناہید دہائی دے رہی تھیں۔پروین تو میرے سامنے غزلیں لکھتی تھی مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ زخمی جسم پروین کا ہے۔
مگر ایک شخصیت ایسی بھی تھی اہلِ قلم میں جن سے اُس کا رشتہ یوں بھی گہرا تھا کہ انہی کے سامنے اُس نے زانوائے تلمذ طے کیا تھا۔
وہ اس بدنصیب لمحے پاکستان میں موجود نہیں تھے اُس کے عمّو جان! جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اُس وقت مسقط میں تھے،زار و قطار رو رہے تھے کہ آج ان کی سب سے پیاری بیٹی اُن سے بچھڑ گئی اور آخری بار اُس کا چہرہ بھی نہ دیکھ پائے۔
بالآخر وہ شام بھی آ پہنچی جب خوشبو کی پذیرائی کے لیے دنیا بھر کے پھول اُس کے زخم زخم سراپے کو اپنے لمس سے سرشار کرنے آئے یہ اُن کے لیے اس کا لمس پانے کا آخری موقع تھا۔
جس جس پھول کو خدا نے یہ اعزاز بخشا وہ کبھی مرجھایا نہیں ہو گا
 اُدھر اُس کا گھر کہ جہاں اُس نے سیّد مراد علی،کے نام کی تختی لگائی وہاں نرگس کے پھول اُس کی آمد کے منتظر تھے اس کی خوشبو کو الوداع کہتے ہوئے کسی پھول نے سوچا نہیں تھا کہ یہ ملاقات آخری ہے گھور اندھیرا اور یخ بستہ شام اپنے مکین کی راہ تکتے رہ گئے!
اُس دن،دن ڈھلنے کے بعد پنکھ اپنے آشیانوں کی طرف گئے تو ان کی اڑان میں ایک عجیب طرح کا اضطراب تھا،چڑیاں الگ اُداسی کی تحصیل میں غم کی پرواز کر رہی تھیں،یہ بات مان لینا آسان نہ تھا کہ خوشبو ایک اور سفر پر روانہ ہونے والی ہے۔
اب کوئی اُن کے لئے سایہ تلاشتا ہوا یہ نہ کہہ سکے گا۔

اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اُس بوڑھے شجر سے
(صد برگ)
شاید اس لئے اب اُس شہر کی فضا میں ایک ایسا سوگ بس گیا ہے کہ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آنا بھی چاہے تو اُسے وہ خون آشام دن یاد آ جاتا ہے کہ جب مٹی کی محبت میں سرشار ایک آواز،نجانے کتنی ساعتوں تک تڑپتی رہی ہو گی۔

پروین،بینا اور پارہ،شام پڑتے ہی اُس کے سفر آخرت کی تیاریاں،دسمبر کی 26 ویں رات چشم تصور سے دیکھتے تو کیسی خاموشی ہوتی ہے دسمبر میں،مگر اس فضا میں خاموشی میں خونِ ناحق کی مہک رچی ہوئی ہو تو آہ و بُکا کا اندازہ کرنا کچھ اتنا مشکل کام نہیں۔
شام کے سائے کچھ اور گہرے ہوئے تو وہ ہستی کہ جس نے اپنی ہریالی کو اپنے لہو سے سینچا تھا اور جس کے سر پر کسی ہوا کا کوئی قرض نہیں تھا۔
اُسے وہاں لے جانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے جو رات قبر میں ہے اُس سے مفر نہیں وہ رات سر پر کھڑی تھی،پارہ نے گہرا بسنتی،ہلکا گلابی،زردی مائل،سنہرا اور سبز رنگ چھوڑ کر سر سے پاؤں تک سفید لباس پہنا نہ آنکھ میں کاجل لگایا،نہ کانوں میں آویزے پہنے اور اس بار خوشبو لگانے کا اہتمام خود نہیں کیا کسی نے کافور اس نئے لباس پر اس طرح مل دیا کہ ہوائیں جان گئیں اس نئے لباس کا نام،کفن ہے! اس کے بعد اب ملاقات کی لاکھ خواہش ہو کبھی نہ پوری ہو پائے گی۔

وہی شاہرا ہیں جو چند گھنٹے بیشتر لوڈ شیڈنگ کے باعث راہ دکھانے سے قاصر تھیں اب اس کے سفر آخرت کو راہ دکھانے لیے ہر شاہراہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی۔
H-8 اسلام آباد قبرستان،اس کا اگلا پڑاؤ،اس کا نیا مسکن،اس کی ابدی آرام گاہ!
اُس کے مراد نے بڑی استقامت سے اس کڑے وقت میں گھر میں موجود ایک مرد کی کمی کو پورا کیا جہاں ہر طرف آہ و بکا آہیں اور سسکیاں بُلند ہو رہی تھیں،بین دلوں کو چیر رہے تھے افتخار عارف اور مستنصر حسین تارڑ نے آگے بڑھ کر اُس کے جسد خاکی کو زمین کے حوالے کیا وہ زمین جس کے بارے میں وہ بہت سوچتی تھی۔


اے مادرِ گیتی تیری حیرت بھی بجا ہے
تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کس کے لیے تھا

اب اس کے خوابوں کی طرح اُس کے سراپے پر مٹی برابر کرنے کا مرحلہ تھا وہ اس لحاظ سے خوش بخت تھی کہ اُپنے بخت کی قیدی ہونے کے باوجود اُسے ہر طبقہ،فکر کے لوگوں نے اس طرح وداع کہا جیسے اپنے خونی رشتوں کو کیا جاتا ہے۔پارہ کا غم ہر شخص کے لیے ذاتی نوعیت کا غم بن گیا تھا۔
اب پارہ کو پذیرائی اور ستائش کی نہیں محض دور رکعات نماز وحشتِ قبر کی ضرورت تھی،نجانے کتنے لاتعداد مداحوں نے اس پر وہ مرحلہ آسان کیا اور وہ جو کسی مدد کے بغیر روحوں کو جان بخشنے پر قادر ہے اُس نے اس بار بھی اُسے اعلیٰ وارفع مقام عطا کیا ہو گا۔
پارہ کا سفر رک نہیں گیا،نہ رک سکتا ہے کیونکہ اُس نے وقت کے بہترین لمحات میں اپنی تنہائیوں کی قتل گاہوں کو سجا کر ماہِ تمام تراشا اور ماہِ تمام بھی ایسا کہ جس کے بعد کفِ آئینہ بھی کہے بھلا ان ہر ے بھرے زندگی افزا احساسات کے ہوتے ہوئے رتوں کے بار آور ہونے کو کون روک سکتا ہے اس ساعتِ اجل کو ہرذی روح نے اپنی روح کا دکھ سمجھا۔
ہر جا اُس کے لیے تعزیت برپا کی گئی،اجلاس ادبی ریفرینسز اور اس میں کسی ایک خاص طبقے کو فوقیت حاصل نہ تھی پوری قوم کا یہ سانجھا دکھ زمین سے آسمان تک محسوس ہو رہا تھا۔
27 دسمبر 1994ء روزنامہ جنگ حیدر آباد میں پروین کی موت کی خبر کے ساتھ یہ خبر بھی شائع کی گئی کہ ملک بھر میں پروین کی ناگہانی موت کو انتہائی افسوس کے ساتھ سنا گیا اور حیدر آباد میں پروین کے ایک مداح نے ماہِ تمام پڑھتے پڑھتے گھر کی بالکنی سے کود کر جان دے دی۔

نامور تخلیق کار،صاحبِ طرز ادیب،سیاستدان،بیورو کریٹس میڈیا اور وہ لوگ جو اُس فن کے سچے قدر دان تھے،جن کا کوئی نام نہیں کہ یہ عوام ہیں!
ملک کے ممتاز دانشور جناب اشفاق احمد مرحو م نے پارہ کے ایک تعزیتی جلسے میں ایک عجیب بات بتائی کہ پروین کی موت کی خبر سن کر ایک سبزی فروش نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اُن سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا،کہنے لگا صاحب،بی بی کی موت کی خبر ٹی وی (T.V) پر سُنی تھی دل پر بڑا بوجھ تھا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس کے پاس جا کر تعزیت کروں پھر دل نے کہا آپ کے پاس جاؤں آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔
براہِ خدا بی بی کے لیے فاتحہ پڑھنے میں،میرے ساتھ ہاتھ اُٹھائیے۔شاید اتنی شدت سے یہ احساسات کسی اور کے لیے محسوس نہیں کئے گئے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں پروین کے دوستوں نے پروین شاکر ٹرسٹ بنانے کا اعلان کیا جس کی چیئر پرسن بیگم پروین قادر آغا ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ پارہ کی حنائی انگلیاں اب بھی کسی آسمان پر حرفوں کا تاج محل تعمیر کر رہی ہوں گی اُسے بھلایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ بھلانے کے لیے اس دنیا میں نہیں آئی تھی خدا نے اسے تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا وہیں ستائش اور پذیرائی بھی ایسی کہ لوگ محض سوچتے رہ جائیں۔

لیکن اُس کی زندگی میں بھی ایک کمی تھی کہ اسے دل کا سکون میسر نہیں تھا،گونگی تصویروں کو موجِ آب بنانے والے خدا سے بس ایک ہی التجا ہے،پارہ جہاں بھی ہے،وہاں کی ہر آسائش اسے میسر ہو اس کی روح پر جتنے روگ لکھے تھے وہاں بس ایک ہی سیارے کا بسیرا ہو جس کا نام سکون آباد کے سوا اور کچھ نہ ہو!
سلام!

گرچہ لکھی ہوئی تھی شہادت امام کی
لیکن میرے حسینؑنے حجت تمام کی

زینبؑ کی بے ردائی نے سر میرا ڈھک دیا
آغاز صبح نو ہوئی وہ شام،شام کی

اک خوابِ خاص چشمِ محمدؐ میں تھا چھپا
تعبیر نورِعین محمدؐ نے عام کی

بچوں کی پیاس مالکِ کوثر پہ شاق تھی
ساقی کو ورنہ مے کی ضرورت نہ جام کی

حرُسا نصیب بادشہوں کو نہیں نصیب
آقا سے مل رہی تھی گواہی غلام کی

دریا پہ تشنہ لب ہیں پہ صحرا میں شاد کام
دنیا عجب ہے اُن کے سفر اور قیام کی

دے کر رضا جو چہرہ شبیر زرد ہے
تھی التجائے جنگ یہ کس لالہ فام کی
(کفِ آئینہ)

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra