14 Episode - Aks E Parveen - Para Para By Nusrat Zahra

چودھواں باب ۔ عکسِ پروین - پارہ پارہ - نصرت زہرا

پروین کا جادو اب تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔اردو ادب میں ان کی اہمیت سے انکار کرنے کی کسی میں مجال نہیں بلاشبہ وہ ایک (Trend Setter) تھیں اور اگر یہ کہا جاتا ہے ان کے بعد آنے والی تمام شاعرات قلم ہاتھ میں پکڑتے ہی خود کو پروین شاکر سمجھنے لگتی ہیں تو کچھ بے جا نہیں۔ان کی سچی اور کھری شاعری سے نہ صرف ایک زمانہ متاثر ہے بلکہ ان کے رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے خدا نے ان کی ایک غزل کو اپنی بارگاہ میں حرف بہ حرف مستجابی سے نوازا۔
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے/زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے/لہجے کو جوئے آب کی وہ نے نوائی دے/ دنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے/دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے/تو مجھ کو کرب ذات کی سچی کمائی دے/ دکھ کے سفر میں منزل نایافت کچھ نہ ہو/زخم جگر سے زخم ہنر تک رسائی دے/پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں/دشت بلا میں روح مجھے کربلائی دے۔

(جاری ہے)

(خوشبو،1977ء) ان کی ہم۔عصر شاعرات میں بیشتر نام ایسے بھی ہیں جو منظرعام پر آئے اور پھر کسی کے ذہن میں محفوظ نہ رہ سکے۔لیکن جن شاعرات نے شہرت پائی ان میں شاہدہ حسن،فاطمہ حسن،نسرین انجم بھٹی،پروین فنا سید،شبنم شکیل،یاسمین حمید،نوشی گیلانی اور بشری اعجاز اور ثروت زہرا کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جبکہ ادا جعفری،زہرا نگاہ،کشور ناہید،فہمیدہ ریاض اور عرفانہ عزیز اہل فن سے بھرپور داد پا چکی تھیں۔
پروین نے اس وقت شعر کہنے شروع کئے جب اول الذکر شاعرات کی جانب سے تخلیقی جوہر کا بھرپور اظہار ہو رہا تھا لیکن۔پروین شاکر کے معاملے میں ذہن دوسری زبانوں کی بعض عظیم شاعرات کی طرف جاتا ہے۔ان کے شعروں میں جو حسن ہے ناقدین اسے یونان کی سیفو،ہندوستان کی میرا بائی اور فارسی زبان کی شاعرات قرت العین طاہرہ،پروین اعتصامی اور فروغ فرخ زاد سے منطبق کرتے ہیں اور انہیں اسی روایت کے ہم قافلہ قرار دیتے ہیں۔
پروین نے خود کہا۔کوئی سیفو ہو کہ میرا ہو کہ میرا ہو کہ پروین اسے/راس آتا ہی نہیں چاند نگر میں رہنا/
چاند نگر کی فضا تو پروین کو راس نہ آ سکی مگر ادب کے پرخار راستوں میں انہوں نے فتوحات کے جو چراغ روشن کئے اس کی مثال نہیں ملتی جب تک وہ حیات رہیں انہوں نے شہزادیوں کی طرح ادب کی دنیا کی حکمرانی کی۔مشاعرے ⁦،اعزازات،پذیرائی،یہ سب کچھ انہیں تاعمر نصیب رہا۔
البتہ ان کے جانے کے ستائیس برس بعد بھی ان کا خلا پر نہیں کیا جا سکا۔حد تو یہ ہے کہ کوئی ایک شعر بھی ان کے اس بے بدل شعر کی طرح نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا/ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی اگر یہ کہا جائے ان کے بعد اردو شاعری نے خود کو نئے سرے سے دریافت کیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔
پروین کے بعد آنے والی شاعرات انہی کے رنگ میں ڈوبی نظر آتی ہیں اور ان کے ڈکشن تک میں پروین کا انداز صاف جھلک جاتا ہے پذیرائی کا یہ انوکھا انداز دیکھنے کے لئے اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں اب ان کی روح کو یہ نوید ہو کہ ان کے وجود کی ایک پنکھڑی واقعی رزق ہوا سے بچ گئی ہے۔' شجر کتنا ہی ویران کیوں نہ ہو،امید بہار پیوستہ ہے ،پھول کتنا ہی پامال کیوں نہ ہو ⁦،اچھے دنوں پر یقین کرنے والے ⁦،کوئی شگون لے ہی لیتے ہیں۔صد برگ بھی تمام ریزہ ریزہ ہونے کے باوصف،اسی یقین پر مہر اثبات ہے۔۔۔۔۔اور اس یقین کی کوئی ننھی سی کرن آپ تک کے دل تک بھی اتر سکے تو میں سمجھوں گی کہ میرے وجود کی ایک پنکھڑی رزق ہوا ہونے سے بچ گئی!" (پروین شاکر از صد برگ 1980ء)

Chapters / Baab of Para Para By Nusrat Zahra