13 Episode - Adab Baraye Zindagi - Para Para By Nusrat Zahra

تیرہواں باب ۔ ادب برائے زندگی - پارہ پارہ - نصرت زہرا

ادب مشرق کا ہو کہ مغرب کا،مزاحمتی ہو کہ غیر مزاحمتی،ادب کہلانے کا حقدار صرف اُسی صورت میں قرار پاتا ہے جب زندگی سے قریب تر محسوس ہو۔
اردو ادب میں بھی کئی صدیوں سے مختلف تحریکوں کے زیر اثر ادب ظہور پذیر ہوتا رہا فروغ پاتا رہا۔کبھی یہ تحریک سیاسی عوامل کی کارفرمائی تو کبھی رومانی اور کلاسیکیت کے زیر اثر ہوئیں مشرق و مغرب دونوں نے ہی ان تحاریک کے نتیجے میں ادبی سرمائے کو جنم دیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ جذبے اور تحاریک ادب کا باعث ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

انسانی مزاج تغیر پذیر ہے یہی وجہ ہے کہ ادب میں بھی اس مزاج کو محسوس کیا جا سکتا ہے البتہ زندہ و جاوید ادب کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔جسے زمانے،تحاریک،نظریات اور میزان و میعارات سے بالا تر ہو کر دیکھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

غالب جو اب تک درست طور پر دریافت نہیں ہو سکا اپنے عہد میں زمانے کی سختیوں اور قدر ناشناسی کا شکار رہا لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جب غالب کی مخالفت کے بادل چھٹ گئے تو غالب پرستی کا آغاز ہو گیا۔

غالب کی ممتاز حیثیت کے پس منظر میں اُس کے وہ خیالات ہیں جو غیب سے اُس پر لفظوں کی کائنات کو آسان کرتے رہے۔یہی معاملہ میر،اقبال اور فیض کا ہے۔
یہی روایت آگے بڑھی تو بات پروین شاکر پر ٹھہری جو بلاشبہ صاحب اسلوب تخلیق کار کے طور پر ہر دور میں زندہ رہے گی۔پروین کے اہل خانہ میں کئی شعراء تھے۔اُس کے نانا،والد،اور بھائی کلاسیکیت سے اس کے گہرے لگاؤ نے اسے میرا کے ہم قافلہ بنایا دیگر زبانوں کا اکتساب وہ ہنر ہے کہ بادی النظر میں کسی دوسری پروین کا تصور بھی محال ہے!
اگرچہ وہ کسی قسم کی ادبی رومانی،سیاسی اور سماجی تحاریک سے یوں وابستہ نہیں رہی جیسا کہ ہمارے ہاں کے اکثر ادیب اپنی پہچان اور شناخت میں امتیاز کی خاطر اختیار کرتے ہیں۔
بالخصوص ترقی پسندوں کا گروہ جو مزاحمتی ادب کا خالق ہے اور جو نظریاتی شاعری کا دفاع کرتا ہے۔دوسری جانب رومانیت کے پیشرو ہیں جو زندگی کے لطیف پہلوؤں کو ادب میں چراغ راہ کی طرح اختیار کرتے ہیں اور اسی آئینے میں اپنا عکس ڈھونڈتے ہیں۔
رُجحان ساز ادباء اور نابغۂ روزگار تخلیق کار جو اپنا اسلوب خود وضع کرتے ہیں ادب اُن کے لیے زندگی کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ ہوا کرتا ہے جیسے سانس لینا زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے اسی طرح بعض تخلیق کاروں کے لیے ادب کی حیثیت بھی ہے۔

پروین نے کل بیالیس برس اور بتیس دن کی عمر پائی جس میں 27 ستائس برس مکمل طور پر ادب کے لیے وقف رہے وہ محض پندرہ برس کی عمر سے شعر کہہ رہی تھی،نثر لکھ رہی تھی اور مسلسل مطالعے کو اس نے اپنا شعار بنا رکھا تھا ملکی اور بین الاقوامی سطح کی کانفرنسز میں وہ اپنے مقالے پیش کرتی رہی اور ادب میں اپنے فعال کردار سے بھرپور زندگی کی۔
اُس نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کو اپنا روحانی باپ اور استاد کہا مگر کبھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں رہی پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اس نے مرکزی دھارے میں شامل ہونا پسند نہیں کیا۔
اُس کی شاعری میں موجود نسائی محسوسات و تجربات کی لمحہ بہ لمحہ روداد،اور دلنشین پیرایۂ اظہار کے باعث اسے طبقہ نسواں میں بے حد سراہا جاتا ہے۔لیکن وہ کسی تحریک نسواں کا حصہ نہیں رہی اور آج 27 برس کے بعد بھی وہ پوری آب و تاب کے ساتھ مسلسل ایک سفر میں ہے زندگی میں جو سفر اُس نے طے کیا وہ بھی روشنی کی رفتار سے کم نہ تھا۔اُس نے جس دور میں طبع آزمائی کی وہ دور انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔
دنیا بھر میں فاشسٹوں اور ڈکٹیٹرز کے خلاف عوام کے جذبات کو بیدار کرنے کے لیے ترقی پسند مصنفین اپنے حصے کی شمعیں فروزاں کر رہے تھے۔اپنی سر زمین سے محبت اپنے لوگوں کا ساتھ ناانصافیوں کے خاتمے کی جدوجہد اس تحریک کا شعار تھا۔وطن سے بڑھ کر کوئی اور جائے پناہ بلاشبہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔لیکن اس تحریک نے اپنا رشتہ روحانیت اور زندگی کی دیگر لطافتوں سے یکسر توڑ کر محض ادب میں معروضی نقطۂ نظر کو فروغ دیا اور زندگی کا حُسن پس پشت ڈال دیا گیا۔
گویا ہر وہ تحریک یا نظر یہ جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتا،ہمہ گیر جامع اور مستقل حیثیت کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب اس تحریک نے عقلیت (Rationalism) اور حقیت نگاری Realism کو باہم ملا دیا،بقول ڈاکٹر انور سدید ترقی پسند تحریک نے اقبال کی رومانیت سے تخلیقی قوت اور جوش کی رومانیت سے بغاوت کا جذبہ حاصل کیا۔
(اردو ادب کی تحریکیں صفحہ 266)
پاکستان میں اشتراکی فلسفے نے بھی ادب کو کئی جہتوں سے متاثر کیا لیکن اس کے باوجود صاحبِ طرز شعراء اور ادباء نے اپنا اسلوب خود وضع کیا جیسے فیض نے مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں ایک تیسرے کردار یعنی رقیب کو بھی اپنے محبوب کے مقابل بٹھا کر نذرانہ عقیدت پیش کیا محبت کا یہ عجیب اور ناقابل یقین رویہ کسی تحریک کے زیر اثر نہیں لایا جا سکتا کیونکہ اس کی اپنی آزاد اور مسلمہ حیثیت ہے،اور اس سے انکار ممکن نہیں۔

آکے وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے لکھ کر فیض نے جس چراغ کو روشن کیا اس رویے نے نہ صرف سنگ میل کی حیثیت اختیار کر لی بلکہ سوچ کو ایک نیا زاویہ بھی نصیب ہوا وہیں دوسری جانب احمد ندیم قاسمی کا اسلوب تھا۔

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت میری عادت کر دی

پروین کے ہاں اگرچہ اس کی (Female world) نسائی دنیا کی (Originality) حقانیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے مگر اس نے اپنے ماحول اور عہد کی ترجمانی کی۔
1979ء میں ایک انٹرویو کے دوران احمد سلیم نے دریافت کیا۔
بظاہر خوبصورت لگنے والے اس زندگی یافتہ رومانس کی تہہ میں کہیں آپ متوسط طبقے کی وہی لڑکی تو نہیں جو محض گھروں کی دہلیز کی آڑ میں بدن کو (Preserve) کئے بیٹھی ہیں۔یہ شاعرہ سے ہٹ کر متوسط طبقے کی ایک لڑکی کا المیہ ہے کیا؟
پروین کا جواب تھا۔
مجھے پورا اعترف ہے کہ اور میں خوش ہوں کہ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہوں اس لئے کہ شاعری،ادب اور انقلاب تمام بڑے فنون،بڑی باتیں،اپر کلاس یا لوئر کلاس کی بجائے اسی طبقے سے آتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسی کا رویہ میرا رویہ ہو گا۔صرف اس کا اظہار مختلف ہو گا۔بات صرف یہ ہے کہ میں نے جو محسوس کیا ہے اسے بیان کیا ہے۔میں اپنے ہر احساس کو (Own) کرتی ہوں میری شاعری میں کہیں منافقت نہیں ہے۔
اور اگر پروین کی شاعری محبوبیت کی انتہاؤں تک پہنچتی ہے تو اس کا ایک سبب اس کی شاعری میں موجود حسن،خیر،نیکی اور تمنا کرتے رہنے کے ہنر کے ساتھ ساتھ آفاقی سچائیاں اور فطرت سے قربت کے ساتھ ساتھ اپنے تجربے کو ابلاغ بناتے ہوئے ایک اسلوب بھی موجود ہے اس نے ریزگی کو طاقت کے حصول کا ذریعہ بنایا یہ رویہ محض ادبی نقطہ نگاہ سے ہی قابلِ تقلید نہیں بلکہ زندگی پر ایمان لاتا ہوا اسے جینے کی خواہشات سے جوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ اپنی ذات تک محدود نہیں رہی اُس نے اپنی ذات سے لے کر غم جہاں اور ماورائے جہاں تک کا سفر طے کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو یقینا بے جا نہ ہو گا۔
کہ جتنا سفر اُس نے طے کیا یہ محض اُسی کا خاصہ تھا۔وہ کسی مخصوص نظریے کے بجائے محض ادب کے ساتھ (Committed) رہی اس کی اسی کمٹمنٹ نے اسے صدیوں تک زندہ رہنے والا نام عطا کیا۔اج دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں جہاں جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے پروین کے کلام کو تمثیل کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔پروین نے شاعری ہی اپنے تخلیقی ورثے میں نہیں چھوڑی بلکہ نثری سرمایہ بھی اس کے فن پر لکھی گئی کتابوں میں محفوظ ہے پروین نے گوشہ چشم کے عنوان سے کالم لکھے جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔
کالم کی ابتداء شاعری چھپنے سے قبل ہی ہو چکی تھی روزنامہ جنگ میں جمعہ کے روز فریاد کچھ تو ہے کے زیرِ عنوان کالم تحریر کئے جبکہ یونیورسٹی کے میگزین میں شہر سے بارہ میل کے عنوان سے کالمز لکھتی رہی۔اس نے متعدد تخلیق کاروں کے فن پر مضامین بھی تحریر کئے،اور بھارتی نژاد برطانوی شاعرہ گیتانجلی کی البم کی منتخب نظموں کا ترجمہ بھی کیا۔
اپنی تیسری کتاب خود کلامی کا انگریزی ترجمہ (Talking To Oneself) کے نام سے اور احمد ندیم قاسمی صاحب کی نظموں کے بھی تراجم کئے۔نامور شاعر افتخار عارف نے اسے فروغ فرخزاد کی کتاب کا ترجمہ کرنے کا کام بھی سونپا جس کا عنوان "تنہا عورت" تھا۔ان کا خیال تھا کہ یہ ترجمہ پروین سے بہتر کوئی کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ایک تنہا عورت ہی تنہائی کا دکھ جان سکتی ہے۔
وہ ہارورڈ یونیورسٹی بغرض تعلیم گئی اور وہاں فاضل وقت میں جنوبی ایشیا کا ادب پڑھاتی رہی مطالعے سے اسے والہانہ لگاؤ تمام عمر رہا پروین ان گنے چنے تخلیق کاروں میں سے ہے جن کے فن پر پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء نے مقالے تحریر کئے۔لیکن پروین شاکر کو خود ہی پی ایچ ڈی کرنے کا جو جنون تھا وہ مکمل نہ ہو سکا۔قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمیشہ تعلیمی ریکارڈز میں ممتاز نظر آنے والی پروین کو جب پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرنے کا موقع میسر آیا تو زندگی کی مہلتیں ہی تمام ہو گئیں۔
نامور شاعر سلیم احمد نے کس خوبصورت پیرائے میں پروین شاکر کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔"پروین شاکر کی شاعری ذاتی تجربے کی صداقتوں کی شاعری ہے۔یہاں روح شاعری اپنے آتشیں لباس میں اتنی محسوس ہوتی ہے کہ آپ اسے چھو سکتے ہیں پروین نے اپنی غزل سے حسن لطافت کی اس قوت کو جسے نسائیت کہتے ہیں بولنا سکھایا۔اس کے لہجے میں بیسویں صدی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ایک ایسی تازگی کا احساس ہوتا ہے کو اپنی نت نئی وارداتوں کے لئے پروین شاکر ہی کا انتظار کر رہی تھی۔اس کی شاعری میں اس کی فطرت کی ساری مٹھاس،ذائقہ اظہار کی بے شمار لذتوں کو سمیٹے ہوئے روح شاعری سے ہم کنار ہے۔(پروین شاکر،شخصیت و فن از سلطانہ بخش،ص 366) پروین کو زندگی کے جاں گسل لمحوں میں سانس لینے کے لئے کوئی روزن نصیب ہوا تو وہ اس کا فن ٹھہرا جس نے اسے جواب میں کبھی نہ مرنے والا کلام عطا کیا جو بلاشبہ سرمہ چشم بنائے جانے کے لائق ہے۔
وہ کہتی تھی۔"میں نے جان لیا کہ اللہ نے میری تخلیق اسی لئے کی ہے کہ میں شعر کہوں بعض لوگ ساری عمر خود کو شناخت نہیں کر سکتے اب یہ ہوا کہ مجھے ایک مقصد مل گیا۔ایک پازیٹو کام" اور یہ نہیں کہ اس نے یہ کامیابی محض گنگناتے ہوئے لمحوں میں حاصل کی بلکہ ایک انٹرویو میں اس نے کس کرب سے اپنی فنی زندگی کے عروج کے پیچھے عوامل کو رونما کیا۔" ہمارے معاشرے میں خوبصورتی ذہن  کی ہو یا چہرے کی،ہر شخص اس پر اپنا حق سمجھتا ہے اور آپ ہر شخص کو یہ حق تفویض نہیں کر سکتے گویا دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ہم نے بھی شعر لکھنے کی بہت قیمت چکائی اور بعض خواتین اہل قلم اپنا رول اس طرح ادا کرتی ہیں کہ ان سے مرد بھی شرمایا کریں۔"

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra