3 Episode - Kikar Te Angoor Charhaya - Para Para By Nusrat Zahra

تیسرا باب ۔ ککر تے انگور چڑھایا! - پارہ پارہ - نصرت زہرا

پارہ نے اپنے ٹوٹے ہوئے عکس کو جوڑنے کی سعی کی مگر اس کہانی میں کبھی اُس کی انگلیاں لہولہان ہو گئیں تو کبھی تصویر دھندلا گئی لیکن اس کے اندر چھپے ہوئے کہانی کار نے مٹی کی چڑیا میں ایسی روح پھونکی کہ اُس نے سنسار کا من موہ لیا!
انگریزی ادب میں ایم اے (M.A) کرنے کے بعد سر سید گرلز کالج میں اسے بطور لیکچرر فرائض انجام دینے کی پیشکش ہوئی جسے اُس نے قبول کر لیا۔
بعد ازاں وہ عبد اللہ گرلز کالج میں لیکچرر مقرر ہوئی جہاں وہ انگریزی ادب پڑھاتی تھی۔
پارہ نے 24 برس کی عمر میں ہی اتنے رنج سہہ لیے تھے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئی تھی

رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں
اور یہ بھی کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں

مگر اعصاب چٹخنے اور خواب ریزہ ریزہ ہونے کے باوجود زندگی کے ہر موڑ پر اُس کی ملاقات نت نئی آزمائشوں اور ان دیکھے مصائب سے ہوتی رہی۔

(جاری ہے)

زندگی سے وابستگی کا رویہ اُسے امید سے باندھے رکھتا اب وہ نسبتاً زیادہ مستحکم حیثیت میں اپنی ہریالی کو اپنے لہو سے سینچ رہی تھی جب اُس کے لیے برگ و بار کے موسم خواب ہو گئے تھے مگر پھر بھی ہر ہوا اسے اپنی مٹھی میں قید کرنے کو بے تاب نظر آتی تھی اُس کے اہل خانہ کو بھی اُس کے سر پر چھت دیکھنے کی تمنا تھی کہ ایسے میں اُس کے لیے ڈاکٹر نصیر علی کا پیغام آیا،وہ پارہ کے سیکنڈ کزن تھے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل،ان کی ذاتی خواہش پر اس رشتے کو منظور کر لیا گیا۔
1975ء میں منگنی ہوئی اور 1976ء میں شادی ٹھہرائی گئی۔ بظاہر
اُس کی زندگی میں ایک ساتھی کا وجود،گھر کا تحفظ اور زندگی کا سب سے حسین روپ عطا ہوا مگر اس کا گہرا ادراک یہاں بھی اپنی ازلی آگہی بیان کرنے سے باز نہیں آیا کسی بھی مصلحت کے بغیر اس نے وہی لکھا جو اس کے فن کا تقاضہ تھا۔برصغیر میں شادی سے چند دن پیشتر لڑکی کو مایوں بٹھانے کی رسم ہے جس میں سہاگنیں دلہن کی خوشگوار زندگی کے لیے کچھ رسوم ادا کرتی ہیں۔
پروین نے اُس لمحے کی منظر کشی کچھ اس انداز میں کی ہے اُس کی شہد آشنا زبان نے اجنبی سیاہ بخت زمینوں سے آنے والی ہوائوں کو بھی خوش آمدید کہا۔

شگون

سات سہاگنیں اور میری پیشانی
صندل کی تحریر
بھلا پتھر کے لکھے کو کیا دھوئے گی
بس اتنا یاد ہے
جذبے کی پوری نیکی سے
سب نے اپنے اپنے خدا کا اسم مجھے دے ڈالا ہے
اور یہ سُننے میں آیا ہے
شام ڈھلے جنگل کے سفر میں
اسم بہت کام آتے ہیں

پارہ  نے زندگی کے نئے روپ،نئے رشتے کو جس نے اُسے رفاقت اور حفاطت عطا کی،شاعری میں اس کے مکمل عکس گل صدبرگ میں دکھائی دیتے ہیں اس مجموعۂ کلام کی بیشتر نظموں کو پڑھ کر ایک سرشاری، نویلے پن اور تھکن سے چور ہوتی ہوئی جاں بلب روح کو ایک گونہ سرشاری کا احساس عیاں ہوتا ہے۔

ہوار ہوار تھی میرا،سپردگی،اولمپکس،ہنی مون،وصال،نیگ،بے پناہی،ساتھی،تاوان،ہوا چلے تو،نئی آنکھ کا پرانا خواب اُس کی شادی شدہ زندگی کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔
پارہ کی شادی اُس کی والدہ بیگم افضال النساء بنت کاظم حسین کی سگی ماموں زاد بہن محترمہ منظری بیگم کے صاحبزادے ڈاکٹر سید نصیر علی کے ہمراہ جمعرات 14 اکتوبر 1976ء کو کراچی کے ابو الحسن میرج ہال میں منعقد ہوئی جس میں اس کے عزیز و اقارب کے علاوہ اہل ادب بھی شامل تھے۔
شادی کے کارڈ اُس کے والد شاکر حسین اور احمد ندیم قاسمی کی جانب سے جاری کئے گئے۔پروین کا حق مہر شرعی 14,000 رکھا گیا۔شادی کے ابتدائی ایام انتہائی خوشگوار اور پُرسکون تھے اسی بات کو اس کے بھائی ڈاکٹر ناظم جعفری نے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے کہ پارہ کے مخالفین نے اس کی شادی شدہ زندگی کو جہنم  بنا کر رکھ دیا وہ آئے دن نئے کرب سے دوچار ہوتی۔
(پروین شاکر،سوانحی خاکہ،نجمہ خانم ملک)
جن دنوں اُس کے شوہر کیپٹن ڈاکٹر نصیر علی کی پوسٹنگ اسلام آباد میں ہوئی وہ دن اُس زندگی میں خوشیوں کی بہار سے کم نہ تھے وہ چاہتی تھی کہ اسی مسکن میں اپنا پڑائو ڈالے یہیں سکونت اختیار کر لے مگر ڈاکٹر نصیر اس بات کے حق میں نہ تھے وہ جلد فوجی زندگی سے اکتا گئے اور کراچی واپس آ گئے۔
سسرال میں رہنے کے ساتھ ہی پارہ نے اپنے معمولات میں کچھ تبدیلیاں کیں۔
اپنے والدین کے گھر میں وہ خاص ہر دلعزیز شخصیت تھی جہاں اُس کے نازو نعم اُٹھائے جاتے مگر سسرال چونکہ مشترکہ فیملی سسٹم کے تحت تھا وہاں اُس کے ذمے داریاں کچھ اور بڑھ گئی تھیں وہ صبح کالج جاتی اور واپس آ کر گھر داری کرتی مگر بہت کم عرصہ وہ کتابوں سے دور رہی،جب دو بار اسے آپریشن سے گزرنا پڑا۔
ایک بار گلے کا آپریشن،دوسری بار Appendicitis کے درد کے باعث اسے آپریشن سے گزرنا پڑا جس کا تذکرہ کئی کتابوں میں بھی ملتا ہے اور اُس نے خود نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے خط میں بھی اسی بات کا اظہار کیا۔

’’میری پیاری خالہ جنہوں نے مجھے ماں کی طرح پالا تھا۔کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر میری آنکھوں کے سامنے دم توڑتی رہیں اور میں کچھ نہ کر سکی۔ٹوٹو (بلا) میرا آٹھ برس کا دوست گلے کے زخم میں چل بسا اور شاید ان ہی سب باتوں کی یلغار نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ اچانک Appendicitis کا درد اُٹھا۔سرجن فوراً اسپتال لے گئے اور راتوں رات آپریشن ہو گیا (25 مئی 1978ء)
ایک اور خط میں جو کہ 20 جنوری 1978ء کو لکھا گیا آپریشن کی بابت ہی اطلاع دی جا رہی ہے۔

دراصل جن دنوں حسرت اظہار موصول ہوئی میں گلے کے آپریشن کے سلسلے میں اسپتال میں تھی۔وہاں سے رہائی ملی تو آرام کی تاکید اتنی سخت تھی کہ پڑھنے لکھنے کو ترس گئی۔“
مگر عجیب اتفاق ہے کہ بہت چاہے جانے والی شخصیات کی زندگی میں سکون ذرا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے خواہ وہ خانگی زندگی ہو کہ دنیاوی محاذ ہر جاء ان کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اور آزمائشیں پیدا کرنے میں مخالفین کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔
لیڈی آف دی ہاؤس،اے جگ کے رنگ ریز،ادرکنی اور علی ؑ مشکل کشا سے، انہی دنوں کی نظمیں ہیں جہاں اُس کے ٹوٹے ہوئے عکس اور بے بسی کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا کہ ڈاکٹر نصیر مشاعروں میں شرکت اور لکھنے پڑھنے پر اعتراض کرتے تو پروین کے بہی خواہ صورتحال کو سنبھالتے،بے کیفی اور سنجوگ کی بے نمو رتوں نے اسے دوبارہ کتابوں ہی میں غرق کر دیا۔
ڈاکٹر ناظم جعفری نے تفصیل سے ان دنوں کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر دیا ہے۔
پارہ کے شوہر سروس کی وجہ سے باہر رہتے تھے اور اس کے سسرال قدیم روایتی انداز سے سوچتے تھے جو کہ پارہ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔کافی دنوں وہ اس کوشش میں رہی کہ اسی ماحول میں خو د کو ڈھال لے مگر وہاں ہر روز نئی آفت،نیا کرب، رفتہ رفتہ اُس نے اپنے جینے کا انداز بدلا اور وہ دوبارہ کتابوں سے دل بہلانا شروع کر دیا۔
(پروین شاکر سوانحی خاکہ و دیگر مضامین ،ازنجم خانم ملک)
انہی حالات سے تنگ آ کر وہ کئی دن اپنے میکے میں قیام پذیر رہی۔صاحب طرز ادیب اور نقاد نظیر صدیقی جن سے اُس کے گھریلو مراسم بھی تھے ان سے وہ باقاعدہ خط و کتابت کرتی اور کہیں کہیں بین السطور میں تمام احوال بھی بیان کرتی۔
’’نہ معلوم کیوں آپ کو غلط فہمی ہو گئی کہ میں نے آپ کو کبھی اپنے گھر کا پتہ نہیں بتایا نہ ملایا۔
اور یہ کہ خط کہیں اور آتا ہے اور میں کہیں اور ہوتی ہوں۔تو بہت مختصراً میں آپ کو بتا دوں کہ ایسی کوئی بات نہیں۔بس صرف اتنی بات تھی کہ میرا کوئی گھر نہیں ہے۔آپ اس جملے سے بہت چونکے ہوں گے مگر میں آپ کو صورتحال سے تھوڑا سا اب آگاہ کر ہی دوں کہ میں گزشتہ ستمبر سے اپنی امی کے ہاں مقیم ہوں۔
میرے اور نصیر کے تعلقات بہت اچھے ہیں مگر ان کے گھر والوں سے میں Adjust نہیں کر سکی اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ میں میز کرسی یا الماری نہیں تھی۔
سوچنے والا ذہن رکھتے ہوئے ایک لڑکی تھی نصیر تقریباً روز ہی مجھ سے ملنے آتے ہیں۔ Weekend ویک اینڈ پر رہ  بھی جاتے ہیں۔مگر ہم آج تک الگ گھر لے کر نہیں رہ سکے اُس لئے کہ عین موقع پر کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہو جاتی ہے کہ معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
نصیر اس لئے کچھ زیادہ ہی باہر جانے کی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح یہاں سے نکلیں۔تب ہم اکھٹے رہ سکیں گے۔
یہ سب پرابلمز اتنے عرصے سے چل رہے تھے کہ
میں آپ کو کیا بلاتی کہاں بلاتی؟مگر چونکہ اب یہ طے ہو چکا ہے کہ جب تک نصیر پاکستان سے باہر نہیں جاتے (اور جس کے لیے انہوں نے کئی جگہ انٹرویوز دے رکھے ہیں) میں امی کے پاس ہی رہوں گی۔میرا سارا سامان وہیں پڑا ہے۔میں تو اسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے لیے نصیر کے ساتھ نکلی تھی اور پھر صورتحال اتنی بگڑ گئی کہ خود نصیر نے یہی فیصلہ کیا کہ میرا یہیں رہنا بہتر ہے۔

اُمید ہے کہ اب صورتحال واضح ہو گئی ہو گی۔
لیکن نہ تو ڈاکٹر نصیر کی پوسٹنگ کسی اور ملک میں ہوئی اور نہ ہی حالات تبدیل ہوئے۔پارہ کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں اپنے والدین کے گھر کے قریب ایک گھر ضرور مل گیا جہاں اُس کی زندگی میں نسبتاً ٹھہراؤ تو آ گیا وہ زیادہ توجہ سے لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہو گئی۔پاکستان ٹیلی ویژن پر اس کی نظامت میں مشاعرے اور بطور میزبان ادبی پروگرام نشر ہوتے رہے ۔
حصول رزق کی گہری مشقتوں کے درمیان اپنی روح کے موسموں کے کھوئے ہوئے سُر ڈھونڈنے نکلی کہ اس بار خدا نے اُسے مسکرا کر دیکھا کہ جب اسے زندگی کا سب سے خوبصورت روپ عطا ہو اور اسے اپنی مراد بر آنے کی اُمید ہوئی۔یہ امید شادی کے تین برس بعد آئی امجد اسلام امجد جنہیں وہ پیار سے امجد بھائی کہا کرتی تھی ایک خط میں اپنی زندگی کے اس روپ پر یوں گویا ہوئی۔

’’ہاں امجد بھائی یہ دور ہے تو بہت خوبصورت لیکن اس کی اذیتیں بھی بہت ہیں مشاہدے کی حد تک تو آپ بھی جان چکے ہیں میری ڈاکٹر خاصی فکر مند ہے اور اُس کا چہرہ پڑھ کر میری اپنی وحشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔میرے لیے دعا کیجیے گا نصیر آج کل خاصے خوش ہیں۔
20،نومبر 1979ء کو مراد کی پیدائش ہوئی،پروین نے اس ساعت کا جشن منانے اور مراد کو خوش آمدید  کہنے کے لیے بڑی ممتا بھری نظمیں لکھی ہیں۔

کائنات کے خالق،جواز،تیری موہنی صورت اور میرا لال خالصتاً ماں کے جذبات پیش کرتی ہیں۔مراد کی پیدائش کے تین ماہ کے بعد اسے خانگی حالات کے پیش نظر اسے زیادہ مضبوط اور مستحکم مستقبل کی فکر لاحق ہوئی۔حصول علم کی جستجو اسے ایک بار پھر کراچی یونیورسٹی کھینچ لائی اور اس نے شعبہ انگریزی لسانیات میں داخلہ لیا اور پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔
دوسری جانب پروین کے شوہر سوشل سیکیورٹی اسپتال میں ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی کلینک بھی چلا رہے تھے۔1981ء میں اس نے انگریزی لسانیات میں فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ایم ۔اے کا امتحان پاس کیا۔
یوں تو اُس کی شہرت اس سے قبل ہی چار سو پھیل چکی تھی مگر اب اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا۔غالب کے صد سالہ جشن پیدائش کے سلسلے میں اُسے اسلام آباد مدعو کیا گیا۔
یہی وہ دور تھا کہ جب اُس نے اپنے کیریئر کو خیر باد کہہ کر ایک نئے پروفیشن کا آغاز کیا گھریلو محاذ اور اُس کے مخالفین کے نت نئے ہتھکنڈوں کے درمیان اُس کے لیے اگر کسی شے کا وجود تقویت کا باعث تھا تو وہ اُس کے بیٹے کا وجود تھا جسے وہ پیار سے گیتو کہا کرتی تھی۔سید مراد علی جو بڑی منتوں اور دعاؤں کے بعد اس دنیا میں آیا پروین اس سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ اس کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ مسلسل بہتر روزگار کے حصول کے لیے کوشاں رہی۔

اسی خیال کے پیش نظر اُس نے (CSS) کرنے کی ٹھانی اور پاکستان بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی،ادبی دنیا میں تو وہ بہت کم عمری ہی سے ستائش پا رہی تھی اب اُس نے طبقاتی جنگ بھی جیت لی تھی اور اپنے میرٹ پر مقابلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت سے متعلق جو رویہ سکہ رائج الوقت کی طرح رائج ہے اُس کی ایک جھلک پروین کے خاوند ڈاکٹر نصیر علی کے ایک جملے میں گونج بن کر سنائی دیتی ہے۔

’’مجھے کیا پتہ تھا یہ پاس بھی ہو جائیں گی میں نے تو یونہی اجازت دے دی تھی‘‘
پروین نے کئی خطوط میں اور اپنی ہمشیرہ سے اس بات کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر نصیر نے اسے خوش رکھا،یوں بھی رفاقت کی چھاؤں محبت کے پودے کو تناور درخت بھی بنا سکتی ہے۔اور ڈاکٹر نصیر نے تو اپنے اہلِ خانہ سے مخالفت مول  لے کر اُس سے شادی کی تھی لیکن اُس کے باوجود مردانہ معاشرہ اپنی برتری کے غرور کو کہاں لے جائے جس کے باعث ہنسے بستے کھلیان کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر نصیر کے اس جملے پر پروین کے والد نے انہیں جواباً کہا۔

’’تعجب ہے تمہیں اُس کی ذہانت کا اندازہ نہیں‘‘

سی ۔ ایس ۔ ایس کرنے کے بعد وہ ٹریننگ اکیڈمی لاہور گئی،ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اسے کراچی میں D.H.A کے علاقے میں سرکاری گھر مل گیا۔اس ملازمت کے دوران اسے کئی محکماتی امتحانوں سے گزرنا پڑا اب یہ اُس کی ازلی ذہانت تھی کہ خدا نے اسے منصب عطا کرنا تھا وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوئی۔

البتہ خانگی حالات اُسکی گرفت سے باہر ہوتے جا رہے تھے اس کی بے پناہ مقبولیت اور کرب تخلیق میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا۔ڈاکٹر نصیر کا اصرارتھا کہ وہ لکھنا پڑھنا ترک کر کے مکمل گھریلو عورت بن کر رہنا چاہیں تو گزارہ ممکن ہے کیونکہ وہ دنیا والوں کی باتوں کا سامنا نہیں کرسکتے۔
پارہ نے اس سرد جنگ سے تنگ آ کر اسلام آباد ٹرانسفر کی کوششیں تیز کر دیں۔
والدین نے کوشش کی کہ شادی قائم رہے لیکن لڑائی جھگڑے اور شکوک و شبہات اس حد تک بڑھے کہ بچے کی پرورش متاثر ہونے لگی۔پتھر میں گلاب دیکھنے والی اُس کی فطرت نے نباہ کی کوششیں کیں جو رائیگانی کا رزق ہوئیں۔
اُس کی ایک کولیگ محترمہ مہر سلطانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ پروین چڑیا کے گھونسلے کو ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتی تھی نجانے اُس نے اپنے گھر کے ٹوٹنے کو کس طرح جھیلا ہو گا۔

14 اکتوبر 1976ء کو شروع ہونے والا پارہ کا ازدواجی سفر محض 10 برس میں اختتام پذیر ہوا۔البتہ 1987ء فروری میں ڈاکٹر نصیر نے دوبارہ اُس سے رابطہ قائم کیا لیکن اس رابطے کا مقصد (Separation papers) پر دستخط حاصل کرنا تھا جس کے بعد انہیں آزادی سے دوسری شادی کا اختیار حاصل ہوا۔معاہدے کی رو سے پروین دوبارہ شادی نہیں کر سکتی تھی اور اگر ایسا کرتی تو اسے مراد سے ہاتھ دھونا پڑتے۔
جبکہ ڈاکٹر صاحب کو مراد سے رابطہ کرنے کی اجازت بھی حاصل نہیں تھی،پروین نے دوبارہ شادی نہیں کی جبکہ ڈاکٹر صاحب نے جلد دوسری شادی کی اور نارتھ ناظم آباد کے اسی گھر میں مقیم ہو گئے جہاں وہ اس سے قبل پارہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے،یہ بات پروین کے اہل ِخانہ کے لیے باعث تکلیف ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابلِ برداشت بھی تھی بالخصوص اس کے والد کے لیے کہ جنہوں نے خاندان کی تقریبات میں آنا جانا بند کر دیا تھا۔

جب ڈاکٹر نصیر پارہ  کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے تو کسی نے ان کا ہاتھ دیکھ کر دو شادیوں کی پیشنگوئی کی تھی،دوسری شادی کے ساتھ ایک بیٹی کی بھی پیشنگوئی کی گئی،جسے سُن کر پارہ کئی دن تک اداس رہی۔اُس کے اسلام آباد شفٹ ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد یہ دونوں پیشنگوئیاں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔
20،ستمبر 1987ء کو پارہ اپنی مراد کی انگلی تھامے ایک ختم نہ ہونے والی تنہائی کے سفر پر روانہ ہو گئی۔
اُس نے اسلام آباد آ کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔البتہ اپنے لیے تنہائی کا لمبا سفر چن لیا تھا جہاں قدم قدم پر مارِ آستین دشنام طراز اور حاسدین اُس کی صفات اور خوبیوں تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور اپنے منصوبوں میں کسی حد تک کامیاب بھی! وہ جتنی کامیاب نظر آتی تھی اس سے کہیں زیادہ دکھ اُس کی روح میں بستے تھے ایک عرصے تک شادی شدہ زندگی کو نبھاتی رہی۔
اُس کے بھائی ڈاکٹر ناظم جعفری ایک مضمون میں رقم طراز ہیں۔
’’عزیزوں میں مخالفین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔طرح طرح کے الزامات اور نئی نئی تہمتیں تراشنا ان کا آئے دن کا کام تھا۔یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے پروین شاکر کی خوشحال زندگی کو جہنم بنا دیا۔جب اس کے شوہر کی طرف سے طلاق کا اعلان ہوا تو اندر ہی اندر یہ لوگ بہت خوش تھے‘‘۔
جہاں تک اس کے سسرال کا تعلق ہے توان کا رویہ محض زندگی تک ہی محدود نہ تھا اُس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کے بعد بھی ان کے تیور تبدیل نہ ہو سکے۔
شاعر اہل بیتِ مصورغم محشر لکھنوی نے 26 دسمبر ایک تاریخ کے دو رُخ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا۔یہ مضمون 14 فروری 2002ء کو تحریر کیا گیا۔
وہ لکھتے ہیں ’’مرحومہ کے دیور وسیم علی صاحب کی دختر کی شادی 26 دسمبر2001ء کو کراچی میں ہوئی۔پروین کے بیٹے مراد کو کینیڈا سے مدعو کیا گیا۔وہ بیچارا طویل مسافت طے کر کے کثیر رقم خرچ کر کے کراچی پہنچا یہاں آ کر اسے معلوم ہوا کہ 26 دسمبر کو شادی ہے۔

مراد علی کے لیے یہ اطلاع حیرت بلکہ انتہائی اذیت کا سبب ہوئی کہ ماں کی برسی کے دن گھر میں شادی! اُس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر مراد علی کو مدعو کیا گیا اور اس عمل کے پس پردہ یہ بات بھی واضح  ہو جاتی ہے کہ پروین کے اہل سسرال پہلے ہی نالاں اور کبیدہ خاطر تھے اور شاید ساری زندگی اس کا شکار رہیں۔یہ بھی ایک رخ ہے کہ 26 دسمبر کو اسلام آباد میں پروین آغا صاحبہ اور دیگر مداحین نے اس کی برسی منائی قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی تزک و احتشام سے ہوئی جس میں مراد علی شریک تھے وہ 24 دسمبر کو ہی اسلام آباد روانہ ہو گئے تھے حلقۂ احباب کو ان سے تعلق پر فخر و ناز تھا لیکن ان کے سسرال والوں کی نظر میں ان کا بہو ہونا قابل فخر نہ تھا۔

بہرحال کسی کی موت کو نظرانداز کرنا اور خوشی و انبساط کا اس نہج پر پہنچ جانا اور اس کا اظہار کرنا ہر گز مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا پروین آج قوتِ سماعت ہوتی تو جناب صفی لکھنوی کا یہ شعر سناتا۔
صفی کشتاں ہوں ناپرسانپوں کا اہل عالم کی
یہ دیکھو کون میرا صاحبِ ماتم نکلتا ہے
مصورِغم
محشر لکھنوی
14 فروری 2002ء
اُس کی ایک نظم (Misfit) اُس کی گھریلو اور ذاتی زندگی کے کرب کی بھرپور عکاس ہے۔
اسلام آباد قیام کے دوران اس کا پہلا گھر ایف سیون F-7 کے علاقے میں تھا۔اسی دوران اس کی ملاقات انکم ٹیکس گروپ کی سینئر افسر بیگم پروین قادر آغا سے ہوئی جنہوں نے اُسے زندگی بھر چھاؤں سی رفاقت کا احساس دیا وہیں اُس کی آزمائش بھی نیا رخ اختیار کر چکی تھیں اب اُسے (Single parent) بن کر اپنے بیٹے کی پرورش کرنا تھی یہ دور اس کے لیے نئے سراب اور عذاب لے کر آیا۔

پروین کی زندگی میں دو طرح کے لوگ آئے ایک وہ جو واقعتا اُس کی قدر پہنچانتے تھے اور اس کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد بھی اسے سرمۂ چشم بن کر رکھتے ہیں،دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اُس کی قابل تقلید تعلیمی کامیابیوں،اعلیٰ ترین اعزازات اور قابل رشک پیشہ وارانہ مہارتوں کی وجہ سے اُس کے قرب کو بے چین رہے کسی حد تک اس کی توجہ حاصل کی اور بعد ازاں نت نئے اسکینڈلز منظر عام پر لاتے رہے بظاہر وہ لوگ اُس کے بہی خواہ اور ہمدرد بن کر ملتے رہے۔
خدا نے اسے استقامت کے ساتھ ساتھ بیگم پروین قادر آغا کی رفاقت بھی عطا کی۔کسٹمز سے تعلق رکھنے والے کلیئرنگ اینڈ فاروڈنگ ایجنٹ نے اخبارات میں پروین کے حوالے سے ایک ایسی خبر شائع کروائی کہ جس کا خود پروین کو بھی علم نہ تھا۔اب جبکہ ڈاکٹر نصیر اُسے طلاق دے چکے تھے اور یہ سانحہ اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوا تو اُسے تنہا جان کر ایک بے بنیاد بات پر اسے عدالتوں تک گھسیٹا گیا ایسے میں بیگم آغا اور ان کے شوہر آغا افضال حسین نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا اس کا ذکر پروین نے انکار کی ایک نظم ’’پروین قادر آغا‘‘ میں کیا ہے۔

بے بنیاد خبر کا موجد چند دن بعد منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا۔26 دسمبر کو پروین نے اپنی ہمشیرہ کو فون پر اطلاع دی۔آپا میں مراد کو لے کر امریکہ جا رہی ہوں کب آؤں گی یہ نہیں معلوم مگر اس وقت میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔امریکہ میں وہ اپنے دوست جوڑے کے ہاں مقیم رہی جو ٹی وی سے منسلک تھے۔پاکستان واپسی کے بعد پروین کا قیام پروین قادر آغا کے گھرمیں رہا وہ سال بھر اُن کے ساتھ رہی بعد ازاں مارگلہ روڈ پر ایک گھر میں منتقل ہو گئی۔
جب انکار طبع ہوئی تو پروین نے سب سے پہلے یہ کتاب بیگم آغا کو دکھائی،جب ان کی نظر انتساب پر پڑی تو وہ حیران ہوئیں پروین نے اپنی محسن کو تازندگی عزیز رکھا،وہ پیار سے انہیں آپا کہا کرتی تھی۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra