
مسلمانوں کے قاتل مودی اور سوچی کا گٹھ جوڑ
روہنگیا مسلمان دہشت گرد قرار بھارتی وزیراعظم کا دورہ میانمار ‘مسلم قتل عام کی حمایت آنگ سانگ سوچی نے بھارت کے نصابِ تعلیم سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سبق سیکھا
جمعہ 29 ستمبر 2017

(جاری ہے)
(2)بھارت نے یو این او کنونشن پر عمل نہیں کیاتھا جس میں لوگوں کو اذیت دینے کے خلاف کنونشن منعقد ہوا تھا جبکہ اکتوبر 1997ء میں جو کنونشن ہوا اس میں بھارت نے بھی دستخط کئے تھے۔ (3) کنونشن کے آرٹیکل نمبر 3 میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی پارٹی انہیں معطل نہیں کرسکتی یا انہیں واپس جانے یا زبردستی واپس دھکیلنے کی مجاز نہیں ہے جب وہ مہاجرین اپنے ملک سے خوفزدہ ہیں کہ انہیں واپس جاتے ہی مار دیا جائے گا۔(4)بھارت نے اس کنونشن کی منظوری دینے کے سلسلے میں ابھی تک کوئی قانون نہیں بنایا۔ (5 )روہنگیا یو این ایچ آر سی سے رجسٹرڈ ہیں یا نہیں وہ لوگ غیر قانونی تارکین وطن ہیں یہ بھارتی وزیر داخلہ کا بیان ہے۔ (6 )تقریباََ 40 ہزار روہنگیائی مسلمان ہندوستان میں ہیں اور مزید 14 ہزار یو این این سی ایچ آر رجسٹرڈ ہیں۔ (7)غیر قانونی تارکین وطن روہنگیائی مسلمان اس وقت جموں ، ہریانہ اتر پردیش، حیدر آباد، دہلی اور راجستھان میں ہیں۔(8)وزیر اعظم مودی نے میانمار کی راخین ریاست میں تشدد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں کی حکومت کو بھرپور تعاون دینے کے لئے کہا، تاہم برما کی لیڈر آنگ سانگ سوچی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم پر خاموش کیوں ہے؟ آخر وہ کیا چاہتی ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ سوچی نے ایسا کیا کیا تھا کہ اسے امن کا انعام حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قتل وغارت اور تشدد کا سلسلہ شروع کردیا جس میں تیزی آگئی ہے۔ میانمار کی لیڈر آنگ سانگ سوچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر بھارتی انتہا پسندانہ سوچ غالب ہے کیونکہ سوچی نے اپنی زندگی کے ابتدائی 16 سال اپنی ماں کے ساتھ بھارت میں گزارے اور وہاں کے نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سبق سیکھا۔ سوچی کی والدہ بھارت میں ایک عرصے تک سفیر کے عہدے پر بھی تعینات رہی، یہ مسلم دشمنی نریندر مودی سے ملاقات کے دوران پوری عیاں ہوچکی ہے۔ میانمار کی تاریخ میں فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے آنگ سانگ سوچی کی زبردست تعریف و حمایت کی گئی تھی جس کی بناء پر اسے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا لیکن آج اس کی سربراہی میں حکومت انسانیت کو تہہ تیغ کرتے ہوئے بڑی سفاکی سے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کے سربراہوں نے سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ کیاہے ۔ یقینا نوبل انعام دینے والے ادارے کو سوچی سے یہ اعزاز واپس چھین لینا چاہیے کیونکہ سوچی کی شخصیت میں ظلم وبربریت کا جنون سامنے آچکا ہے اور وہ اس نوبل انعام کی توہین کررہی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بھارتی وزیراعظم سابق وزیر اعلیٰ گجرات میانمار میں نسل کشی کے اسٹڈی ٹور پر گئے تھے تاکہ اس بات کا ندازہ ہوجائے کہ ان کے دور میں گجرات میں جو نسل کشی ہوئی وہ سنگین تھی یا میانمار کی نسل کشی میں شدت ہے۔ مودی سے ملاقات کے بعد سوچی نے میانمار کا تقابل کشمیر سے کردیا تا کہ فوجی کاروائیوں کو حق بجانب قراردیا جاسکے۔ برمامیں مسلمانوں کی تعداد 70 سے 80 لاکھ کے درمیان ہے لیکن ایک سازش کے تحت مسلم آبادی کو گھٹا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ اس بنیاد پر ان کے کھیت، باغات، مکانات سب قبضے میں لے لئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو قانون شہریت کے تحت 1823ء سے پہلے میانمار میں ان کے آباؤ اجداد کی موجودگی کے دستاویزی آمد 1050 عیسوی سے پہلے کی تاریخ ہے۔ برما کے تمام علاقوں میں ہی مسلمان آباد تھے تاہم سات بڑے صوبے مسلم اکثریتی شمار کئے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا صوبہ جس کا تاریخی نام راخین تھا اب اس کا نام بدل کر ”راکھین“ رکھ دیا گیا ہے ۔ اس صوبے میں 80 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ بنگلہ جریدے”بنگاویک“ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو مسلمان برما میں رہتے ہیں ان کے نام سرکاری ریکارڈ سے حذف کردیئے گئے اور مردم شماری میں بھی شمار نہیں کئے گئے تھے۔ برما میں مسلم نسل کشی کی ابتداء 1940 سے ہوئی بدھسٹ دہشت گرد تنظیموں نے بدھست راشٹر،”برما صرف بدھوؤں کا نعرہ“ لگایا۔ اس نعرے کے ساتھ دہشت گرد تنظیموں نے 1942ء میں بڑے پیمانے پر مسلم نسل کشی شروع کی اس وقت کی رپورٹوں کے مطابق صرف تین ماہ میں مارچ 1942ء تا جون1942 ء ایک لاکھ 50 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا اور ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو دربدر اس طرح 1940ء تا1950ء1962 اور 1982 ء تک ہوئے مسلمانوں پر فوجی حملوں میں لاکھوں مسلمانوں کو میانمار سے نکال دیا گیا تھا اور ان مسلمانوں نے پاکستان سمیت بنگلہ دیش ، ملائیشیا، انڈونیشیا میں پناہ لی۔ آج پھر برما میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ترکی حکومت کے تشکیل کردہ گروپ INN نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں آج سب سے بدترین حالات میں برمی مسلمان ہیں جنہیں حکومت ، پولیس،فوج اور بدھودہشت گردوں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھا ہے ۔ ایک خاتون نے نیویارک ٹائمز کے رپورٹر کو بتایا کہ بدھ دہشت گر د ہم پر گولیاں چلا رہے ہیں انہوں نے ہمارے گھروں کو نذر آتش کیا۔ میرے شوہر کو ماردیا اور ہم سب کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ آنگ سانگ سوچی خود ایک بیوہ عورت ہیں ، انہوں نے ایک عرصے تک میانمار کے آمروں کو چیلنج کیا۔ مسلسل پندرہ سال تک نظر بند رہیں اور جمہوریت کے لئے مہم چلائی۔ انہیں جدید دور کی ہیرو سمجھا جارہا تھا۔ مگر میانمار کی اعلیٰ سربراہ ہونے کی حیثیت سے آج یہی سوچی ایسے ملک میں ہونے والی نسل تطہیر کا دفاع کررہی ہیں، چنانچہ میانمار میں روہنگیا مسلم شہریوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ ویسے میانمار میں جو بھی کچھ ہورہا ہے اس کے لئے ”نسلی تطہیر“ کا لفظ بھی معمولی ہے۔ بدھ دہشت گردی کی نئی لہر کے شروع ہو نے سے پہلے YALE LAW SCHOOL کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میانمار میں روہنگیا کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے ”قتل عام“ قراردیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارہ FORTIFY RIGHTS کے چیف نے بنگلہ دیش بورڈ پر روہنگیا مہاجرین سے انٹر ویو کرنے کے بعد کہا کہ برمی فوج بچوں کو قتل کررہی ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ROTH KEN کا کہنا ہے کہ جب آنگ سانگ سوچی کو نوبل پرائز ملا تو ہمیں خوشی ہوئی تھی کیونکہ وہ عالمی سطح پر ظلم وجبر کے خلاف صبرواستقامت کی علامت کے طور پر ابھری تھی۔ مگر آج جبکہ اسے اقتدار وغلبہ حاصل ہے تو خود پوری بے غیرتی کے ساتھ روہنگیا پر کئے جانے والے مظالم میں ہاتھ بٹا رہی ہے،۔ معروف سماجی کارکن اور نوبل ایوارڈ یافتہ DESMOND TUTU نے سوچی کو ایک دردناک کھلا خط لکھا ہے (جومختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے)اس میں وہ لکھتے ہیں: ”میری بہن! اگر میانمار کے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک تمہاری رسائی کی قیمت تمہاری یہ خاموشی ہے تو یہ بہت مہنگی قیمت ہے۔“
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Musalmano K Qatil Modi or Sochi Ka Gath Jor is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.