افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ اور جنرل اختر عبدالرحمان

پرنس ترکی الفیصل، سابق ڈائریکٹر، سعودی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی یادداشتوں The Afghanistan File سے اخذ

جمعہ 22 اگست 2025

Afghanistan Per Soviet Union Ka Qabza Aur General Akhtar Abdur Rehman
ترجمہ: تیمور خان 
24 دسمبر 1979، شام سات بجے، میں اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق بی بی سی ورلڈ سروس سن رہا تھا، جب یہ خبر نشر ہوئی کہ سوویت فوج نے افغانستان پر حملہ کردیا ہے۔ قدرتی طور پر اس کے خلاف پہلا اور موثر ردعمل پاکستان کی طرف سے آیا، کہ افغانستان نہ صرف یہ کہ ُاس کا ہمسایہ ملک ہے، بلکہ اس حملہ کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان  ہی پر پڑنے والے تھے۔

دوسرے روز، یعنی 25 دسمبر کو جنرل ضیاء الحق نے شاہ خالد بن عبدالعزیز سے فون پر بات کی، اور پھر جنرل اختر عبدالرحمن کو بلا کے کہا کہ سوویت حملہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اس صورتحال پر فوری طور پر ایک جامع رپورٹ اور اس سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تجویز کریں۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے یہ رپورٹ اور اپنی سفارشات ایک دو روزکے اندر ہی پیش کر دیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین نے ایک مسلم ریاست پر چڑھائی کی ہے، اور اس پرکمیونسٹ حکومت مسلط کرنا چاہتاہے۔ ان حالات میں پاکستان نہ صرف یہ کہ اخلاقی طور پر افغانستان میں اسلام کا دفاع کرنے کا پابند ہے، بلکہ یہ اس کے اپنے دفاع کیلئے بھی ناگزیر ہے۔ افغانستان پر فوجی قبضہ مستحکم کرتے ہی سوویت یونین کی فوج، بلوچستان کی سرحد پر قندھاراور ہلمند میں کھڑی ہو گی، اور اس کے بعد بحیرہ ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے، جو ہمیشہ سے اس کی خواہش رہی ہے، صرف بلوچستان ہی اس کی راہ میںحائل ہو گا، اور یہ رکاوٹ دور کرنے کیلئے وہ بلوچستان میں کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔


جنرل اختر عبدالرحمان کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ ایک بار افغانستان میں روس نوازکمیونسٹ حکومت قائم ہو جاتی ہے، تو  اس حکومت کی بھارتی حکومت کے ساتھ بہت زیادہ قربت ہوگی، جو ان دنوں پاکستان کے خلاف انتہائی جارحانہ عزائم کا اظہار کر رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہے، تو پاکستان کو عسکری طور پر مشرقی اور مغربی سرحدوں سے بیک وقت خطرہ لاحق ہو گا؛ بلکہ پاک بھارت جنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی بھارت اور افغان کمیونسٹ حکومت کا گٹھ جوڑ پہلے سے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں پاکستان کیلئے سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے ؛خاص طور پر اس پس منظر میں کہ افغانستان، پاک افغان بین الاقوامی سرحد' ڈیورنڈ لائن' کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔

چنانچہ افغانستان عملی طور پر صرف سوویت یونین نہیں، بلکہ بھارت کے خلاف بھی پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ ان حالات میں، پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیںکہ افغان مزاحمت کو منظم کرے، گوریلا جنگ کیلئے ان کی تربیت کرے ، ان کی راہنمائی کرے، یہاں تک کہ سوویت فوجیں افغانستان ہی سے واپس لوٹ جائیں ا ور پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ نہ بن سکیں۔

  
جنرل ضیاء الحق نے ان سفارشات سے مکمل اتفاق کیا کہ یہ ان کی اپنی سیاست کیلئے بھی مفید تھیں، اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ جس اندرونی اور بیرونی دبائو میں تھے، ان سفارشات پر عمل درآمد کے نتیجہ میں یہ دباو ختم ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ، جنرل ضیاء نے شاہ خالد کو دوبارہ فون کیا، اورکہا کہ وہ جنرل اختر کو ان کے پاس بھجوانا چاہتے ہیں۔

یہ جنوری 1980ء کے شروع کے دن تھے، جب جنرل اختر، سعودی دارالحکومت ریاض پہنچے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں ائرپورٹ ہی سے شاہ خالد اور ولی عہد شاہ فہد کے پاس پہنچ گئے۔ یہ ملاقات شاہی محل کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی میرے والد شاہ فیصل شہید کے اس نجی دفتر میں ہوئی ، جس کو انھوں نے خصوصی طور پر تیار کروایاتھے۔ اسی روز سہ پہر کو جنرل اختر کے ساتھ میری اپنے دفتر میں بھی ایک طویل نشست ہوئی۔

ہم دونوں نے اکٹھے ہی احمد بادیب کے ساتھ، جو میرے پرنسل سیکرٹری بھی تھے،الخوزامہ ہوٹل ڈنر کیا۔ جنرل اختر کی شخصیت بہت متاثر کن تھی، اونچے لمبے، گورے چٹے پٹھان، خوش مزاج اور صاف گو، اور جنرل ضیاء کے بااعتماد رفیق کار ۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے انھوں نے پیغام دیا کہ پاکستان پہلے ہی متعدد افغان سیاسی جماعتوں اور ان کی گوریلا تنظیموں کی دیکھ بھال کر رہاہے۔

ان میں سے کچھ تو شاہ دائود کے زمانہ سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف گوریلا جنگ کیلئے پاکستان ان جماعتوں اور تنظیموں کی پشت پناہی کیلئے تیار ہے، لیکن اس کیلئے مالی اور فوجی امداد کی ضرورت ہو گی۔

جنرل اختر عبدالرحمان نے دو روز تک ریاض میں قیام کیا، اور فیصلہ یہی ہوا کہ سوویت یونین کے خلاف بہر صورت افغان مزاحمت کی حمایت کی جائے گی۔

اس ملاقات کے چند روز بعد میں نے اپنے سیکرٹری احمد بادیب کو افغان مزاحمت کیلئے مالی امداد کی پہلی قسط کے ساتھ اسلام آباد بھیجا، جہاں وہ جنرل ضیاء اور جنرل اختر سے دوبارہ ملے، اور یہ امداد ان کے سپرد کرکے اسی روز رات گئے واپس ریاض پہنچ گئے۔ پندرہ روز بعد، میں اپنے بھائی سعود الفیصل کے ہمراہ، جو ان دنوں وزیرخارجہ تھے، او آئی سی وزراے خارجہ کے اجلاس 27 تا 29 جنوری  میں شرکت کیلئے اسلام آباد آیا۔

ہم ایک دورروز پہلے ہی اسلام آباد پہنچ گئے، کیونکہ کانفرنس سے پیشتر ہمیں نجی طور پر جنرل ضیاء او رجنرل اختر سے ملنا تھا۔ یہ ملاقات راولپنڈی آرمی ہائوس میں ہوئی، جو جنرل ضیاء سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں، جس میں صرف چارافراد شریک تھے، جنرل ضیا، جنرل اختر، سعود الفیصل اور میں، ہم نے متفقہ طور پر قرارداد کی شکل میں اس عزم کا اظہار کیا کہ نہ تو سوویت یونین کو بحیرئہ ہند تک پہنچنے دیا جائے گا، اور نہ پاکستان کو اگلا افغانستان بننے دیا جائے گا۔

اس قرارداد کو دو روز بعد او آئی سی وزراے خارجہ کانفرنس نے متفقہ طور پر منطور کرلیا، اور یوں سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم سے پوری دنیا کو آگاہی حاصل ہو گئی۔ امریکا کو بھی اب اس پر تشویش ہو رہی تھی، کیونکہ شاہ ایران کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ایران میں جو نئی حکومت قائم ہوئی تھی، وہ اگرچہ سوویت یونین کے بھی خلاف تھی، لیکن اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ وہ امریکہ کے خلاف تھی۔


سوویت یونین کے خلاف اس گوریلا جنگ کے آغاز ہی سے یہ بات طے شدہ تھی کہ افغان تنظیموں سے رابطہ اور ان کی تنظیم و تربیت مکمل طور پر پاکستان کی ذمہ داری ہو گی،اور اس میں جن دو شخصیات کا کردارکلیدی اہمیت کا حامل تھا، وہ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق اور آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمان تھے،جنھوں نے غیرمعمولی توجہ، انتہائی باریک بینی، بہترین قوت فیصلہ اور بے حدسفارتی مہارت سے یہ نازک ذمہ داری ادا دی۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس میں ان کو انتہائی سطح کا توازن قائم رکھنا تھا، کیونکہ اس دوران اگر وہ سوویت یونین کو ضرورت سے زیادہ مشتعل کر دیتے، یا سوویت یونین کو افغانستان پر قبضہ مستحکم کرنے میں کوئی رکاوٹ ہی نہ ہوتی، دونوں صورتوں میں سوویت یونین، پاکستان پر حملہ کرسکتا تھا۔ اس جنگ کی اسی حساسیت کے پیش نظر، جنرل ضیاء نے شروع ہی میں جنرل اختر سے کہہ دیا تھا کہ '' افغان جنگ کا ٹمپریچر بہرصورت نارمل رہنا چاہیے ، نہ زیادہ، نہ بہت کم ۔

 
جنگ کے ابتدائی مرحلہ میںفوجی امداد کی تقسیم اور ترسیل میں کچھ مسائل کا سامنا ضررو رہا، مثلاً بعض کمانڈر اپنے جائز حق سے زیادہ حصہ وصول کر لیتے، حالانکہ باقاعدہ طور پرکسی تنظیم سے منسلک نہیں ہوتے تھے ۔ چنانچہ بعد میں یہ لازم قرار دے دیا گیاکہ جو کمانڈر کسی تسلیم شدہ تنظم سے منسلک نہیں ہوگا، وہ امداد کا حقدار نہیں ہو گا۔1984ء میں جنرل اختر نے فیصلہ کیا کہ افغان تنظیموں کا کوئی باضابطہ اور متفقہ اتحاد ہونا چاہیے، جس کے ذریعہ فوجی امداد کی تقسیم ہو۔

مگر،افغان گروپ ایک میز پر بیٹھنے کیلئے تیار نہ ہوتے تھے۔ جنرل اختر مگر مسلسل کوشش کرتے رہے، تاآنکہ ایک روز جنرل ضیاء الحق نے افغان تنظیموں کو وارننگ دی کہ سب اتحاد قائم کرکے آیندہ 72 گھنٹے کے اندر اندر اس کا باضابطہ طور پر اعلان کریں، ورنہ پاکستان ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ افغان کروپ جانتے تھے کہ جنرل ضیاء کی پشت پناہی کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ، اس طرح سات رکنی افغان اتحاد وجود میں آیا، اور پھر افغان جنگ کے اختتام تک اسی اتحادکے ذریعہ امداد و اسلحہ کی تقسیم ہوتی رہی۔  
1985اور 1986ء کے آغاز میں سوویت فوج کے خلاف افغان مزاحمت مزید تیز ہو گئی ۔ اس مرحلہ پر آئی ایس آئی اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس جنگ کو فیصلہ کن موڑ تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ افغان کمانڈروں کو اپنے فضائی دفاع کیلئے زمین سے فضا تک مار کرنے کیلئے بہتر میزائل فراہم کیے جائیں،جو سٹنگر ہی ہو سکتے تھے۔

تاہم مسئلہ یہ تھا کہ سٹنگر1981ء میں امریکی فوج کو مہیا تو کر دیے گئے، لیکن ابھی تک یہ کسی جنگ میں استعمال نہیں ہوئے تھے۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ کہیں یہ سٹنگر میزائل دوران ِ جنگ 'خاد' کے ایجنٹوں، ایرانیوں اورکسی دہشت گروپ کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ جنرل ضیاء بھی بہت متذبذب تھے۔ ان کو خوف تھا کہ سٹنگر ان کے دشمنوںکے ہاتھ لگ گئے تو وہ ان کے  طیارے سی ۔

130 کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ ان کی جان لینے کیلئے اس طرح کی کئی کوششیں ہو چکی تھے۔ بہرحال، اپریل 1986ء میںصدر ریگن نے افغان جنگ کیلئے سٹنگر فراہم کرنے کی منظوری دے دی،ا ور چند ہفتے بعدپاکستانی انسٹرکٹرز اس کی تربیت حاصل کرنے کیلئے امریکا روانہ ہو گیا۔ ستمبر1986ء میں پہلا افغان گروپ تربیت حاصل کرکے، سٹنگرز سے لیس ہو کر افغانستان میںپہنچ گیا۔

سٹنگر میزائل نے، جیسا کہ توقع کی  تھی، افغان جنگ کا توازن واضح طور پر افغان گوریلا تنظیموں کے حق میں کردیا۔ نتیجتاً، سوویت یونین جینیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے واپسی پر تیار ہو گیا۔    
جنیوا معاہدہ کے چند ماہ بعد سوویت فوج کی واپسی ہونا تھی۔ سوویت یونین کا مطالبہ تھا کہ ان کی واپسی کے دوران  کوئی خلل اندازی نہیں ہونی چاہیے۔

وہ اپنے فوج کی محفوظ اور پرامن واپسی چاہتے تھے، کیونکہ اپنے شہریوںکو وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ سوویت فوجیں اپنا مشن مکمل کرکے واپس آ رہی ہیں۔ اس واپسی کے دوران، اگر سوویت فوج پرحملہ ہوتا، تو یہ تاثر ختم ہو سکتا تھا اور اس کی واپسی شکست سمجھی جا سکتی تھی۔ دوسری طرف جنیوا معاہدے میں، اس بارے میں کہ سوویت فوجوں کی واپسی کس طرح ہو گی ، کچھ نہیں کہا گیا تھا۔

اگرچہ سوویت یونین نے سات رکنی افغان اتحاد پر واضح کر دیا تھا کہ اگر واپسی کے دوران اس کی فوج کو نشانہ بنایا گیا تو افغان تنظیموں کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اس کے باوجود سوویت یونین کی خواہش تھی کہ امریکا ،پاکستان یا افغان اتحاد کی طرف سے اس کی واضح یقین دہانی کرائی جانی چاہیے، مگر ظاہر ہے، امریکہ کو اب اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔

   
اس امر کا امکان موجود ہے کہ مارچ 1987ء میں جنرل اختر عبدالرحمان کو آئی ایس ائی کی سربراہی سے ہٹانے میں امریکا کا بھی کوئی کردار ہو۔ جنرل اخترکو فل جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ دراصل امریکی، جنرل اختر کو ان افغان تنظیموں کا بہت زیادہ حمایتی خیال کرتے تھے، جنھیں امریکی اب ''بنیاد پرست'' سمجھتے تھے۔

دوسری طرف، فوج میں اوپر کیٰ سطح پر جنرل اختر کے دوست کم ہی تھے۔ ان کے ساتھی جنرل، عام طور پر، ان کو رشک و حسد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم جونیجو کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی تنائو تھا۔ جنرل ضیاء الحق ، ان کے حوالہ سے اب اس دبائو کا مزید مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے، اور سب سے بڑھ کے یہ کہ سوویت یونین کے خلاف اب جبکہ فتح سامنے نظر آ رہی تھی، جنرل ضیاء بھی نہیں چاہتے تھے کہ اس جنگ کا کریڈٹ ان سے زیادہ کسی اور پاکستانی کو دیا جائے۔

اس طرح ،جنرل اختر رخصت گئے اور ان جگہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل آ گئے،جو اس سے پہلے جنرل ہیڈکوارٹر میں ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر تھے۔ 
اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے کے آس پاس ہی راولپنڈی اوجڑی کیمپ میں دھماکہ ہوا ، جس کے نتیجہ میں وہاں موجود تمام اسلحہ اور بارود تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں متعددافراد جاںبحق ہو گئے۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا یہ سانحہ کسی سرکاری اہلکار کی غفلت کے باعث پیش آیا، یا کسی تخریبی کارروائی کا نتیجہ تھا۔

اس سلسلہ کا آخری تباہ کن واقعہ 17 اگست کو وقوع پذیر ہوا، جب سی ۔130 طیارہ، جس میں جنرل ضیاء الحق ، جنرل اختر عبدالرحمان، امریکی سفیرسمیت متعدد فوجی افسر سوار تھے، پاکستان کے ایک ملٹری کیمپ سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے کریش کر گیا،ا ور سبھی لوگ جاں بحق ہو گئے۔ اگرچہ اوجڑی کیمپ کی طرح اس حادثہ کی بھی کوئی ٹھوس وجہ آج تک سامنے نہیں آئی، لیکن اس موقع پر معلوم یہی ہوتا تھا کہ یہ یقینی طور پر ''کے جی بی'' اور ''خاد'' کی کارروائی ہے۔

یوں ، کسی نہ کسی طرح، سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنا لیا، جیسا کہ روسی چاہتے تھے۔
مارچ 1989ء تک جب سوویت فوج کی واپسی ہوئی، بہت کچھ بدل چکا تھا۔ سوویت فوج کو افغانستان سے نکالنے اور افغان کمیونسٹ حکومت کے خاتمہ کی حد تک، پاکستان، سعودی عرب اور امریکہ، سب نے اکٹھے مل کے کام کیا تھا، لیکن اب یہ بالکل واضح تھا کہ ان کے مفادات مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہو چکے ہیں، اور پھر یہ کہ امریکا اور پاکستان میں اب نئی لیڈرشپ سامنے آچکی تھی۔


 افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس جنگ کا آخری منظرنامہ طلوع ہونا شروع ہو گیا۔ اسی سال، یعنی 1989ء کی خزاں اس طرح نمودار ہوئی کہ مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتیں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں، اس کے بعد مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن بھی گر گئی۔ اگلے سال اگست 1991ء میں صدر گورباچوف کے خلاف کمیونسٹ پارٹی کے اندر ہی بغاوت پھوٹ پڑی، جس کے نتیجہ میں ان کو پارٹی قیادت سے استعفا دینا پڑا۔

اس کے ساتھ ہی یوکرائن کی ریاست نے آزادی کا اعلان کردیا۔ بعدازاں، یکے بعد دیگرے تیرہ دوسری ریاستیں بھی علیحدہ ہو گئیں، اور25 دسمبر1991ء کو افغانستان پر سوویت یونین کے قبضہ کے ٹھیک بارہ سال بعد سوویت یونین آخر کار ٹوٹ گیا، اورکریملن پر سرخ پرچم کی جگہ روس کا سفید، نیلا اور سرخ پرچم لہرا دیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Per Soviet Union Ka Qabza Aur General Akhtar Abdur Rehman is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 August 2025 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.