8 Episode - Para Ke Khutoot - Para Para By Nusrat Zahra

آٹھواں باب ۔ پارہ کے خطوط - پارہ پارہ - نصرت زہرا

دُنیا کی تمام بڑی شخصیات نے اپنی وارثت میں کئی ایسے نشانِ راہ ضرور چھوڑے ہیں کہ جن کے بعد اہلِ علم انہیں اُس آئینہ میں دیکھتے اور معترف ہوتے جاتے ہیں،لیکن کسے خبر تھی کہ پروین کا سفر ایک دم رُ ک جائے گا جبکہ اس کے فنی عروج کا تقابل کیا جائے تو یہ حیرت بھی آشکار ہوتی ہے کہ وہ نہایت کم وقت میں بھی بہت بلند پایہ تخلیق کار تھی۔
یوں تو اس کی نثر نگاری کا شہرہ اُس کی زندگی میں ہی عام ہو چکا تھا لیکن خطوط کے بارے میں عام قارئین اس قدر آگاہ نہیں تھے جیسے اِن خطوط کا حق تھا۔اپنے جانے سے چند ماہ قبل اُس نے چند نامور صحافیوں سے انٹرویوز کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا ان کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی فنی ارتقاء کی طرح وہ فکر کی اس منزل پر فائز تھی جسے دانش کہتے ہیں یہی وہ وقت تھا کہ جب اس کی تمام نگارشات اُس سے سچی محبت رکھنے والوں تک پہنچتی کہ کاتبِ تقدیر نے اُس کے سفر کا رُخ ہی موڑ دیا!۔

(جاری ہے)

پروین نے اپنی تحریروں میں کسی بھی سچ کو چھپا کر نہیں رکھا اور یہی بات اُس کے خطوط پر بھی صادق آتی ہے۔اُس کے نام ممتاز ادباء اور تخلیق کاروں نے خطوط لکھے جن کے وہ بڑی باقاعدگی سے جواب دیا کرتی،ان شخصیات میں ایک نام جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کا بھی ہے۔جنہیں وہ پیار سے عمو کہا کرتی وہ نہ صرف ادبی حوالوں سے اپنے ’’عمو‘‘ سے قریب رہی بلکہ وہ اُس کے تمام سکھوں اور دکھوں کے بھی گواہ رہے البتہ پارہ پارہ کے نامکمل مسودے کی ترتیب کے دوران نظیر صدیقی صاحب کے نام لکھے گئے اس کے خطوط پر مشتمل وہ کتاب بھی ملی جسے جاوید وارثی بساطِ ادب کے زیر اہتمام شائع کیا۔
پروین نے اُن کے نام کل 25 خطوط تحریر کئے اور ان خطوط کا سب سے بڑا مثبت پہلو اور حسن تو یہ ہے کہ ان میں اس کی زندگی کو مکمل طور پر پڑھایا جا سکتا ہے،ان میں ادبی،علمی اور فکری مباحث کے علاوہ ذاتی خوشیوں،ذہنی رویوں اور اس کے دل کی نرمی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کا نام ہی ’’پروین شاکر کے خطوط نظیر صدیقی کے نام ‘‘ ہے
اس کا پیش لفظ لکھتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں کہ
پروین شاکر اپنے جمال و کمال کی بناء پر شہاب ثاقب کی طرح اُبھریں،بڑی تیزی کے ساتھ شہرت اور مقبولیت کے علاوہ طبقاتی بلندیوں کے زینے طے کرتی چلی گئیں اور ایک دن نہایت المناک حادثاتی موت کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔
(صفحہ نمبر 5،خطوط)
آگے چل کر لکھتے ہیں۔
پروین اپنے شریک حیات ڈاکٹر نصیر (جن سے بعد میں علیحدگی ہو گئی) کے ساتھ ہمارے گھر آئی تھیں۔
اور انجمن بساطِ ادب نے پروین کے خطوط کی طباعت پر آمادگی ظاہر کی اور یہ خط شائع ہو گئے (ص 7)
پروین کے خطوط کو خواہ وہ ادبی اور فکری حوالوں کی مباحث سے متعلق ہوں یا ذاتی نوعیت کے،ہر دو طرح سے ان کی زبان کو بے تکلف اور بیان کو لطیف کہا جا سکتا ہے،چند سطریں پڑھنے کے بعد ہی اُس سے ملاقات ہو جاتی ہے اُس کے رویے،خیالات اور لوگوں تک پہنچنے کا سلیقہ یہ بتاتا ہے کہ وہ ابہام کے بغیر اپنی بات کو سپرد قلم کر دیتی ہے۔
اس کے اشعار کی طرح خطوط بھی حرف بہ حرف اس کی زندگی کا ہر صفحہ کھولتے دکھائی دیتے ہیں۔
20 جنوری 1978ء
محترم و مکرمی
آداب
آپ کی عنایات کے لیے ممنون ہوں اور انتہائی معذرت خواہ ہوں کے شکریہ اتنی دیر سے ادا کر رہی ہوں،دراصل جن دنوں آپ کی خوبصورت کتاب ’’حسرت اظہار‘‘ موصول ہوئی میں گلے کے آپریشن کے سلسلے اسپتال میں تھی،وہاں سے رہائی ملی تو آرام کی تاکید اتنی سخت تھی کہ پڑھنے لکھنے کو ترس گئی۔
اس دوران آپ کا خط بھی ملا اور میں بس ہاتھ مل کر رہ گئی۔پھر ہم انشاء جی سے بچھڑ گئے اور پرسوں پروفیسر عسکری بھی روانہ ہو گئے۔میں جیسے سناٹے میں ہوں۔
ذرا موسم بدلے تو پھر تفصیلی گفتتگو ہو گی۔’’خوشبو‘‘ جلد ہی آپ کی خدمت میں روانہ کر رہی ہوں۔
نیاز کیش
پروین شاکر
(ص 09)
اردو ادب میں دنیائے ادب کے بے بدل تخلیق کار غالب کے خطوط کا بھی بڑا شہرہ رہا ہے اور جب بھی کسی تخلیق کار کے خطوط کی بات ہوتی ہے تو غالب کے خطوط کا ذکر ناگزیر تمہید بن جاتا ہے۔
لیکن خود غالب کو اپنے خطوط کی اشاعت پسند نہ تھی۔
پروین اور غالب میں ایک نسبت تو یہ ہے کہ دونوں نابغہ روزگار تخلیق کار تھے،پروین 26، دسمبر کو اس دنیا سے رخصت ہوئی تو غالب 27 دسمبر کو اس جہانِ خراب میں تشریف لائے ایک نسبت اس خط کے مطالعے سے ہوتی ہے جو کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے۔
(خطوطِ غالب بنام شہاب الدین ثاقب)
بھائی شہاب الدین خان واسطے خدا کے یہ تم نے اور حکیم غلام نجف خان نے میرے دیوان کا کیا حال کر دیا ہے۔
یہ اشعار جو تم نے بھیجے ہیں خدا جانے کسی نے داخل کر دیئے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں۔
اپنے کاتب سے کہہ دینا کہ یہ خرافات متن میں نہ لکھے اگر لکھ دیئے ہوں تو وہ ورق نکلوا ڈالنا،اور اوراق اس کو کے بدلے لکھوا کر لگا دینا،مناسب تو یوں ہے کہ تم نے کسی آدمی کے ہاتھ وہ دیوان جو تمہارے کاتب نے نقل کیا ہے۔میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس کو ایک نظر دیکھ کر پھر تم کو بھیج دوں۔
والسلام غالب
مارچ 1858ء
پروین نے بھی احمد ندیم قاسمی کے نام جو خط لکھا اس کی مماثلتیں مجھے تو حیران کر گئیں۔
عمو آداب
کیا حال ہیں عرصہ ہوا آپ کو خط لکھا تھا لیکن جواب نہیں آیا کل معلوم ہوا وہ خط آپ کو مل بھی نہیں سکتا تھا اس لئے کہ وہ پوسٹ ہی نہیں ہوا تھا،میری عادت ہے جب جمع ہو جائیں تو انہیں ایک ساتھ ڈراپ کرواتی ہوں ابا جی اپنے کسی (Peon) کو دے دیتے ہیں اس دفعہ جب کسی کو کوئی خط نہ ملا تو میں نے بڑا شور مچایا جس پر موصوف کی بھی پوچھ گچھ ہوئی ان سے تو نہیں البتہ ان کے ساتھ سے علم ہوا کہ پیسے انہوں نے اپنے پاس رکھ لئے اور خط بیکار سمجھ کر ضائع کر دیئے۔
آگے چل کر لکھتی ہیں۔
پچھلے خط میں آپ نے پوچھا تھا کہ میں نے قرۃ العین حیدر کے خلاف آخر کیا باتیں کی ہیں،یقین کریں عمو کوئی بات نہیں کی،بجز اُس کے نظم لکھنے اور جو سفر نامے میں ذرا سا ذکرکیا تھا کہیں بھی بات (Negatively) نہیں پڑتی تھی مجھے نہیں معلوم کہ وہ اتنا کیوں بھڑک گئی ہیں۔
اسی طرح نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے ایک خط میں وہ لکھتی ہیں
’’میرے جن تین اشعار کو انہوں نے وزن سے گرتے دیکھا ہے نہ معلوم ان تک کسی طرح پہنچے ہیں کیونکہ پہلا ہی درج شدہ شعر غلط ہے۔
شعر دراصل اس طرح ہے۔

میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کسی کی نظر اے خدا لگ گئی
کیسی کیسی دعاؤں کے ہوتے ہوئے بدعا لگ گئی تھی

10 فروری 1979ء
ان خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ شخصیات کے ساتھ پروین کے ربط کا عالم محض رسمی نہیں بلکہ فکری سطح پر وہ اُن سے بے جھجک ہو کر تمام باتیں کہہ دیا کرتی اور جہاں تک قاسمی صاحب کا تعلق ہے اُن سے وہ کوئی بات چھپا کر نہیں رکھ سکتی تھی،اُس کے والد قاسمی صاحب سے کہہ کر اُس سے تمام باتیں منوایا کرتے یہاں تک کہ پروین کی شادی کے کارڈز بھی قاسمی صاحب کی طرف سے جاری ہوئے اور پروین کی زندگی میں قاسمی صاحب کی اہمیت سے اہل علم اچھی طرح آگاہ ہیں۔
دوسری جانب نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے خطوط میں وہ رفتہ رفتہ ان سے اور ان کی اہلیہ سے بے تکلف گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اُن کے ساتھ پروین نے جو مراسلت کی ہے اس کا بنیادی موضوع بہرحال علمی اور فکری ہی ہے۔
جیسے،ڈن میرا محبوب شاعر ہے ڈن اپنی انفرادیت اور طنازی کے سبب ہمیشہ میرا پسندیدہ شاعر رہا،میری شاعری بنیادی طور پر نرم آہنگ ہے اور ڈن عموماً کھرج میں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں،مگر اس کی ذہانت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
اور ہماری شاعری میں بظاہر کسی مماثلت کے بغیر کوئی نہ کوئی (Under Current) ضرور ایسی ہو گی جو میرے ذہن نے اس سے مستعار لی۔یہ کھردرا پن،جیسا کہ آپ نے بالکل درست تجویز کیا ہے۔دراصل سولہویں صدی کی شاعری کا ایک طور سے ردِ عمل تھا۔ڈن کو (Cliches) سے وحشت تھی۔(6 جولائی 1978ء) صفحہ 34
اسی خط میں وہ مزید لکھتی ہیں۔
کراچی میں ادبی لوگوں سے میرا ملنا جلنا بہت کم ہے بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر معتبر نہیں ۔سخت اسکینڈل باز… بس کبھی کبھار ریڈیو چلی جاتی ہوں۔
(صفحہ 36)
اس دوران کہ جب نظیر صاحب سے پروین نے خط و کتابت کی وہ ایک کالج میں لیکچرار تھی اُس نے صدیقی صاحب کو اپنا بایو ڈیٹا (Bio-Data) بھی بھیجا کہ وہ اپنے گھریلو حالات کے باعث کسی بہتر روزگار کی تلاش میں بھی سرگرداں تھی۔
اور اس کی اس کوشش کے نتیجے میں اس نے سول سروس کا امتحان پاس کیا۔پروین کے بارے میں ایک بات یہ بھی خاصی مشہور ہوئی کہ وہ سخت مزاج ہے اور ایک فاصلے پر رہتی ہے۔دوسری جانب پروین کا کوئی سگا بھائی نہ تھا۔ادبی دنیا میں کئی نامور تخلیق کاروں کو پروین "بھائی" کہہ کر مخاطب کرتی۔عطاء الحق قاسمی،امجد اسلام امجد،شہزاد احمد،اطہر نفیس،افتخار عارف اور وہ تمام افراد جنہوں نے اس کی تکریم کا پاس و لحاظ کیا۔
مگر اس کے جو خطوط امجد اسلام امجد کے نام ہیں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں پروین نے خطوط میں سادہ نثر لکھنے کو ترجیح دی اور وہ مصروفیت کہ جس سے یہ شاہکار شعر تخلیق کیا۔ہندسے گدھ کی طرح دن مرا کھا جاتے ہیں/حرف ملنے مجھے آتے ہیں ذرا شام کے بعد شاید انہی مصروفیات کی وجہ سے وہ خطوط میں کھل کر اپنے بیان کی دلآویزی نہ دکھا پائی اور اس کی لکھائی جو اصل میں بہت خوبصورت ہے۔
خطوط میں اس کا تاثر یوں زائل ہوتا ہوا نظر آتا ہے جیسے پروین حد سے زیادہ مصروف ہے اور اسے ان کا جواب دینے کی سہولت بھی میسر نہیں۔27 ،ستمبر 1978ء۔امجد بھائی! آداب بہت دنوں بعد آپ سے ملاقات ہوئی میں پریشان تھی کہ یہاں سے جاتے ہوئے آپ لوگوں کو میری کیا بات بری لگی کہ پلٹ کر خبر نہ لی کچھ مجھے یہ ڈر تھا کہ جو اپنی طبیعت کی وجہ سے میں کبھی کبھی چپ ہو جاتی اس کو تو آپ لوگوں نے مائنڈ نہیں کیا۔
مگر شکر ہے کہ آپ کے خط سے ایسی کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی۔ہاں امجد بھائی یہ دور ہے تو بہت خوبصورت لیکن اس کی اذیتیں بھی بہت ہیں مشاہدے کی حد تک تو آپ بھی جان چکے ہوں گے میری ڈاکٹر خاصی فکر مند ہے اس کا چہرہ پڑھ کر میری اپنی وحشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔میرے لئے دعا کیجیے گا۔عمو اور خالد کے کالم سے آپ کی مراجعت ملی۔پھر لکھتی ہے علموں بس کریں او یار پڑھی۔
بڑی پیاری نظم ہے اور خاص کر اس پس منظر میں اور اچھی لگی کہ ایک طویل عرصے کے سکوت کے بعد تخلیق ہوئی ایک پورے عرصے کی سوچ نے الفاظ کے چناؤ کو اور خوشگوار بنا دیا ہے (Dawn) کے لئے ساتواں در ہر ایک تبصرہ روانہ کیا ہے جونہی کسی جمعے کو شائع ہوا آپ کو ارسال کر دوں گی۔عید کارڈ کی پسندیدگی کا شکریہ۔نصیر خیریت سے ہیں اور آج کل خاصی خوش نظر آتے ہیں۔
بھابی کو آداب،بچوں کو پیار۔پروین شاکر۔
خط کے متن سے ظاہر ہوتا ہے پروین زندگی کی سب سے حسین دور سے گزر رہی ہے کہ جب مراد کی پیدائش میں صرف ایک ماہ کا فاصلہ رہ گیا مگر وہ تخلیق کے اسی لمحے میں بھی اپنے ذوق کی تسکین کی خاطر اخبارات و رسائل سے تمسک رکھتی تھی اورامجد بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پروین کی زندگی کے ہر دور کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا اور اُس نے بھی انہیں ہر لمحے سے باخبر رکھا۔
اس کی حساس طبیعت ابلاغیت کے بغیر اپنا دم گھٹتی ہوئے محسوس کرتی ہے۔اور جب چپ ہو جاتی تو اوروں کی خاموشی بھی اُس پر گراں گزرتی ہے مگر جب وہ خط لکھتی تو یوں جیسے سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہی ہو۔اس کا طرز تخاطب بھی بڑا دلکش ہے۔
پیارے عمو،عمو کیا حال ہے، لیجیے عمو،تفصیل اعلیٰ حاضر ہے وہ محض خطوط میں وقت کی کمی کے باعث جلدی میں دکھائی دیتی ہے۔
وگرنہ اس کے نزاکت احساس کا یہ عالم ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دکھنے لگتی ہے اور بیشتر خطوط میں تو اس کے سیلقے کا یہ عالم ہے کہ بڑی سے بڑی بات بھی اس کے طرز اظہار کی خوبصورتی کے باعث بدصورت ہونے سے بچ گئی۔
پروین کی ازدواجی زندگی ناکامی سے دوچار ہوئی تو اپنے عمو اور امجد بھائی سے مسلسل رابطے میں رہتی اور اور ان کے مشوروں سے اپنی زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی خواہاں بھی۔
25 نومبر 1990ء
پیارے عمو
آداب
اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اس بار خط کے جواب میں تاخیر ہو گئی ہے انتہائی معذرت،دراصل دو جگہوں پر پڑھانا اور بقیہ دو کالجوں کے لیے تیاری کرنا بہت زیادہ وقت لے لیتا ہے۔دیکھئے شاید اگلے سمسٹر تک صورتحال کچھ بہتر ہو جائے۔بہر کیف کوشش کر رہی ہوں کہ اب اتنی دیر نہ ہونے پائے آپ کے خط سے بہت سی الجھنیں دور ہو گئیں یہ اچھا ہوا ورنہ میں یہاں دکھتی اور آپ کو ادھر تکلیف رہتی۔
مجھے اندازہ ہے عمو کہ میرے لیے زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں اس وقت بہت سی چیزیں میرے خلاف جاتی ہیں۔اور ان میں سے اگر (Gossip Point) کی بات کریں تو اکثر تو یہ ہے کہ رائی تک کا وجود نہیں اور یہاں پہاڑ تیار ہے!
کوشش کر رہی ہوں کہ زندگی کسی طرح کٹ جائے اور بامعنی طور پر کٹ جائے۔سرِ دست میں کسی نئے (Commitment) کے لیے تیار نہیں ہوں۔
آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب تک کہ خط ملے،شاید سالگرہ ہو چکی ہو۔تقریب کی تفصیلات ضرور لکھئے گا۔
بیٹی
اعلیٰ ادبی روایتوں میں خط و کتاب بھی ایک جزوِ لانیفک کی حیثیت رکھتا ہے۔پروین کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہارورڈ میں بسلسلہ تعلیم و تدریس مقیم ہے،طلاق کے بعد وہ شکست و ریخت سے دوچار ہوئی مگر اُس نے کہیں کسی کو موردِ الزام نہ ٹھہرا کر بہت بڑا معرکہ سر کیا ہے۔
تاریخ اسے ہمیشہ اس کے فراخدالانہ رویے کے باعث یاد رکھے گی۔تنہا عورت کا سب سے بڑا دکھ محض تنہائی ہی نہیں دنیاوی محاذ پر اُٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنا،دنیا سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنا،یہ کوئی معمولی بات نہیں بلاشبہ اس کے لیے پہاڑوں جیسا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔تنہا عورت اگر مقبول ہو تو قیامت دو آتشہ ہو جاتی ہے۔
اُس نے اس احساس عدم تحفظ کو نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس طرح واضح کیا ہے۔
’’لفظ‘‘ ردا،واقعی میری کمزوری ہے شاید اس لیے کہ عورت کے تحفظ کی علامت ہے اور اس کے چھن جانے سے ایک بڑا گہرا روایتی دکھ تازہ ہو جاتا ہے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ مردوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں ایک عورت کو کتنی سمتوں سے آنے والی ہواؤں سے لڑنا پڑتا ہے۔
23،جون 1978ء
لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پروین نے ایسے زدورنج معاشرے میں اپنا وقار و اعتبار قائم کیا اور اپنے نصب العین کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،اپنے خطوط میں بھی وہ شکوہ و شکایت کئے بغیر اپنا دفاع کرنا بھرپور طریقے سے جانتی ہے اُس نے فی الواقع زندگی کو بامعنی انداز میں گزارا۔دوسری جانب دیکھئے تو اس کے عمو اس کے تمام دکھوں میں اس کے ساتھ رہے اور ان کی نصیحتیں اس کے راستوں کو منور تر بھی کرتی رہیں۔
جن دنوں پارہ پارہ زیر تکمیل تھی اور محترمہ نسرین شاکر اور بیگم پروین آغا صاحبہ سے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔محترمہ نسرین شاکر نے مجھے پروین سے متعلق بیشتر ذاتی اثاثے (تحریریں،تصاویر،سرٹیفکیٹس،ایوارڈز،خطوط) شامل ہیں تک رسائی میں مکمل آزادی دی،میں نے اپنی بساط میں یہ دستاویز ترتیب دیتے ہوئے کچھ بے حد نایاب خزانہ دریافت کیا۔
جبکہ بیگم آغا نے پروین کے خطوط کو مجتمع کر کے بھجوایا۔
انہی نوادرات میں ایک پوسٹ کارڈ بھی دکھائی دیا جو پروین نے محترمہ نسرین شاکر کے نام ناروے سے بھیجا۔آپا،تم سے جلدی میں بات نہیں ہو سکی،بہرحال فی الحال میں ناروے میں ہوں اُس کے بعد جرمنی اور پھر لندن اُمید ہے تم لوگ خیریت سے ہو گے 
 پروین۔پوسٹ کارڈ مختصر ہوتا ہے،عبارت بھی مختصر تحریر ہو سکتی ہے،یہ امر بے حد خوش آئند ہے کہ پروین پوری دنیا کی سیاحت کرتے ہوئے،مشاعروں میں اپنے وطن کی نمائندگی کرتے ہوئے قطعاً اپنے گھر والوں کو فراموش نہیں کرتی،ایسا عمل وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جن کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے پیوست ہوں جنہیں اپنے مرکز کی طاقت کا علم ہو غرض کہ پروین ایسے نابغہ روزگار قدرت شاذ ہی تخلیق کرتی ہے۔
بقول عالیہ جلیل شاہ
خطوط میں آغاز اور انجام بھی اہم چیز ہے کہ خط لکھنے والا خط کا آغاز کیسے کرتا ہے زیادہ لوازمات میں پڑتا ہے یا سادگی سے کام لیتا ہے۔غالب کی مثال لیجئے جس نے القاب و آداب کا نیا انداز اپنایا اور قدیم طریقے کو ترک کیا،پروین اپنے خطوط میں خطا بت سادگی سے کرتی ہیں مثلا انہوں نے بیشتر خطوط میں ان الفاظ سے آغاز کیا ہے۔
امجد بھائی آداب
پیارے عمو آداب
لیجیے عمو
پیارے امجد بھائی،آداب
پیارے عمو،کیسے ہیں
الغرض وہ سادہ نثر لکھنے اور کفایت لفظی سے کام لیتی ہیں۔
(صفحہ 228 خوشبو پھول تحریر کرتی ہے از سلطانہ بخش)
پروین پر لکھتے ہوئے نجانے کن کن رنگوں نے جگنوؤں کی راہیں روشن کیں گزرے ہوئے ماہ و سال نے اس کی تحریروں کے ذریعے ایک بار پھر نئے انداز سے معانی کشا کئے اسے سمجھنے میں ان خطوط نے بھی معاونت کی بڑھاپا جو اُس پر آیا ہی نہیں مگر ایک انٹرویو کے دوران اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ۔
جب میں بوڑھی ہو جاؤں کی تو لکھتے پڑھتے ہوئے وقت گزاروں گی،
(خالد یزدانی،مضمون،روزنامہ نوائے وقت)
28 مارچ 2010ء
اب صدیاں اُس کی تصنیفات سے بہرہ مند ہوں گی اور خود کو توانا محسوس کریں گی۔
لیکن پروین ایسے نابغہ روزگار تخلیق کاروں کے تمام خطوط یکجا کر کے انہیں ایک قومی ورثے کی شکل دینے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra