7 Episode - Bahar Ki Ek Aakhri Dastak - Para Para By Nusrat Zahra

ساتواں باب ۔ بہار کی اک آخری دستک - پارہ پارہ - نصرت زہرا

پارہ کی زندگی میں اب کوئی کمی نہیں تھی وہ ایک ایسے منصب پر فائز تھی جس کی تمنا میں لوگ عمر بھر جیا کرتے ہیں مگر پھر بھی تہی داماں رہتے ہیں۔اُس کی دعاؤں کا حاصل مراد اس کے پاس تھا۔وہ پھر بھی کہتی تھی۔
’’سچی زندگی کے لیے دل کا سکون بہت ضروری ہے جو مجھے نہیں ملتا اور نجانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں میری زندگی قابلِ رشک نظر آتی ہے‘‘۔
لوگ اُس کی شخصیت میں چھپے اسرار اور سحر انگیزی کو حیران آنکھوں سے بس دیکھا کرتے تھے خدا نے اسے ستائش و پذیرائی سے ہرا بھرا کر دیا تھا۔
منصب و جاہ،انعام و اکرام ستائش،پذیرائی اور ان سب سے بڑھ کر پروین کا ہرا بھرا جود اور سبز سوچیں اُس کا فن قابل رشک حد تک نکھر چکا تھا کہ ایسے میں ایک تازہ کتاب کا پھر اشارہ ہوا۔
آسمان کا رنگ ہلکے ہلکے گلابی دھند لکوں میں گم تھا بارش اپنی بہار پر تھی اور ہوا جو پارہ کا محبوب ترین استعارہ ہے،کسی ایسے دیس سے ہو کر آئی تھی کہ جام صحت تجویز ہو چکا تھا یوں تو اس نے خوابوں پر مٹی برابر کی اور خود کو شامِ غریباں کا ہم قافلہ کہا مگر وہ نئی خوشبو کے وجود میں آتے آتے اتنا سفر طے کر چکی تھی کہ

وہ دن بھی آئے کہ خوشبو سے میری آنکھ کھلی
اور ایک رنگ حقیقت میں چھو رہا تھا مجھے

اچانک اس کا ماتمی لباس ہلکا گلابی ہونے لگا۔

(جاری ہے)

شعروں نے وہ شباب پایا کہ بعض تو حیرت زدہ اور بیشتر دہشت زدہ ہو کر رہ گئے اس نئی خوشبو کا نام اُس نے خود تجویز کیا تھا۔کفِ آئینہ جسے آسمانِ ادب پر روشن ستارے کی طرح دیکھنا اُس کے نصیب میں نہ تھا۔

حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے

اپنے نام کی طرح منفرد خوشبو جب منظر عام پر آئی تو اُس نے ہر دل و دماغ کو معطر کیا اُس کی ہریالی کےنشے کو اپنی روح میں اتارا یہ بات کئی سالوں سے میرے ذہن میں سر اُٹھاتی تھی کہ اُس نے اپنی نئی کتاب کو نئی خوشبو کیوں کہا ہو گا ہمیشہ کی طرح پروین کے شعروں نے میرے ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب دے دیا۔
ہر صفحے پر کسی بہار کی دستک اپنا عنوان لکھ رہی تھی۔

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں

مجھے تیری محبت نے عجیب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

مگر اس کی حد سے زائد رحم بصارت نے یہاں بھی دیکھ لیا تھا کہ

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے

اب تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے
ضائع کروں میں نہ رائیگاں کرے تو

بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ کہ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے کبھی

نئی خوشبو! یعنی کفِ آئینہ میں بھی اس کا کربِ تخلیق عروج پر رہا اس مجموعے کا حُسن ہر ایک مجموعہ کلام سے جدا و رسوا ہے جیسے کوئی رفاقت ہر ایک لمحہ اسے سرسبز و شاداب رکھتی تھی جہاں جدائی کا تصور بھی محال ہو چکا تھا۔
کسی نے اُس کے شانوں سے چادرِ غم کو ہٹایا اور اسے دھنک کے رنگوں سے آراستہ کر کے اپنے دامنِ عاطفت میں پناہ دی وہ وقت کہ جب پروین نے اپنی مدتِ عمر میں ایک سنہری جنم لیا۔لیکن اس بار نہ تو اُس کے ہاتھ پشت سے بندھے تھے اور نہ ہی نامہربان ہوائیں اُُس کے لیے سنگِ راہ تھیں،ایک زنجیر اُس کی روح پر تھی جس پر سارے اقرار لبوں تک آتے آتے دم توڑ دیتے کہیں وہ جاں بلب ہونے کی ساعت میں بھی اس صورتحال کو مصورانہ طور پر نظم کرتی رہی وہ محبتوں کے سفر میں بخت کی قیدی بن گئی سفر کی صعوبتوں نے اس کے سارے زخموں کو پھر نیل کر دیا مگر دبیز مسکراہٹ سجائے وہ دعا سے بھی ڈرنے لگی۔


نظم
دعا کرنا
مرے حق میں دعا کرنا
بچھڑتے وقت اُس نے ایک ہی فقرہ کہا تھا
اسے کیا علم
میرے حرف سے تاثیر کب کی اُٹھ چکی ہے
دعا کا پھول
میرے لب پر کھلتے ہی
اچانک ٹوٹ جاتا ہے
میں کس خوشبو کو اس کے ہاتھ پر باندھوں
 مجھے خوشبو سے ڈر لگنے لگا ہے۔
کفِ آئینہ میں پروین کے استعاروں کا مزاج اور بھی گہرا ہوتا چلا گیا۔فنکارانہ
چابکدستی کے ساتھ ساتھ ایک فضا داستان کی وہ تھی کہ جس میں شہزادی کا ستاروں سے بنا ملبوس گجر بجتے ہی خس و خاشاک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
لیکن کہانی کا اختتام نہیں ہوتا کہ صدائے شام کا زخمی پرندہ شیشہ در سے برابر سر کو ٹکراتا ہے اور باریابی کی رتوں کے خواب آنکھوں میں جلائے آواز کا رستہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔اس مجموعہ کلام میں بھی اُس کے کلام کی دلکش کی انفرادیت قائم رہی۔
اُس کے مجموعے ہائے کلام میں طسلماتی فضا کو خالدہ حسین نے بھی بڑے دل موہ لینے والے انداز میں اجاگر کیا ہے۔

پروین شاکر نے قدیم داستانوں اور (Legend) کے سحر تازہ کیا ہے اور یہ سب اس کے لیے فطری ہے کہ کہیں بھی بیگانگی اور تکلف کا احساس نہیں ہوتا اس نے صرف مشرق کے (Legends) کو ہی اپنے تجربے کا حصہ نہیں بنایا بلکہ مغربی لوک داستانیں بھی اس کے تخلیقی تجربہ کا ایک جزو ہیں۔
(ص 131 کانچ کی گڑیا،خوشبو کی ہم سفر)
دوسری جانب پروین نے کلاسیکیت اور جدت کو جس حسن و خوبی سے لفظوں میں سمویا ہے اُس کے بعد یہ دونوں جہاں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے دو باسیوں کی طرح لگنے لگے ہیں۔

وہ جذباتی لڑکی سے تجربہ کار عورت بننے کے سفر کے دوران جن متنوع تجربوں اور حادثات سے دوچار ہوئی اس کےآنسوؤں میں تیسری دنیا کی مظلوم عورتوں کے عکس صاف محسوس کئے جا سکتے ہیں اور یہی کسی عالمی تخلیق کا پیمانہ ہوا کرتا ہے کہ اسے ایک عام آدمی کے ساتھ (Communicate) کرنے اور ربط بڑھانے کا مکمل شعور حاصل ہو۔لیکن وہ پلٹ پلٹ کر جس محاذ پر واپس آتی ہے وہ محاذ عشق ہے جس نے پہلے پہل اسے وجدان بخشا،شہر ہزار در کا اسم دیا اور پھر آگہی کے تہہ در تہہ خانے اس پر وا ہوتے چلے گئے۔
اُس نے عشق کی وہ صورت گری کی ہے کہ ان میں جذبوں کی صداقت،تراکیب کا حسن،داستان کا رنگ مات کا انگ اور مات کے بعد جلے ہوئے پاؤں لئے پھر کسی محاذ میں دل کھپانے کی رسم برابر جاری ہے۔
کفِ آئینہ میں بھی عشق کا بیان عمومی شکل میں موجود ہے لیکن اس کی ایک نظم ’’سیمیا‘‘ جس نے عشقیہ نظموں کا نصب العین طے کر دیا کہ اب اس کے سامنے سارے اقرار ماند پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

آگ کو گلزار کرنا اُس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی مگر ایسا کوئی ضرور تھا کہ جس نے اُس کے انکار کے مقابل ایک نیا چراغ روشن کیا تھا کہ وہ زندگی پر ایک نئے سرے سے ایمان لے آئی تھی وہ جس کی زندگی میں نمی کی ایک ہی صورت آنسوؤں کی شکل میں تھی اُس کے ملبوس کو سب گرم رنگوں سے شکات ہو چلی تھی کہ ان ناقابلِ یقین لمحات میں اُس نے ایک منوہر کو وچن دیئے۔


نظم
منوہر
کیا واروں تجھ پر
میری جیون تھالی میں
شیش نہیں کوئی،دیوٹ
بس نیناں رہتے ہیں
جلے ہوئے سپنوں کا تٹ
ماتھے ترے کیا تلک لگاؤں
راکھ بھئی مری مانگ
اوک میں تیری کیا جل ڈاروں
میں سمپورن پیاس!
کچھ شبدوں کے موتی ہیں
پر کیا اس چند رُمکھ کے آگے
تیری جنم گرہ میں موہن
کون سا پھول میں ٹانکوں
من بگیا سونی ہے
اور پرائے پھولوں پر ہے
کیا میر ادھیکار
بس اک آتما رہتی ہے
جو دان کروں تجھ پر!
منوہر
کیا واروں تجھ پر
نجانے یہ محض زاویہ نگاہ ہے کہ کوئی محبت آمیز سچائی کہ اس کے تمام مجموعوں سے زیادہ ٹھہراؤ کفِ آئینہ میں دکھائی دیتا ہے جبکہ بہار مسلسل اُس کے بند دریچوں پر دستکیں دے رہی تھی مگر اُس کے لب مسکرانا ہی بھول چکے تھے!

مگر اس دل کی ویرانی
تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے
اور اس کی خوش اثر حدّت
میرے اندر طلسمی رنگ پھولوں کی نئی دنیا کھلانے میں مگن ہے
تمہارے لب پہ میرے نام کا تارہ چمکتا ہے
تو میری روح ایسے جگمگا اُٹھتی ہے۔

جیسے آئینے میں چاند اُتر آئے
میری پلکوں سے آنسو چوم کر
تم نے انہیں موتی بنانے کی جو ضد کی ہے
وہ ضد مجھ کو بہت اچھی لگی ہے
بہت خوش ہوں
کہ میرے سر پہ چادر رکھنے والا ہاتھ
میرے ہاتھ میں پھر آ گیا ہے
یہ پھول اور یہ ستارے اور موتی
مجھ کو قسمت سے ملے ہیں
اور اتنے ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے
مگر اس دل کی ویرانی…!
یہ انجانی دھڑکنیں صاف محسوس کی جا سکتی ہیں کہ اُس کے ہر لفظ نے کوئی نیا آسمان نیا رنگ،نیا سُر پا لیا تھا،کوئی ایسی بات وجود میں آ چکی تھی کہ جس کی خوش اثر حدت اس کے شعروں میں طلسمی رنگ پھولوں کی نئی دنیا کھلانے میں مگن تھی لیکن اس کی تمام شاعری کا ایک وصف شائستگی،وقار اور زندگی پر ایمان لاتی ہوئی احتیاط بھی ہے اُس نے دل کے ہر جذبے کی تہذیب اس انداز سے کی کہ اس کے شعروں کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج کے اصول بھی نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اس مجموعہ کلام میں پروین کی 32 غزلیں اور 30 نظمیں جبکہ چند ایک متفرق اشعار بھی موجود ہیں یہ کتاب مراد پبلی کیشنز نے شائع کی۔ڈاکٹر نسرین شاکر،امجد اسلام امجد،مظہر الاسلام اور ڈاکٹر توصیف تبسم کی اعانت سے شائع ہوئی۔
ہجر کہ جس کے بارے میں اس نے کہا تھا۔

فراق میں ہی رہے ہم تو ساری عمر مگر
ستارہ کوئی نزدیکِ جان روشن تھا
(انکار)
ہجر کا یہ ستارہ کہ جس نے اُسے روشن بھی رکھا اور زبوں حال بھی اس ہجر،فراق،انتظار،اور کرب نے کفِ آئینہ میں بھی اسے اعصاب چٹخانے والے لمحات سے دوچار کیا۔
اُسے زرد دوپہریں،خالی صبحیں اور حصولِ رزق میں گہری مشقت کرنے کے باعث ِزخم زخم راتوں کی رفاقت میں بوجھل لمحات کا سامنا رہا اتنے بوجھل کہ وہ ہستی جس کی آواز اس کے دل کو جنوں خیزیاں عطا کرتی اُس کی سوالی صورت پر رنگ نہ بکھیر سکیں اور ایسی بھی ساعتیں آئیں کہ روبرو ہونے والے لمحات میں بھی دل کی بات دل میں رہنے دی۔
پارہ کی زندگی میں تنہائی بھی ہمہ جہت رہی ایک اکیلے پن کا زہر اور ایک ہجوم کی تنہائی دونوں مختلف انداز سے اُس پر بانہیں پھیلائے رہے۔
نئے خوابوں کی افشاں کو اُس نے نئی خوشبو میں یونہی سمویا کہ جیسے کہ ان لمحات کا حق تھا۔

آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں ان دنوں
دل پر عجیب رنگ اترتے ہیں ان دنوں

رکھ اپنے پاس اپنے مہ و مہر اے فلک
ہم خود کسی کی آنکھ کے تارے ہیں ان دنوں

اُس عشق نے ہمیں ہی نہیں معتدل کیا
اُس کی بھی خوش مزاجی کے چرچے ہیں ان دنوں

اُس کا ایک وصف تجربہ کو شعر بنانے کا ہنر بھی ہے بہار کی دستکوں سے مانوس ہونے کے بعد جب ہجر کے نیلے ہونٹوں اور سرد بدن تک آیا تو بہار کے ہجر نے سماعت کی پیاس اس حد تک حاوی کر دی کہ وہ جاں بلب ہو کر یہ تک کہہ اُٹھی

’’یہ پیاس سماعت کی‘‘

حلقوم سماعت میں
اُگ آئے ہیں اب کانٹے
آواز کا اک قطرہ
لیکن نہیں مل پاتا
شبنم ترے لہجے کی
کس بن میں اترتی ہے
نم تیری ہنسی کا اب
کس تن کو بھگوتا ہے
میں پیاس سے بے کل ہوں
اور تیرے تکلم کا
اک گھونٹ نہیں ملتا
اس قحطِ صدا میں دل
اب کے نہ کھلے شاید
یہ پیاس سماعت کی
جاں لے کے ٹلے شاید

1994ء وہ برس کہ جب دنیائے ادب ایک بے حد عظیم نقصان سے دوچار ہوا۔
دوسری جانب وہ شہر کہ جس نے اسے جنم دیا تھا اپنے وقت کے نازک ترین دور سے گزر رہا تھا۔اسے امن مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کا تعلق محض کسی ایک شہر یا صوبے سے نہیں وہ پاکستان کی شہری ہے مگر پھر بھی وہ یہی کہتی رہی کہ جس شہر نے آپ کو جنم دیا ہو اسے دم توڑتے ہوئے دیکھنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں اُس نے ایک نثری نظم میں اپنے احتجاج سے خوب انصاف کیا ہے۔


’’نثری نظم‘‘
ان دنوں
میری اپنی آپ سے بول چال بند ہے!
میرے اندر ایک بانجھ غصہ
پھنکارتا رہتا ہے
نہ مجھے ڈستا ہے
نہ میرے گرد اپنی گرفت ڈھیلی کرتا ہے
نینوا کی سرزمین
ایک بار پھر سُرخ ہے
فرات کے پانی پر
ابنِ زیاد کے طرفداروں کا ایک بار پھر قبضہ ہے
زمین اور آسمان
ایک بار پھر ششماہے کا لہو
وصول کرنے سے انکاری ہیں
اور میرے چہرے پہ اب مزید لہو کی جگہ نہیں!
فاتح فوج روشنی اور آگ کے فرق کو نہیں سمجھتی!
صحرا کی رات کاٹنے کے لیے انہیں الاؤ
کی ضرورت تھی
سو انہوں نے میرے کتب خانے جلا دیئے!
لیکن میں احتجاج بھی نہیں کر سکتی
میرے بالوں میں سُرخ اسکارف بندھا ہے
اور میرے گلاس میں کوکا کولا ہنس رہا ہے
میرے سامنے ڈالر کی ہڈی پڑی ہوئی ہے
ایک بار گفتگو کے دوران اُس نے کہا اگر میں پچاس سال کے بعد (Relevant) رہی تو مجھے میری شاعری کے ذریعے ملا جا سکتا ہے مگر یہ تو محض اس کا انکسار ہے وہ پچاس برس ہی نہیں بلکہ جب تک اردو شاعری کا ذکر باقی ہے اس کا تذکرہ اردو ادب کو نئے سرے سے دریافت کرنے والوں میں کیا جاتا رہے گا۔
نجانے یہ شعر اُس نے کب کہا ہو گا مگر اس کی عملی تفسیر 26 دسمبر 94ء کو ہوئی بہار کو بھی کیا خبر تھی کہ وہ جس دروازے پر دستک دے رہی تھی اس نے کسی اور مسکن کی جانب رخ کر لیا تھا۔

قضا نے میرے نام کی لوح بھر دی
میری جان تو نے بہت دیر کر دی

اکتوبر 94ء میں معروف دانشور احمد سلیم کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں اُس نے بتایا تھا کہ وہ کفِ آئینہ کو فوراً نہیں لانا چاہتی بلکہ ماہِ تمام میں کلیات مجتمع کر دی گئی ہیں،کفِ آئینہ جب مرتب کی گئی تو اسے اس کی ڈائریوں اور بیاضوں میں موجود کلام کی مدد سے ترتیب دیا گیا کہا جاتا ہے پروین کو اپنے جانے کی خبر ہو چکی تھی کیونکہ اس کے آخری دنوں کا کلام اُس کے اسی خیال کی توثیق کرتا ہے۔
اسے خبر تو ہو چکی تھی مگر اُسے جلدی بھی بہت تھی شتابی کا یہ عالم اس کے بہت سے کاموں کے نمٹنائے جانے کے انداز سے بھی عیاں ہوتا ہے۔
کفِ آئینہ میں جہاں وہ سرشار نظر آتی ہے وہیں زندگی کی خوبصورتیوں اور بے حال ہوتی ہوئی روح پر ایک گونہ سرشاری کے عالم کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ اور بے رحم حقیقتوں کے سامنے تنہا اور بے بس بھی دکھائی دیتی ہے اور اس کی وہ بے رحم بصارت کہ جس نے اسے برف کی چادر پہننے کی اجازت دے رکھی تھی بالآخر اس کے دلآویز خیالات پر حاوی ہوئی اور پروین ملک عدم کی جانب محو پرواز!

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra