جی سی یو

پہلی مرتبہ یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ میں شامل۔۔۔۔۔ قبل ازیں گورنمنٹ کالج لاہور کو 2002میں یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے باوجود ہمیشہ 5سے6ہزار طلباء اور محدود پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز والی چھوٹی یونیورسٹی تصورکیا جاتا رہا

جمعرات 19 فروری 2015

GCU Universties Ki Aalmi Ranking Main Shamil
عنبرین فاطمہ:
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور رواں سال پہلی مرتبہ یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ میں شامل ہوگئی ہے۔قبل ازیں گورنمنٹ کالج لاہور کو 2002میں یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے باوجود ہمیشہ 5سے6ہزار طلباء اور محدود پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز والی چھوٹی یونیورسٹی تصورکیا جاتا رہا۔روایات اور تعلیمی معیار کے حوالے سے جی سی یو کا نام ہمیشہ روشن رہا ہے ،لیکن 2011میں نامور ماہرِ طبیعیات پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان کی بطور وائس چانسلر تعیناتی کے بعدجی سی یو میں نئے پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز، ترقیاتی منصوبوں،تحقیق کے فروغ اور نامورعالمی وملکی درسگاہوں سے تعاون اور طلباء کے لئے سہولیات کو خصوصی ترجیح دی گئی، جس کی بدولت 3سال کے قلیل عرصے میں جی سی یو کے طلباء کی تعداد میں ساڑھے پانچ ہزار کا اضافہ ہوا اور جی سی یو کے طلباء کی تعداد 6000سے بڑھ کر11557تک جا پہنچی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر خلیق الرحمان نے جی سی یو میں صرف 3سال میں 27نئے پوسٹ گریجوایٹ پروگرامزکا آغاز کیا،جن میں پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنسز،پی ایچ ڈی اپلائیڈ فزکس،پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز،ایم ایس انڈسٹریل سائیکالوجی اور فرانسک سائنس جیسے اہم پروگرامز شامل ہیں۔اس کے علاوہ کئی پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز کے ریپلیکاایوننگ پروگرامز بھی شروع کئے گئے۔صرف رواں برس جی سی یو میں4296نئے طلباء نے داخلہ لیا،جبکہ جی سی یو میں ایک سیٹ پر داخلے کے لئے امیدواروں کی تعداد50سے زائد ہے،جس سے والدین اور طلباء کا جی سی یو کے معیار تعلیم پر اعتماد کا اندازہ ہوتا ہے۔


ڈاکٹر خلیق الرحمان نے ایک جانب تو جی سی یومیں اساتذہ کے ساتھ مل کے نئے پروگرامز میں اضافہ کیااور دوسری جانب اپنے انتظامی بازوٴں کو طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے سہولیات کے اضافے میں مصروف کیا۔انہوں نے 3سال میں جی سی یو میں 30سے زائد نئے کلاس رومز،نئے لیکچر تھیٹرز اور دفاتر کا اضافہ بھی کیا،جبکہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظرشعبہ امتحانات کے لئے نئی بلڈنگ بنائی،گرلز ہاسٹل کی بھی توسیع کی گئی، جس سے 100سے زائد نئی طالبات کو یونیورسٹی کے اندر رہائش کی سہولت ملی۔

کھلاڑیوں کے لئے بھی سہولیات میں اضافہ کیا گیا۔جی سی یو کے تقریباً ہر شعبے میں نئی لیبارٹریاں بنائی گئیں،جبکہ پرانی لیبارٹریز کو بھی اپ گریڈ کیاگیا۔نیا جدید میٹنگ رومز بھی بنائے گئے۔ہر شعبے میں لائبریری پر خصوصی توجہ دی گئی۔لیکن ڈاکٹر خلیق الرحمان کا سب سے بڑا کریڈٹ ان کی فیسوں کے حوالے سے پالیسی رہی ہے۔2011میں جب ڈاکٹر خلیق الرحمان جی سی یو کے نئے وائس چانسلر بنے تو مہنگائی پاکستانی عوام کا اہم ترین مسئلہ بن چکی تھی۔

افراطِ زر میں روز افزوں اضافے کے باعث معیاری تعلیم عام آدمی کی دسترس سے نکلتی جا رہی تھی۔پروفیسرڈاکٹر محمد خلیق الرحمان جب وائس چانسلر بنے تو پہلے جس حکم نامے پر دستخط کیئے ،وہ جی سی یو کے تمام موجودہ طلباء کی فیس میں23فیصد کمی کا تھا ،جبکہ انہوں نے ہاسٹل چارجز کو بھی ریکارڈ50فیصدتک کم کردیا۔گورنمنٹ گرانٹ بھی کم ہو رہی ہیں اور جی سی یو ایک محدود وسائل رکھنے والی درسگاہ ہے اور یہ پرائیویٹ امتحانات بھی نہیں لیتی۔

فیس کم کرنے سے یونیورسٹی مالی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر خلیق الرحمان نے نہ صرف فیس کم کی بلکہ آنے والے3برس تک اس میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہ کیا۔اس کے باوجود یونیورسٹی نے نہ صرف اپنے بجٹ سے کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیئے ،بلکہ 2011-12کے 62ملین خسارے سے 2013-14 کے36ملین کے منافع کا سفر بھی بخوبی طے کیایہ کامیابی پورے پاکستان میں مالی خسارے میں چل رہے سرکاری اداروں کے لئے مثال ہے۔

اس اقتصادی سائنس کو سمجھنے کے لئے ہم نے گزشتہ روز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان سے خصوصی ملاقات کی۔نوائے وقت کو انٹر ویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی ماہرِ معاشیا ت تو نہیں ا یک عام استاد ہیں، لیکن کلیہ بہت آسان ہے کہ انہوں نے فیس تو نہیں بڑھائی لیکن طلباء کے اضافے سے یونیورسٹی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوا اور یونیورسٹی مالی بحران سے نکلی۔

یونیورسٹی کا ہر شعبہ اپنے بجٹ کا انتہائی منصفانہ استعمال کرتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کا ایک ایک روپیہ طلباء کی فلاح بہبود پر خرچ ہو۔ اس بچت سے حاصل ہونے والی رقم مستحق طلباء کے لئے سکا لر شپس پر خرچ کی جاتی ہے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیق الرحمان نے بتایا کہ 2011میں جی سی یو میں طلباء کوسالانہ6ملین روپے کے سکالر شپس دیئے جاتے تھے لیکن جی سی یو خالصتاً اپنے بجٹ سے طلباء کو3کروڑ روپے سے زائد کے سکالر شپس دے رہا ہے،میرا بس چلے تو کسی بھی ہونہار طالبعلم سے فیس نہ لوں۔

انہوں نے بتایا کہ مستحق طلباء کی مدد کے لیئے اولڈ راوئینز بھی جی سی یو سے بہت تعاون کر رہے ہیں اور گزشتہ 3برس میں انہوں نے جی سی یو کو مستحق طلباء کی مدد کے لئے 12کڑور روپے سے زائد کی رقم دی ہے،جس سے وہ کئی گولڈن اور سلور سکالر شپس کا اجراء کر چکے ہیں۔وائس چانسلر نے کہا کہ ان کی تمام مخیر حضرات سے درخواست ہے کہ وہ مستحق طلباء کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ خرچ کریں۔

ایک طالبعلم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے پورے خاندان کی تقدیر بدل جاتی ہے۔میرے نزدیک سب سے بڑھی نیکی کسی کو پڑھانا یا تعلیم کی میدان میں کسی کی مدد کرنا ہے۔اساتذہ کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ ہمیں وہ اساتذہ چاہیں جو (Tecahers by Choice) ہوں نہ کہ (Teachers by Chance)۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جی سی یو میں فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پر بہت کام کیا ہے اور ٹیچر زکی تربیت کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور عالمی اداروں سے مل کر کئی ٹیچر ز ٹریننگ ورکشاپس کا بھی اہتما م کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کی بہترین درسگاہوں میں پی ایچ ڈی ٹیچر کا تناسب 22سے 25فیصد ہے لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں یہ تناسب30فیصد ہے۔خواتین اساتذہ کی کُل تعداد 121 ہے۔پی ایچ ڈی ساتذہ کی تعداد میں مزید اضافہ کے لئے جی سی یو انتظامیہ نوجوان اساتذہ کو پی ایچ ڈی پروگرامز میں رجسٹر کرنے کے لیئے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ جی سی یو پی ایچ ڈی پروگرامز میں داخلہ لینے والے یونیورسٹی کے نئے اساتذہ کو ہر ماہ15ہزار روپے کا خصوصی وظیفہ دیا جا رہا ہے،جبکہ ہر پی ایچ ڈی سپر وائزر کو ان کو پی ایچ ڈی مکمل کرانے پر 1لاکھ روپے کا معاوضہ بھی دیا جا رہا ہے،تاکہ وہ ان کی تحقیقی پراجیکٹس میں زیادہ سے زیادہ رہنمائی کریں۔

جی سی یو کے ہر فیکلٹی ممبر کو انٹر نیشنل جرنل میں تحقیقی مقالہ شائع کرنے پر10ہزار ،جبکہ قومی جریدے میں تحقیقی مقالہ شائع کرنے پر 5ہزار روپے کا کیش ایوارڈ بھی دیا جا رہا ہے۔یہ انہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس جی سی یو فیکلٹی ممبران کے 277سے زائد تحقیقی مقالے ایچ ای سی Recognisedجرنلز میں شائع ہوئے۔علاوہ ازیں جولائی2011سے اب تک جی سی یو کے فیکلٹی ممبران نے وعالمی اور قومی ایجنسیوں سے کڑوڑوں روپے کے تحقیقی پراجیکٹس جیتے،جن میں37اہم پراجیکٹس پر جی سی یو میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔

وائس چا نسلر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے اَمن ،سکون،تحمل اور رواداری کے مضبوط گڑھ تصور کئے جاتے ہیں۔ اِن اداروں کی انتظامیہ اور اْن کا معاشرہ تعلیمی اداروں کو ہر قسم کے تعصب انتہاپسندی،سیاسی اور مذہبی مناضرت سے پاک رکھتے ہیں تاکہ نڑادِنو کی تربیت معتدل ماحول میں مثالی انداز سے کی جاسکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جی سی یو کے طلباء کو منفی رجحانات سے محفوظ رکھنے کے لیے یونیورسٹی طلباء سوسائٹیز میں اضافہ کیا اور ان سوسائٹیز کے انتظامی اور مالی معاملات میں طلباء کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی گئی،تاکہ طلباء تعلیم وتحقیق کے علاوہ اپنی توانائیوں کو تخلیقی ہم نصابی سرگرمیوں پر صرف کو سکیں، جن سے ان کی شخصیت میں بھی نکھار آئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جی سی یو میں طلباء سوسائٹیز کی تعداد 54سے بھی تجاوز کر چکی ہے،جبکہ جی سی یو نے طلباء سرگرمیوں کے لئے بجٹ میں بھی4سوگناہ تک اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی سی یو کی ترقی میں اولڈ راوئینز کا اہم کردار ہے ،انہوں نے ہر پوزیشنز میں اپنی مادرِ علمی کو بے انتہا سپورٹ کیا ہے۔ہماری چھوٹی سی درخواست پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ہمیں طلباء کے لئے 5نئی بسیں دی ،جس سے ہمارا ٹرانسپورٹ سسٹم بے انتہا مضبوط ہوا۔

انہوں نے ہمارے اینڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ میں مستحق طلباء کے لیئے5کڑور روپے کی خصوصی گرانٹ بھی دی۔ایک سوال کے جواب میں وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ لیپ ٹاپ سکیم سے طلباء کو بے انتہا فائدہ ہوا ہے ،لیپ ٹاپس اور کمپیوٹر جدید تحقیق اور تدریس کا اہم جزو بن چکے ہیں۔لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ یونیورسٹیز کے لیئے گرانٹس میں اضافہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جی سی یو بھی رواں سال پہلی مرتبہ یونیورسٹیز کی عالمی رینکنگ میں شامل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکنیکل یونیورسٹی ترکی کا انفارمیٹک سینٹر ہر سال دنیا بھر کی یونیورسٹیز کو ان کے تعلیمی وتحقیقی معیار ،عالمی اداروں سے تعاون اور دیگر کئی اہم بنیادوں پررینک کرتا ہے اور رواں سال پہلی بار اس نے جی سی یو کو بھی عالمی رینکنگ میں شامل کیا ہے۔اور ہمارے سائنسی شعبہ جات کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا بھر کی ہزار یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔

اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھیں توکیمیائی سائنسز میں پنجاب بھر میں اول نمبر پر ،جبکہ میتھ میٹیکل سائنسز میں پاکستان بھر میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ہم نے بہت تیزی سے عالمی رینکنگ کی طرف اپنا سفر طے کیا ہے۔پہلے تو ہم عالمی رینکنگ کے کرائٹ ایریا میں آتے ہی نہیں تھے لیکن اب ہم اس ریس کا حصہ ہیں۔ہماری سمت درست ہے اور انشاء اللہ اس ریس میں ہم ایسا دوڑیں گے کہ بہت جلد ہی ہمارا شمار دنیا کی بہترین500یونیورسٹیوں میں ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کالا شاہ کاکو کیمپس وقت کی اہم ضرورت ہے ،اس میں 25000طالبعلم تعلیم حاصل کر سکیں گے۔میرا یقین مانے کے اگر کالا شاہ کاکو کیمپس بن گیا تو دنیا کی 100بہترین درسگاہوں میں شامل ہونے سے کوئی نہ روک سکے۔انہوں نے کہا کہ جی سی یو میں اس وقت عالمی معیار ی تحقیق ہو رہی ہے اب تو ہمارے عالمی پیٹنٹس بھی آنے لگے ہیں۔حال ہی میں ہمارے سائنسدانوں نے جدید نینو کھاد تیار کی ہے جو خوراک کے غذائی اجزاء کو محفوظ رکھتی ہے اور فصل کی پیدوار کو بھی بڑھا تی ہے اور ملک کی نامور کمپنیز نے اس کھاد کی کمرشل پروڈکشن شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس سے یونیورسٹی کو مالی طور پر بھی بے انتہا فائدہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی رینکنگ ایجنسیوں نے جی سی یو کی غیر ملکی درسگاہوں سے ایکٹو لنک اور معاہدوں کو بے حد سراہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے بطور جی سی یو وائس چانسلر چارج سنبھالا تو جی سی یو میں ایک بھی غیر ملکی طالبعلم زیرِ تعلیم نہیں تھا، جس سے ان کو بے حد مایوسی ہوئی تھی، لیکن اس وقت جی سی یو کے اساتذہ اور انتظامیہ کی کوششوں سے اس وقت غیر ملکی طالبعلموں کی مناسب تعداد زیرِ تعلیم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

GCU Universties Ki Aalmi Ranking Main Shamil is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 February 2015 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.