12 Episode - Parveen Ke Lectures - Para Para By Nusrat Zahra

بارہواں باب ۔ پروین کے لیکچرز - پارہ پارہ - نصرت زہرا

ہارورڈ یونیورسٹی میں دوران تعلیم پروین فاضل وقت میں ٹرینٹی کالج اور مزید دو،درس گاہوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتی رہی۔جنوبی ایشیا کا ادب،فلم اور سماج کے موضوعات پر اُس نے دو برس امریکہ میں پڑھایا،ہم محترمہ نسرین شاکر کے بے حد ممنون ہیں کہ جنہوں نے پروین کی یادوں سے جڑے اثاثے تک مکمل رسائی فراہم کی۔
پروین کی (Hand Writing) ہینڈ رائٹنگ میں یہ لیکچرز مختلف موضوعات اور ان کی تفصیلات کے ساتھ ایک اثاثے کے طور پر موجود ہیں۔

نو برس کے بعد وہ دوبارہ تدریس کی طرف واپس لوٹی۔عبداللہ گرلز کالج میں تدریس کے دوران بھی اس نے اپنی بے لوث کاوشوں کے باعث دلوں میں گھر کئے۔مگر اس وقت کہ جب وہ ایک بے بدل تخلیق کار کے طور پر تسلیم کی جا چکی تھی بات کچھ اور بھی سوا ہو گئی۔

(جاری ہے)

اُس نے اپنی شاعرانہ کاوشوں کو ماہ تمام میں یکجا کیا تھا۔اور اس وقت اُس کی کرنیں چاروں اور سے پھوٹ رہی تھیں۔

1990ء سے 1992ء کے عرصے کے دوران اُس نے خود کو مکمل طور پر حصولِ علم کے لیے وقف کر دیا۔اپنی حساس طبیعت کے باعث وہ خود سے وابستہ ہر شے کو اس کے لئے وقف کر دیتی اس بات کی گواہی عبداللہ گرلز کالج میں اُس کی شاگرد رخسانہ انور نے بھی دی جو قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی نواسی ہیں اور ان دنوں ڈیلاس (Dellas) میں مقیم ہیں اور فیشن ڈیزائنر ہونے کے ساتھ ساتھ شوقیہ فوٹو گرافی بھی کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پروین ان کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے اور انہوں نے اُس کے ساتھ گزرے ہوئے ہر لمحے کو اب بھی اپنی یادوں کا سرمایہ بنا رکھا ہے۔کلاس روم میں پروین ایک اصول پسند استاد کے طور پر جانی جاتی مگر کلاس روم کے باہر اس کا رویہ دوستانہ ہوتا،وہ ذہانت کو پسند کرتی اور کچھ طالبعلم اس کے اصولوں سے نالاں بھی رہتے پروین کی ذہانت نے اسے عمر بھر ممتاز رکھا۔
رخسانہ نے بتایا کہ انہوں نے پروین کی شادی پر فوٹو گرافی بھی کی تھی اور وہ اسے آپا کہا کرتیں۔اور ان کے درمیان استاد شاگرد سے زیادہ دوستانہ مراسم تھے۔
(ملاقات،میریٹ ہوٹل کراچی)
دوران تدریس وہ اپنے نوٹس پر ہمیشہ محنت کرتی۔اس کا ایک ثبوت اس کے وہ لیکچرز ہیں جو اُس نے ٹرینٹی کالج میں تدریسی کے دوران تیار کئے۔
پاکستان موومنٹ،اقبال،ترقی پسند مصنفین اور فیض احمد فیض پر اس کے سیر حاصل مضامین سے اس کے طالبعلموں کے ذہن روشن ہوئے ہوں گے۔

اقبال کہ جن کی روحِ جمالیات سے وہ تاعمر متاثر اور معترف رہی۔
ہم بے ہنروں کی زیست پل بھر
اقبالؔ کی زندگی دوامی
(صد برگ)
اور فیض کہ جنہیں اُس نے نواز کہہ کر سلامی دی تھی!
مرے نے نواز
قبائے ساز ترے فراق میں چاک ہے
وہ سکوت شہر سخن میں ہے
کہ صدائے گریۂ شبنم شب تار دل بھی سنائی دے
تہہ ہفت حجلۂ نور ایک ہی خواب ہے
کوئی معجزہ ہو کہ شکل تیری دکھائی دے
کوئی سلسلہ ہو کہ راہ پھر سے سجھائی دے
(انکار)
یہی اندازِ سخن اس کے لیکچرز میں بھی جھلکتا ہے کہ جہاں جزئیات اور تفصیلات بتانے کے کوئی اور بات پیش نگاہ نہیں ہوتی وہیں پروین کے لیکچرز بھی کسی نظم کا ٹکڑا محسوس ہوتے ہیں۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra