
Rag Doll ریگ ڈول
بعض الفاظ منشور (Prism) کی مانند ہوتے ہیں . جس طرح منشور یا Prism میں سے روشنی گزرتی ہے
افشاں خاور
جمعرات 21 اگست 2025

ریگ ڈول Rag Doll بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے ، اس کے مندرجہ ذیل معانی ہیں۔
١) بلی کی ایک نسل کو Rag Doll کہا جاتا ہے۔
٢) کپڑے کی بنی ہوئی گڑیا کو بھی Rag Doll کہتے ہیں .
٣) ایک ایسا انسان جس میں کسی مخصوص رول کو نبھانے کی قدرت نہ ہو، تو اسے بھی Rag Doll کہا جاتا ہے .
کپڑے سے بنی ہوئی گڑیا سے ہماری بچپن کی شناسائی تھی . ہماری Domestic Help بہت بار ہمارے لیے اپنے گاؤں سے کپڑوں سے بنی ہوئی گڑیا بنوا کر لایا کرتی تھی . یہ گڑیاں آرٹ کا مکمل نمونہ ہوا کرتی تھیں .
اس گڑیا کی بناوٹ میں گھر کے بچے ہوۓ نفیس اور عمدہ کپڑوں کی کترنوں کا استعمال ہوا کرتا تھا . سکول یونیفارم سے بچے ہوۓ سفید لٹھے سے گڑیا کا چہرہ اور ہاتھ اور پاؤں بناۓ جاتے . کسی کے سویٹر سے بچی ہوئی کالی اون سے گڑیا کی دو عدد موٹی موٹی چوٹیاں بنائی جاتیں . عید کے کپڑوں کی کترنوں سے اس گڑیا کا لباس تیار ہوتا اور امی کی پرانی نقلی جیولری سے گڑیا کا جھومر ٹیکہ اور بندے بنائے جاتے . اس گڑیا کے اندر Stuffing کے لئیے بھی پرانی بد رنگ کترنوں کا استعمال کیا جاتا ، یوں مختلف اجزا ئے ترکیبی سے ایک نہایت حسین گڑیا تخلیق ہوتی . ننھی بچیاں اس گڑیا سے کھیلتیں اور کبھی کبھار اس گڑیا کی شادی بھی کر دی جاتی.
گڑیا چونکہ نام سے ظاہر ہے ، صنف مونث سے تعلق رکھتی تھی. تو اس پر تمام مذہبی، معاشرتی اور سماجی قوانین اسی طرح نافظ ہوتے جس طرح روح پھونکی ہوئی گڑیوں پر نافذ ہوتے ہیں .
اگر کوئی لڑکا بہنوں یا رشتے کی بہنوں سے لڑتا تو وہ ان گڑیوں کے بال کاٹ دیتا، چہرے کے نقش و نگار بگاڑ کر توے کی کالک مل دیتا یا اس کی ناک کاٹ دیتا.
بہت دھندلی سی ایک یاد ہے کہ ایک بار ہمارے کزن بھائی نے جو کہ عمر میں ہم سے چند ماہ ہی بڑا ہو گا، ہم کزن سسٹرز کی گڑیا کے بال اور ناک کاٹ دئیے.
اچھا گڑیوں اور لڑکیوں پر شاید ایک ہی طرح کے قوانین لاگو ہوتے ہیں. تو جس طرح عموما``خواتین پر تشدد کا معاملہ دبا دیا جاتا ہے . بالکل اسی طرح گڑیا پر کیا ہوا تشدد ہماری والدہ اور دیگر رشتہ دار خواتین نے دبا دیا اور ابو جان تک اس تشدد کی اطلا ع بہت عرصے بعد پہنچی.
ہوا کچھ یوں کہ ہم سکول سے واپسی پر والد صاحب کے ساتھ ان کے ہسپتال بیٹھے ہوۓ تھے. تو ایک میڈیکولیگل کیس آیا. کسی خاتون کو اس کے رشتہ دار نے ناک اور بالوں کی چوٹی کاٹ کر زخمی کر دیا تھا. زخم تو یقینا `` اور بھی بہت ہوں گے لیکن روح کے سارے اور جسم کے بھی بہت سارے زخم دکھانا، شاید عورتوں کے لئیے ممکن نہیں ہوتا .
اب میڈیکل سائنس بھی بہت مجبور ہے ، اس کے بھی ہاتھ بندھے ہوۓ ہیں.
اب آپ خود ہی بتائیے کہ اگر زخم نہیں ، گوشت پھٹا ہوا نہیں، ہڈی نہیں ٹوٹی ، اور خون بھی نہیں بہہ رہا تو بھلا ڈاکٹر بھی رپورٹ میں کیا لکھے؟
لیکن کیا کیا جاۓ کہ روح کے زخم سے نہ تو خون بہتا ہے. نہ ہی کوئی ماس یا ہڈی ٹوٹتی ہے. اب بھلا اس طرح کا زخم کیسے نظر آئے اور اس کی کیا رپورٹ بنے.
خیر حسب معمول ہم پھر موضوع سے کافی دور چلے گئے . تو جناب جب وہ خاتون خون بہتی ناک اور کٹی ہوئی چوٹی کے ساتھ نظر آئی تو ہم نے ابو جان سے کہا کہ فلاں کزن بھائی نے ہماری گڑیا کے ساتھ بھی بالکل ایسے ہی کیا تھا.
ابو جان نے چونک کر کہا، کہ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا. ابو جان کا بھی ایک مسئلہ تھا ، قدرت کے کسی فیصلے کے تحت وہ اپنے زمانے سے کوئی 2سو سال پہلے پیدا ہو گئے تھے.ان کو ہمیشہ غلط سمجھا گیا، اور ایسا سمجھا جانا بھی چاہئیے تھا،وہ عورت مرد، کمزور طاقتور ، سب کے برابری کے حقوق کے قائل تھے.
اب ان کو یہ بات کون سمجھاتا، کہ ابھی تک اس معاشرے نے عورتوں اور کمزوروں کو انسان ہی تسلیم نہیں کیا اور انسانی حقوق دینے سے انکاری ہے، چہ جائیکہ برابری کے حقوق.
خیر والد صاحب نے سب سے پہلے تو ہمیں بٹھا کر ہمارے حقوق زبانی یاد کراۓ ، اور گھر جا کر والدہ سے ایسے واقعات کی چشم پوشی نہ کرنے کی تاکید کی. اور مذکورہ کزن کی الگ سے کلاس لی.
ابو جان انسان تو اچھے تھے، لیکن نفسیات دان نہ تھے. اگر ہوتے تو کزن سے ضرور پوچھتے کہ اس طرح کا تشدد اس نے کیسے سیکھا اور پھر سیکھ کر اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیسے کیا. 6-7 سال کے اس لڑکے نے بھی جانے انجانے میں اس عمل کو کہیں تو Normalize ہوتے ہوۓ دیکھا ہو گا.
خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں.
ایک دفعہ ہماری ایک پرانی Domestic Help ملنے آئیں . ہم انہیں دائی مائی کہتے تھے. آتے ہی انہوں نے اپنے کپڑوں کی گٹھری کھول کر کپڑے سے بنی ہوئی ایک بے حد خوبصورت گڑیا ہمارے حوالے کی. گڑیا بہت ہی نفاست سے بنی ہوئی تھی. بالوں کی 2خوبصورت چوٹیاں ، زیور ، خوبصورت ہاتھ، انگلیاں ، چوڑیاں، بے حد نفیس اور مکمل .
وہ گڑیا ہمیں بہت پسند آ ئی ، ہم اس کے ساتھ کھیلتے اور ہر آنے والے مہمان کو اسے دکھاتے. اگر ہم اپنے ننھیال یا ددھیال بھی جاتے تو گڑیا ساتھ لے جاتے. ہماری تمام کزن سسٹرز نے بھی گڑیا کو بے حد پسند کیا.
نہ جانے ہم چھوٹے تھے اور گڑیا کے ساتھ بے احتیاطی سے کھیلتے رہے یا پھر گڑیا کی بناوٹ میں نزاکت اور نفاست بہت تھی، شاید وقت بھی بہت گزر گیا یا پھر شاید ہم تھوڑا بڑے ہو گئے، بہر حال آہستہ آہستہ ہمیں کپڑے کی بنی ہوئی گڑیا کے مقابلے میں باہر سے منگوائی ہوئی Walky Talky Doll زیادہ بہتر لگنے لگ گئی .
ان ہی دنوں والد صاحب کا ٹرانسفر قصبے سے ایک نسبتا `` بڑے شہر ہو گیا. ہمارے ننھیال کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا تو ہم بہت خوش تھے کہ نہ صرف ہم بڑے شہر جائیں گے بلکہ بہت سارے کزنز کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملے گا۔
(جاری ہے)
جانے کا وقت قریب آنے لگا، اور سب لوگ سفر کی تیاری اور سامان کی پیکنگ میں مصروف ہو گئے.کچھ سامان ساتھ لے جانے کے لیے پیک ہو رہا تھا اور کچھ فالتو سامان گاؤں بھیجا جا رہا تھا. والدہ صاحبہ کا موقف تھا کے کچھ ماہ بعد جب گاؤں جانا ہو گا، تو یہ سامان وہاں مستحق افراد میں بانٹا جا سکتا ہے اور کچھ ضروری سامان وہاں کے استعمال کے لیے بھی چاہئیے ہو گا۔
اب ہم شش و پنج میں مبتلا تھے کہ گڑیا کو کس سامان میں بھجوایا جاۓ .
تو خیر ہم نے سوچا کہ گڑیا چونکہ مجھے کافی عزیز ہے تو اسے پھینک تو نہیں سکتی تو ابھی اسے گاؤں بھجوا دیتی ہوں. دسمبر کی چھٹیوں میں جب گاؤں جاؤں گی تو گڑیا سے ملاقات بھی ہو جاۓ گی اور اگر سامان میں گنجائش ہوئی تو ساتھ بھی لائی جا سکتی ہے۔
خیر اس فیصلے کے بعد ہم نے کپڑے کی گڑیا کو مطلع کیا کہ چونکہ ہم شہر منتقل ہو رہے ہیں اور وہاں نیا گھر ہو گااور نئے لوگ ہوں گے تو ہم ابھی کے ابھی تمہیں ساتھ نہیں لے جا سکتے اور انشإ الله دسمبر کی چھٹیوں میں تم سے گاؤں میں ملاقات ہو گی اور پھر ہم مل کر آیندہ صورتحال کو ڈسکس کریں گے.
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ جب ہم سب چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم میں بہت ساری ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو کہ وقت گزرنے کے بعد ہم سے چھن جاتی ہیں. مثلا`` رات کو خواب میں پریاں دیکھنا ، تالاب کے اردگرد رہنے والے مینڈکوں کے بارے میں پریشان رہنا کہ سردی میں میں وہ کیسے زندہ رہیں گے. الله تعالیٰ سے فرمائشیں پوری کروانا، اڑتے بادلوں میں گھوڑے ، خرگوش اور بھنورے کی شکل دیکھنا . اسی طرح کھلونوں سے گفتگو کرنا بھی ایک ایسی ہی super power ہوتی ہے.
ہمیں آج بھی مکمل یقین ہے کہ کھلونے نہ صرف ننھے بچوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان سے باتیں کرتے بھی ہیں. خیر ہم نے بھی گڑیا کو سب تفصیل سے سمجھا دیا اور بہت جلد ملنے کا وعدہ کر کے گاؤں جانے والے سامان میں پیک کر دیا.
جس دن ہم شہر کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ہمارے گھر کا سامان 2 مختلف گاڑیوں میں رکھا جا رہا تھا .
شہر جانے والے سامان میں امید تھی ، خوشی تھی اور بہت سارے نئے پروگرام تھے.
گاؤں جانے والے سامان میں فالتو اشیا ٍ ، پیچھے رہ جانے کا احساس اور ایک سچے دل والی گڑیا سے کیا ہوا ایک جھوٹا وعدہ تھا.
شہر پہنچے اور نئے سکول، نئے دوست ، اور نئی گڑیا ملی.
شہر کی ایک الگ بات تھی ، ہم یہاں روز آئس کریم کھا سکتے تھے ، ہمارا رنگین TV بھی آ چکا تھا ، اور ٹی وی کی نشریات بھی بالکل صاف نظر آتی تھی. جب اتنی نئی باتیں ہوں تو ایک پرانی کپڑے کی بنی ہوئی گڑیا کسے یاد آتی ؟
لیکن گڑیا گاؤں میں بہت پریشان تھی. آتی جاتی کزنز بھی بتاتیں کہ گڑیا سامان سے نظر آتی رہتی ہے ، شاید کچھ پیغام بھی بھیجتی ہو ، لیکن پیچھے رہنے والی بوسیدہ کپڑے کی گڑیا کا پیغام لے کر کس نے آنا تھا ؟
خیر سردیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جانا ہوا، تو گڑیا سے ملاقات ہوئی، وہ بے حد خوش تھی کہ اب ہم اسے ساتھ لے جانے کے لیے آ چکے ہیں.
لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ ہماری شہری سہیلیوں کی موجودگی میں ہم اس گڑیا کو ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے. ایک تو گاؤں کی مٹی دھول سے وہ بہت میلی ہو گئی تھی پھر اب اس کے کپڑوں کی چمک اور خوبصورتی بھی بہت ماند پڑ چکی تھی ، پھر کپڑے تھے بھی بہت پرانے فیشن کے.
میرے نئی Walky Talky گڑیا کا تو بہت پیارا سرخ اور سفید چیک دار سکرٹ تھا، گولڈن بال اور پاؤں میں پازیب کی جگہ چمکدار بوٹ.
خیر اس بار میں نے گڑیا سے کہا کہ تم کچھ عرصہ کے لیے میری کزن کی طرف رہ آؤ ، تب تک میں اپنے گھر میں تمھارے لیے ایک doll's room بنا لوں گی. گڑیا کو مجھ پر اعتبار تو پتہ نہیں تھا یا نہیں لیکن اسے مجھ سے پیار بہت تھا. اس بار بھی وہ میری باتوں میں آ گئی، اور میں نے اسے اپنی کزن کو دے دیا.
قانون قدرت ہے کہ اگر آپ کسی مسئلے کو حل کرنے کی بجاے بہانے سے اپنے سر سے ٹالیں ،تو وہ مسئلہ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ آپکے سر پر سوار ہو جاتا ہے.
اگلے سال ہم دسمبر میں دوبارہ گاؤں گئے تو پتا چلا کہ گڑیا بھی ایسا ہی مسئلہ بن چکی ہے، میری کزن جب ملنے آئی تو گڑیا واپس کر گئی ، اسے لگتا تھا کہ گڑیا اس کے بالکل بھی کام کی نہیں اور بے کار میں جگہ گھیرے پڑی ہے.
میں نے گڑیا واپس پکڑ تو لی، لیکن اب سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کا آخر کروں تو کیا ؟
اصل میں ایک زمانہ میں یہ میری بڑی پسندیدہ گڑیا تھی،اب میں اپنی بچگانہ انا اور شاید وفاداری میں ، اس گڑیا کو پھینک نہیں سکتی تھی اور نہ ہی اس کی موجودہ حالت میں کوئی کزن اسے لینے یا کھیلنے کے لئے تیار تھی.
امی، پھپھو اور کزنز سب مجھے بار بار یاد دلاتی رہتیں کہ دیکھو تمہاری گڑیا پڑی میلی ہو رہی ہے، تم اس سے کھیلتی کیوں نہیں ہو ؟
اب میں ان کو کیسے بتاتی کہ میرے موجودہ لائف سٹائل میں اب اس گڑیا کی کوئی گنجائش نہیں بنتی . خیر میرے ذہن میں کئی دن یہ کشمکش چلتی رہی اور آخر ایک فیصلہ سمجھ میں آ ہی گیا۔
اگلے دن ہماری خاندانی نائن کسی کی شادی کا بلاوا اور ابٹن دینے آئی ، اس کے ساتھ اس کی 7-8سالہ بیٹی بھی تھی .
ہم نے کسی دیالو سیٹھ کی طرح وہ گڑیا اس بچی کو پکڑا دی، کہ تم اسے اپنے پاس رکھو اور کھیلو.
گڑیا لاکھ پرانی سہی لیکن اعلی معیار کے کپڑے سے بنی تھی اور اس کا ایک ایک ٹانکا نفاست سے لگا ہوا تھا، بیچاری نائن کی لڑکی نے اتنی نفیس گڑیا کہاں دیکھی تھی، اس نے خوش ہو کر فورا ``گڑیا پکڑ لی.
جاتے جاتے ہم نے اپنی طرف سے گڑیا پر ایک آخری نظر ڈالی، نجانے یہ الوداع تھا ، غداری پر معافی کی درخواست یا ایک جھوٹے وعدے کی شرمندگی .
ہم دکھی ضرور تھے لیکن اب کم از کم گڑیا ہماری نظروں سے دور ہو چکی تھی.
جیسا کہ دستور زمانہ ہے کہ مجرم اپنے جرم کی بہت ساری تاویلیں ڈھونڈھ لیتا ہے.
ہم نے بھی یہ سوچنا شروع کر دیا کہ پچھلے اتنے عرصے سے گڑیا اس قدر نا قدری کا شکار تھی ، نہ کوئی اس سے کھیلتا تھا ، نہ اس کی تعریف کی جاتی تھی. اب کم از کم نائن کے گھر گڑیا خوش تو ہو گی. اب اسے اہمیت مل رہی ہو گی، اور وہ غریب بچی سب کو فخریہ انداز میں گڑیا دکھا رہی ہو گی. چلو اچھا ہی ہوا کہ ہم نے گڑیا کو نائن کی بیٹی کو دے دیا، یہاں رہ کر وہ نا خوش ہی رہتی. اب کم از کم وہ خوش تو ہو گی.
جن لوگوں کو گاؤں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہو وہ جانتے ہیں کہ گاؤں میں 2 طرح کے کتے ہوتے ہیں.
ایک پالتو کتے جو کہ گھر کی حفاظت یا شکار میں استعمال کئے جاتے ہیں.
دوسرے گلی کے آوارہ ،چور کتے. یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتے اور چوری چکاری اور چھینا جھپٹی پر ان کا گزارا ہوتا ہے.
چتکبرہ کتا بھی ان ہی آوارہ کتوں کی نسل سے تھا اور آتے جاتے بچے کے ہاتھ سے روٹی چھیننا ، کسی کے گھر سے چوری مرغی اٹھا لینا ، یا کسی کے گھر سے بچے کی چادر اٹھا کر باہر گلی میں رکھ کر اس پر بیٹھ جانا اس کی عادت تھی.
کیا کرتا ، آوارہ کتا سہی، لیکن تھا تو جاندار .
ایک تو جاندار ہونے کے بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں ، بھوک بھی لگتی ہے، اور سردی بھی. اب وہ چونکہ کسی کا پالتو نہیں تھا تو اس طرح کی چوری چکاری پر گزارا کرتا تھا.
خیر ، چند دن بعد ہم ابو کی انگلی پکڑے گاؤں میں کسی رشتہ دار کے گھر جا رہے تھے کہ چتکبرہ کتا کپڑوں کے چھیتڑے پر بیٹھا نظر آیا ، ذرا غور سے دیکھا تو یہ ہماری وہی ماضی کی پیاری کپڑے کی گڑیا تھی.
کتے کے چبانے سے اس کے کافی سارے حصے اکھڑ چکے تھے، اور اس اندر بھری ہوئی ساری کترنیں باہر جھانک رہی تھیں.
ہم نے شدید غصے سے چتکبرے کتے ، نائن ، نائن کی بیٹی، اپنی کزن ،سب کو برا بھلا کہنا شروع کر دی.
نجانے کیوں ان سب کو کہا ہوا ہر لفظ مڑ مڑ کر ہماری ہی طرف لوٹ رہا تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
مزید عنوان
Rag Doll is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 August 2025 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.