11 Episode - Parveen Ke Mazameen - Para Para By Nusrat Zahra

گیارہواں باب ۔ پروین کے مضامین - پارہ پارہ - نصرت زہرا

احساسات کے لفظی پیکر سے جڑے پروین کے وہ مضامین جو وہ زندگی کے ہر دور میں لکھتی رہی۔تخلیق اُس کی چاروں اور سے پھوٹتی رہی اور اس نے اس بہاؤ کا بھرپور ساتھ دیا۔اُس نے ہر موضوع پر مضامین تحریر کئے مگر چونکہ ادب اس کا پسندیدہ موضوع رہا لہٰذا ادبی مضامین کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔
اُس کی تحریریں واضح،صاف مگر زبان و بیان کی لطافت سے لبریز ہوتی تھیں مضامین لکھتے ہوئے بھی اُس نے انہی خصوصیات کو مدِ نظر رکھا۔

ممتاز افسانہ نگار منشا یاد کے افسانے دور کی آواز پر اُس نے کیا خوبصورت مضمون تحریر کیا ایک خط میں کہیں اُس نے فلسفہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور علم کی اساس کو زندگی کے بامعنی ہونے سے تعبیر کیا تھا۔
دور کی آواز پر مضمون لکھتے ہوئے اُس نے فلسفہ وجودیت سے منشا کے افسانوں کا ربط بڑے دلنشین اندازمیں جوڑا۔

(جاری ہے)


’’میں جب بھی کوئی نیا افسانہ،بالخصوص فلسفہ وجودیت کے حوالے سے لکھی گئی نثر کو پڑھتی ہوں تو یہ بات میرے اندر سر اُٹھاتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کہ اس ادب پارے میں بود لیٹر کے بتائے ہوئے رستوں کی طرف کوئی ایک پگڈنڈی بھی جاتی ہے!اس اعتراف میں کوئی حرج نہیں کہ اکثر مجھے اپنے اس سوال کا جواب نہیں ملا۔

لیکن میں نے منشا یاد کا افسانوی مجموعہ،دور کی آواز،پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اردو افسانہ اتنا غریب بھی نہیں!
اور منشا یاد کے افسانوں کا بنیادی تھیس وہی (Inauthentic Existence) جو،وجودیت کا اہم فکری ستون ہے۔یعنی خود سے اور دنیا سے جھوٹ بولتے ہوئے لوگ۔اقدار،نظریات اور رشتے!جیسے سارتر کے افسانے ( کے کردار جو ایک بے سواد بے نتیجہ بیگار میں مصروف ہے!
وہ اپنے عہد کے ممتاز اور مقبول شاعر فیض کہ جو اجتماعی شعور اورحافظے کا حصہ بن چکے ہیں،کی شخصیت و فن سے بے پناہ متاثر تھی اور انہیں کئی جگہ زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتی رہی ایک مضمون میں یوں گویا ہوتی ہے۔

’’فیض کی شاعری کا سب سے بڑا وصف اس کا حسن ہے انہوں نے کبھی اسے کسی پارٹی کا منشور نہیں بننے دیا۔مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ ان کے شعری سفر کا سب سے اہم موڑ تھا۔اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے میں جو بے بسی ہے فیض نے اسے اپنی قوت بنا دیا اور اس طرح ان کی شاعری کا جمال کہیں گرد آلود نہیں ہونے پایا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ فیض صاحب کو گفتگو کا سلیقہ آتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پروین کی شاعری سر تا سر عشقِ مجاز ہے لیکن اس کے فنی سفر میں ارتقاء کے ظہور پذیر ہونے کے احساس نے،اسے اپنے آپ پر بھی منکشف کیا اور اس کی شاعری کو بھی ہمہ جہت بنا دیا۔مطالعے کی عادت کے باعث اُس نے مشرق و مغرب کے علم سے خود کو سرشار کیا،کشف المعجوب کے بارے میں اُس نے ایک بار کہا تھا کہ یہ وہ کتا ب ہے جو ہر دم اُس کے سرہانے پڑی رہتی ہے۔
اور اُس کے اِس انکشاف کا اثبات سرمد صہبائی پر لکھے گئے مضمون سے بھی ہوتا ہے۔
دید کروں نادید کا موسم۔یہ بصیرت اُس کے پاس یونہی نہیں آ گئی۔اس کے لیے قلب کی صفائی شرطِ اول ہے حجاب تب ہی اُٹھ سکتاہے۔اور ہمارے صوفیا کے نزدیک حجاب دو طرح کے ہوتے ہیں۔
حجاب عینی اور حجاب غینی۔سرمد کا دل بھی ظاہر ہے کہ حجاب غینی کے اٹھانے کا طالب ہے کیونکہ وہ شاعر ہے اور شاعر کے دل پر کبھی مُہر نہیں لگ سکتی۔

دنیا اس کے لیے بمنزلۂ حجاب ہے۔

تیرا ہجر سدا محکومی
ترا وصل آزادی

اور اسی مضمون میں وہ شاعر کی صوفیانہ خصویات پر یوں قلم اُٹھاتی ہے کہ ہمارا شاعرانہ اپنے آپ سے فارغ ہوتا ہے نہ اپنے اطراف و اکناف سے اسے اپنے رزق کی اداسی کا احساس بھی ہے۔اور گھر کی ویرانی کا بھی،زندگی اس کے لیے بے وطنی کے شہر میں اتری غیروں جیسی رات ہے۔

پروین کی نستعلیقیت،روایت سے ربط اور دیگر تخلیق کاروں کے مقابل اُس کی ممتاز حیثیت کی ایک واضح جھلک اس کے مضامین سے بخوبی ہوتی ہے۔
اُس کے فن پر تحریر کی گئی دیگر مختلف کتابوں میں قرۃ العین طاہرہ،احمد فراز،شبنم شکیل،افتخار عارف اور امجد اسلام امجد پر لکھے گئے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔( پارہ پارہ از نصرت زہرا،2011)
کیسی جاگ جگائی۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra