4 Episode - Safar Mera Taaqub Kar Raha Hai - Para Para By Nusrat Zahra

چوتھا باب ۔ سفر میرا تعاقب کر رہا ہے - پارہ پارہ - نصرت زہرا

پارہ کو اعلیٰ تعلیم کا شوق ہر دور میں رہا وہ ابتدائی جماعتوں سے ہی مسلسل محنت،لگن اور خداداد صلاحیتوں کے طفیل نمایاں رہی۔آٹھویں جماعت سے لے کر ایم۔ پی۔ اے تک وظیفے پانے کا سلسلہ برقرار رہا۔پاکستان میں دو خواتین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں (Fulbright Scholarship) ملی۔ایک شخصیت پروین شاکر اور دوسری محترمہ مہتاب اکبر راشدی کی ہے۔جو پروین کی بہت عزیز سہیلی تھیں۔

1990ء میں انکار طبع ہونے کے بعد وہ ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ گئی جہاں 1992ء تک تعلیم حاصل کرتی رہی۔اور کالج میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔محترمہ مہتاب اکبر راشدی نے ہی انکار کی تقریب رونمائی کی کمپیئرنگ کی۔وہ حکومت سندھ کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکی ہیں یادوں کا دریچہ وا کرتے ہوئے پروین کی سچے موتیوں جیسی محبت بھری فطرت کا ذکر نمناک آنکھوں سے کرتے ہوئے انہوں نے دوستی کے ابتدائی دن سے آغاز کیا۔

(جاری ہے)


”یہ 1987ء کا ذکر ہے جب پاکستانی قلمکاروں اور شاعروں کا وفد چین گیا۔میں اور پروین جہاز میں قریب قریب بیٹھے تھے۔ہماری دوستی کی ابتداء اس سفر سے ہوئی۔دورہ چین میں،میں نے اُس کی شخصیت میں موجود بے پایاں صفات کا تجربہ اور مشاہدہ کیا وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی بلکہ اُس کی طبیعت میں شرافت نفس،ملنساری رکھ رکھاؤ بڑی خوبصورت ترتیب کے ساتھ موجود تھے۔

اس کی دوستی محض رسمی نہیں تھی بلکہ وہ جب کراچی آتی یا میں اسلام آباد جاتی تو ہم ایک دوسرے کے گھر قیام کرتے۔پانچ ستارہ ہوٹل کا پروٹوکول ترک کر کے ہم ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کو زیادہ ضروری سمجھتے۔یہاں اس کے رکھ رکھاؤ کی مثال دینا ضروری سمجھوں گی۔کہ وہ جہاز کی سیڑھیوں کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی اور میرے آنے پر کھانے کا اہتمام یوں کرتی جیسے بہت سے لوگ کھانے پر مدعو کئے گئے ہوں۔
حالانکہ ہم دو ہی لوگ ہوتے تھے کھانے کی میز پر پھر اس کا ذوق الگ ماحول کو دو آتشہ کر دیتا۔کراکری،کٹلری،قرینے سے مسجع ڈرائنگ روم،قدم قدم پر مختلف طرح سے سجائے گئے پھول اور سب سے بڑھ کر اس کی نستعلیق شخصیت بے پناہ انبساط کا باعث ہوا کرتے بعض اوقات جب ملازمہ گھر میں موجود نہ ہوتی تو پروین خود ہی پھلکے بھی تیار کر لیتی،میں حیران ہوتی یہ کیسی افسر ہے،مہتاب کی روپہلی ہنسی سنائی دیتی۔

وہ ایک مکمل انسان تھی اگرچہ ذاتی زندگی میں وہ انتہائی ناآسودہ تھی مگر اس نے کبھی اپنے دکھوں کو پروفیشنل کیریئر پر حاوی نہ ہونے دیا۔جن دنوں پروین نے (CSS) کا امتحان پاس کیا۔وہ ایک بحرانی دور تھا مگر اس نے اپنی استقامت سے کامیابیاں حاصل کیں۔مجھے یاد ہے کہ جب کچھ لوگ اُس کے حد درجہ قریب آنے کی کوشش کرتے تو اُس کی حس مزاح عروج پر ہوتی اس کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی بڑی اہمیت ہوتی اس نے اپنی کتاب انکار کی تقریب رونمائی کے کارڈز میرے نام سے جاری کئے یہ اُس کی بڑائی کی ایک دلیل ہے۔
سب جانتے ہیں کہ وہ تنہا رہتی تھی یہی وجہ ہے کہ اُس نے زندگی کے کچھ اصول بنا رکھے تھے رات 8 بجے کے بعد وہ کسی مہمان کو اپنے گھر پر (Received) نہیں کرتی تھی اُس نے کسٹمز میں ہونے کے باوجود کبھی اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا۔اُس وقت جب بڑے بڑوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے میں نے اسے حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ایک بار میں نے اس سے یہ کہا پروین تم کب تک تنہا رہو گی شادی کے بارے میں سوچو جس پر وہ بولی اب 40 سال میں بھلا کیا شادی کریں اور پھر کیا ضمانت ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو گا پھر سب سے بڑھ کر مراد ہے۔
جس کی جدائی مجھے منظورنہیں۔
ماہ تمام (کلیات) طبع ہوئیں تو اُس نے اپنے ہاتھ سے کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا ”مہتاب اور اکبر کے لیے“ میں متردد ہوئی اور فون کیا۔پروین کیا اب شاعری نہیں کرنی؟وہ بولی دیکھو مہتاب تمہارے نام کا آدھا حصہ تو میں نے کلیات میں شامل کر دیا ہے مگر اب غور کرتے ہیں کہ اسے اپنے جانے کی خبر ہو چکی تھی جس انداز میں اُس کی موت کی اطلاع آئی تو پہلے تو یقین نہ آیا مگر خدا کی رضا کے سامنے ہم سب بے بس ہیں میں سکتے میں رہ گئی سوئم میں شریک ہوئی تو دیکھا کہ ایک پندرہ سالہ بچے نے خود کو بردبار مرد کی طرح سنبھالا ہوا تھا یہ پروین کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ اس نے خود کو جلد زندگی کے امور میں مصروف کر لیا۔
خدا کا شکر ہے کہ عرشین کی شکل میں خدا نے اُس کی تنہائیوں کا مداوا کر دیا جب کبھی وہ پاکستان آتا ہے تو میرے پاس ضرور آتا ہے مجھ سے لپٹتا ہے اور کہتا ہے مہتاب آنٹی آپ سے مما کی خوشبو آتی ہے! (ملاقات، ہم ٹی وی ،دفتر)
پارہ  نے مراد کے لیے کئی خوبصورت نظمیں لکھیں اور اسے خود سے اس وقت بھی جدا نہ کیا جب وہ امریکہ جا رہی تھی …اور کیسے جدا کرتی وہ اس کی مراد تھا اُس کی پیاری ماں افضل النساء بیگم نے اُس کے لیے اللہ سے مراد مانگ کر یہ خوشی حاصل کی تھی اس لیے اُسے ”مراد علی“ کا نام دیا گیا۔
مراد کی پیدائش کے بعد اسے بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اس کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔اس کا ایم ۔ پی ۔ اے اور بیرون ملک تدریس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔جون 1990ء میں  وہ امریکہ گئی۔محض 38 برس کی عمر میں ہارٹ فورٹ کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام  دیئے اُس نے یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ کو منتخب کیا جہاں بیگم پروین آغا کی بہن ڈاکٹر نیلوفر قیام پذیرتھیں۔

اسی دوران اُسے پاکستان میں اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا گیا،مارچ 1991ء کو ایوارڈ وصول کرنے وہ پاکستان آئی جبکہ مئی 1991ء میں اُسے دوبارہ پاکستان آنا پڑا کیونکہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر اُس کا وظیفہ منسوخ ہو چکا تھا۔ڈیڑھ ماہ قیام کرنے کے بعد وہ دوبارہ امریکہ روانہ ہو گئی۔
اگست 1992ء میں اُس نے دوبارہ یونیورسٹی جوائن کی اور ڈاکٹر نیلوفر کے گھر قیام کے بجائے دریائے چارلس پر واقع ایک اپارٹمنٹ حاصل کیا۔

وہ ایک سے زائد اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگی مراد کو وہاں ساتویں جماعت میں داخل کروایا گیا۔
2 فروری 1992ء کو اس کے والد معمولی علالت کے باعث انتقال کر گئے،پروین کے لیے اس سانحہ جانکاہ سے نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام نہ تھا جو لوگ وطن سے دور رہ کر اپنا مقام بناتے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ گھر سے دور رہنا اور وہ بھی دکھ کے جانگسل لمحات میں کس قدر دشوار ہوا ہے۔

والد کے انتقال سے چند دن بعد ہی پروین کے کان کا آپریشن تھا ڈاکٹر نے اسے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا اور والدہ نے بھی تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی تلقین کی۔صدمے کے باعث وہ کئی دن اسپتال میں زیرعلاج رہی۔پروین کے والد سید شاکر حسین اپنے آخری ایام میں اس کا مجموعۂ کلام  انکار پڑھتے رہتے انہوں نے دل پر جبر کر کے اس کی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھانے کے بجائے تمام کانٹے سمیٹ لیے تھے۔

جون 1992ء میں پارہ کو ایک بے حد اعلیٰ اعزاز نصیب ہوا جب اُس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم ۔ پی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔اس نے 12 میں سے دس پرچوں میں A گریڈ حاصل کیا ڈگری کے حصول کے بعد اسے مقالہ  بھی تحریر کرنا تھا۔اُس نے جو موضوع منتخب کیا وہ بھی ایک پر مغز تحقیق کا طالب تھا۔اس سلسلے میں اُس نے پاکستان اور بھارت کی جنگِ 71ء میں میڈیا کے کردار کو اپنے مقالے کے لیے منتخب کیا۔
اُس کے تھیسس انچارج پروفیسر مارون کالب جوپریش کا کہنا تھا کہ وہ سیاست،صحافت،اور پبلک پالیسی کے ارتقا و اثرات میں بہت دلچسپی لیتی ہے۔وسیع مطالعہ،تصورات و تخیلات کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے اور بہت جلد انہیں سمجھ لیتی ہے۔
اسی حوالے سے وہ ملک کے معروف دانشور اور ممتاز ادیب احمد سلیم سے بھی رابطےمیں تھی۔وہ خود ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے باوجود پارہ کی فنی عظمت سے قطعی خائف نہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیان کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔
ٹیلیفونک گفتگو کے کئی طویل سیشنز کے دوران انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جب وہ پہلی بار پارہ  سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات کو گئے تو ان کے ذہن میں وہی باتیں تھیں جو ایک مخصوص طبقے نے پھیلا رکھی تھیں اگرچہ کئی بار محفلوں میں وہ پروین سے سلام دعا کی حد تک تعارف رکھتے تھے مگر جن دونوں وہ محور کے لیے کام کر رہے تھے انہوں نے پروین کا انٹرویو کرنے کا ارادہ کیا ایک کہنہ مشق صحافی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے لوگوں کی باڈی لینگویج کے حوالے سے ایک ڈائری بنا رکھی تھی۔

وہ مقررہ وقت پروین سے ملنے پہنچے تو انہوں نے مشاہدہ کیا کہ پروین پُر اعتماد اور بولڈ دکھائی دی۔گفتگو سے قبل وہ محض اس کے تاثرات ریکارڈ کرتے جا رہے تھے بقول احمد سلیم ’’وہ مجھے ایک مسخرہ سمجھ رہی تھیں۔“ جب میں نے پہلا سوال کیا وہ زندگی سے بھرپور قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں۔میں نے کہا کہ بزعمِ خود دانشورطبقہ یہ کہتا ہے کہ آپ کی شاعری ٹین ایجرز کے لئے ہے تو انہوں نے پہلو بدلا اور ان کی باڈی لینگویج تبدیل ہونا شروع ہوئی،انٹرویو چھپ گیا تو وہ خوش ہوئیں کہ آپ نے میرا مافی الضمیر بیان کردیا ہے۔

’’لیکن واقعہ یہ ہے کہ پروین خود بھی بے حد (Composed) تھیں بہت دھیمے لہجے میں آرام آرام سے پوری بات کرتیں انہیں دنیائے ادب سے متعلق بے حد گہرا شعور تھا وہ اپنے آس پاس سے ہر گز لاتعلق نہیں تھی۔جبکہ انٹرویو سے قبل میں سمجھا تھا کہ میں اُن کو اڑا کر رکھ دوں گا مگر جلد ہی میں یہ جان گیا کہ وہ بہت Strong بات کرتی تھیں۔
کئی سالوں کے بعد میری ان سے طویل نشست دوبارہ اس وقت ہوئی کہ جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے اپنا ایم ۔
پی ۔ اے مکمل کر کے لوٹی تھیں۔اورا ن کا مخالف گروہ مزید فعال ہو گیا تھا۔مگر انہوں نے اس سے قطع نظر اپنا تھیسس لکھنا شروع کیا مگر مجھے ان کی ذاتی زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ملاقاتیں اس لیے بڑھیں کہ وہ 1971ء کی جنگ کے حوالے سے کام کر رہی تھیں اور میں اس ضمن میں ایک کتاب (Compile) کر رہا تھا۔انہوں نے کہا یہ معلومات مجھ سے شیئر کریں۔معروف ادیب عبد اللہ حسین نے بھی نادار لوگ میں میری Archives استعمال کیں اوراس کا اعتراف کیا۔
میں نے پروین کے لیے بھی اس دور کی Chronic history ترتیب دینا شروع کی۔وہ اس تذکرے پر بے حد جذباتی ہو جایا کرتی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ غلطی ہماری طرف سے ہوئی ہم نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو کمتر سمھا۔مجھے یاد ہے ایک بار فون پر وہ سسکیاں لے کر رو پڑی تھیں۔
جب میں نے نیوز لائن 94ء اکتوبر کے شمارے کے لیے ان کا انٹرویو کرنا چاہا تو انہیں بالکل پہلے جیسا پایا ان کو میرا محور والا انٹرویو بھی یاد تھا۔
وہ بولیں کہ اب تک ان کے پاس انٹرویو محفوظ ہے۔انہوں نے انٹرویو کے ساتھ کھانے پر بھی مدعو کیا وہ بہت بُلند تھیں۔اور سامنے والے سے ہمیشہ جھک کر ملتی تھیں۔ان کے بارے میں جو شکایت کی جاتی ہے کہ وہ مغرور تھیں مگر ایسا وہ شعوری طور پر کرتی تھیں یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں البتہ وہ تنہا خاتون تھیں اس حوالے سے وہ عام لوگوں سے ایک فاصلے پر رہتی تھیں،البتہ وہ بہت اعلیٰ انسان تھیں۔
اور اپنے کچھ پرانے اور دیرینہ دوستوں کی اُس مہم سے جو ان کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل شروع ہوئی خاصی دلبرداشتہ تھیں اور بار بار کہتیں کہ میں فلاں شخصیت سے ایسے جملوں کی توقع نہیں کر رہی تھی۔بات چیت بھی ہلکے پھلکے انداز میں کرتیں مخاطب پر اپنی علمیت یا مرتبے کا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتی تھیں۔پھر جب میرے توسط سے انہیں گیتا نجلی کا البم ملا تو وہ خاصی جذباتی ہو گئیں اور کہنے لگیں میں نے اتنی کم عمری میں زندگی کے لیے اتنی تڑپ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی،انہوں نے نظموں کا ترجمہ کیا۔
نثری حصہ میرے ذمے تھا۔دراصل وہ ایک نستعلیق شخصیت کی مالک تھیں دوسری پروین شاکر کا تصور بھی محال ہے۔
پارہ (Ph.D) تھیسز کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی موت کے بعد غم سے نڈھال تھی ایک جانب اسے اپنے تھیسز کو مکمل کرنے کی دھن سوار تھی تو دوسری جانب وہ اپنی والدہ اور بہن کے لیے بھی فکر مند تھی۔
23 جون 1992ء کو پارہ کراچی پہنچی امریکہ سے لوٹنے کے بعد کچھ عرصے تک اپنی والدہ اور بہن کے پاس قیام پذیر رہی اور اس مشترکہ دکھ میں ان کے لیے باعثِ تقویت!
اسلام آباد پہنچ کر اس نے دوبارہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیئے وہیں وہ مارگلہ روڈ پر سرکاری گھر میں منتقل ہو گئی۔
دنیا بھر کے خوش رنگ پھول اُس کے آنگن کی رونق بنے۔گھر کے باہر مراد کے نام کی تختی بھی لگائی گئی۔ (خوشبو کی ہم سفر) ڈاکٹر سلطانہ بخش اسلام آباد قیام کے دوران اُس کے حصے میں بڑے محبت کرنے والے دوست آئے جن میں ایک نام رفاقت قاضی کا بھی ہے جو اپنے نام کی طرح بے حد اچھی رفیق ثابت ہوئیں انہوں نے اسے اپنے خونی رشتوں کی طرح عزیز رکھا۔
جبکہ انہی کی ہم قافیہ طلعت بھی اُس کی بہترین دوست ثابت ہوئیں۔مراد زمانہ طالب علم میں انہی کے پاس قیام کرتا تھا۔ڈاکٹر ذرینہ اور ڈاکٹر نعیم خان بھی ہمیشہ اُس کے ہر دکھ سکھ میں شریک رہتے۔اس کا حلقۂ احباب وسیع نہ تھا مگر جتنا بھی تھا وہ سب لوگ اس کی قدر و منزلت سے پوری طرح آگاہ تھے۔امریکہ قیام کے دوران فضہ گیلانی کے ساتھ گہری دوستی ہو گئی جو معاشیات کی ٹیوٹر تھیں ان سے پارہ کی گہری دوستی کی جھلک ان تصاویر میں بھی نمایاں ہے۔

اسی اثنا میں اس نے دوبارہ اپنا مقالہ ہارورڈ یونیورسٹی میں جمع کروایا اس ضمن میں اسے دولت مشترکہ سے رضا مندی بھی مل گئی تھی،لیکن پھر بھی اہلِ مغرب کو اس کے تھیسس کا عنوان پسند نہ آیا جس کے بعد اُس نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انگریزی سے دو کورسز کئے اور انگریزی میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کرنے کی ٹھانی۔
بہرحال ڈاکٹر نصیر سے علیحدگی کے بعد پارہ کی زندگی میں جو اہم لمحات آئے وہ اس کی تعلیمی کامیابیاں اعزازات و انعامات اور سب سے بڑھ کر فنی عروج اور اس کی روز افزوں مقبولیت کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا بلاشبہ وہ (Living Legend) وہ صدرِ پاکستان ہوں کہ وزیر اعظم تمام ہی اس کی قدر و منزلت سے اچھی طرح آگاہ تھے۔
سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر اسے تقریر لکھنے کو کہا گیا جسے اُس نے خوشی سے قبول کیا اس کی لکھی ہوئی تقریر کو بے حد سراہا گیا پھر بھی اس کے لیے اہلِ اقتدار کا قرب حاصل کرنا حاصلِ زیست نہیں رہا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ ستارہ جو ہمیشہ کے لیے چھپ جانے کی تیاری کر رہا ہو اس کی آخری لو تادیر ٹمٹماتی رہتی ہے،پروین ہمیشہ جاذب نظر اور بے پناہ ہر دلعزیز رہی لیکن اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اُس کے حسن میں چار چاند لگ چکے تھے۔
جتنی عزت ایک تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے اُس کے حصے میں آئی اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی شاذ ہی ملے گی۔اُس کی شاعری کا موازنہ عالمی تخلیق کاروں کے ساتھ کیا جانے لگا تھا۔
اپنی موت کے وقت وہ ڈائریکٹو ریٹ آف انٹیلی جنس،کسٹمز اینڈ ایکسائز میں اسسٹنٹ ڈائریکٹیوریٹ آف انسپکشن اینڈ آڈٹ تھی،اُس نے پاکستان میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر ایک مقالہ تحریر کیا جو چین میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیا گیا۔

سفر مسلسل پارہ کو وہاں تک لے آیا جس کو پانے کی ہر شخص تمنا کرتا ہے۔بیشتر ممالک کے دورے،اعزازات،اعلیٰ تعلیم کا حصول،طیب رزق کی دعا کی مستجابی،پارہ ایک شجرِ مستحکم بن گئی!۔

ہنستی ہوئی آنکھوں کا نگر کہتے رہے ہم
جس شہر میں نوحے پسِ دیوار بہت تھے (انکار)

ساتھ ہی اس کے مخالفین کی چالیں عمر بھر اُس کا پیچھا کرتی رہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی ایک ماہنامے میں شائع ہونے والے  (Letters To The Editor) بھی تھے جن کا سلسلہ اس کی موت کے بعد تھما!

مہتاب پر جو خاک نہ ڈالیں تو یہ کھلے
ہم جیسے لوگ اتنے سیاہ بخت بھی نہیں

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra