21 Episode - Bas Aik Nuqta - Para Para By Nusrat Zahra

اکیسواں باب ۔ بس ایک نُقطہ - پارہ پارہ - نصرت زہرا

اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی

بے چراغ ہاتھوں نے ایک نُقطہ کیا لکھا،ہوا میں تیروں کی برسات شروع ہو گئی یہ تیر کبھی دیدہ اور کبھی نادیدہ رہے مگر صبحِ صادق سے پلٹ کر آنے والے ایک جھونکے کے ساتھ ہوا نے خود ایک دیا روشن کیا! جس کا نام پارہ پارہ ہے یہ میرے دل کی آواز ہے اسے میں نے اپنے خون جگر سے سینجا اور اس کی تکمیل میں ہر لمحہ ایک ٹھنڈی ہوا،ایک بادل،ایک دیا،کئی خوش رنگ تتلیاں اور تمام تر آندھیوں کے باوجود ایک دیا روشن رہا۔
ایک برس کی یہ کاوش اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
پارہ  پارہ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کسی کے بکھر جانے کا استعارہ ہے،یہ کتاب دنیائے ادب کی ممتاز تخلیق کار پروین شاکر کو پیش کیا جانے والا ایک ایسا خراجِ عقیدت ہے جس میں اُن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لے کر فکر و فن پر بات کی گئی۔

(جاری ہے)

اگرچہ یہ میرا منصب نہیں کہ میں اُن کے فن پر اظہارِ خیال کروں تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ اس کتاب کو رقم کرنے میں کسی نے غیبی طور پر مجھے حصار میں رکھا،مسلسل کوئی مجھے احساس دلاتا رہا کہ اس کا تمام تر اثبات اس ننھے سے ستارے کے ساتھ ساتھ ہے!
اس کتاب کے نام کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں،کسی کو اعتراض ہوا کہ کتاب کی مارکیٹ ویلیو صفر ہو جائے گی (بھلا کون جانے پارہ کون تھی) مگر پارہ پارہ کا اصل استدال ہی یہ ہے کہ تمام تر سچائیاں اس میں سمو دی گئی ہیں۔

جس پارہ کی ذات کو ہمیشہ پس پشت ڈالنے کی کبھی شعوری اور کبھی غیر شعوری کوشش کی گئی جیسے ہماری دنیا میں غلط العام ہی سکہ رائج الوقت ہے۔دراصل پروین شاکر کو ان کے گھر میں پیار سے پارہ پکارا جاتا ہے تو پارہ پارہ کے معنی ہوئے بہت پیاری ہستی جو بکھر جائے!
پروین سے میری شناسائی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اپنی ذات سے میری پہچان کا رشتہ استوارہے۔
جب میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے اسے سمجھنے کے لیے کسی اور حوالے کی ضرورت نہیں رہی۔میں نے اسے پڑھ کر سمجھنا شروع کیا اور جب وہ مکمل طور پر میرے شعور کا حصہ بن گئی تو پارہ پارہ کا وجود ناگزیر ہو گیا۔پروین نے مجھ سمیت ان گنت لوگوں کی روحانی تہذیب کی انہیں ترتیب دیا اور ترتیب تو وہی دے سکتا ہے جس پر خدا حد سے زیادہ مہربان ہو۔
جس کا قلب شیشے کی طرح اُجلا اور شفاف ہو۔پروین ایک بہتا دریا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی حافظے اور شعور میں رچ بس گیا ہے،سچائی اپنا راستہ خود بناتی ہے اور یہی اس کے کھرے پن کی دلیل بھی ہے۔مجھے ہر گز ہر گز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ کتاب حرفِ آخر ہے یہ تو محض آغاز ہے،پروین سے محبتوں اور پروین شناسی کا،مجھے اس کتاب کو آپ کے سپرد کرنے کے سمے اپنے وجدان کا یہ قرض اتارنا ہے کہ میرے قلب پر یہ اس طرح وارد ہوئی کہ جیسے

شبنم کا اکیلا موتی
عارضِ برگِ حنا چھو جائے ( خوشبو)

ان گنت ہاتھ اُس کے لیے اب بھی دعا گو ہیں اُس سکون کے لیے جو اسے کبھی نہیں ملتا تھا! پروین اگر زندہ رہتی تو نجانے آج اس کا فن کتنا بے پناہ نکھر گیا ہوتا اور اس کے مداح نجانے کتنی بے پناہ جہتوں سے بہرہ مند ہو جاتے۔


ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

وہ اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک سورج کے دیئے میں لو باقی ہے۔

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra