15 Episode - Parveen Ki Yaadein - Para Para By Nusrat Zahra

پندرھواں باب ۔ پروین کی یادیں - پارہ پارہ - نصرت زہرا

1۔ ڈاکٹر نسرین شاکر (ہمشیرہ)
پروین کے گھر کا آخری چراغ ڈاکٹر نسرین شاکر کہ جن سے پروین کی سچی مہک آتی ہے۔اُس کی زندگی کے ہر دکھ اور سکھ کی گواہی اُن سے بڑھ کر اور کوئی نہیں دے سکتا۔انہی کے بے پایاں شفقتوں سے پارہ پارہ کی راہ میں آنے والے کئی کٹھن مرحلے آسان ہوئے۔
”میں اُس گھر کا کیا نقشہ بیان کروں جو زمین پر جنت کی مانند تھا میرے ماں باپ دنیا کی آلائشوں سے مُبرا کہ جنہوں نے ہماری تربیت بھی انہی خطوط پر کی تھی۔
ہم دنیا کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسی یہ دکھائی دیتی ہے۔میرے والد محکمہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف میں آفیسر تھے ان کا تعلق ہندوستان کے صوبے بہار سے تھا۔ہمارے گاؤں کا نام چندن پٹی تھا۔والد نے ہمیں اعلیٰ تعلیم،اخلاق اور تربیت سے آراستہ کیا۔
ہماری والدہ بھی روشن خیال تھیں اگرچہ ہم مذہب سے بے پناہ لگاؤ اور قربت رکھتے تھے ہماری والدہ حدیث پڑھتی تھیں اُن کے خوش گلو ہونے کے باعث ہم بہنوں میں بھی ابتداء سے مجالس میں شرکت کرنے کا شوق پروان چڑھا والد چونکہ شاعر تھے بلکہ آپ ہمارا شجرئہ نسب جانیں تو ہمارے گھرانے سے شاعری کے تعلق پر حیران ہو جائیں۔

(جاری ہے)

ہمارا شجرئہ نسب سید محمد شاہ دہلوی سے جا ملتا ہے۔
سید محمد شاہ دہلوی
سید محمد ہاشم اکبر آبادی
سید سلامت خان لکھنوی
سید الدولہ نواب احمد علی خان
ملا سید احمد شاہ
اور ملا سید محمد سعد شاہ،شاہ جہاں بادشاہ کو علم شاعری سکھانے پر مامور تھے۔کیا عجیب حُسن اتفاق ہے وہاں شاہ کا دربار اور یہاں دنیائے ادب ایک دربار میں تبدیل ہو چکی ہے جو ایک اٹھ جانے والی ہستی سے فیض حاصل کر رہی ہے۔

”پارہ کو ہم پیار سے پارہ یا پارو کہہ کر بلاتے تھے وہ مجھ سے دو برس چھوٹی تھی ہم بھی عام بہنوں کی طرح رہتے تھے کبھی لڑائی جھگڑا اور کبھی صلح صفائی مگر پارہ کی ایک عادت بہت اچھی تھی کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کر کے ہمیشہ صلح میں پہل کرتی۔لڑائی کے بجائے خاموش ہو جاتی اور میری ہر بات اور مشورے کو غور سے سنتی۔بچپن میں بلا کی شریر تھی۔ہمارے نانا سید محمد حسن عسکری،عظیم آبادی سے بہت قریب تھی جو اپنی روایت کے علمبردار تھے اُن ہی کے فیضان نے اُسے معتبر شاعرہ کے طور پر دنیا سے منوایا۔

شاعری سے اسے بے حد محبت تھی اسکول کالج کا زمانہ ہنسی خوشی بے فکری کے عالم میں گزرا پارہ کو باقاعدگی سے ریڈیو پر مدعو کیا جاتا اُس نے بہت جلد خود کو ایک تخلیق کار کے طور پرمنوایا ریڈیو پر کام کرنے کی وجہ سے اس کی سماجی روابط میں بھی اضافہ ہوا۔اس کی نمو اور تربیت کا بڑا حصہ بلاشبہ اسی دور میں تشکیل پایا وہ بہترین طالبہ شمار کی جاتی تھی اُس کے کربِ تخلیق کے جوہر کھل کر سامنے آئے تو کئی مار آستین بھی آشکار ہوئے مگر پارہ نے کبھی اپنے کسی مخالف کو جواب نہ دیا البتہ ہم اہل خانہ اُس کے لیے بہت فکر مند رہتے۔
وہ اپنی ظاہری شخصیت میں بھی اس قدر نمایاں تھی کہ لوگ اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہتے۔کھلتا ہوا رنگ،سیاہ اور لمبے بال اور پرکشش شخصیت مگر اُن سے بھی بڑھ کر اُس کی ذہانت نے بھی اس کی گرویدگی میں اضافہ کیا تو وہیں اُس کے حاسد بھی بے پناہ تھے مگر ہم حتی الامکان یہ کوشش کرتے کہ اسے اس بات کا احساس نہ ہو کہ ہماری نظر میں ان منفی ہتھکنڈوں کی کوئی حیثیت ہے۔

جب اُس کی شاعری کے چرچے بڑھنے لگے تو مشاعروں میں شرکت کی دعوتیں موصول ہونے لگیں ہمارے والد بخوشی اجازت دیتے اُس نے ٹیلی وژن کے لیے بھی پروگرامز شروع کر دیئے۔اخبارات و رسائل میں بھی اُس کے فن پر گفتگو ہونے لگی۔
وہ ابتداء ہی سے ایک رجحان ساز ادیب کی صورت سامنے آئی وہ ہمیشہ خوش اخلاقی سے تمام لوگوں سے ملتی البتہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ دوست بنانے میں بہت محتاط ہو گئی تھی اور فاصلے سے ملتی تھی۔

جب اُس کے وجود کو محبت کا وجدان ملا تو اس وقت وہ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی جب میں نے اُس کے چہرے پر دھنک رنگ اترتے دیکھے تو اُس نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی گویا ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی تھے وہ کوئی بات چھپا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔اور نہ ہمارے گھر کے ماحول میں کسی قسم کی گھٹن تھی کہ وہ اظہار کرنے سے کترائے مگر چونکہ مذکورہ شخصیت کا تعلق ایک دوسرے فقہے سے تھا لہٰذا پروین کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

دوسری جانب ہمیں اُس کے ڈھیر سارے پیغامات میں سے جو سب سے زیادہ چاہت کا حامل لگا وہ ہماری امی کی ماموں زاد بہن کے صاحبزادے ڈاکٹر نصیر علی کا رشتہ تھا جن کے بے پناہ اصرار پر ہم رضا مند ہو گئے۔ہم نے ڈاکٹرنصیر کو پارہ کے زندگی کے تمام اوراق تک رسائی دی مگر اُس وقت انہیں پارہ کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ اس کی محبت میں سرشار تھے جبکہ ہماری والدہ بیگم افضل النساء کا بھی یہی موقف تھا کہ وہ لوگ حاسد اور کم ظرف ہیں پارہ ان کے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ سکے گی مگر نجانے تقدیر کو کیا منظور تھا کہ پارہ بھی راضی ہو گئی۔

لیکن اب غور کرتے ہیں کہ خدا نے اس پر کامیابیوں اور اعزازات کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا بلکہ اُس کے اشعار کا جادو،تعلیمی کامیابیاں اور اعزازت ہمیشہ اُس کے ساتھ رہے۔
اگر اذیتیں اس کے مقدر میں تھیں تو وہیں وہ اعزازات نصیب میں تھے جن کے بارے میں لوگ محض تصور ہی کر سکتے ہیں اور وہ بھی ہمارے تنگ نظر نظام میں وہ ایک تنہا عورت ہونے کے باوجود نہایت بہادری سے اپنی بقاء کی جنگ لڑتی رہی وہیں خدا نے مراد کی شکل میں اُس کی تمام محرومیوں کا ازالہ کر دیا تھا۔
دنیا اُس کے کلام کو سرمہ چشم بنا کر رکھتی ہے۔
اور اب بھی اُس کا جنم دن ہو کہ برسی میڈیا اُسے یاد رکھتا ہے اُس کے مداح اسے کبھی نہیں بھولتے وہ اپنے شعروں کے ذریعے امر ہو گئی۔
اُس کی فطری بے نیازی کا یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ 1991ء میں جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی پاکستان میں اُسی کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا وہ ایوارڈ وصول کرنے پاکستان آئی مگر اسلام آباد میں ہونے والی اس تقریب کا حال واقفانِ حال بیان کرتے ہیں کہ وہاں جس انداز سے عزت بخشی گئی ایسی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

جب کراچی آئی اور ہمیں میڈل دکھایا تو کہنے لگی ”آپا یہ تم رکھ لو گویا اُس کی نظر میں اس انعام کو پا لینا کوئی بہت بڑی بات نہ تھی بلاشبہ وہ ایک (Living Legend) تھی مگر اس کے باوجود وہ کبھی غرور اور تکبر کا شکار نہیں ہوئی۔
بارش سے اُسے بے حد لگاؤ تھا۔ذرا سی پھوار پڑتی اور وہ خوش ہو جاتی مگر کبھی شائستگی کی حد سے تجاوز نہیں کیا۔اور کہتی آپا فوراً پکوڑے بنا دو ایک بار ہماری خالہ جنہیں ہم بی بی خالہ کہا کرتے تھے،کہنے لگی میں تو بس 42 بیالیس برس ہی جی پاؤں گی۔

43 واں سال میری زندگی میں نہیں جس پر خالہ نے کہا تھا کہ مایوسی کی باتیں نہیں کرتے۔کبھی کہتی مراد کی شادی دیکھنا ہمارے نصیب میں نہیں اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل تو وہ ہر وقت یہی اصرار کرتی کہ آپا تم اور امی میرے پاس آ کر رہو،امی تو اس کے پاس جاتی ہی رہتی تھیں مگر اُس کی خواہش تھی کہ ہم مستقل طور پر اسلام آباد منتقل ہو جائیں۔جب بھی کراچی آتی تو ہم سے ملنے ضرور آتی تحفے تحائف دینے کا اسے بے حد شوق تھا۔
میرے لیے ہمیشہ خوشبو (پرفیوم) لاتی ہم اُس کے لیے ہمیشہ اس کے مرغوب کھانے تیار کرتے۔شادی کے بعد وہ خود بھی گھریلو کام کاج کی ماہر ہو گئی تھی۔ایک بار سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر مشاعرے میں شرکت کے لیے لاڑکانہ آئی۔تو کسی کام کے سلسلے میں کچھ دیر کے لیے ہمارے پاس نہ آ سکی تو بہت افسردہ ہوئی بار بار کہتی وقت کم تھا بارش ہو رہی تھی مگر تم لوگوں سے ملے بغیر جانا اچھا نہیں لگ رہا۔
ہم اہل خانہ ہونے کی حیثیت سے سمجھتے تھے کہ اس کی ملازمت کوئی آسان کام نہیں۔
زندگی کے اوراق الٹتے جائیں تو ہر ورق پر ایک یادگار واقعہ ضرور ملے گا۔لیکن ایک بہن ہونے کے ناطے میں چاہتی تھی کہ اس کی زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو لیکن خدا نے اُسے جو عزت اور مقام عطا کیا وہ بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔یوں تو اسے ہر مقام پر پذرائی نصیب ہوئی مگر جب وہ پاکستان کسٹمز میں آئی تو اسے بے حد عزت و تکریم سے نوازا گیا۔
وہ صدر پاکستان ہوں یا وزیر اعظم تمام اعلیٰ شخصیات اُس کی قدر و منزلت کو پہنچاتے تھے۔
جب کچھ اسلام آبادیوں نے اس کی شہرت کو داغدار کرنا چاہا تو اگلے روز صدرِ پاکستان کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے بعد اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
موت کے تصور پر وہ اپنے اسکول کالج کے زمانے سے ہی اشعار لکھتی آئی تھی مگر ایک واقعہ یاد کر کے میں بھی حیران ہو جاتی ہوں اُن دنوں وہ کالج کی طالبہ تھی ماہ دسمبر کی کسی تاریخ کا واقعہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پینسل لے کر کچھ لکھتی جاری تھی جس پر چچا نے ٹوکا”یہ تم کیا لکھتی رہتی ہو ہر وقت“میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ عبارت
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ تھی چچا کی بات پر مسکرانے لگی شاید اُس کے ہاتھ کا وہ جملہ اب بھی کسی چونے کے نیچے موجود ہو گا پھر وہ شام یاد آتی ہے جب وہ آخری بار ہم سے ملنے آئی یہ 31،جولائی 1994ء کا ذکر ہے وہ سفید رنگ کے لباس میں ملبوس تھی یہ وہ وقت تھا جب اُس پر ڈاکٹریٹ کرنے کا جنون سوار تھا اس کا تھیسس ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیز سے منظور نہیں ہو سکا تھا جبکہ دولتِ مشترکہ نے اس ضمن میں اسے اجازت فراہم کر دی تھی۔
وہ بے حد اداس تھی۔شاید اہلِ مغرب کو اس کے (Thesis) کا عنوان پسند نہیں آیا وہ سانحہ 71ء پر میڈیا کے کردار کے متعلق ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی تھی اُس روز بارش بھی ٹوٹ کر برسی مگر پھر بھی پارہ کی آنکھوں میں کوئی رنگ نہ اتر سکا۔
وہ چلی گئی مگر دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ چلی جائے گی۔اور ہم اُسے آخری بار دیکھ رہے ہیں۔اس کے بعد ہم مسلسل فون پر رابطے میں رہے ہماری امی نے اس ضمن میں باقاعدگی سے ایک نوٹ بک میں تمام تاریخیں درج کر رکھی تھیں غالباً دسمبر کی انیس تاریخ کو پارہ سے آخری بار بات ہوئی۔

مگر ہم پارہ کے کالمز کی وجہ سے دل میں ڈرتے تھے جن سے کچھ حلقے ناراض تھے بظاہر وہ شگفتہ مزاجی سے بھرپور تھے مگر ان میں چھپی ہوئی گہرائی سے وہ لوگ ضرور نالاں تھے جو اس وقت کسی بھی طرح کرپشن میں ملوث تھے۔
ایسے لوگ بے حد طاقت رکھتے ہیں اور ان کے خلاف قلم کو تلوار کرنے سے بجائے بہتری کے نقصان ہی ہوتا ہے مجھے یاد ہے کہ ایک بار اُس نے سر میں چوٹ لگنے کے تصور سے ہی جھُرجھری لی تھی۔
آپا اگر سر میں چوٹ لگ جائے اور دماغ کو نقصان پہنچے تو کیسی تکلیف ہو میں تو ہر وقت یہی دعا کرتی ہوں۔وہ ہم کو غرور اور تکبر سے بچائے جس پر میں نے کہا تھا پارہ انسان کو وہم نہیں کرنا چاہیے۔
اس نے دنیا سے اُٹھ جانے سے قبل اپنے تمام مجموعوں کو ایک مجموعہ ہائے کلام کی شکل دی اُسے ماہِ تمام کا نام دیا ہر شخص مترد ہوا کہ ابھی سے اس کی کیا ضرورت تھی مگر وہ آگاہ ہو چکی تھی اور اس نے اسی بصیرت کی روشنی میں ایسے بہت سے فیصلے کئے ہوں گے جن پر غور کریں تو بڑی حیرت ہوتی ہے اُس کی موت کے دن جو کالم روزنامہ جنگ کو موصول ہوا اس کا پہلا جملہ ہی عجیب تھا۔
''موت برحق ہے'' اسلام آباد میں اس کے پڑوس میں رہنے والی خاتون نے بتایا کہ 25 دسمبر کو اس نے اپنے کچھ دوستوں کی دعوت کی اور اپنی پڑوسن سے کہا کہ آج کا دن آپ کی وجہ سے بہت اچھا گزرا اس کی الماری سے دھمکی آمیز خط بھی ملا مگر یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ خدا کی ذات سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں وہ ہر اک شے سے واقف اور باخبر ہے اسلام آباد اسے بہت پسند تھا۔
وہاں کا سکون اور سکوت دونوں اسے عزیز تھے۔ساری عمر میں اس دن کو فراموش نہیں کر سکوں گی۔جب مجھے اس کی عزیز دوست مہتاب اکبر راشدی نے فون پر اطلاع دی کہ ''پروین اب ہم میں نہیں رہی'' میں نے حواس مجتمع کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے پارہ کل جسد خاکی کراچی لائیں میں اور امی اسلام آباد روانہ ہو گئے اگر اسے کراچی لایا جاتا تو نجانے کیا قیامت برپا ہوتی۔
پارہ کو بہت زخم آئے اور سر پر پٹی بندھی تھی مگر اس کا چہرہ مکمل طور پر محفوظ تھا وہ یوں محسوس ہوتی تھی کہ جیسے صدیوں کی تھکن اور دکھ سمیٹے اسے قرار آ گیا ہو جس دن اس نے اپنا نیا مسکن بنایا اس روز اس نے سبز رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا یہ رنگ اسے بچپن ہی سے بہت پسند تھا۔میں اسلام آباد میں اس کے گھر پہنچی اور دیکھا تو اس کا سنگھار میز خالی تھا ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
وہ ہمیشہ لباس کے ہم رنگ نیل پالش لگایا کرتی ایک بار قاسمی صاحب نے بتایا تھا کہ میں نے کالج کی طالبات کو اس کی پرستار تھیں اور اس سے ملاقات کرنا چاہتی تھیں۔انہیں پروین کی آمد پر مدعو کیا مگر پروین نے کسی سے توجہ سے بات نہ کی جس پر میں نے اسے سخت سست کہا اور اس سے ناراض رہا پروین بیٹی سے فون پر بات ہوئی تو اس نے کہا '' عمو میں نے دانستہ انہیں نظر انداز نہیں کیا بلکہ مجھے اب سب سے وحشت ہوتی ہے'' اس کی موت کے اگلے دن ڈاکٹر نصیر،مراد کی کسٹڈی کے لئے وہاں پہنچے مگر سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر مراد کراچی چلا گیا تو اس کی تعلیم کا حرج ہو گا اس وقت وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔
ماشاء اللہ آج وہ پارہ کے خوابوں کی عملی تفسیر بن چکا ہے اور حال ہی میں خدا نے ہمیں چاند سی بہو دی ہے۔پروین کی ہم قافیہ عرشین جو بہت محبت کرنے والی بچی ہے اور ہم اس سے بہت خوش ہیں خدا کا شکر ہے کہ مراد کا گھر آباد ہو گیا۔یہ بھی خدا کا انعام ہے کہ اس نے پارہ کو بعد از مرگ بھی اتنی عزت بخشی اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔
اس کا ذکر آباد اور اس کی قدر و منزلت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔پارہ امی کی بہت لاڈلی اور چہیتی تھی وہ کبھی امی کا کہا نہیں ٹالتی تھی بلکہ ہمارا پورا گھرانہ،چونکہ وہ چھوٹی تھی اس لئے میرے ابا بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے ہم اس کی خوشی کے متمنی رہتے تھے مگر خدا نے جو آزمائشیں اس کے مقدر میں رکھیں انہی کے راستے بوہ تپ کر کندن بنی اور آج ساری دنیا میں اس کے علم،دانش،تہذہب اور شاعری کا چرچا ہے۔
(ملاقاتیں،نارتھ ناظم آباد)۔جناب یاور مہدی (سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کراچی)
جناب یاور مہدی کی چھاؤں جیسی ہمہ جہت شخصیت سے کون ہے جو فیضان کا اقرار نہ کرے،کچھ لوگ دنیا میں آنے کے بعد کچھ ایسے کام کر جاتے ہیں جو آئندہ ہر صدی اور ہر نسل کے لیے قابلِ فخر بن جاتے ہیں۔انہوں نے اپنا ہی ایک جہان آباد کر رکھا ہے جہاں دور رویہ گلابوں کے تحت بچھے ہیں!
وہ ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہ چکے ہیں انہوں نے بے شمار تخلیق کاروں کو نہ صرف دریافت کا بلکہ اُن کی مناسب تشہیر کے باعث دنیا ایسے نابغہ روزگار افراد سے بہرہ مند ہوئی۔

پارہ سے پہلی بار ان کی ملاقات سر سید کالج میں بیت بازی کے مقابلے میں ہوئی جہاں وہ پروگرام کی کمپیئرنگ کر رہی تھی اُس دن کو یاد کر کے ان کی آنکھوں میں ایسی چمک اتر آتی ہے جسے کسی ننھے پودے کو ایک تناور درخت بنتے دیکھ کر کوئی باغبان دکھائی دیتا ہے۔
میں اُس وقت ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر تھا اور ہم نئے (Talent) کی تلاش کرنے اور اسے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سر سید گرلز کالج میں بیت بازی کا مقابلہ ہو رہا تھا اور پروین پروگرام کی کمپیئرنگ کر رہی تھی میں نے چٹ لکھ کر بھیجی کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ سن کر خاص طور پر محظوظ ہوئی اور کہنے لگی کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں ریڈیو کے لئے پروگرام کروں گی۔1968ء میں یومِ آزادی پر ریڈیو پر بحیثیت شاعرہ پہلا پروگرام پیش کیا۔اس نے ریڈیو سے اپنے تعلق کو ہمیشہ فخر سے بیان کیا اور ہمیشہ ہر فورم پر اعتراف کیا کہ یاور بھائی کی شفقت نے میری شخصیت کی نمو میں بہت اہم کردار ادا کیا اور میری درست سمت میں رہنمائی کی۔

جناب یاور مہدی نے پارہ سمیت چھ سو طلباء کو متعارف کروایا پارہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کی کامیابیوں کا تمام کریڈٹ اس کے بے پناہ ٹیلنٹ،قابلیت،تعلیم،حسب نسب،شخصی وقار و کردار کے علاوہ تعظیم کرنے کی عادت کو قرار دیا انہوں نے پارہ سے متعدد پروگرامز کی نظامت کروائی جبکہ ڈرامہ نگاری اور جشنِ موسیقی میں اُس نے اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔
فی البدیہہ شعری مقابلے ہوں،اناؤنسمینٹ یا پھر نیوز ریڈنگ پارہ نے ہر میدان میں اپنا سکہ جمایا۔
یاور صاحب نے بڑے فخر سے ان پروگرامز کی تفصیل بتائی کہ جو پارہ نے سات سال کے دوران کئے۔ادبی محاکمہ،تنقیدی نشست،ادبی مجلہ،بیت بازی داستان بنتی گئی،سیمینار،سمپوزیم،گو یادبستان کھل گیا ریڈیو نیوز،مشاعرہ،میوزک پروگرام کی کمپیئرنگ،آپ پر گفتگو کریں،پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے،انٹرویوز دستاویزی پروگرام،میری ڈائری کا ایک ورق،پسندیدہ کتاب اور پسندیدہ شخصیت،کہکشاں،ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند آئینہ ساز (ڈرامہ) بھی تحریر کیا۔
جسے ریڈیو کے سات بہترین ڈراموں میں شمار کیا گیا۔پارہ کو دنیا بھر کے اعزازات نصیب ہوئے۔مگر 1970ء کے جشن طلباء میں ملنے والا انعام اسے سب سے زیادہ عزیز تھا۔اسے ریڈیو پر فی البدیہہ مشاعرے میں بھی تیسرے انعام سے نوازا گیا۔اُس نے ریڈیو پر دیگر پروڈیوسرز کے ساتھ بھی کام کیا جن میں عصمت زہرا،انعام صدیقی،نجم الحسن،جمیل زبیری اور ضمیر علی شامل ہیں مگر یاور صاحب کی کہنہ مشق شخصیت نے پارہ کے فنی خدوخال تراشے اور اس کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو آراستہ کیا وہ خود کہتی تھی۔

خوشبو کی تربیت ہوا کے رقص میں ہے
یاور صاحب کی خاندانی نجابت اور روایتوں کے ساتھ ان کی گہری وابستگی نے ایک ہی نشست میں مجھے یہ احساس دیا کہ ان کے سائے میں آ کر خود ایک تناور درخت میں تبدیل ہو جانے والے کیونکر ان کی محبتوں کو فراموش نہیں کر پاتے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ محض صلاحیتیں کسی بھی شخصیت کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوا کرتیں انہیں تراشنے اور رتوں کے باآور ہونے کے لیے کسی جوہر آشنا بصیرت کی شفقت درکار ہوتی ہے مگر یہ اُن کی بڑائی ہے کہ انہوں نے اپنے تمام شاگردوں کو بہت باصلاحیت،محنتی اور پروفیشنل گردانا اور جہاں تک پروین کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کی فنی عظمت کو تسلیم کرنے میں بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔

”پروین محض شاعرہ نہیں تھی اُس کی ہمہ جہت شخصیت کا دائرہ کار بہت وسیع تھا وہ جتنی باصلاحیت تھی اتنی ہی اچھی انسان بھی تھی جب وہ اعلیٰ عہدے پر فائر ہو کر اسلام آباد میں تعینات تھی تو میں نے اُس کے ذمے ایک مستحق کی ملازمت بحال کرنے کا ذمہ لگایا اُس نے نہ صرف ملازمت بحال کروائی بلکہ کئی برس سے نہ ملنے والے واجبات بھی دلوائے۔
ریڈیو پروگرام کے دوران ایک بار ایسا بھی ہوا کہ اُس نے مجھ پر ایک تنقیدی کالم لکھ ڈالا جس کے باعث میری اس سے ڈیڑھ برس تک بات چیت بند رہی پھر وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات معمول پر آ گئے وہ بڑے ٹھاٹھ سے میرے کمرے میں آ کر فرمائش کرتی۔

”یاور بھائی ذرا کوک تو منگوائیں“ میرے ساتھ اعتبار اور مان کا یہ رشتہ ہمیشہ باقی رہا۔اُس کے پہلے مجموعہ کلام خوشبو کی تقریب رونمائی بھی میں نے منعقد کی۔(Y.M.C.A) میں دسمبر 1977ء میں ہونے والی یادگار تقریب آج بھی اہل ادب کے ذہنوں میں تازہ ہے جہاں 1500 مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ پروین اس تقریب کے حوالے سے کتنی فکر مند تھی حتی کہ ریفریشمنٹ تک کے لیے بھی اس نے منتخب دکانوں کو چُنا تھا اس تقریب یادگار بنانے کی خواہش تھی۔
وہ جب ریڈیو پر آئی تو ذرا فاصلے پر رہ کر لوگوں سے ملتی اور جس کو بہتر سمجھتی اُسی سے بات کرتی بعض اوقات وہ لوگوں کے سامنے ان کے غلط اندازِ فکر پر تنبیہہ بھی کرتی جس پر بعض اوقات مجھے صورتحال کو سنبھالنا پڑتا۔
میں نے جب بھی اسے کسی پروگرام کے لیے بلایا وہ ہر زاویے سے پروگرام پر محنت کرتی،تیاری کے ساتھ،نفسِ مضمون سمجھ کر گرفت کی حتی المقدور کوشش کرتی۔

اس نے بہت کم عمری میں صاحب طرز تخلیق کاروں کے ساتھ گفت و شنید پر مبنی پروگرامز کئے۔میرے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتی۔مجھے یاور بھائی کہا کرتی اور اپنی تمام باتیں مجھ سے شیئر کرتی نہایت سمجھ دار اورمعاملہ فہم لڑکی تھی۔آج وہ ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
 بعض لوگ ایسے بھی تھے اور اب تک ہیں کہ جنہوں نے اس کی شہرت کو نقصان پہنچانا چاہا مگر وہ اس میں یوں کامیاب نہیں ہو سکے کہ پروین کی قد آور فنی شخصیت نے اس پروپیگنڈے کو جھاگ کی مانند اُڑا دیا۔
اُسے منہ پھٹ نہیں کہا جا سکتا مگر وہ دل کی بہت صاف تھی کوئی بات بری لگ جاتی تو برملا اس کا اظہارکرتی جس پر لوگ اسے مغرور سمجھنے لگے مگر پروین نے خود کو ہر طرح کے حالات میں منوایا اور حوصلہ مندی سے اچھے برے حالات کا مقابلہ کرتی رہی۔
شادی ہوئی تواُ س کے شوہر ڈاکٹر نصیر مشاعروں پر جانے پر پابندی عائد کرتے،پروین مجھے فون کرتی میں اپنے تیئں ڈاکٹر صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کرتا دونوں کے مزاج مختلف تھے بہرحال پروین نے تضادات کے درمیان رہ کر خود کو منوایا اور آج دنیا اسے ایک صاحب اسلوب تخلیق کار کے طور پر سراہتی ہے۔

وہ آج بھی میرے لیے محترم ہے اس میں کبھی غرور نہیں آیا جب (Fulbright Scholar) ہو کر امریکہ گئی تو اس وقت بھی ہمیشہ انکساری سے ملتی۔
جب اُس کی ناگہانی موت کی خبر آئی تو میں سمجھا کہ افواہ ہے وہ ایک مقبول تخلیق کار تھی شاید کسی حاسد نے بے پر کی اڑائی ہو!مگر بدقسمتی سے خبر سچ نکلی مگر یقین اب بھی نہیں آتا!
میں خود کو بے حد مضبوط اعصاب کا مالک سمجھتا ہوں لیکن پروین کی موت پر منعقد ہونے والے تعزیتی جلسے میں،سب کے سامنے رو پڑا تھا!یہ اُس کی بڑائی تھی۔
اُس نے ہی انٹرویو میں مجھے اپنی تربیت اور نمو کا باعث گردانا۔دعاگو ہوں کہ خدا اُس کے درجات بلند فرمائے۔آمین(ملاقات اکتوبر 2009ء)
”میری نمو اور تربیت میں ریڈیو کا بڑا ہاتھ ہے جس نے میری آواز کی قامتوں کو سنوارا اُس کا نام یاور مہدی ہے۔
میری کہانی از پروین شاکر،یاور مہدی از ادیب اویس انصاری۔ص 189.محترمہ دُرشوار،ڈائریکٹر اسکول اینڈ کالجز محکمہ ریلویز پنجاب لاہور
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرا سامنا ایک بے حد پیاری لڑکی سے ہوا جو مجھے اپنا (Extension) لگی اُس دن وہ ہلکے گلابی رنگ میں ملبوس تھی ناموں کے تبادلے اور ابتدائی تعارف کے بعد ہم یوں ہو گئے جیسے صدیوں سے ہماری شناسائی رہی ہو۔

یادوں کے دریچے نے دھیان پر بکھرے ہر صفحے کو الٹ دیا اور جو گردِ ماہ و سال تھی سارے منظر دھندلا گئی مگر ایک منظر اب بھی تر و تازہ ہے جس سے نہ صرف خوشبو آتی ہے بلکہ ہر سانس میں سما جاتی ہے۔
میرا ذہن اُس یادگار دور میں بھٹک رہا ہے جب ہم تمام وقت اکٹھے گزارتے،کلاس روم،لائبریری،کیفے ٹیریا ٹٹوریل گروپ اور پوائنٹ (یونیورسٹی کی بس) ہم کبھی الگ ہونے کا سوچتے بھی نہ تھے۔

یونیورسٹی سے فارغ ہو کر کبھی میں اُس کے گھر چلی جاتی تو کبھی وہ ہمارے ہاں آ جاتی اکثر دوپہریں بھی ہم ساتھ بتاتے البتہ سونے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں چلے جاتے میرے والد صاحب نے اسے بیٹی بنایا ہوا تھا میں بھی اس کی والدہ کو امی کہتی تھی۔میرے گھر والوں نے ہمیشہ اسے دوسری بیٹی کی طرح (Treat) کیا میری والدہ اسے ساڑھی پہننا اور سنگھار کے انداز سکھایا کرتیں اُس کے گھر کا ماحول بے حد سادہ تھا وہ لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے اُن کے پاس دو کمرے ہوتے تھے اور اس کی والدہ گھر کا کام انجام دیا کرتی تھیں ہم اُس سادہ طرز زندگی میں بھی خوشی محسوس کرتے تھے۔
نجانے وہ کیا دور تھا ہر غرض سے پاک اور محبت آمیز!
ہمارے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں تھی ہم ایک دوسرے کے لیے گھر کے افراد کی طرح سے تھے۔وہ ریڈیو پر پروگرامز کرنے جاتی جبکہ اُس کی نظر بڑی کمزور تھی۔
مجھے دُرِ کہہ کر بُلاتی اور اپنی ذات میں گُم رہتی مگر اس میں غرور نہیں تھا وہ ابتداء سے سراپا تخلیق کار تھی میں نے زندگی بھر اسے کسی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے نہیں دیکھا اُس کے رویے میں محبت تھی،اپنائیت تھی اور سادگی تھی اُس کے پاس ٹوٹو نامی ایک بلا تھا جو صرف اُسی سے مانوس تھا وہ کسی کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتا تھا!
تخلیق ابتداء سے اُس کے مزاج میں شامل تھی مجھے یاد ہے کہ کس طرح اسے صبح کا انتظار ہوتا تھا یونیورسٹی پہنچ کر وہ سب سے پہلے مجھے اپنا تازہ کلام سناتی شعر سنانے کے لیے مجھے (Treat) بھی دیتی کبھی کبھار میں اکتا جاتی مگر اسے شعر سنائے بغیر چین نہیں آتا تھا وہ اپنی تخلیق کو اجاگر کرتی تھی۔

اگر اسے ہمہ جہت جامع صفات کہا جائے تو شاید کچھ بے جا نہ ہو گا۔وہ جلد دلوں میں گھر کر لیتی،گھر والے بھی ہماری دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اسے سجنے سنورے کا بے پناہ شوق تھا مگر وہ تہذیب کے دائر ے میں رہا کرتی کبھی حد سے تجاوز نہ کرتی ہم یونیورسٹی کے واش رومز میں لپ اسٹک،آئی لائنر اور سنگھار کی دیگر اشیاء کے تبادلے کرتے اُس کا کہنا تھا کہ میری آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں وہ خود بھی بڑی دلکش آنکھوں اور پرکشش شخصیت کی مالک تھی جس طرح آج کل لڑکیاں بالوں کو سنوارتی ہیں پروین کے قدرتی طور پر بال بے حد خوبصورت تھے وہ اپنے لمبے اور سیاہ بالوں کو چوٹی کی شکل میں گوندھا کرتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو کاجل سے سنوارا کرتی،کفِ لنکس پہننے کا اسے شدید شوق تھا۔
بند گلی اور شائستگی سے بھرپور مشرقی لباس ہمیشہ اُس کی پہچان رہا،گلابی رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا اُس نے تمام عمر بڑا (Balanced) رویہ اپنایا وہ جتنا سہہ چکی تھی اس سے (Bitter) بھی ہو سکتی تھی مگر پھر بھی وہ زندگی کو اچھے طریقے سے (Manage) کرتی رہی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس کی ذات کا عکس اُس کی شاعری میں موجود ہے تو بے جا نہ ہو گا اگرچہ وہ ایک خوشگوار شخصیت کی مالک تھی مگر جیسے ہلکے ہلکے بادل آسمان پر چھائے رہتے ہیں اسی طرح کچھ لوگوں کی زندگی میں دکھ ہمیشہ رہتے ہیں کوئی احساس محرومی ہوتا ہے جو کیفیت کی طرح ساتھ رہتا ہے۔

جس طرح وہ ایک غیر معمولی شخصیت تھی اسے بہت سے مقامات اور زندگی کے مختلف ادوار میں اُس طرح کا برتاؤ نہیں مل سکا۔جس کی وہ حقدار تھی وہ عام شخصیت نہیں تھی لہٰذا اس کا گذارہ بھی کسی عام آدمی کے ساتھ نہیں ہو سکتا تھا مگر جو بات لائق ستائش تھی وہ یہ اتنی متضاد باتوں کے باوجود اس نے جتنا سفر طے کیا وہ ایک لائق ستائش کارنامہ ہے اس کا فن ماہِ تمام تک گیا یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری ہمیشہ (Relevant) رہے گی۔
جیسے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔میں اُس کے شوہر ڈاکٹر نصیر علی سے ملی وہ اچھا انسان تھا اور پروین سے بہت محبت کرتا تھا مگر بات یہ ہے کہ وہ اتنی بلند تھی کہ اُس کے شریکِ سفر کو اتنا ہی بلند اور اس کے ہم پلہ ہونا چاہیے تھا جو اُس کی شخصیت کو ساتھ لے کر چلتا۔
میں نے اُس کے ساتھ بڑے یادگار لمحات شیئر کئے لیکن وہ سول سروس میں آئی تو ہمارے تعلقات کشیدہ ہو گئے میں کہتی تھی،گھر سنبھالو مگر درون خانہ جو حالات تھے اُن کی روشنی میں وہ مزید مراعات والی نوکری کرنا چاہتی تھی۔
میرا موٴقف تھا کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی کے مطابق خود کو ہم آہنگ کرے اس کا گھریلو ماحول بھی وہی تھا جو ہمارے ہاں کا عام مزاج ہے۔مگراس نے اپنے آپ کو ثابت کر کے دکھایا۔اُس سے ملتے جلتے ماحول میں اُس کی شادی ہوئی گویا اسے سمجھنے والا کوئی بھی نہ تھا۔شاید یہی محرومی تمام عمر اُس کے ساتھ رہی البتہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش رہتے ہم نے بڑے انمول لمحات شیئر کئے۔

یونیورسٹی کے زمانے کی خوشیاں بھی عجیب تھیں جن پر شاید لوگوں کو یقین نہ آئے مثلاً ریڈیو پر پروگرام ملا تو خوش ہو گئے۔کیفے ٹیریا میں سموسے کھاتے اور کوک پیتے ہوئے ہم خوش ہو جاتے کبھی کبھار جب پیسے ختم ہو جاتے تو ہم ایک ہی کوک پیتے اور اس پر بھی خوش ہو جاتے مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پروین نے کبھی کسی کی ذاتی زندگی پر کوئی عیب جوئی کی ہو یا اُسے وجہ تفریح بنایا ہو البتہ خاتون ہونے کے ناطے اُس کی کچھ حدود مقرر تھیں اور دوستوں میں وہ ایک خوشگوار شخصیت کی مالک تھی۔

مجھے یاد ہے کہ آخری بار ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ لاہور میں میرے گھر آئی وہ کامیابی کے تمام مراحل طے کر چکی تھی پاکستان تو کیا دنیائے ادب کی سب سے مقبول،معتبر اور محبوب شاعرہ تھی اُس کے پاس دنیا کی تمام نعمتیں تھیں،ان ہلکے ہلکے بادلوں اور محرومی کی جھلک میں نے اُس وقت بھی محسوس کی جو ابتداء سے اُس کے ساتھ تھی۔
وہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک اُسی ذہنی کیفیت میں تھی جو ایک تخلیق کار کے اندر ہوتی ہے جب اُس کا انتقال ہوا تو مجھے یقین نہیں آیا میرے لیے وہ سانحہ ایک (Major Shock) تھا نجانے میں کتنے دن صدمے کی حالت میں رہی اُس کے خوبصورت چہرے کو نجانے کس کی نظر لگ گئی تھی میں اُس کی وہ تصویر بُھلا نہیں سکتی جو اخبارات میں اُس کی موت کی خبر کے ساتھ شائع ہوئی اب بھی یاد کرتی ہوں کہ کیا سے کیا ہو گیا!خدا کرے کہ اب وہ جہاں ہے وہاں اُس کے درجات بہت بلند ہوں اور اس کی روح بہت پرسکون ہو۔
(آمین)
ٹیلی فونک انٹرویو
8،مارچ 2010ء۔محترمہ دُرشوار،ڈائریکٹر اسکول اینڈ کالجز محکمہ ریلویز پنجاب لاہور
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں جو اچانک ہماری زندگی میں آتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہمارے دل میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں وہ جتنے نازک دکھائی دیتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر طاقتور ہوتے ہیں ایسے کہ صدیاں بھی ان کو ذہن سے محو نہیں ہونے دیتیں میں اپنے آپ کو 27 برس گزر جانے کے بعد بھی اس کی یادوں سے نہیں نکال پائی عجیب اتفاق ہے کہ آج بھی اُس پر بات کرتے ہوئے میں ذہن کے کسی دریچے کو وا نہیں کرتی نہ اُس کی یادوں پر کوئی گرد جمی ہے کہ وہ دھندلائی ہوں وہ میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے میرے گھر میں اور میرے دل میں اس طرح رہتی ہے جیسے کبھی اُس کو میری ذات سے جڑے احساس تحفظ نے باہم کر دیا تھا۔

بس فرق ہے تو اتنا کہ اب وہ بظاہر ہمارے درمیان نہیں رہی اُس کی رنگوں،خوشبوؤں اور محبتوں سے بھرپور شخصیت اب ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
اُس سے پہلی ملاقات کا احوال بھی بڑا عجیب تھا تب سے وہ میرے دل میں ایسی سمائی کہ جیسے کوئی اپنے گھر میں براجمان ہوتا ہے اگرچہ میں شاعرہ یا ادیبہ نہیں ہوں لیکن وہ ایسی ہستی تھی کہ آپ آہستہ آہستہ اُس کے وجود کے سحر میں گرفتار ہونے لگیں اور اس کا سراپا تخلیق وجود ہر شے کو آراستہ کر دے۔

اُس کی شخصیت بڑی دلکش تھی۔نازک اور نفیس بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور لمبی پلکیں اُس کا ذہانت سے بھرپور توانا وژن (Vision) جس نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ہماری وجہ ملاقات بھی محکمہ کسٹمز تھا میں انکم ٹیکس گروپ میں تھی۔
ہم دونوں میں ہم نام ہونے کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہ تھی،خاندانی پس منظر الگ الگ تھے وہ اہل تشیع تھی میں مسلکِ اہلِ سنت سے تعلق رکھتی تھی وہ ادب میں بڑا نام کما چکی تھی اور میں محض اس بناء پر ادب سے وابستہ تھی کہ علامہ اقبال نے میرے دادا عبدالقادر پر ایک نظم لکھی تھی،میری حیرتوں کی انتہا نہ رہی جب اس نے اپنے چوتھے مجموعہ کلام انکار کو میرے نام کیا اس کی اعلیٰ ظرفی کی دل سے معترف ہو گئی میں اس سے محبت کرتی تھی کیونکہ وہ تھی ہی محبت کے لائق میں سمجھتی ہوں وہ جس سے ملتی اُس کو اپنا گرویدہ بنا لیتی مگر اس میں اس کی شعوری کوششوں کو اتنا دخل حاصل نہ تھا لوگ اس سے متاثر ہو جاتے تھے میں نے اس لیے جو بھی کیا اپنا فرض سمجھ کر کیا جب اسلام آباد آنے کے بعد کچھ لوگوں نے اُس کی شہرت کو داغدار کرنا چاہا تو میں نے اور میرے خاوند (آغا افضال حسین) نے فیصلہ کیا کہ ہم اُس کے مخالفوں کے خلاف عَلَم جہاد بلند کریں گے۔
اُس نے ممنونیت کے اظہار کے لیے اپنی شاعری کی کتاب میرے نام کر دی اُس کی اعلیٰ ظرفی کو یاد کر کے آج بھی میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں وہ ہمارے گھر میں سال بھر رہی بلکہ میں ہی چاہتی تھی کہ اس کے آس پاس حفاظت کا ایک حصار ہو لیکن وہ بڑی بہادری اور خودداری سے حالات کا مقابلہ کرتی رہی۔
میں اسے (My Flower Child) کہا کرتی وہ مکمل طور پر ایک غنائیہ نظم دکھائی دیتی میں اُسے پڑھتی اور سمجھتی رہی مجھے یاد ہے کہ وہ گھنٹوں گھر کے ٹیرس میں بیٹھی رہتی کبھی لگتا کہ خود کلامی کر رہی ہے اور جب شعر کا نزول ہوتا تو اُٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیتی میں سمجھ جاتی کہ شعر کی آمد ہو رہی ہے!
پروین ایک حساس روح تھی وہ کوئی بات کئے یا پوچھے بغیر سب کچھ سمجھ جایا کرتی اپنے شعری وجدان کی بدولت انسانوں کی اندرونی کیفیات کو محسوس کر لیا کرتی جب امریکہ گئی تو ایک سال میری بہن کے گھر قیام کیا اس طرح وہ ہمارے گھر کا ایک فرد تھی۔

وہ کوئی خاص فرد تھی اور ہمیشہ دوسروں سے بُلند اور ممتاز نظرآتی میں حیران ہوتی ہوں کہ اتنی کم عمری میں اپنی شاعری کی بدولت اس نے جو شہرت حاصل کی اسے کتنی بردباری سے اپنے اندر جذب کر لیا جب وہ ہمارے گھر میں قیام پذیر تھی تو ہم کھانے کے وقت اسے درمیان میں بٹھاتے یہ ایک غیر تحریر شدہ دستور تھا جس کا ہمارے مہمان بھی احترام کرتے۔
اُس نے جب اپنی کلیات طبع کیں تو مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا کہ اس کے کام جلدی جلدی ہوتے جا رہے ہیں میں وہ یادگار دن فراموش نہیں کرسکتی جب میری بہن نیلوفر کے بیٹے کی شادی ہوئی سب نے اُس سے سہرا سُننے کی فرمائش کی جس پر اُس نے کہا کہ عورتیں سہرا نہیں لکھ سکتیں وہ مذاق کر رہی تھی اُس نے سہرا لکھا جو سب کو بہت پسند آیا۔

20 نومبر کو اُس نے مراد کی سالگرہ پر یہ اعلان کیا کہ اگلے برس سے مراد کی سالگرہ پر نہیں ہو گی کیونکہ اب مراد بڑا ہو گیا ہے کسے خبر تھی کہ یہ واقعی آخری موقع ہے پروین کے لیے مراد کی کسی تقریب کو منعقد کرنے کا۔وہ بظاہر بہت کامیاب اور بلند ہمت دکھائی دیتی مگر حقیقت میں وہ احساس تحفظ کی شدید طالب تھی میں نے اپنی بساط میں اُس کی زندگی میں پائے جانے والے احساسِ عدم تحفظ کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

اُس کا آخری مہینہ بے حد مصروف تھا اور میری اس سے ملاقات 23 دسمبر کو ہوئی۔جب اس نے میرے بھانجے اور اس کی دلہن کے لیے اسلام آباد کلب میں عشائیہ کا اہتمام کیا۔
میں قدرت کے اس نظام پر سوچا کرتی ہوں کہ ماضی میں جب بھی پروین کو میری ضرورت ہوتی تو میں اس کے ساتھ رہی میری ڈھال سے اسے ایک گونہ سرشاری کا احساس ہوتا وہ مجھے آپا کہا کرتی جب وہ کئی ثانئے تک فیصل چوک پر ایکسیڈنٹ کے بعد موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہی تو اُس وقت اُس لمحے بس خدا ہی تھا جس نے اُس کی پہچان کروائی اور کسی بندہ خدا نے اسے اسپتال پہنچا کر ہمیں اطلاع دی۔

وہ منظر میرے رگ و پے میں ہمیشہ سمایا رہے گا کہ جب پمز اسپتال میں نرس نے مجھے اُس کے جوتے،پرس،گھڑی اور وہ چادر لا کر دی جس پر اُس کا خون جما ہوا تھا۔میں سوچ رہی تھی کہ خدا کو بھی اپنی اس خوبصورت تخلیق کو جلد اپنے پاس بُلانا تھا وہ بھی اُس سے محبت کرتا تھا اور وہ خود اپنی تخلیق سے اسقدر محبت کرتی تھی کہ جب اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اس سے قبل وہ اپنی نوٹ بک میں دوران سفر کچھ لکھتی جا رہی تھی،میرے پاس اس کی وہ ڈائری آج بھی موجود ہے جس پر اس کے خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔
آج 27 برس ہونے کو آئے ہیں میرے محسوسات آج بھی اُس کے لیے وہی ہیں اُس کی کتابوں کی فروخت کا اب بھی وہی عالم ہے جو اس کی زندگی میں تھا ہم مہینوں تک اُس کے لیے فنکشنز منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور جب پروگرام مکمل ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اُس کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔اُس کے ساتھ محبت میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(ٹیلی فونک گفتگو خالدہ حسینُ (افسانہ نگار)
کانچ کی گڑیا اور چالاک شہزادی یہ دونوں مضامین خالدہ حسین نے پروین کے لیے تحریر کئے پروین کی ان سے گہری دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 26 دسمبر 1994ء کی خونی صبح پروین نے جس شخصیت سے فون پر آخری بار بات کی وہ خالدہ حسین ہی ہیں۔
وہ خالدہ کی تحریروں سے بے حد متاثر تھی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی تھی کہ انہیں (Mainstream) کا حصہ ہونا چاہئے۔
خالدہ کہتی ہیں کہ ان کی دوستی کی ابتداء 1984ء میں کراچی ہی میں ہوئی اس سے قبل پاکستان کانفرینس جو کہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی وہاں رسمی طور پر علیک سلیک رہی۔پروین نے مجھے بتایا کہ وہ میرے افسانے پڑھتی ہے اور اس وقت تو حیرتوں کی انتہا نہ رہی جب وہ انڈیا گئی اور ریڈیو آکاشوانی نے اس کا انٹریو کیا تو اس نے میرا بھی ذکر کیا پھر اس نے ڈان اخبار میں ایک انٹرویو دیا جس میں میرا ذکر موجود تھا ایک بار کراچی میں ہمدرد فاؤنڈیشن والوں نے اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی تھی میں نے اس کی خواہش پر مضمون پڑھا۔
مجھ سے ملتی اور خوب باتیں کرتی وہ مجھ سے ہمیشہ اصرار کرتی کہ جب تم اتنی (Talented) ہو تو اس طرح خاموش کیوں رہتی ہو اسلام آباد میں معروف صحافی احمد سلیم سے میرا انٹرویو بھی کروایا۔
وہ ایک انسان کی حیثیت سے ایک بے حد مخلص دوست تھی کراچی میں اُس کے اصرار پر سلطانہ مہر کے پروگرم میں بھی شریک ہوئی۔
میرے وجود میں اب بھی ایک خلاء ہے ایک ایسے دوست کا جسے میرے ہونے سے بڑی تقویت رہی وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتی تھی اور میرے اور اس کے درمیان بہت (Understanding) تھی مجھے اس کی عشقیہ شاعری سے زیادہ اس میں موجود (Metaphysical Touch) مابعد الطبیعاتی دائرے بہت پسند ہیں اپنے انتقال سے محض چند گھنٹے قبل اُس نے مجھے فون کیا اور کہا میں دفتر جانے کی تیاری کر رہی ہوں وہ اعلیٰ افسر تھی پھر بھی اپنے کپڑے خود ہی پریس کیا کرتی۔

موت کی خبر آئی تو یقین نہ آیا ایسا لگتا تھا کوئی صدیوں کا جاگا ہوا اب چین کی نیند سو رہا ہے اُس کا خوبصورت سراپا آنِ واحد میں ایک ہولناک سانحے کی نذر ہو گیا۔
آخری دنوں میں وہ کچھ بیمار بھی رہنے لگی تھی والد کے انتقال کے بعد دل کی تکلیف بھی رہنے لگی تھی لیکن وہ مستعدی سے اپنے دفتری فرائض انجام دیتی رہی۔
پروین کی یادیں کے سلسلے کے انٹرویوز میں جس شخصیت کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوئی وہ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب ہیں کہ جن کی انگلیاں تھامے پروین نے ننھی بچی کی طرح فن کی دنیا میں قدم رکھا جب تک وہ زندہ رہے پروین کے حوالے سے لکھی ادبی ریفرنس یا کسی مضمون میں اپنی پدرانہ شفقتوں کا اظہار فرماتے رہے انہوں نے سلطانہ بخش کی مرتب کردہ کتاب خوشبو کی ہم سفر میں بیٹی کے عنوان سے ایک مضمون میں یوں اظہارِ خیال کیا۔

پروین کی سالگرہ پر Happy Birthday کہنے کے لیے فون کیا تو طے ہوا کہ میں اور منصورہ بیٹی پروین کے پاس اسلام آباد جائیں گے اور کم سے کم ایک ہفتہ قیام کریں گے۔مسقط میں مجھے اس المناک حادثے کا علم ہوا جس نے میری بیٹی مجھ سے چھین لی اسلام آباد پہنچا تو بارش ہو رہی تھی مجھے محسوس ہوا جیسے میرے اور منصورہ بیٹی کے ہمراہ پوری کائنات رو رہی ہے۔ہم دونوں پروین بیٹی کے گھر پہنچے تو مجھے فانی بدایونی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آ رہا تھا۔


مجھے بُلا کے یہاں،آپ چھپ گیا ہے کوئی
وہ مہیماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا

وہاں اس کے گھر میں اس کی بڑی سی مسکراتی بلکہ ہنستی ہوئی تصویر کے ساتھ اس کی امی بلک بلک کر رو رہی تھیں اور کمرے کی فضا میں یا شاید میرے کانوں میں پروین کے آخری دنوں کے کلام یہ شعر گونج رہا تھا۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

نیر حیات قاسمی,مدیر فنون لاہور۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra