9 Episode - Tarajim (Gitanjali Ka Album) - Para Para By Nusrat Zahra

نواں باب ۔ تراجم (گیتانجلی کا البم) - پارہ پارہ - نصرت زہرا

(الف) روحوں کا ملاپ

آنکھوں میں حزن و ملال لئے ہلکے ہلکے بادلوں جیسی نمی اور اس نمی سے ایک محرومی تصویر بناتی ہوئی بہت دور تک ہو کے آتی تھی کہ جاتے جاتے کسی نے تھکن سے چور ہوتی ہوئی روح کو اپنے پروں میں سمیٹ لیا اور دونوں نے اپنا اپنا سنہری جنم لیا وہ جس کے بارے میں اہل فن یہ کہتے رہے کہ وہ کسی رشی دیوتا کے انتظار میں ہے اس نے ایک غیر محسوس جسم سے ہاتھ ملایا۔
گیتا نجلی اور پروین کی روحوں کے درمیان کوئی حجاب نہ تھا!
رحلت سے کچھ عرصہ قبل معروف دانشور احمد سلیم کے توسط سے اسے گیتا نجلی کا البم ملا تو اسی لمحے پروین اور گیتا نجلی کی روحوں کے درمیان ہاتھ اور دعا کا فاصلہ رہ گیا تھا!
ہندوستان کے شہر میرٹھ میں 12 جون 1961ء کو گیتا نجلی کا جنم ہوا جو نوعمری میں ہی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئی اور محض 16 برس کی عمر میں 11 اگست 1977ء کو موت کی آغوش میں جا سمائی پروین کا تقابل کبھی اس کےعہد کی شاعرا ت،کبھی کلاسیکل شعراء تو کبھی نابغہ روزگار ادباء کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر اس کی روح اور شعری حسن کے درمیان مطابقت کی جھلک دکھائی دی بھی تو اس وقت جب اس کے جانے میں محض چند ماہ باقی رہ گئے گیتا نجلی کی البم کا مسودہ جو انگریزی زبان میں تھا اس سے قبل ہندی میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے کتاب کے نثری حصہ کا ترجمہ احمد سلیم نے کیا اور منتخب انگریزی نظموں کو پروین نے اس طرح اردو زبان کے قالب میں ڈھالا کہ یہ نظمیں طبع زاد ہی معلوم ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

ان نظموں کا مسودہ اردو میں نظم کی صورت کرنے کا فیصلہ بھی پروین نے خود کیا تھا اور مسودے کو دیکھتے ہی بے ساختہ کہا تھا۔
’’ان نظموں کا ترجمہ میں کروں گی‘‘
احمد سلیم،ٹیلی فونک گفتگو
گیتا نجلی کو قدرت کی طرف سے موت نے اتنی جلد منتخب نہ کیا ہوتا تو نہ جانے بین الاقوامی ادب میں اس کی حیثیت کو کس طرح تسلیم کیا جاتا اور کس درجہ پذیرائی نصیب ہوتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ موت یقینی ہے وہ زندہ رہنے اور معجزہ رونما ہونے پر یقین رکھتے ہوئے رضائے الٰہی میں ترازو ہو گئی۔

بقول احمد سلیم اگر پروین شاکر زندہ ہوتی تو میں اسے موت کے تاروں سے چھیڑا گیا زندگی کا نغمہ قرار دیتا اور یہی تڑپ جو گیتا نجلی کے البم میں جابجا بکھری ہوئی ہے اس کے لیے قابلِ توجہ ٹھہری تھی۔
لیکن توجہ طلب پہلو دونوں شاعرات کے درمیان موجود حیران کن مماثلتیں ہیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے (Identical) کرتی ہیں۔
دونوں کم عمری میں شعر کہتی رہیں،زندگی پر ایمان،حسن،خیر اور نیکی اوڑھنا بچھونا رہا تو جینے کی امنگ اور خدا کی ذات سے معجزات کی امید اور خود آگاہی کا وہ انداز کہ مرنے سے قبل موت کی مکمل آگہی اور شعور کی وہ منزل جس پر یقین نہیں آتا۔
پروین کی خواہش تھی کہ یہ نظمیں ایک سپاہی کی طرح ایک عَلَم کی مانند موت کے سامنے آئیں اور اسے پچھاڑ دیں اُس نے گیتا نجلی کی البم کو موت کے برخلاف زندگی سے تعبیر کیا تھا۔
اگرچہ دونوں کی مدت زیست میں فرق کے ساتھ ساتھ طرز زندگی مقام پیدائش اور دیگر امتیاز اپنی جگہ لیکن جن دنوں پروین موت کے تصور سے لبریز ہو چکی تھی انہی دنوں گیتا نجلی سے اُس کی شناسائی ہوئی اور محض گیتا نجلی ہی نے اپنی سالگرہ کے لباس کو حسرت نگاہ سے نہیں دیکھا تھا،پروین کی حسرتیں گیتا نجلی کی نظموں سے مل کر باہمی حسرت میں تبدیل ہو گئی تھیں اور موت کا انجانا طاقتور مرگ ساگر خود محض تراجم کی حد تک پروین کے لیے تشفی کا باعث نہ تھا،بلکہ وہ خود بھی کہہ رہی تھی۔

میری عمر میں نہیں دکھ میں فرق پڑا ہے یہ
یہ کمی سی مہ وسال میں میرے آ گئی

زندگی کی کلفتوں  سے ڈر جانے کے باوجود اُس نے زندگی سے برگشتگی کا رویہ نہیں اپنایا وہ کہتی تھی
’’ہاں زمین کہیں بد صورت بھی ہو گی مگر میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا‘‘ (خوشبو،دیباچہ)
اہل ادب متفق ہیں کہ پروین کبھی نعرہ بازی کا شکار نہیں ہوئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موت کا تصور بھی عمومی طور پر اس کے لاشعور سے شاعری میں منتقل ہو گیا زندگی سے اس کی وابستگی اور محبت اپنی جگہ مگر موت اس کے وجدان میں مستقل سر اُٹھاتی رہی اور جب اس کا وقت پورا ہو چکا تو اُس نے کہا

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے

یہ بھی ایک سچ ہے کہ گیتا نجلی اور پروین زندگی بھر کشمکش میں رہنے کے باوجود خدا کی موجودگی اور اپنے ایمان سے دستبردار نہیں ہوئیں پروین ہی کی طرح نغمگی،لطافت اور مکمل سپردگی اس ننھی کلی کے جذبات کا ذریعہ بنے اور اگر وہ ان سے متاثر ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ اس کا ترجمہ میں کروں گی تو اس کی بڑی وجہ یقینی طور پر گیتا نجلی کی خوش امیدی اور جینے کی امنگ رہے ہوںگے۔
مگر پروین کے لیے موت کا احساس ایک عالمی صداقت اور عمومی حقیقت سے کچھ بڑھ کر ہے اُس نے موت کی آہٹ اور محبت سے خالی زندگی کو ایک ہی زاویے سے محسوس کیا ہے۔

موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے

تراجم میں بھی پروین کا دلآویز اور رچاؤ سے بھرپور لہجہ ہزاروں میں پہچانا جا سکتا ہے کہا جاتا ہے کہ تراجم سے حقیقی روحِ شاعری متاثر ہوتی ہے لیکن یہ بات اگر پروین کے متعلق کہی جائے تو کہنے والے کی سوچ اورعلم شاعری پر شبہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
پروین نے اپنے شیریں اسلوب کی  قربانی دیئے بغیر نہایت سہولت سے ان جان گسل لمحات کو جن میں درد اور ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے والوں کے جذبات کا بیان ہو مگر خود رحمی سے پاک اپنا نصب العین واضح کرتا ہوا اس کا لہجہ جسے ہزاروں میں پہچانا جا سکتا ہے۔
خوشبو سے کفِ آئینہ تک پروین نے خوش امید دن کے آغاز دن بھر کسی رحمت کا یقین رات کو نیا چاند دیکھ کر ایک تشکر آمیز مسکراہٹ اور انہونی کی دعاؤں کا رجحان نہ صرف برقرار رکھا بلکہ جب اسے یہ جھلک گیتا نجلی کے کلام میں دکھائی دی تو تراجم کا حُسن دو آئشتہ ہو گیا۔
خدا پر اس کے حُسن ظن کا یہ عالم کے جسے جان کر وہ بھی مسرور ہوا ہو گا۔
کیا ستم ہے کہ جب گیتا نجلی کا مسودہ مکمل ہوا اور کتاب تکمیل کے مراحل طے کر چکی تو پروین زندگی کی جنگ ہار چکی تھی۔اب اسلام آباد قبرستان کے پلاٹ نمبر 57 اور قبر نمبر 48 میں جناز گاہ کے سامنے خوشبو چین کی نیند سو رہی ہے۔
اس کتاب کا ٹائٹل معروف آرٹسٹ جمال شاہ نے بنایا تھا،پروین نے کتاب کے ٹائٹل کے لیے اپنی وہ تصویر جب وہ سولہ برس کی تھی گیتا نجلی کی تصویر کے ساتھ منسلک کی تھی،زندگی کی یہ تڑپ پروین کے لیے توجہ اور اپنی ذات کے ساتھ مماثلت نے پروین کے اس کارنامے کے ساتھ اردو ادب میں اُس کی حیثیت کو اور بھی جاوداں کر دیا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے خدا نے عالمِ ارواح  میں گیتا نجلی اور پروین کی روحوں میں بیک وقت اپنا عکس جمال منتقل کیا ہو۔پروین اور گیتا نجلی ہر صبح کے آفتاب کا استقبال ایک جیسی تشکر آمیز مسکراہٹ سے کرتی رہیں۔
(ب)
قاسمی صاحب کی نظموں کے تراجم

بات محض انگریزی نظموں کا اردو ترجمہ کرنے پر ہی مکمل نہیں ہو جاتی پروین کے لیے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی تھے…!
جس ہستی کے ساتھ اس نے ننھی بچی کی طرح خموشی سے انگلیاں تھامے فن کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
اُس نے ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اردو نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔
قاسمی صاحب پروین کے وصفِ ہنر کو اس طرح اجاگر کرتے تھے
(انگریزی شاعری پر پروین کی گہری نظر تھی اردو اور فارسی شاعری کے اساتذہ کا کلام اس نے بالا ستعیاب پڑھ رکھا تھا (حرف چند، پذیرائی)۔
پروین نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اردو ادب کی باقائدہ طالبہ نہیں وہ کسی یونیورسٹی یا کالج میں اردو ادب نہیں پڑھا سکتی کیونکہ وہ Qualified نہیں لیکن یہ تو اس کی عاجزی اور انکساری کی ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔

اردو زبان کے فروغ کے لیے اس کے پانچ مجموعہ ہائے کلام نشانِ راہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اپنی ناگہانی موت سے کچھ عرصہ قبل اس نے ہندوستانی شاعرہ گیتا نجلی کی منتخب نظموں کا ترجمہ اردو زبان میں کیا اور جناب احمد ندیم قاسمی کی ’’چار‘‘ نظمیں (جو ہم تک نیر حیات قاسمی کے توسط سے پہنچیں) کا انگریزی میں ترجمہ کیا جبکہ اس کے کئی منصوبے جو مختلف ادبی منصوبے ہی تھے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے،بہر طور چار نظمیں جسے محترم نیر حیات قاسمی نے بذریعہ ای میل بھیجا ہم انہیں شکریہ کے ساتھ پارہ پارہ میں شامل کر رہے ہیں۔

جمالِ آفتاب The Glory Of The Sun
ہر شام
جب دونوں وقت ملتے ہیں
میں اپنی کھڑکی سے
ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھتی ہوں
جب روشنی دھیرے دھیرے مدہم پڑ جاتی ہے
اور لمحے خاموش
اور تنہا ہونے لگتے ہیں
میرا دل بھی میری روح کے اندر
ڈوب جاتا ہے!
کیونکہ میں نہیں جانتی
کہ سورج کی یہ سج دھج
میں دوبارہ دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں

خدا کی موجودگی A Presence Of God
خدا کی موجودگی
ہر چیز میں ہے
ہم بالکل نہیں جانتے
کہ کب اور کہاں
اور کس شکل میں
وہ ظاہر ہو جائے!
چنانچہ بے معنی باتیں نہ کرو
کسی کو دکھ نہ دو
تھوڑی سی ہی سہی لیکن خوشی بانٹو
مدد کرو
اور جب دوست یا دشمن سے ملو تو مسکراؤ کیا پتہ
کہیں کوئی زخم
کوئی ٹوٹا ہوا دل جڑ جائے
اور تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے
میرے پاس رہو Stay With Me
آ جاؤ
میری پتھریلی پناہ گاہ میں داخل ہو جاؤ
دروازہ کھلا ہے
لیکن ذرا احتیاط کرنا
میرے زخم نہ کُھل جائیں!
کیا غالیجہ تمہیں لہو رنگ کی یاد دلاتا ہے
شاید یہ ان آنسوؤں سے بھیگ گیا ہے
جو میں نے بہائے ہیں!
ذرا دھیان سے!
مجھ سے دور ہو کر بیٹھو
کہیں میری آہوں کی آنچ
تمہیں نہ جلا دے
لیکن ٹھہرو ٹھہرو
مرے پاس رہو
جب تک اندھیرا
دھوپ کو جنم نہ دے دے

میں تجھ پر اب بھی بھروسہ کرتی ہوں میں تجھ پر I Trust You Still
اب بھی بھروسہ کرتی ہوں
اے میرے پیارے خدا
حالانکہ
دکھ
مجھ پر بارش کی طرح برستے رہتے ہیں!
میں تجھ پر بھروسہ کرتی ہوں
اب بھی
حالانکہ تو نے
میرے بھروسے کو ٹھیس پہنچائی
اور مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی
جس کی میں نے تمنا کی
کرسمس قریب ہے
ہوا میں موسیقی ہے
میرے پاس
بسی پرانی میٹھی یادیں ہیں
جس میں محبت اور دھیان کی چبھن ہے
اب میں جنہیں کھولتی ہوں
بے حد دکھ اور اذیت سے
میں چلاؤں گی نہیں
میں روؤں گی بھی نہیں
میں نے یہ احمقامہ جذبات بہت عرصہ ہوا
ترک کر دیئے
یہ انجانا،طاقت ور
مرگ ساگر
میرے اندر خوف ضرور پیدا کرتا ہے
مجھے اعتراف ہے
کہ اس خیال سے میں کانپ جاتی ہوں
لیکن پیارے خدا
تیری قربت
مجھے سنبھالے رکھتی ہے
کیا یہ بات حیران کن نہیں ہے
کہ میں اب بھی تجھ پر بھروسہ کرتی ہوں
اب بھی؟ ( شاعرہ،گیتا نجلی،مترجم،پروین شاکر)

(شاعر،احمد ندیم قاسمی،انگریزی ترجمہ،پروین شاکر)
. Playful weather Thundering rain . Clouds rise from the horizon.
But the chessboard of thoughts is capsized.
old wounds surface with new style.

2. Pain without reason

Some one in the crowd of children
by the street corner,
sang a love song with a sad tune
I'm not in love
why did my eye melt

3. The thought of the beloved

Hiding behind the murky curtain
What was the moon thinking about?
Whose thought made the stars
blink their eyes all night?
was I the only one,
or was the whole world
thinking about you..?

4. life and Death
The lips of the sickle
are alive with songs of death
the golden crops tows down
gratefully
Someone plays
on the harp of life
in the shadow of rain
beyond the barnپروین کی ہمشیرہ محترمہ نسرین شاکر کے مطابق وہ اپنی پہلی کتاب خوشبو کا انگریزی میں ترجمہ کر رہی تھی کہ زندگی کی مہلتیں تمام ہوئیں پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پروین کا سفر ادھورا ہے۔
پروین نے ادب کی دنیا کے علاوہ تعلیمی اور تدریسی شعبے میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل ہیں وہ آج تک کسی کے حصے میں نہ آسکیں۔جو ستائش اور پذیرائی اسے فنی اعتبار سے ملی اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔اس کا فن نہ صرف قابل ستائش اور تقلید ہے بلکہ وہ کئی زمانوں تک روح عصر کی طرح چھاؤں تلاشنے والوں کے لیے ایک شجر سایہ دار کا کردار ادا کرتی رہے گی شاعری کی طرح اس کا نثری سرمایہ بھی رہروان شوق کے لیے نئی منزلوں کا امین ہو گا اس نے اپنے مجموعہ کلام خود کلامی کا بھی ترجمہ کیا۔
امریکہ قیام کے دوران اس کے دو دوستوں (Lisle Leaving) اور بیدار بخت نے اس کی معاونت کی۔یہ ترجمہ (Talking To Oneself) کے نام سے بعد از مرگ شائع ہوا کتاب کا ترجمہ جاپانی زبان میں بھی کیا جا چکا ہے۔
Talking to oneself
then zaid cursed baker , your mother
is more well  know then your father
My son, this curse is your fate too.
In a father , world you too, one day.
must pay a heavy price
For being known by your mother's.
Though your eyes color, your brows expanse , and all curves your lips create
come from the man
who shared with me in your birth
yet alone gives you significance
in the eyes of law-givers.
But the tree that nurtured you three seasons
must claim one season as its own,
to comb the stars ,turn thoughts
in to perfumes
make poems leap from your
ancestor's walls

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra