5 Episode Dosra Hissa - Afsoon E Intezar E Tamanna - Para Para By Nusrat Zahra

پانچواں باب دوسرا حصہ ۔ افسونِ انتظارِ تمنا - پارہ پارہ - نصرت زہرا

’’میں نے اردو،انگریزی،فارسی اور کسی حد تک عربی شاعری کا مطالعہ کیا ہے اور متعدد دیگر زبانوں کی شاعری کے انگریزی اور اردو تراجم پڑھے ہیں مگر میں نے آج تک پروین کی سی امیجری شاذہی دیکھی ہے کہ اُس کے ہاں تو بادل کے ہاتھ تھام کر چلنے والی خوشبوئیں ہیں،سناٹوں کے تہہ خانے ہیں،کھڑکیوں پر چاند کی دستکیں ہیں،نکہتوں کے عکس ہیں،بچپن میں ساتھ کھیلی ہوئی برکھا رُتیں ہیں۔
فصلِ بہار کے پہلے گلاب کی ٹھنڈ کیں ہیں،اشجار کی سبز ہوتی ہوئی برہنگیاں ہیں گھر کے دروازے پہ رکھی ہوئی نرم ہوا کی ننھی ہتھیلیاں ہیں۔ہوائے شام کے نمناک ہوتے ہوئے لہجے ہیں اور شاخِ گل کی صلیبوں پر بالیوں کی طرح لٹکتے ہوئے چاند ہیں۔اتنی پُرجمال امیجری اگر اور بھی کہیں دستیاب ہے تو پھر میرا مطالعہ محدود ہے۔

(جاری ہے)


(خوشبو کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا مضمون)
یہ الفاظ ایک ایسے خلیق و شفیق مہربان استاد کے ہیں جس نے پروین کو دنیائے ادب میں متعارف کروایا ،پروین انہی کی انگلیاں تھامے ننھی بچی کی مانند خموشی سے وہاں جاتی رہی کہ جہاں یہ سایہ اسے لے گیا قاسمی صاحب ہی اُس کی پہلی کتاب خوشبو کے ناشر تھے اور انہی کے ادبی پرچے فنون میں متعارف ہوئی۔

جس کے بعد وہ سراپا غزل مشاعروں میں شرکت کرنے لگی اس سفر میں اُس نے کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
پروین کی غزل کے بارے میں اُس کے بعض ہم عصر شعراء اور ماہر فن اساتذہ کا متفقہ بیان کچھ اس طرح ابلاغیت کا حامل ہے کہ کور چشموں کے لیے بھی شہرِ رفاقت کے راستے آسان کرتا ہے۔
وہ احمد ندیم قاسمی،افتخارعارف،ادا جعفری،منیر نیازی،احمد فراز،محسن احسان،محمد علی صدیقی،جون ایلیا،علی سردار جعفری،فہیمدہ ریاض،کشور ناہید،ضمیر جعفری،قتیل شفائی،ڈاکٹر اجمل نیازی،امجد اسلام امجد اور عطا شاد جیسے شعراء سے دادِ سخن پا چکی تھی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی،شفق خواجہ،ڈاکٹر فرماں فتح پوری اورنظیر صدیقی جیسے نقاد اور دانشور اسے ایسی شاعرہ سمجھتے ہیں کہ جس سے غیر معمولی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
ہر بڑے اور مستقبل گیر ادب کے خالق کی طرح پروین نے عہدِ قدیم کے شعرائے کرام کی تخلیقات کو نشانِ راہ کی طرح اپنے راستوں میں شریک کیا۔وہ میر،غالب،اقبال اور فیض کی روایت کی ہم قافلہ نظر آتی ہے۔
مگر بات یہیں مکمل نہیں ہو جاتی وہ اس میرا کی روح کے خمیر میں بھی گندھی ہوئی تھی جس کی روحانی طاقتوں کی بدولت گردھر گوپال کی مورتی شق ہو گئی تھی۔
پروین کی غزل بھی اس کی طرح نازک اور من موہنی سی ہے ابتدائی غزلیں،سرشاری،لگاوٹ اور پیہم چاند کی تمنا کرتے رہنے والی اُٹھان سے پُر ہیں جن میں جذبوں کی سچائیاں اور محبت کے لیے آبلہ پا چلتے رہنے کی امنگیں نظر آتی ہیں۔
1988ء میں شائع ہونے والے اس کے عالمی شہرت یافتہ مجموعۂ کلام خوشبو میں میں 123 کے قریب غزلیات شامل ہیں۔
پروین کا خود اپنی ابتدائی شاعری کے بارے میں کہنا تھا کہ
’’یہ محبت کی شاعری ہے سادہ،اس میں کوئی فلسفہ نہیں میں زندگی کے جس دور سے گزر رہی تھی اسے جوں کا توں پیش کر دیا لوگ اس کتاب کو پڑھ کر اُس لڑکی سے خود کو (Identify) کرتے ہیں وہ اس جیسے ہوتے ہیں یا اس جیسا ہونا چاہتے ہیں۔
‘‘
حالانکہ اُس کی شاعری ایسی نہیں جیسے چوراہوں پر پڑھا جائے،سیاسی جلسوں کی زینت بنے اور نعرے کی شکل میں زبان زد عام ہو جائے پھر بھی اس کی غزلیں بھرپور تر ہیں کہ اس میں انسانی زندگی کی ساری جھلکیاں موجود ہیں اور شکست و ریخت کے باوجود زندگی سے محبت کا جذبہ شدید تر ہے اور ضرب الامثال کی طرح دلوں پر منقش ہے انسانی حیات کی نمو اور بقاء پر اصرار کرتا ہوا اس کا لہجہ کہیں بھی کھردرے پن کا تاثر نہیں دیتا جیسا کہ محبت سے خالی زندگی،محبت سے محروم زندگی یا خوشیوں سے محروم زندگی کے بعد کسی بھی تخلیق کار کے طرز بیان میں تبدیلی آنا ناگزیر ہوتا ہے۔
پتھر میں گلاب دیکھنے والی فطرت کی حامل پروین کو جس طرح شاعری عطیہ خداوندی کی طرح ودیعت ہوئی تھی اسی طرح اُس پر لفظیات کی کائنات نے بھی اپنی بانہیں پھیلائے رکھیں۔
لطیف کا شمیری نے پروین شاکر فکر و فن از احمد پراچہ میں اُس کی تغزل آمیز شاعری کو کچھ اس انداز میں سراہا کہ جب پروین شاکر انسان کی داخلی کیفیات کا اظہار کرتی ہیں تو وہ اپنی چشم خوں بستہ اور ان عذابوں کا ذکر کبھی نہیں بھولتی جن کی پذیرائی کے لئے اُس کے ہاتھوں میں ہمیشہ گلاب رہتے ہیں اس عالمی ہمتی اور وسعت قلب و نظر کے باوصف اسے قدرت نے شہر ہزار درکا اسم عطا کیا اور اسے عرفانِ ذات کے ساتھ ساتھ دردِ کائنات کی دولت سے بھی نوازا۔

پروین کو کہنہ مشق تخلیق کاروں اور نقادوں نے غزل کی شاعرہ قرار دیا کہ جو تجربے کے حسن کی روشنی میں اسے جذبہ بنا کر سپردِ قلم کر دینے کے فن سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کا مشاہدہ وجدان کی رہبری کرتا ہے اور وجدان اُس کے فن کے لیے نئے راستوں پر چلنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔وہ راستے کہ جن میں پاؤں چھل جاتے ہیں،آبلہ پائی مقدر ہوتی ہے اور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور عذاب آگہی جس کے بارے میں پروین نے کہا تھا کہ ’’آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا‘‘۔

آشوبِ ذات سے اُٹھنے والا دھواں بامعنی ہو تو اپنے دردوں اور الم انگیزی کو کائنات سے ہم آہنگ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ میر سے غالب،غالب سے اقبال اور فیض سے ندیم تک تمام بڑے شعراء نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے الگ الگ خانے نہیں بنائے ذات کی گھپاؤں میں ڈوب کر کائناتی شعور کی منزلیں طے کرنا دراصل خود ایک فن ہے،پروین کی غزل کو مرصع، مقفیٰ اور مصفیٰ کہا گیا اور اُس نے واقعی ان تمام الفاظ کو ترازو کر ڈالا۔

کلاسیکی روایت سے جڑی پروین کی غزل،جو زیادہ تر غزلِ مسلسل دکھائی دیتی ہے،ایک طرف اُس کی وہ دنیا کہ جس کی ہر اینٹ خوابوں اور ہری سوچ سے بنی اور اُس پر چار چاند اس کے اصرار نے لگائے کہ جو اس خوابناک زندگی کے سچے کرداروں کو حقیقت میں بالکل خوابوں جیسا سہانا روپ دینے کے لیے چلتی رہتی ہے یہاں تک کہ بارش کی ایک ہلکی سی پھوار اُس کے ذہن رسا میں شعر کے بیچ بو جاتی ہے اسے کسی چراغ کے ہمراہ چلنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی خوشبو کی روشنی اتنا اجالا بکھیر چکی ہے کہ جب بھی زمین پر امن اور محبت کی صورت گری کی جائے گی تو ماہِ تمام کا حوالہ ناگزیر ہو جائے گا مگر پروین کے معاملے میں ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ اس کا کلام جب بھی پڑھا جائے،ہر بار ایک نیا تاثر اور نئے معنی اذہان پر نیا تاثر چھوڑتے ہیں اُس کے فن پر بے شمار مضامین لکھے گئے اسے غزل کی البیلی راجکماری کہنے والی فہمیدہ ریاض ہوں کہ ادب کی رانی جھانسی کہنے والے ضمیر جعفری،تمام ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سچائی کے بغیر اس قدر راستہ طے نہیں کیا جا سکتا،اس کے کلام میں موجود جمالیات کے بیان کو سید ضمیر جعفری مرحوم نے ابتداء میں اُس کی شاعری کو شالامار باغ کی چاندنی سے تشبیہ دی تو ساتھ ہی چاندنی رات کے حسن کے کرب کو بھی ضرور اجاگر کیا،انکار طبع ہوئی تو وہ چاندنی کے حسن کو شاعری کی رانی جھانسی سے تشبیہ دے رہے تھے یہ جملہ خود اور لہجہ خود ایک گواہی ہے۔
اُس بے پایاں سفر کی جس شہر میں نوحے پس دیوار بہت تھے ’’انکار کی تقریب رونمائی میں انہوں نے پروین کو یوں خراج و تہنیت پیش کی تھی کہ ان کے نزدیک اس شہر نوا کا مرکزی آہنگ بلکہ چنبیلی چوک غزل ہی ہے تقابل مقصود نہیں مگر غزل گاڑھی اور گھنی ہے نظم کھلی اور کھلیانی ہے۔
ہر گُل را رنگ و بوئے دیگرے،غزل آدم گری کرتی ہے اور نظم شیشہ گری یہ وہی فرق ہوا جو نغمہ خوانی اور جہاز رانی میں ہے اُنہیں پروین کے شعر میں واویلا نظر نہیں آتا وہ انقلاب کی شاعرہ ضرور ہے مگر یہ انقلاب رُباب کا ہے ڈھول کا نہیں۔

ضمیر جعفری ایسے جوہر شناس ادیب نے کسی ترنم سے اُس کے فن پر مصوری کی ہے کہ اُس کے فنکارانہ دھیان گیان کے ہر سچے سپر کے ستار بول اُٹھے ہیں بے شک اُس کی شاعری کا ابتدائی موضوع لڑکی کے نوخیز جذبات سے عبارت تو کیا جا سکتا ہے۔مگر عورت کو اس کی شاعری کا بنیادی موضوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔اُس کے موضوعات کے تنوع نے پورے شعری منظر سے لے کر انسانوں کی سوچ کے دھارے کو تھامے رکھا وہ معاشرہ جو لفظ محبت کو وبائی اور متعدی مرض سمجھ کر اس سے کترا کے چلتا ہے اُس معاشرے میں پروین کے مجموعہ ہائے کلام محبت کے روایتی تحفوں کے طور پر دیئے جاتے ہیں اُس نے اپنے تمام شعری منظر میں قارئین کو متاثر کیا جو نہ صرف اُس کے فن سے والہانہ محبت کرتے تھے بلکہ اُس کی ایک ایک جنبش کو سُرمۂ چشم بنا کر رکھتے تھے۔
اُس نے بہت معتبر اور ممتاز ناموں کے درمیان رہ کر اپنا ایک منفرد مقام بنایا اور اسے تاعمر برقرار رکھا،اب جبکہ اُس کی رحلت کو 27 برس مکمل ہو چکے ہیں اب بھی وہ  دلوں پر یونہی حکمران ہے جیسے وہ کہیں نہیں گئی،پروین یہیں کہیں ہے بس یہ ہوا ہے کہ اپنے لامتناہی سفر کے دوران ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئی جو ابد کی طرف جانے کے لیے پہلا پڑاؤ ہے۔
اس کی آواز محض اپنے ہی عہد کی عکاس نہ تھی بلکہ اُس کے ارتقاء پذیر شعری رویے بدلتی ہوئی سیاسی،سماجی اور ثقافتی مناظر کے بھی عکاس ہیں۔
چاندی پی پی کے مچلتی ہوئی پاگل راتوں سے لے کر بال کھولے ہوئے شب تک کا منظر لکھنے کے دوران پروین کہیں نرگسیت کا شکار نہیں ہوئی اُس نے زندگی سے کچھ اس انداز میں محبت کی تھی کہ وہ ہمیشہ اسے ہرا بھرا پائندہ دیکھنے کی خواہاں تھی لیکن جہاں زندگی اُس کے جمالیاتی معیار سے متصادم ہوئی اس نے اسے شعر کا پیکر عطا کیا یوں کہ پورے عہد کی نبضیں اُس کے اشعار میں صاف سُنی جاسکتی ہیں۔
اُس نے زندگی میں سر اُٹھا کر چلنے کا جو اعلان کیا تھا۔اُس کے لیے سروں پر کفن باندھ کر حالتِ جنگ میں رہتے ہوئے زندگی کرتی رہی اور غزل کہ جو اس کا محبوب ترین ذریعہ اظہار رہی اُس کے سراپے کو فرسودہ کہنے کے بجائےخود کو کلاسیکل سے مربوط کر کے نئے جہانوں کو تسخیر کرتی رہی۔یہی وجہ ہے کہ اُس کی غزل میں جو اشکال اُبھرتی ہیں وہ براہِ راست انسانی جذبوں سے جڑی ہوئی اور پیوستِ زمین دکھائی دیتی ہیں محض محرومیاں ہی اُس کا وردِ زبان نہیں ٹھہرتیں وہ سرشاری کے عالم میں آنکھوں پر پھول باندھے جگنو تلاشتی ہوئی جب شہر کی سنسان گلی میں تنہا رہ جاتی ہے تو اپنے تجربات کو قلبِ شعر میں سمو کر آفاقی سچائیوں سے ہمکنار کر دیتی ہے۔

اُس کے استعاروں اور تشبیہات کا بیان لکھنے کے لیے ایک الگ تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے اُس نے فطرت سے جو استعارے لئے اور انہیں شاعری کا حصہ بنایا یہ کہنا عین حق ہو گا کہ اس نے اپنا اسلوب خود وضع کیا۔
اُس کا بیان واضح،صاف،رواں،شگفتہ،دلآویز اور کہیں کہیں ماورا محسوس ہوتا ہے وہیں اُس کا زندگی پر ایمان سے پُرلہجہ،یقین سے لبریز اعتماد اسے خود رحمی جیسے جذبات سے بچائے رکھتے ہیں۔

حبیب جالب نے کہا تھا

دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے

پروین کا تعلق بھی معدودے چند افراد کے گروہ سے ہے جو ظلم ناانصافی،بدصورتی،اورغیر متوازن زندگی سے انکاری ہیں اُس کا تصورِ محبت دراصل انسانی بقاء کا تصور ہے جو اسے جینے پر آمادہ کرتا ہے اُس کے جان لیوا سناٹوں میں بھی صبح ہونے کا یقین اجاگر رہتا ہے۔

وہ ایسا بیدار ذہن لے کر پیدا ہوئی جو زخم کے پھول بننے تک شجر سے پیوستہ رہتے ہیں اسے اپنی شناخت کے سب سے معتبر حوالے اپنے وطن کی محبت اور اُسے پر بہار دیکھنے کی تمنا دیارِ غیر میں بھی بے چین رکھتی ہے،شناخت کا یہ لمحہ جب ٹھہر کر سوچتا ہے تو آپ ہی آپ مسکرا اُٹھتا ہے کہ اس کی مٹی میں کیسے کیسے لعل و گوہر چھپے ہیں۔
پروین نے بھی زندگی میں تبدیلی اور جبر کے بجائے شکر کی فضا میں سانس لینے کی تمنا تو کی تھی مگر اُس کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی اُس نے دشتِ بلا میں کربلائی روح کی جو تمنا کی تھی خدا نے اُسے حرف بہ حرف مستجاب کیا۔

پروفیسر یونس حسن پروین شاکر کی غزل کے رجحانات ایک تحقیقی مطالعہ (قومی زبان،مئی 2005ء) میں تحریرکرتے ہیں۔
’’پروین کی غزل میں حرفِ سردار کی گونج واضح سنائی دیتی ہے۔جو جبر اور ظلم کے خلاف ایک ردِ عمل کی علامت ہے۔اُس نے لفظوں کی حُرمت کا خیال رکھا ہے اور انہیں حاکم وقت کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیا یہی اُس کی فکر کی عظمت کی دلیل ہے تو دوسری جانب وہ تلخی حیات سے گھبرانے کے بجائے زندگی کی ہر آزمائش پر پوری اترتی ہے۔
‘‘ اور صفیہ عباد کے الفاظ میں۔
’’یہی وہ موڑ ہے جہاں سے وہ زندہ رہنے کا سلیقہ قوت اور حوصلہ اپنے اندر سے حاصل کرتی ہے اُس کی شاعری میں شعورِ ذات کا احساس اتنا قوی ہے کہ جیسے اس نے اپنے وجود،اپنے احساس کے سپرد کرنے کا عرق نچوڑ لیا ہو۔ذات کا شعور بڑے خواب دیکھنے والے انسان کے لیے نعمت بھی ہے اور ایک تکلیف دہ احساس بھی،یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے تمام انسانی رویوں کو زبان ملتی ہے اور کبھی وہ گنگ ہو جاتی ہیں یہیں سے انسان کو بیداری و بے حسی ودیعت ہوتی ہے زندگی کی اصل سچائیوں کے اوراق بھی یہی کھلتے ہیں۔
اور یہی بند ہو جاتے ہیں۔
(خوشبو پھول تحریر کرتی ہے،سلطانہ بخش)
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ شاعری کو میزان و معیار میں پرکھنے کا پیمانہ محض اچھے یا برے اشعار ہوتے ہیں۔شعر یا تو اچھا ہوتا ہے یا برا اور اس کی اچھائی کا اندازہ اس کی برجستگی سے بھی ہوتا ہے اگر اس بے ساختگی سے وارد نہیں ہوتا جتنا پھول میں تو اس سے بہتر ہے کہ شعر وارد ہی نہ ہو۔

مگر پروین ان خوش بخت تخلیق کاروں میں شامل ہے کہ جو شعری حسن میں بے ساختگی سے اظہار کرتے ہیں جیسے آبشار دیکھنے والوں کو دم بخود کر دیتی ہے،دھوپ میں بارش کا منظر ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح پروین کی غزلوں میں وحدتِ تاثر ایک زبردست تخلیقی قوت کے طور پر جلوہ افروز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔غزل کی صنف میں وہ جہاں
کوزے کو دریا میں سمیٹتی رہی وہیں غزل مسلسل اس بات پر استدلال کرتی ہے کہ پروین نے غزلوں میں انفرادیت اورجدت قائم کرنے کے ساتھ ایک نئی تاریخ بھی رقم کی ہے۔
جدید نظم بھی جدید غزل کی طرح بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح اپنا رستہ تلاش کرتی نظر آتی ہے۔جبکہ اردو زبان میں پروین کا ذخیرہ الفاظ آمد کی طرح نادر و نایاب و صف ہے وہیں اُس کی غزلوں میں بیک وقت انگریزی،فارسی،ہندی اور عربی ترکیبات کا انوکھا امتزاج توجہ مبذول کر لیتا ہے۔وہ تاحیات مطالعے کے عمل سے گزرتی رہی اور اس خوبی کی بدولت اس کا لہجہ بہت دیرپا،توانا اور ہزاروں میں پہچانا جا سکتا ہے۔
جہاں تک کسی بھی فکر سے متاثر ہونے کا تعلق ہے۔تو وہ میرا بائی کے ہم قافلہ نظر آتی ہے۔
میرا بائی جس کے بارے میں اس کا ایک شعر ہے

کوئی سیفو ہو کہ میرا ہو کہ پروین اُسے
راس آتا ہی نہیں چاند نگر میں رہنا

میرا کی طرح پروین بھی کم عمری میں عشق کے جذب کو تصور و وجدان یا احساس وجدان میں دیکھا جا سکتا ہے راجکماری میرا کے من کے پٹ کھولنے والا گردھر گوپال،کرشن تھا کہ جس کی مورتی نے میرا کی خود سپردگیوں کو انتہاؤں پر پہنچا دیا فرق صرف یہ ہے کہ میرا کا عشق،عشق حقیقی ہے اور پروین کا عشق مجاز سے ہوتا ہوا کائنات کے تمام دکھوں کو اپنے اندر سمیٹتا ہے اور پھر موت کے تصور سے اس طرح ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ موت اسے ہر جگہ سانس لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اور کمال حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ جب وہ مسلسل موت لکھ رہی تھی اس کے کچھ عرصے بعد اس نے ابدی مسکن کی جانب رخ کر لیا نجانے قدرت کے ساتھ اس کی ابلاغیت (communication) کا کیا عالم ہو گا کہ جس نے مظاہر فطرت سے اپنی شعری دنیا کو آباد کیا تھا۔جاتے جاتے اس کا وجدان اسے رختِ سفر باندھنے کی تلقین کر رہا تھا۔جیسے کہانی کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسے انجام تک پہنچنا ایک ناگزیر عمل ہے لوگ اس انداز کی منظر کشی اس وقت کرنے پر قادر ہوتے ہیں جب ایک کہانی ختم ہو چکی ہوتی ہے لیکن کہانی کار خود اپنی کہانی کو اس صورت میں مرتب کر سکتا ہے جب اس کا وصفِ کشف قدرت کے نظام سے مربوط ہو پروین کو خدا کی جانب سے کچھ مہلت اور مل جاتی تو وہ یقینا صوفیانہ شاعری میں دنیا پر ایک اورجہت سے آشکار ہوتی!
یوں تو پروین کی تمام غزلیں اہمیت کی حامل ہیں مگر ہم اپنے دعوئوں کی دلیل کے طور پر اس کی کچھ غزلیں اس کے فن کے سچے قدر دانوں کی نذر کرتے ہیں۔


پلکیں نہ جھپکتی تھی کہ گفتار عجب تھی
آنکھوں کے لیے ساعتِ دیدار عجب تھی

خاموش تھے لب،صورت اقرار عجب تھی
کیا کہتے صفائی میں کہ سرکار عجب تھی

پھر جمنے لگے دیکھ،مرے پاؤں زمیں پر
غربت میں ترے شہر کی دیوار عجب تھی

امکان بہاراں سے بھی دل کٹنے لگا ہے
اور برگِ تمنا یہ بھی کچھ دھار عجب تھی

صحرا میں پلٹ کر میں کسے دیکھتی لیکن
آواز سی اک زمزمہ آثار عجب تھی

جھکتی ہی گئی زعم میں دیوار کے اُس پار
تقدیر تری شاخِ ثمردار عجب تھی

اک لمحہ پراں کی بھی قیمت نہیں چھوڑی
یہ سلطنتِ درہم و دینار عجب تھی

دستار کے بل گن کے جہاں ملتی ہو عزت
اُس شہر میں توقیر سخن کار عجب تھی

(صدبرگ)

عمر کا بھروسہ کیا،پل کا سات ہو جائے
ایک بار اکیلے میں اُس سے بات ہو جائے

دل کی گنگ سرشاری اُس کو جیت لے لیکن
عرض حال کہنے میں احتیاط ہو جائے

ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک انسان کے
ساری زندگانی ہی بے ثبات ہو جائے

یاد کرتا جائے دل اور ِکھلتا جائے دل
اُس کی طرح کوئی پات پات ہو جائے

سب چراغ گل کر کے اس کا ہاتھ تھاما تھا
کیا قصور اُس کا جوبن میں رات ہو جائے

ایک بار تو کھیلے وہ مری طرح اور پھر
جیت لے وہ ہر بازی مجھ کو مات ہو جائے

رات ہو پڑاؤ کی پھر بھی جاگئے ورنہ
آپ سوتے رہ جائیں اور ہات ہو جائے

(خود کلامی )

شہر کے سارے معتبر آخر اس طرف ہوئے
جانبِ لشکر عدو دوست بھی صف بہ صف ہوئے

اب تو فقط قیاس سے کوئی راہ نکالی جائے گی
جن میں تھیں کچھ بشارتیں خواب تو وہ تلف ہوئے

مشہد عشق کے قریب کوئی نہیں ملا صبح
وہ بھی جن کے ضامنی اہلِ قم و نجف ہوئے

جاں سے گزر گئے مگر بھید نہیں کھلا کہ ہم
کس کی شکار گاہ تھے کس لیے ہدف ہوئے

خانۂ بے چراغ بھی سب کی نظر میں آ گیا
تیرے قیام کے طفیل ہم بھی تو باشرف ہوئے

(انکار)

زباں پہ تذکرۂ بام و در نہیں لاتا
وطن سے کوئی خبر نامہ بر نہیں لاتا

گلاب کو نہ یقین ہو گا جب تلک صیاد
ہوا کے طشت میں اک مشتِ پر نہیں لاتا

یہ راہِ عشق ہے مقتل سے ہو کے جاتی ہے
سو اس سفر میں کوئی دل میں ڈر نہیں لاتا

تمام بوجھ تو رستے میں جمع ہوتا ہے
ورود سے کوئی رختِ سفر نہیں لاتا

میں جس کے دھیان میں پہروں اداس رہتی ہوں
خیال دل میں مرا لمحہ بھر نہیں لاتا

سوادِ شام اسیروں میں کون شامل ہے
بلا سبب کوئی نیزے پہ سر نہیں لاتا
(کفِ آئینہ)

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra