5 Episode - Afsoon E Intezar E Tamanna - Para Para By Nusrat Zahra

پانچواں باب ۔ افسونِ انتظارِ تمنا - پارہ پارہ - نصرت زہرا

”میں کچھ نہ ہوتی تب بھی شاعرہ ہی ہوتی اور مجھے کوئی اور جنم ملے تب بھی میں شاعرہ ہی بننا پسند کروں گی مجھے جتنی پذیرائی تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے ملی اس ستائش کی میں ہر گز اہل نہ تھی اور اس کے لیے میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔“
(روزنامہ خبریں) 1994ء ستمبر
پارہ کے ناقابل یقین فنی سفرکی روداد لکھنا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا لیکن ملک کے نامور نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے الفاظ میں ”پروین ایک رجحان ساز شاعر ہے“ اتنی مکمل اور جامع بات کے بعد اس کے فن پر شاید ہی اتنا بھرپور اور مُدلل تبصرہ سننے کو ملے۔
جبکہ وہ شخصیت جن کی انگلیاں تھامے اُس نے ننھی بچی کی طرح فن کی دنیا میں قدم رکھا اور جنہیں دنیا احمد ندیم قاسمی کے نام سے جانتی ہے۔اس کی شاعری کو غالب کے ایک شعر میں سمیٹتے تھے یا انہیں پارہ کی شاعری اُس شعر کا پھیلاؤ معلوم ہوتی تھی!

پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسونِ انتظارِ تمنا کہیں جسے

تمنا کرتے رہنا نہ تو امید کو مرنے دیتا ہے اور نہ ہی دل کے نم کو بنجر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

پارہ نے ناآسودگی کے باوجود اپنے جذبہ دل کو زندہ رکھا اور یہی اُس کے جذبے اور شاعری کا اَصل حسن ہے۔
اگرچہ اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ اردو شاعری کی معلوم تاریخ میں مہ لقا چندا بائی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ہیں تاہم بیشتر شاعرات ایسی بھی ہیں جن کے نام تاریخ میں درج نہیں کیونکہ خواتین کے اظہار کو کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا شاعرات اپنے جذبات کو ایسے نظام کی بھینٹ چڑھنے سے نہ روک سکیں جو ان کے اظہار کی راہ میں کانٹے بچھاتا آیا تھا۔

پروین شاکر سے قبل بیشتر شاعرات اردوزبان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکی تھیں۔جن میں تقسیم ہند سے قبل ایک شاعرہ نجمہ تصدق نے شہرت پائی جبکہ ادا جعفری،زہرہ،فہمیدہ ریاض،کشور ناہید اور پروین فنا سید نے اہلِ فکر و فن سے خوب داد وصول کی۔
مگر اردو شاعری کا دامن اب بھی یہی تھا اور اسے ایک ایسی آواز کی ضرورت تھی جو اس کے بے جان سراپے میں زندگی دوڑا دے اس کے لیے شبنم دلآیزی اور لبوں کو شہد آشنا تبسم عطا کرے کہ جب بھی اُسے ”چھاؤں درکار ہو تو حد نگاہ دو رویہ گلابوں کے تخت بچھے ہوئے ملیں۔

کیا کسی نے یہ لہجہ،یہ آواز یہ دلآویزی کہیں سنی تھی۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
و ہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

کہیں رہے وہ مگر خیریت کے ساتھ رہے
اُٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دعا آئی

گلابی پاؤں میرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اُگائی ہو

جو حرفِ سادہ کی صورت ہمیشہ لکھی گئی
وہ لڑکی تیرے لیے کسی طرح پہیلی ہوتی

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

طوفان ہے تو کیا غم مجھے آواز تو دیجیے
کیا بھول گئے آپ میرے کچے گھڑے وہ

تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر،موجِ بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا لائی ہو

پلکوں کو اُس کی اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر میں آج کی گرد سفر نہ جائے

ایسے بھی تھے جن کو اس کی دھڑکتی ہوئی بولتی ہوئی شاعری کسی خیالی شخص کی داستان دکھائی دیتی تھی انہی کی بات کا جواب اس نے نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے خط میں اس طرح دیا۔

”صدیقی صاحب،جن صاحب نے میری شاعری کو کسی خیالی یا تصوراتی شخص سے متاثر ہو کر لکھی جانے والی چیز سمجھا ہے ان پر تو میں صرف ہنس ہی سکتی ہوں اور ان بی بی ثمینہ راجہ کے اس خیال پر کہ ہمارے ہاں اکثر لڑکیوں کو محبوب میسر ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو پچاس فیصد لڑکیاں ان کا نام بھی زبان پر نہیں لا سکتیں،ملاقاتیں کیسی،تو باقاعدہ ترس آیا،اپنے خدا کے ویسے تو میں خیر کن کن نعمتوں کا شکر ادا کروں لیکن اس معاملے میں تو اُس نے مجھے اتنا آسودہ رکھا ہے کہ میرے سات جنم بھی اس کا احسان ماننے کے لیے ناکافی ہیں۔

10 فروری 1979ء
پروین شاکر کے خطوط نظیر صدیقی کے نام بساطِ ادب پاکستان اُس نے اردو شاعری میں محض اپنا نام درج نہیں کروایا اس کا منظر اور پیش منظر تبدیل کر کے رکھ دیا،کچے جذبے کومل خوابوں کی صورت دلوں میں اس طرح سرایت کر گئے کہ جیسے ازل سے اس کی راہ تک رہے تھے!
اُس کی پہلی کتاب ”خوشبو“ جس کا پیش لفظ اُس نے خود تحریر کیا لکھتی ہے کہ جب وجود کو محبت کا وجدان ملا تو شاعری نے جنم لیا،اس کا آہنگ بھی وہی ہے جو موسیقی کا ہے جب تک سارے سُر سچے نہ لگیں گلے میں نور نہیں آتا،دل کے سب زخم لو نہ دیں تو حرف میں روشنی نہیں آتی،اور یہ بات سچ ہے کہ جب تک قلب چاند کی طرح اُجلا اور شفاف نہ ہو دل پر رنگ اُتر ہی نہیں سکتے،لہجہ شفاف اور چڑھتے دریاؤں کی مانند اُسی صورت اجاگر ہو سکتا ہے کہ جب محبت الہام بن کر تقاضائے جسم وجاں سے ماورا ہو جائے۔

خوشبو جو مُرجھائے ہوئے شگوفے کا نوحہ بھی ہے اور کھلتی ہوئی کلی کی مسکراہٹ بھی اردو شاعری اس خوبصورت بہار کے دام میں ایسی گرفتار ہوئی کہ حصار رنگ سے اُس کی رہائی دشوار ہو گئی اس جہانِ رنگ وبو میں چند ثانئے کے لیے ہی سہی کسی نے خواب دیکھنے کی جسارت کی تو سہی!اُس احساس کی خالق نے اپنے سرتاپا جمال عشق و آگہی سے بھرپور عرفان سے آمد کی مشعلیں روشن کیں۔
کبھی چیخ،کبھی کراہ،کبھی سسکی،کبھی گفتگو،کبھی سرگوشی اور کبھی محض خود کلامی شاید اسے اپنی شائستگی سے لبریز فطرت سے ہٹ کر کوئی بات کہنے کا کبھی گمان نہیں گزرا ہو گا،جبکہ کچھ کم کوش اس پر مغربی فکر سے قربت رکھنے کا الزام لگاتے رہے بہت دوڑ دھوپ کے بعد بھی انہیں ڈھونڈنے سے بھی کوئی سایہ نہ مل سکا وہ تو پھر یہی کہتی رہی۔

بس یہ ہوا کہ اُس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے

پروین جو زمانہ طالبعلمی سے ہی شعر موزوں کر رہی تھی اور داد سخن پا رہی تھی،کی پہلی کتاب خوشبو نام کی طرح منفرد و یکتا ثابت ہوئی اُس وقت اُس کی عمر 25 برس تھی اور اس نے اس میں 18 سے 25 برس تک کی شاعری کو اردو شاعری سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک ہدیے کے طور پر سمویا تھا!
میں نے ذاتی طور پر اُس گھر کا دورہ کیا جو پروین کی ہمشیرہ ڈاکٹر نسرین شاکر کی ہمراہی میں کیا گیا،جہاں پروین نے شعر کے پھول کھلائے وہ آنگن،وہ راہداری،وہ کمرہ جو اُس کی خوشیوں اورغموں کا گواہ رہا۔
وہ گلی جہاں وہ ٹہل ٹہل کر اپنے اشعار کی آمد وصول کرتی۔نجانے مجھے وہ سب کچھ اس قدر زندہ اور بولتے ہوئے لگے کہ جیسے اپنی کہانی خود اپنی زبان سے سنا رہے ہوں۔
نارتھ ناظم آباد کے بلاک H میں پروین کا وہ گھر جہاں وہ 1971ء کے بعد ایک طویل عرصے تک مقیم رہی،وہاں کی ہر شے اب بھی اس کی قوتِ متخیلہ کی سچی گواہی دیتی ہے۔یوں تو اُس کے لکھنے کی ابتداء اسکول کالج سے ہی جاری تھی مگر کراچی یونیورسٹی میں طالبعلمی کے دوران جب اُس کی موزوں طبیعت پر ایک احساس اُترا تو اُس نے شعر کے پھول کھلائے احمد ندیم قاسمی کے توسط سے اُس نے فنون میں چھپنا شروع کیا تو اس کا نام نامور اور ممتاز تخلیق کاروں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔

ریڈیو پروگرام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ادبی پروگرامز کی میزبانی بھی کرنے لگی۔
اس دوران کئی ہاتھ اُس کی جانب بڑھے چند ایک نے اس کی شہرت کو داغدار کرنا چاہا اس مہم میں اُس کے وہ دوست بھی شامل تھے جن پر وہ اندھا اعتماد کیا کرتی۔ذہانت،علمیت اور تہذیب و شائستگی سے مرصع پروین کا کلام بھی اس بات کا ترجمان ہے کہ اس کے رہن سہن اور میل ملاپ کا کیا انداز رہا ہو گا۔
بہرحال انگلیاں اٹھتی رہیں اور اُس کا فن نمو پاتا رہا۔ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر جناب یاور مہدی کہتے ہیں کہ وہ دوست بنانے میں بے حد محتاط تھی،سوچ سمجھ کر دوست بناتی دس لوگ کسی محفل میں موجود ہوتے تو وہ اس شخص سے بات کرتی جن کا برتاؤ اُس کے ساتھ مہذبانہ ہوتا اسی بات سے بیشتر لوگ اس سے نالاں رہتے کہ آخر اسے کسی بات کا زعم ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اس لیے محتاط رہتی کہ یہ سب کچھ اسے گھر کی تربیت نے سکھایا تھا اور وہ اپنے تحفظ کی خاطر ایسا کرتی تھی!
خوشبو،دسمبر1977ء میں طبع ہوئی اور اسی ماہ اس کتاب کی تقریب رونمائی بھی کی گئی جس میں نامور ادیبوں،احمد ندیم قاسمی، حمایت علی شاعر،محمد علی صدیقی اور پروفیسر کرار حسن نے شرکت کی،خوشبو وہ کتاب ہے جسے محبت کے روایتی تحفوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کی اشاعت کے بعد ابن انشاء کی یہ پیشنگوئی بھی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی کہ ”خوشبو ہر تکئے کے نیچے ہو گی“ خوشبو نے پروین کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔اہل ادب اب بھی اس کی شاعری کے مقابل کوئی مثال لانے سے قاصر ہیں۔
احمد ندیم قاسمی صاحب نے اس کی یاد میں لکھے گئے ایک مضمون میں خوشبو کی اشاعت کا احوال تحریر کیا ہے۔
”جب میں اپنی سینارٹی اور تجربہ کاری کے زعم میں اُس کے بعض شعروں اور نظموں کو رد کر دیتا تو وہ مجھ سے خاصہ زور دار مکالمہ کرتی،انگریزی شاعری اور تنقید پر اس کی گہری نظر تھی اور اردو فارسی شاعری کے اساتذہ کا کلام اس نے بالا ستعیاب پڑھ رکھا تھا۔
اگرچہ آخرکار وہ میری بات مان لیتی (اور میں بھی اپنے بعض اعتراضات سے دست کش ہو جاتا تھا) مگر ہم دونوں کے درمیان اتنی بحث ہوتی کہ اگر وہ محفوظ ہوتی تو ایک دلچسپ نوعیت کے تنقیدی مجموعے کی صورت اختیار کر لیتی،بیٹی نے جو نظمیں میرے کہنے پر خوشبو کے مسودے سے خارج کر دیں وہ آج بھی میرے پاس کہیں محفوظ رکھی ہیں۔خوشبو لاہور کے ایک اشاعتی ادارے ”التحریر“ اور مکتبہ فنون کے باہمی تعاون سے شائع ہوئی اور شائع ہوتے ہی ناقابل یقین حد تک مقبول ہوئی۔
بیٹی نے یہ کتاب میرے نام معنون کی تھی۔ان دنوں نامور مصور صادقین لاہور میں مقیم تھے پروین کی خواہش کے مطابق میں نے خوشبو کا سرورق صادقین سے بنوایا تھا۔بعد میں اس سرِورق کو بیٹی نے فریم میں محفوظ کر لیا تھا۔
(خوشبو کی ہم سفر سلطانہ بخش صفحہ 18)
اُس کے کلام کی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ کی جائے تو اوّل الذکر کا پلڑا بھاری ہے بے ساختگی،برجستگی،چستی اور ارتکاز کے علاوہ جرأتِ اظہار کے ساتھ معصومانہ اعترافات،ریاضتیں اور دیگر زبانوں سے اکتساب اُس کے کلام کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔

ابتداء ہی سے ذخیرہ الفاظ اس کا خاص امتیاز رہا اور اگر اسے ابتدائی دور سے ہی پذیرائی اور ستائش کا اہل سمجھا گیا تو اس میں اس کا اپنا حصہ سب سے نمایاں تھا سینئر شعراء نے محض اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جبکہ بیان کا حسن اور قوت توبہر طور اس پر عظیم عطیہ خداوندی تھا!
 لیکن یہ بھی اس کی بڑائی کی عظیم کے مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اُس نے اپنے شعری تجربے کو بڑی سچائی سے احمد سلیم کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا۔

”میرا اپنا تجربہ ہے کہ ایک لمحے میں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بات یہ فقرہ یہ لہجہ کس شکل میں شاعری بننے جا رہا ہے۔اس بات کے تعین میں وہ چیز ذہن میں (Ripe) ہوتی رہتی ہے جس وقت مجھے اس کے لیے موزوں لفظ موزوں ردھم،موزوں میٹریل مل جاتا ہے تو میں لکھ لیتی ہوں۔پھر میں اپنے آپ کو اس سے (Detach) کر کے ایک شاعر کی بجائے کسی حد تک نقاد کی نظر سے دیکھتی ہوں۔
میں اعتراف کرتی ہوں کہ میرے اندر کا نقاد پھر اس پر محنت کرتا ہے۔اسے زیادہ قوت سے (conveyable) بناتا ہے۔
(صفحہ 291 ملاقاتوں کے بعد)
یہاں ایک بات کی تو تردید ہو گئی کہ پروین کو ”کوئی اور“ لکھ کر دیتا ہے۔
اُس کے اظہار کا سب سے طاقتور بیان غزلوں میں اور تجربے کو تجریدیت سے بچاتے ہوئے ابلاغ کی زبان بخشنے میں نظر آتا ہے اُس نے غزلوں میں اس طرح ابلاغ کے بیچ بوئے ہیں کہ انہیں مسجع،مقفیٰ،مصفیٰ اور مرصع کہیں تو سچ ہو گا۔

اس سے بڑھ کر خوشگوار حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے محض نسائی محسوسات،ابتدائے عشق کی وارداتوں،رت جگوں اور پھولوں بھری وادی کی سیاحت کے علاوہ گہرا شعور اور آگہی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں اور یہ عمل غیر شعوری طور پر دکھائی دیتا ہے۔

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم میرے وطن میں رہا

یہی غنیمت ہے کہ بچے خالی ہاتھ نہیں ہیں
اپنے پرکھوں سے دکھ کی میراث تو لیتے ہیں

ہمارے عہد میں شاعر کے رُخ کیوں نہ بڑھیں
امیرِ شہر کو لاحق ہوئی سخن فہمی

راتیں تو قافلوں کی معیت میں کاٹ لیں
جب روشنی بٹی تو کئی راہبر کھلے

پورے انسانوں میں گھس آئے ہیں
سر کٹے،جسم کٹے،ذات کٹے

ایسے خالی نسل کے خواب ہی کیا ہوں گے
جس کی نیند کا سر چشمہ تک چرس میں ہے

اب آسماں سے چادر شب آئے بھی تو کیا
بے چادری زمین پہ الزام ہو چکی

غیروں کے لیے بکھر گئی تھی
اب مجھ کو میرا فن سمیٹے

دل مرے تن کا پھول سا بچہ
پتھروں کے نگر میں پلتا رہا

خوشبو کی نظموں میں بھی حد درجہ بلیغ استعارے دیکھنے میں آتے ہیں لہجہ وہی مٹھاس سے پر مگر استعاروں نے نظموں کے گڑیا سے چہروں کو دانش ورانہ دماغ عطا کیا ہے۔

جیسے ناٹک،مشترکہ دشمن کی بیٹی،ایک ہری عورت،فن،واہمہ،آشیرباد،احتساب،بائیسویں،صلیب اور گوری کرت سنگھار قابلِ ذکر حد تک پارہ کی نمائندہ نظموں میں شمار کی جا سکتی ہیں۔نوخیز عمروں کی شاعری جس میں شدید تر جذبات و کیفیات اور اعصاب چٹخانے والے دکھ ہی نہیں کربِ تخلیق بھی وافر مقدار میں موجود ہے اور وہ جو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا عورت ہونا سراسر اتفاقی واقعہ ہے وگرنہ جرا?تِ اظہار میں اُس کا بیان ایک مکمل انسان کا بیان ہے۔


جتنا ہو فزوں عطائے رب ہے
تخلیق کا کرب عجیب ہے

خوشبو پروین کا وہ پہلا مجموعہ کلام ہے جسے عالمگیر شہرت نصیب ہوئی 1977ء میں شائع ہونے والے اس مجموعے کو لاتعداد انعامات و اعزازت کے ساتھ آدمجی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔اہل علم اور قدر دان دانش و ادب نے اس انداز میں سواگت کیا تھا کہ اسے غزل کی البیلی راجکماری،محبت کی شاعرہ اور خوشبو کی زبان کہہ کر مخاطب کیا۔

پیار کرنے والے 23 برس گزر جانے کے بعد اب بھی اس کتاب کے تحفے کو سوغات کی طرح ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بعد اردو شاعری نے خود کو نئے سرے سے دریافت کیا تو بے جا نہ ہو گا۔
خوشبو کے بروشر میں ادیبوں،شاعروں اور نقاد حضرات نے اسے بڑی محبت سے خوش آمدید کہا تھا مگر ممتاز شاعر افتخار عارف نے پارہ کے کلام میں موجود،حسن،خیر،نیکی،رومانیت اور نغمگی کے حسن بیان پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ اُنہیں پروین پر رشک نہیں آتا وہ ان سے حسد کرتے ہیں اور پروین کو مبارک ہو کہ جن کے حاسد زیادہ ہوتے ہیں اُن سے اجرِ عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔

بلاشبہ پروین کا منفرد لہجہ نغمگی اور جمال سے پُر زندگی پر اعتبار قائم کرتا ہے اور اس وادی حیرت میں پابہ زنجیر اور آبلہ پا چلتے رہنے کے حوصلے بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
پروین کے تمام مداح اس بات سے واقف ہیں کہ خوشبو کی اشاعت کے بعد اُس نے انگریزی لسانیات (Linguistics) میں داخلہ لیا۔1980ء میں دوبارہ مزید تعلیم کے حصول کا خیال آیا،مگر اردو زبان سے اُس کی محبت اور دسترس کا اظہار جا بجا دکھائی دیتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے آس پاس پھیلی ہوئی ناہموار زندگی،گہرا سیاسی شعور اور منافقت سے بھرے ہوئے زرپرست معاشرے کے خلاف عَلَم حق بُلند کرنے کی ایک مجاہدانہ شان اُس کے کلام کا حصہ بنتی گئی۔
صدبرگ جس کے بارے میں جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا تھا کہ اس کتاب میں پروین کا لہجہ کچھ اور بھی سوا ہو جاتا ہے اس معاشرے کا شاید ہی کوئی سچ ہو جو اُس نے قلم زد نہ کیا ہوا۔
اور سب سے خوشگوار پہلو تو یہ ہے کہ اُس کی شاعری میں پنہاں ادراک اُس پر مجنونانہ رومانیت کو غالب نہیں آنے دیتا وہ فکر کی اُس منزل پر فائز ہے جس پر یقین نہیں آتا!

میں سچ کو سچ ہی کہوں گی مجھے خبر ہی نہ تھی
تجھے بھی علم نہیں میری برائی کا

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

وہ تردید وفا تو کر رہا تھا
مگر اُس شخص کی حالت عجب تھی

پروین کی دوسری کتاب کا نام صدبرگ ہے مگر اس سے قبل یہ کتاب ہوا بُرد کے نام سے شائع ہونے والی تھی پروین نے ایک خط میں اس کا احوال یوں بیان کیا ہے۔

”اب تو دوسری کتاب تیار ہے سوچتی ہوں کہ اب اِس کا کام ہو میں نے اس کتاب کا نام ہوا برد رکھا ہے۔اپنے اس شعر سے متعلق خیال تھا کہ ”ہوا برد“ میری۔ہے پھر کتاب کے مزاج کو بھی تو Depict کرنا ہے۔

آنسو رکے تو آنکھ میں بھرنے لگی ہے ریت
دریا سے بچ گئے تو ہوا برد ہو گئے

2 اگست، 1978ء نظیر صدیقی
پھر ایک اور خط میں جبکہ اس کتاب کا نام تبدیل کیا جا چکا تو لکھتی ہے۔

”مجھے پتہ تھا کہ آپ کو میری نئی کتاب کا نام پسند نہیں آئے گا آپ لوگوں نے میرے ساتھ (Softness) کو اتنا وابستہ کیا ہوا ہے۔کہ ذرا بھی کھردرا پن برداشت نہیں۔مگر سارا پرابلم یہ ہے کہ میری اگلی کتاب کا مزاج خوشبو سے بڑی حد تک مختلف ہے اور ہوا برد (جیسا کہ آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا میری اپنی ہے)
16 اگست 1978ء
یہ کتاب بھی التحریر نے شائع کی۔
کتاب کا ٹائٹل معروف شاعرہ اور پروین کی ہم عصر محترمہ پروین فنا سید نے بنایا،کتاب لاہور ہی سے شائع ہوئی۔پروین علالت کے باعث کتاب کی رونمائی کے وقت موجود نہ تھی البتہ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد ناقدین اور ادباء اس کے بدلے ہوئے لہجے پر ضرور چونکے۔اس کتاب کے دیباچے میں ہی اُس نے اپنے قارئین اور اہلِ ادب کے ذہنوں پر ایک دریچہ وا کیا۔

”سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو علامتوں کے سپرد کر دی جاتی ہے“
وہ پروین جس نے ہمیشہ اور ہر بات میں ابلاغ سے بھرپور تاثر قائم کیا اس بار،بالواسطہ اور بین السطور میں بڑی سے بڑی سچائی کو اپنے شعروں میں سمویا۔جس وقت صد برگ طبع ہوئی تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جا چکی تھی،پابندی اظہار کے باوجود اس نے اس سانحے کو غیر شعوری طور پر کئی شعروں میں رقم کیا ہے اور ایک نظم روزِ سیاہ میں اس سانحے کی بھرپور لفظ کشی کی ہے۔

ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہونے کی وجہ سے تخلیق کار محض علامتوں کی مدد سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے یا وہ بھی نہیں کر سکتے تھے دوسری جانب ادباء کا ایک گروہ مزاحمتی ادب تخلیق کر رہا تھا،پروین نے اس مشکل وقت میں بھی ایک نئے لہجے کے ساتھ اُس صورتحال کی ترجمانی کی۔
ایک بار اُس نے کہا تھا کہ وہ اس پر لکھنا چاہتی تھی مگر سرکاری نوکری کی وجہ سے وہ کھُل کر اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکی اس بات کو اس نے یوں بھی کہا تھا کہ
”سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو علامتوں کے سپرد کر دی جاتی ہے اور جس معاشرے میں قدروں کے نمبر منسوخ ہو چکے ہوں وہاں نیکی کی نصرت کو کون آئے“
دوسری جانب اُس کے اظہار کی سب سے طاقتور قوت ”عشقیہ نظمیں“ جن میں بے پناہی،جمالِ ہم نشیں،نکِ نیم (A woman's pride) اور پذیرائی اپنی جگہ بے پناہ نمو یافتہ نظمیں ہیں بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ پروین کا تعلق اہل تشیع فقہے سے ہے مگر اُس نے اس بات کا اظہار اُس طور سے نہیں کیا کہ اس کے مداحوں اور قارئین پر جو ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اُن پر کسی طرح سے اُس کی اپنے مسلک اور عقیدے سے محبت اور وابستگی کا اظہار گراں گزرے۔

صد برگ سے قبل خوشبو میں بھی اُس نے کہیں کہیں کربلا کے استعارے استعمال کئے ہیں مگر پروین کے لہجے کی ازلی چاشنی نے اُس کو کسی مخصوص فکر کا نمائندہ بننے سے بچاتے ہوئے حق اور خیر کا عَلَم بردار بنا دیا ہے جو ایک عالم کی آواز میں تبدیل ہو گیا ہے۔

جیسے پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے

ہَل منِ ناصر ینَصُرنا! وہ الفاظ جو امام عالی مقام نے عصر عاشور دشمنوں میں گھرِ کر ادا کئے۔
پروین نے گُل صد برگ میں اُس عظیم ہستی سے خود کو وابستہ کر کے زندگی کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔اِس نے اسی پس منظر میں لکھی گئی ایک نظم ”وَ اُوفوبعھدلُ۔شامِ غریباں اور ادرکنی میں اہل بیت سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔اُس کی نظروں میں بارہا کھلے ہوئے سروں،جلے ہوئے خیموں اور ردائے عفت اوڑھانے والے بریدہ بازوؤں کا ذکر ملتا ہے۔وہ کربلا کی شیر دل خاتون کے وسیلے سے اپنی بے گناہی کو رقم کرتی اور ان کے ذکر سے بے پناہ طاقت پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔


کوفہ عشق میں میری بے چارگی
اپنے بالوں سے چہرہ چھپائے ہوئے
ہاتھ باندھے ہوئے سر جھکائے ہوئے
یا غفور الرحیم
الرحیم یا غفور الرحیم!

 اُس کی شاعری کے زبردست مداح بھی اُس کے پہلے مجموعہ کلام کے مقابل صد برگ کو وہ مقام نہیں دیتے جو خوشبو کو نصیب ہوا۔پروین خود اپنے کلام کے بارے میں کہتی تھی کہ جو کچھ میں نے صد برگ میں لکھا لوگ مجھ سے اُس کی توقع نہیں کر رہے تھے وہ ایسی ہی شاعری پڑھنا چاہتے تھے جیسی خوشبو میں پڑھ چکے تھے اور یہ بات حقیقت ہے کہ صد برگ لکھتے ہوئے مجھ میں ڈپریشن زیادہ تھا۔

جبکہ ناقدین نے صد برگ میں اُسے ایک رجحان ساز شاعرہ قرار دیا اُس نے اپنے کومل،میٹھے اور نمو یافتہ لہجے کو کبھی بھی نعرہ بازی نہیں بننے دیا اور زندگی کے مشکل ترین حالات کو شاعری بنایا اس سلسلے میں اُس کے ہم عصر بہت پیچھے رہ گئے۔
گھٹن کا احساس لکھتے ہوئے پروین نے ایک لطیف طنز کا پیرا یہ اختیار کیا۔

کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اُٹھاتے ہیں
تراش کر جو زبان کو قلم اُٹھاتے ہیں

اُس کے تہذیب یافتہ بیان پر نقاد حضرات بھی اُس کے الفاظ کو برتنے کے سحر میں گرفتار ہو گئے اور یہ کہنے پر مجبور بھی کہ وہ نابغہ روزگار نہیں (Genius) نہیں لیکن ان سے برتر کوئی چیز ہے۔

(نظیر صدیقی،پروین شاکر فکرو فن)۔پروین کی موزوں طبیعت پر کرب تخلیق اس انداز سے وارد ہوتی کہ فیض احمد فیض نے کہا ہم نے ساری عمر اتنی غزلیں نہیں لکھیں جتنی پروین کے ایک دیوان میں ہیں جس پر صادقین نے کہا تھا۔
پروین زیادہ لکھتی ہیں اور اچھا لکھتی ہیں۔
اور سب سے دلچسپ اور عجیب واقعہ تو یہ ہے کہ پروین کے بعد آنے والی بیشتر شاعرات خود کو لاشعوری طور پر پروین شاکر ہی سمجھتی ہیں۔
بہرحال یہ بھی اُس کا ایک کارنامہ ہے کہ اُس کے کلام کو ایک صدقہ جاریہ کی طرح اذہان کی تربیت کا شرف بھی حاصل ہو رہا ہے۔اور اس سے متاثر ہو کر لکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔برصغیر کی کلاسیکل شاعری سے پروین تک آتے آتے شاعری نے لیلیٰ صفت لیلیٰ کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی جو بنا ڈالی اور پسِ لفظ دیکھنے کی جو روایت قائم کی اُس نے نئی نئی تراکیب خوشبو سے کفِ آئینہ تک مسلسل برقرار رکھیں اور بلاشبہ ریاضتیں حسنِ لطافت،کفایتِ لفظی اور سب سے بڑھ کر غزلِ مسلسل کی بہاریں نظر آتی ہیں۔

پھولوں کے دکھ،چاہت میں بھیگے جنگل اور ان میں مور بن کر ناچتے رہنے والے بدن دکھائی دیتے ہیں۔ہوا میں دعائیں لکھتی انگلیاں،سماعتوں کی زمین پر پھوار کے موسم تنہائی کے زہر سے چٹانوں کے نیلے پڑتے ہوئے بدن سنہری رنگ میں نظر آتے ہیں اور اگر تعصبات سے بالا تر ہو کر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پروین نے مغرب سے آنے والی ہوا کو گلے نہیں لگایا محض مشرق کی چادر کو اوڑھ لینے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اپنے لیے ایک الگ شناخت بنائی اور ایک علیحدہ اسلوب وضع کرنے میں کامیاب ہوئی۔

صد برگ میں بھی اُس نے جمالیاتی نقطہ نگاہ سے تجربے کو نظم کا حصہ بنائے رکھنے کی روایت برقرار رکھی بلکہ نئے نئے افق دریافت کرنے لگی اور سرتاپا جمال لہجے نے ناہموار زندگی اور گہری حقیقتوں کا ادراک اس انداز سے کیا کہ کتوں کا سپاس نامہ وجود میں آیا،قدروں کے نمبر منسوخ ہوئے،پڑوسی ملکوں کی شورہ پستیوں پر قلم اُٹھایا اور پھر دعائے نور پڑھنے کو ردِ بلا کا اسم جانا۔

اور رہا بے باکانہ اظہار کا معاملہ تو اُس نے نہ صرفِ محبت کے جذبے کو اعتبار بخشا بلکہ اُسے وقار سے بھی ہمکنار کیا۔کچھ شعراء اور ناقدین اُس کی شاعری اور شخصیت میں فروغ فرخ زاد کی پرچھائیاں محسوس کرتے ہیں جبکہ اُس نے خود کو یونان کی سیفو اور ہندوستان کی میرا کے ہم قافلہ قرار دیا۔
تمام شخصیات کا ایک ہنر تو یہ ہے کہ وہ غیر روایتی لہجے کی مالک ہیں اور صداقت کی متلاشی،جہاں بھی صداقت کا آئینہ پاتی ہیں اسے اپنے شعوری عمل کا حصہ بنا کر تخلیق شعر کرتی ہیں۔

خود کلامی پارہ کا تیسرا مجموعہ کلام ہے جو 1986ء میں شائع ہوا اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بعد از مرگ اس کا ترجمہ جاپانی زبان میں کیا گیا۔اس کتاب کا انتساب اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے مراد کے نام لکھا یہ وہ دور تھا جب اُس کی زندگی چند فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔وہ درس و تدریس کے شعبے کو خیرباد کہہ کر سول سروس جوائن کر چکی تھی،یہ مجموعہ کلام جسے اُس نے خود (Leslie Levin) اور بیدار بخت کی معاونت سے انگریزی زبان میں (Talking To Oneself) کے نام سے شائع کیا پروین کی نئی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اُس کی شاعری پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوئیں اور اس نے کہا۔


ہندسے گدھ کی طرح دن مرا کھا جاتے ہیں
حرف ملنے مجھے آتے ہیں ذرا شام کے بعد

صد برگ میں اُس نے ماورائے ذات کے اُفق پر ایک دریچہ وا کیا تھا وہیں اُس کی تنہائیوں کی جھلک بھی صاف دکھائی دے رہی تھی مگر وہ تنہائی سنجوگ کے باوجود اسے اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھی جبکہ خود کلامی میں اُس کی تنہائی کا انداز جدا گانہ ہے۔
وہ اس اجتماعی تنہائی کا شکار ہے کہ جو ہر باشعور انسان کے لیے سوہان روح ہے۔خود کلامی کی ایک نظم میں اس نے اپنی تنہائی کو ہشت پایہ تنہائی سے تعبیر کیا۔

”چہ کنم“
بے بسی کے رستے پر
کیا عجب دوا رہا ہے
ایک سمت بے سمتی بے چراغ تاریکی
بے لباس ویرانی
بے لحاظ رُسوائی
بے سواد قربانی
ہشت پایہ تنہائی
اژدری پذیرائی
گُرگ زاد غم خواری
بے کنار روباہی
اور دوسری جانب
قلعہ بند چاہت میں
دل کی آبرو ریزی!

اُس کی یہی تنہائی جو ذات سے شروع ہو کر ایک اجتماعی تنہائی اور غمِ جہاں میں تبدیل ہو جاتی ہے

وہی تنہائی،وہی دھوپ،وہی بے سمتی
گھر میں رہنا بھی ہوا راہگزر میں رہنا

خود کلامی کے بارے میں اُس نے کہا تھا کہ اسے لکھتے ہوئے میرے اندر ڈپریشن بہت تھا لگتا تھا کہ تنہائی کبھی ختم نہیں ہو گی“ (ملاقاتوں کے بعد)
احمد سلیم (صفحہ 301)
لیکن خود کلامی کی بیشتر نظمیں مامتا بھری نظمیں،خود کلامی کو اور بھی مزین کر دیتی ہیں بقول محترمہ خالدہ حسین اُس کی مامتا بھری نظمیں پڑھ کر ڈی ایچ لارنس کی سنز اینڈ لورز (Sons And Lovers) یاد آ جاتی ہے۔

(خوشبو کی ہم سفر صفحہ 130)
پروین نے اس مجموعے کا انتساب بھی مراد کے نام لکھا ہے اُس کی طلسماتی فضا جو خوشبو اور صد برگ میں مسلسل قارئین کو ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہے وہیں خود کلامی میں جنگل کا استعارہ بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے مگر اس کی محبت بھری فطرت پر جلد ہی مامتا غالب آ جاتی ہے اور وہ کہتی ہے۔
تیری موہنی صورت
ہاں مجھے نہیں پرواہ
اب کسی اندھیرے کی
آنے والی راتوں کے
سب اداس رستوں پر
ایک چاند روشن ہے
تیری موہنی صورت مگر پروین لائق مبارکباد ہے جس نے دنیا کے بیشتر علوم سے اکتساب کیا،سیاسی حالات و واقعات بھی اثر انداز ہوئے۔
مگر اس نے اپنا نام اور مقام اپنے وضع کردہ اسلوب میں رہ کر قائم کیا۔ایک تنہا سیارہ اس کے فن کے اُوج کمال کی ایک دلیل ہے۔

”ایک تنہا سیارہ“
میری پیشانی کو دیکھ کے
میری ماں نے میرا نام
اک تارے کے نام پر رکھا
جگمگ کرنے والا
لیکن میری کیمسٹری میں
ایسا کوئی طلسم نہیں ہے
جو میری تقدیر کو جھلمل کر دے
میری مانگ میں اُس کے نام کی افشاں بھر دے
میں اپنے سورج سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر
کائنات کی بے اندازہ وسعتوں میں ہوں
ایک تنہا سیارہ ہوں

تنہائی کا احساس ابتداء ہی سے اُس نے بڑی خوبصورتی سے شعروں میں پرویا۔
لیکن شاید بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ اُس نے خود کلامی کا نام اپنے مجموعے کے لیے کیوں منتخب کیا۔
جن دنوں وہ کراچی کے عبد اللہ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھی،کالج میں ایک خوش وضع طالبہ ہمہ وقت اپنے آپ سے باتیں کرتی جس کا پروین کی حساس طبیعت پر گہرا اثر پڑا پھر اُس نے خود بھی اُس کا اعتراف کیا کہ ”وہ خود کلامی کرتی ہے اور یہ بات اسے اُس کے بیٹے نے بتائی ہے۔

(نعیم بخاری سے انٹرویو1994ء Stn)
خود کلامی کو آدمجی ایوارڈ اور ہجرہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا وہ محبت کی ازلی صداقتوں کے ساتھ زینہ بہ زینہ منہ قدم بڑھاتی اُس بند گلی میں داخل ہو گئی کہ جہاں ہر سمت سے اُس کی آواز پلٹ کر گنبد بے در میں صدا بہ صحرا کی طرح تحلیل ہو جاتی ہے۔مگر وہ اس تجربے کو بھی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

پھیلا دیئے خود ہاتھ طلبگار کے آگے
دیکھا نہیں کچھ ہم نے خریدار کے آگے

پروین نے خود کلامی کی ایک غزل منیر نیازی کی زمین میں لکھی اور اس کا اعتراف بھی کیا،ورنہ ہمارے ہاں کے بیشتر شعراء اپنی نام نہاد ساکھ بنانے،غیر معیاری کلام کی بے جا تشہیر اور سماجی روابط کے طفیل خود کو تخلیق کار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف کار نظر آتے ہیں،پروین کا اعتراف لائق تحسین بھی ہے۔
اورقابلِ تقلید بھی۔
منیر نیازی کا ایک شعر

میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اُس کو بسر اس نے کیا

منیر نیازی ایسے باکمال شاعر کی زمین میں شعر کہنا بہرحال ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں مگر پروین کی شاعری پر بات کرتے ہوئے وہ بھی یہ کہہ گئے ہیں۔
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے
غزل جو پروین کا محبوب ترین ذریعہ اظہار ہی اُس کے جادو کو بکھیرتے ہوئے اُس نے وہ منزلیں طے کر لی تھیں جہاں ذاتی اور غیر ذاتی محسوسات ایک ہی سکے کے دو رُخ بن جاتے ہیں جیسا وہ محسوس کرتی اُس طرح قلم کے سپرد کرنے والے رویئے نے اسے بہت زیادہ اعتبار دلایا۔

مگر وہ پلٹ پلٹ کر محبت کا بیان جابجا کرتی ہے محبت کے جس تجربے سے پروین دوچار ہوئی تھی اُس کی شاخیں بڑھ کر ایسے تناور درخت میں تبدیل ہوتی چلی گئیں جو اپنی زمین سے مکمل طور پر پیوست ہو کر نت نئی تراکیب اور بیان کی لطافت سے اذہان کو مسخر کرتا رہا ایسا نہیں کہ حقیقتوں سے آشنا ہونے کے بعد اُس کے لہجے کی چاشنی کم ہوئی ہو بلکہ اُس نے نئی حقیقتوں کا ادراک اور پلٹ کر دیکھنا بھی سیکھ لیا تھا۔


عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد

اُس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھتے بات تھی کچھ محال بھی

نشتر بدست شہر میں چارہ گری کی لَو
اے زخم بے کسی بھر جانا چاہیے

سب چراغ گُل کر کے اُس کا ہاتھ تھاما تھا
کیا قصور اُس کا جو بن میں رات ہو جائے

مجھ میں کچھ ایسی ہی خامی دیکھی اُس نے
ترکِ وفا ورنہ اتنا آسان نہیں

ایسے لاتعداد اشعار ہیں کہ لکھتے چلے جائیں اور اس دعویٰ پر دلیل ثبت کرتے جائیں کہ پارہ نے محبت کے حادثے سے گزر کر تجربات کے کندن میں تپ کر محبت کے تجربے سے جانبر ہونا سیکھا اور اس کے وجدان کے ساتھ ساتھ گہری بصیرت نے بھی نئے آسمانوں کو مسخر کیا وہ سب کچھ جانتی ہے پھر بھی محبت کے تصور کے بغیر زندگی کا حسن ماند پڑتے دیکھتی ہے۔


طائر جاں کے گذرنے سے بڑا سانحہ ہے
شوقِ پرواز کا ٹوٹے ہوئے پر میں رہنا

وطن سے اُس کی محبت ایک عمومی رویہ ہے جو جابجا اور غیر شعوری طور پر اس کی شاعری کا حصہ بنا وہ دنیا کی ہر نعمت پانے کے باوجود اپنی روایات سے جڑی رہی اور اسے تمام اقدامات کی حوصلہ شکنی کرتی رہی جس سے وطنِ عزیز کے وقار کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
وہ مادرِ وطن جس کے وجود سے اُس کا ہونا وابستہ ہے۔

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

پارہ جن دنوں (Harvard) یونیورسٹی میں اپنا ایم پی اے مکمل کر رہی تھی اُس دوران اسے اپنے مقالے (Thesis) کے ساتھ ایک فلم دکھانا لازمی تھا پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ قائم کیا گیا،وہ فلم پیش کرنے سے قاصر رہے جبکہ کورس انچارج نے ہندوستانی فلم دکھانے پر اصرار کیا۔
مگر پارہ اپنے موٴقف پر ڈٹ گئی کہ ہماری شناخت اور ریاست ایک علیحدہ شکل میں وجود پا چکی ہے اور ہمیں ایک مملکت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب اسے قومی رہنماؤں سے جو عقیدت ہے اس کی چھاپ اس کی شاعری میں شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

ہم بے ہنروں کی زیست پل بھر
اقبال کی زندگی دوامی

پارہ کی زندگی میں شائع ہونے والا آخری مجموعہ کلام انکار!
کون جانتا تھا کہ ٹھیک چار برس کے بعد وہ ادبی منظر سے ابدی سفر پر روانہ ہو جائے گی۔
پانچ برس کے وقفے سے وہ پندرہ برسوں میں چار مجموعہ کلام لئے گلشنِ ادب میں ایک ایسی باغبان کی مانند دکھائی دیتی ہے کہ جس کے گلشن میں ہر طرح کے پھول ہیں اور کوئی بھی پھول ایسا نہیں کہ جس کی خوشبو نے مشامِ جاں کو معطر نہ کیا ہو اپنی مدتِ زیست میں شائع ہونے والے آخری مجموعہ کلام کا یہ نام رکھنے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا ”ہار ماننے سے انکار“ انکار اُس نے بیگم پروین قادر آغاز کے نام معنون کی۔

پارہ کو بھارتی نجومی نے بتایا تھا کہ وہ چار کتابیں ہی لکھ پائے گی مگر اُس نے اپنی قوتِ ارادی کو مجتمع کرتے ہوئے اپنی کلیات شائع کی۔اُس کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اُس نے اچانک ایک نئے مسکن کی جانب رُخ کیا۔
پروین کی شاعری میں اب مات کا رنگ واضح تھا جبکہ محبت اب بھی اُس کے ازلی رویے مکمل سپردگی کے روپ میں موجود تھی اور ممتا سے لبریز نظمیں اپنے عروج پر،مگر زمانے کے سرد و گرم سہتے سہتے جب تخلیق کار اُس منزل پر آ جاتا ہے کہ جب سوائے سچائی کے اور ادراک کے کچھ باقی نہیں رہتا تو پروین نے ایسے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کر دیا جو اُس کے وجود کی نفی کرنے لگے۔
انکار سے قبل اُس نے اپنے کسی مجموعہ کلام میں بھی نظموں،غزلیات اور نثری نظموں کے علیحدہ باب میں ترتیب نہیں دیا تھا،اس مجموعے کی خاص بات نثری نظموں کا الگ باب میں بھی جمع کرنا تھا۔پروین کی سوچ کا دائرہ اور بصیرت بے حد وسیع ہو چکے تھے۔اُس نے چار برس کے وقفے کے بعد نیا مجموعہ کلام شائع کیا وہ تو بے حد نمو یافتہ لہجے کی حامل ہو چکی تھی اور کیوں نہ ہوتی ایک سچا تخلیق کار ہی متنوع تجربوں کے درمیان ایک نئے لہجے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
وہ ابتداء میں پھولوں سے معطر باغ میں نئے پھول کھلانے آئی اپنے خوابوں کے شہزادے کو وچن دیئے اور یہیں اُس کی ملاقات اپنی زمین پر بہنے والے خونِ ناحق سے ہوئی تو اس کا گہرا بسنتی جوڑا ماتمی لباس میں تبدیل ہو گیا۔یہ باغ اُس کے لیے نئی دنیاؤں میں قدم رکھنے اور ہر قدم پر حیرتوں کے دروا کرنے کا وسیلہ بن گیا اپنے آپ میں سلگتے رہنے کے دوران جب پھول سے چہروں اور نازک کاندھوں پر غمِ روزگار کا بوجھ دیکھا تو اُس نے ان بدصورت حقائق سے نظر چرانے کے بجائے اسے اپنی ذات کا حصہ بنا لیا۔


”ندامت“
میری تمام نظموں کا انتساب اب تک صرف میرے اپنے نام رہا
اور میں خود کو محبت کی شاعرہ سمجھ کر
خوش ہوتی رہی
میں نے کوڑے کے ڈھیر پر بلی کی طرح چلتا ہوا بچہ نہیں دیکھا
میں نے اینٹ کا تکیہ بنا کر سوتا ہوا راج نہیں دیکھا
راج سے میرے ذہن میں
ہمیشہ راج نہیں آئے
اور بچوں سے تازہ گلاب
میں کیک کو روٹی کا متبادل سمجھتی رہی
میرے بچے
میرے راج
ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا

اُس کی نثری نظمیں بالخصوص تمام مجموعوں سے زیادہ بلیغ اور پر معنی دکھائی دیتی ہیں۔

بشیرے کی گھر والی،ٹماٹو کیچپ،اسٹیل ملز کا ایک خصوصی مزدور،ایک مشکل سوال اور سمجھداری کی ایک نظم کو پڑھ کر پروین کے مداح خاصے حیران ہوئے تھے مگر یہ حیرت انتہائی خوشگوار تھی انکار کی غزلیات کا حصہ کلاسیکی روایت سے مربوط اور نئے تجربوں کا بیان ہے۔وہ جب اپنی تنہائیوں کی قتل گاہ میں داخل ہوتی ہے تو اسے روتے ہوئے گریہ کرتے ہوئے یاد آ جاتا ہے اُس کا محبوب کتنا خوش نام ہے۔
مُراد کو وہ اپنے لیے الاؤ کی طرح محسوس کرتی ہے کہ جس کی موجودگی سے بھیڑیے اُس سے دور رہتے ہیں۔وہ ایک ایسی ماں کے روپ میں نظر آتی ہے کہ جس کی قسمت میں تنہائی ہے مگر وہ مایوس نہیں ہوتی اپنے بچے کو محبت اور نیکی کے کلمے سکھاتے ہوئے اُسے آنکھیں کھلی رکھنے کی بھی تلقین کرتی ہے اور یہیں کئی برس پہلے اُس نے مراد کے لیے کسی ”خوش لمس دستِ یاسمین کی پیشنگوئی بھی کی تھی۔
انکار صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ماہ تمام کی حیثیت رکھتی ہے۔خود کلامی کے بعد کچھ ناقدین نے یہ کہا تھا کہ اب وہ مزید نہیں لکھ پائے گی مگر جب انکار طبع ہوئی تو پروین کی (Down To Earth Policy) کام آئی اُس نے خاموشی سے تمام اعتراضات کا جواب اپنے شعر وں کے ذریعے دیا۔
انکار کے متنوع تجربے بڑے غیر متوقع تھے ایک جانب وہ شہر میں ہونے والی نمائش میں اپنے زخموں کا بیوپار دیکھتی ہے تو دوسری جانب کلفٹن کے پُل پر شہر کی الیٹ کا احوال لکھتی ہے اُس کے لیے پڑوسی ملک چین کی چھوٹی سی بچی کا رویہ ناقابل فراموش ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ”محبت بیان نہیں رویہ ہے“
وہ اپنے ہم پیشہ افسران کی مجبوریوں پر لطیف طنز کرتی اور درونِ ذات کے شہر ہزار در کو پانے کے بعد اپنی ہم عصر شاعرات کی بے بسی پر اپنے روایتی لہجے سے ہٹ کر بڑے دوٹوک انداز میں اعلان کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد شاعرات کو عجائبات اور مرد اُسے اپنا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جو بات اُس کے لیے سب سے بڑھ کر ہے وہ یہ کہ وہ جلے ہوئے گھروں میں خوابوں کا نگر ڈھونڈتی ہے اُسے اُن ہستیوں کی بڑی قدر ہے جنہوں نے دنیا کے امن کی خاطر زندگی پر کھڑکی بھر تصرف کیا وہ سندھو دریا کے بہتے رہنے اور تاریخ میں اپنا نام اونچا رکھنے کے لیے مسلسل دعاگو ہے۔
وہ اُمید وبیم کا شکار ہے کہ ہم سے بعد میں آنے والی نسلیں جب ہمیں ہڑپہ کی طرح تلاشیں تو ہمارا نسب نامہ بہت ہرا بھرا ہو وہ دھرتی کو شاد،آباد اور دریاؤں کو ہمیشہ بہتے رہنے کی خواہاں ہے۔
پارہ کے ایم۔ پی۔ اے کے انچارج پروفیسر مارون کا کہنا تھا کہ وہ سیاسیات میں بہت دلچسپی لیتی ہے حالات حاضرہ سے متعلق اس کی وسیع معلومات ہیں اور وہ دنیا کے کئی ممالک کی سیاست کر چکی ہے۔
مگر اُس کے لیے باعث تسکین صرف اس کا اپنا دیس ہے اُس دیس کی محبت اس کو دیارِ غیر میں ہر راحت،اور آسائش کے باوجود ستاتی ہے۔
اور اس کا فن شاعری جس میں سب سے توانا اظہار تھا کے بارے میں کہتی تھی
ہم نے شعر لکھنے کی بہت قیمت چکائی اور بعض اہل قلم اپنا رول اس طرح ادا کرتی ہیں کہ اُن سے مرد بھی شرمائیں۔
نجانے پارہ نے یہ بات کس پس منظر میں کہی ہو گی مگر اس کا یہ شعر کسی درد کی گواہی ضرور دیتا ہے۔


آلودہ سخن بھی نہ ہونے دیا اسے
ایسا بھی دکھ ملا جو کسی سے نہیں کہا

حصہ (الف)
نظم سرد راتوں میں آتش دان کی حدتوں سے جلنے والے گلابی ہالے اور ان ہالوں کی لو سے در آتے خیال اور پارہ کی نظمیں مجھے ایک ہی زاویے سے محسوس ہوتے ہیں۔
جمیل،دلآویز Female World کی (Originality) کے ساتھ ساتھ زمان و مکان کو خود میں سموتے ہوئے اُس کا منفرد لہجہ ڈکشن،موضوع پر گرفت اور تجربے کو نظم لکھنے والے شعراء میں بہت زیادہ وقار بخشتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اسے اس روایت کے ہم قافلہ بتا دیتا ہے۔
جس میں شاعروں کے شاعر مجید امجد نے لفظیات کا نیا جہاں آباد کیا۔فیض،ن م راشد،اختر الایمان سے لے کر جدید دور کے نامور شعراء تک کی نظم نگاری نے گلشن ادب کو معانی آفرینی عطا کی وہیں پروین کا دیوان دھیان کی رحل پہ بصد مفہوم کھلتا ہے۔
عجیب حسن اتفاق  ہے کہ پارہ نے جب شعر لکھنے کی ابتداء کی تو نظم سے!جنگِ ستمبر کے حوالے سے 6 ستمبر1966ء کو اُس نے باقاعدہ لکھنا شرو ع کیا اور دامن ادب کو اپنے آبدار تخیل سے پہلی بار و شناس کروایا گو کہ پروین کا حسنِ بیان فیض کی طرح نظم اور غزل دونوں اصناف،میں مکمل گرفت اور کامیابی سے حُسن بیان لئے ہوئے ہیں۔
اُس کا تعلق اُس نسل سے ہے جو بہت بچپن میں کتاب سے محبت کر بیٹھتے ہیں،علم ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے اور اس عمل میں تخلیق چاروں اور سے پھوٹتی ہے۔
اُس کی ابتدائی نظموں میں قلبی وارداتیں اور ان کا بیان مسلسل ایک تواتر سے وارد ہوتا ہے،درونِ ذات کی کشمکش اپنی آگ میں جل بجھنے کی راتیں خوابوں کے غلبے سے لے کر فطرت کی آغوش سے ہم آہنگ  ہونے کے منظر جابجا دکھائی دیتے ہیں۔
اسے ابتداء ہی سے ہی ایسے اساتذہ میسر آئے جنہوں نے کلاسیکیت کی دولت کو اس کے آنچل سے باندھ دیا۔انہی ناموں میں ایک نام پروفیسر عرفانہ عزیز کا بھی ہے جنہیں وہ پیار سے ’’مس‘‘ کہا کرتی تھی اور وہ اسے اپنی ذات کی ایکسٹینشن قرار دیتی تھیں۔
انگریزی ادب کی طالبہ ہونے کی وجہ سے اس کے کلام میں جدیدیت کی جھلک اور دیگر زبانوں کے علوم سے اکتساب کے ساتھ کلاسیکیت کا امتزاج لئے ہوئے ہے مگر بیان کا حسن خالصتاً اس کے جذبوں کی نیک کمائی ہے جسے ہم آمد کہتے ہیں۔

اس کے دنیا میں آنے کا سن 1952ء ہے جو کہ زہرا نگاہ کے دنیائے ادب میں وارد ہونے کا سال بھی ہے۔اُس نے اپنے تمام پیشروں اور ہم عصروں سے بہت جدا گانہ انداز اختیار کیا اور اسی امتیاز نے اس کی زندگی میں ہی بہت معتبر شاعرہ کے تاثر کو وقار بخشا۔
وہ ادا جعفری اور زہرا نگاہ کی حیا،فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کی جدت و ندرت کے درمیان یوں سر اُٹھا کر چلتی ہے کہ جیسے کسی چارہ گر کو نسخہ کیمیا ودیعت ہو جائے۔

اوّل الذکر تمام شاعرات کی مسلمہ الثبوت حیثیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار کی جرأت نہیں کر سکتا مگر یہ بھی عجیب بات ہے کہ کسی میں پروین کی فنی قامت کم کرنے کا تصور بھی محال ہے۔
جذبے کا حسن اور اس جذبے کو تجربے کی شکل میں بیان کے جادو کا دیدہ زیب جامہ عطا کرنا پروین کو سراپا شاعرہ منوانے میں معاون ثابت ہوا۔
وہ ردھم میں رہتی،ردھم میں سوچتی اور ردھم میں لکھتی رہی اسی ردھم اور موسیقیت کو خالدہ حسین نے اُس کے فن پر لکھی گئی سلطانہ بخش کی مرتب کردہ کتاب ’’خوشبو کی ہم سفر‘‘ میں یوں رقم کیا ہے۔

’’اثناء عشری گھرانوں میں اشعار غیر شعوری طور پر لفظیات کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں میر انیس کی مرثیہ نگاری دلوں میں اس طرح گھر کر لیتی ہے کہ ایک طرح سے گفتگو کا حصہ بن جاتی ہے۔ص130-131
دوسری جانب پارہ  کا ادبی پس منظر اور خدا کی دین کہ جس نے اُس پر لفظوں کی کائنات کو آسان کیا اور اُس کی دعا کو یوں قبولیت کی خلعت پہنائی اور اسے شہر ہزار در کا اسم عطا ہوا۔
اُس پر اس کا گہرا ادراک جو اسے لیلیٰ صفت لیلیٰ سے سوا خود آگاہ فنکارانہ انفرادیت سے ہمکنار کرتا ہے۔
خوشبو کی اشاعت کے بعد نقاد حضرات یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ پارہ کا بھرپور نسائی لہجہ مستقبل گیر لہجہ ہے انگاروں کی طرح سانس لیتا ہوا اس کا ذہن رسا،تازہ کاری،نئی نئی امیجریز استعارے اور مظاہر فطرت سے اُس کی ازلی ہم آہنگی نے اسے وہ وقار بخشا کہ صدیوں کی متروک شدہ اساس محبت کو ابلاغیت کا گھر نصیب ہوا۔
محبت کے لرزیدہ سراپے کو اُس نے اپنے جذبوں اور تخیل کی ردائےعاطفت میں یوں چھپایا کہ زمانے ششدر رہ گئے اس کا کومل،میٹھا اور اپنے حصارمیں قید کر لینے والا لہجہ بہت ابتدائی دنوں میں اپنی اڑانوں سے آگاہ کر چکا تھا۔اُس کی ہری سوچوں اور روشن فکر نے مغرب اور مشرق کا ایک ایسا امتزاج پیدا کیا  کہ جس نے سوچ کے دھارے کو اس کا رجحان ساز لہجہ عطا کیا۔
دیرپا،توانا،اور ذہن کے دریچوں پر پھوار کی طرح برستا ہوا جاں فزا احساس،مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ جتنی باشعور تھی اتنی ہی حساس بھی تھی۔
اُس کی حساسیت ابتدائی نظموں میں ایک معصومانہ حیرت تو آگے چل کر حد سے زائد بے رحم بصارت میں تبدیل ہوتی گئی۔
اُس نے خوشبو کی ایک نظم تنقید اور تخلیق میں اپنے نصب العین کو یوں واضح کیا تھا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کا فن جواں ہونے سے قبل ہی بوڑھا ہو جائے۔

زندگی کے ساتھ اُس کے لگاؤ نے اُس کے تخلیقی ذہن کو جلا بخشی اور پھر اُس کے بنیادی موضوع یعنی جذبہ محبت نے تازہ کاری اور سادگی سے دلوں میں تاج محل تعمیر کر لیے۔
غالب کا ایک شعر کہ جس میں پروین کے فن کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے۔

سادگی  و پرکاری بے خود وہشیاری
عشق کو تغافل میں جرأت آزمایا

اگرچہ غزل پروین کا پسندیدہ ذریعہ اظہار رہ�

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra