
- مرکزی صفحہ
- مضامین و انٹرویوز
- خصوصی مضامین
- جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی زندگی میں ہی پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا!
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی زندگی میں ہی پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا!
سی آئی اے کی یہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ صرف بھارت نہیں، اسرائیل بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خائف تھا، اور اس پر نظر رکھے ہوئے تھا
جمعہ 15 اگست 2025

جارج واشنگٹن یورنیورسٹی امریکا کے نیشنل سیکورٹی آرکائیو پراجیکٹ کی درخواست پر اسرائیلی جاسوس Jonathan Polard کے بارے میں“The Jonathan Jay Pollard Espionage Case: A Damage Assessment” کے عنوان سے سی آئی اے کی جو خفیہ دستاویزات، جو 2012ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھیں، اور جس کی بازگشت ان دنوں عالمی میڈیا میں پھر گونج رہی ہے، وہ تاریخی طور پر اس امر کی تصدیق کر تی ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام 1988ء سے بہت پہلے جنرل ضیاء الحق اور ان کے دست راست آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن کی زندگی ہی میں پایہء تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔
سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات کے مطابق یہودی جوناتھن، اگرچہ قانونی طور پر باقاعدہ امریکی شہری تھا اور امریکی نیوی کی انٹیلی جنس سروس میں خدمات انجام دے رہا تھا، لیکن درپردہ اسرائیل کیلئے بھی کام کرتا تھا، اور امریکی ذرائع سے حاصل ہونے والی سرکاری معلومات خفیہ طور پر اسرائیل کو فراہم کررہا تھا، جو زیادہ تر عرب ملکوں کی فوجی استعداد، اسرائیل دشمن تنظیموں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ہوتی تھیں۔
(جاری ہے)
اسی طرح 1986ء میں Arms Control and Disarmament Agency کے ڈائریکٹر کینتھ ایڈل مین نے وہائٹ ہاؤس کو بتایا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لیکن، ریگن انتظامیہ افغان جنگ کے باعث پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھی، بلکہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کی حساس معلومات ان کے ساتھ شیئر کرے، کیونکہ یہ معلومات سامنے آنے پر ریگن انتظامیہ پر کانگریس کی طرف سے پاکستان کے خلاف فوری کارروائی کیلیے دباؤ بڑھ سکتا تھا، اور اسے سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کیلئے امداد جاری کرنے میں مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ تاریخی طور پر یہ وہی عرصہ ہے، جب جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے زیر کمان آئی ایس آئی سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کو فتح کی منزل تک پہنچا چکے تھے۔ مارچ1987ء کے آخری ہفتے میں، جب جنرل ضیاء نے ان کی بطور آئی ایس آئی کی بے مثال کارکردگی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ان کے کلیدی کردار کے اعتراف میں ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدے پر ترقی دینے کا اعلان کیا، تو اس سے عین پہلے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے وہائٹ ہاوس کو واضح طور پر کہہ دیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔
سی آئی اے کی یہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ صرف بھارت نہیں، اسرائیل بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خائف تھا، اور اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اسرائیل یہ معلومات کیوں حاصل کر رہا تھا، اور کس کیلئے حاصل کر رہا تھا، اس کی طرف کچھ اشارے2015 ء میں منظر عام پر آنے والی سی آئی اے کی دستاویزات میں ملتے ہیں۔ ان کے مطابق 12 ستمبر 1984ء کو صدر ریگن کی ہدایت پر اسلام آباد میں امریکی سفیر Hinton نے جنرل ضیاء سے ملاقات کی، اور ان کو امریکی صدر کا ایک سر بمہر خط دیا۔ تین صفحات پر مشتمل اس خط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اظہار تشویش کے علاوہ امریکی صدر نے،اسرائیلی فیکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جنرل ضیاء کو خبردارکیا کہ بھارت، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس طرح کہ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا تھا۔ یہ خط سی آئی اے کو ملنے والی اس معلومات کی بنیاد پر تھا کہ جولائی1984ء میں بھارت کے حساس اداروں نے اپنی حکومت کو باضابطہ طور پر رپورٹ کر دیا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کامیابی کی منزل کے قریب ہے، اور اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، تو بھارت کیلئے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا، بھارت کو مزید وقت ضائع کیے بغیر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دینا چاہیے۔ صدر ریگن کو خدشہ تھا کہ بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا، تو جوابی طور پر پاکستان بھی بھارت کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا، اور یہ جنگ آگے جا کے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ امریکہ اس مرحلہ پر پاک بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ اس کے نتیجہ میں سوویت یونین کے خلاف اس کے اہم ترین جنگی اتحادی پاکستان کی ساری توجہ افغانستان کے محاذ جنگ سے ہٹ کے مکمل طور پر بھارت کی طرف ہو جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء نے یہ خط آئی ایس آئی چیف جنرل اختردیا، اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت کو مزید موثر بنانے کی ہدایت کی۔ ان بھرپور حفاظتی اقدامات اور جوابی کاروائی کیلئے مکمل تیاری دیکھ کر ہی بھارت کو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔
اسی طرح، نومبر1986ء میں راجستھان کے مقام پربھارت کی وسیع پیمانے پر ہونے والی’براس ٹیک‘ فوجی مشقوں کے دوران جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا، تو اس ممکنہ جنگ کو روکنے میں بھی حالیہ مئی کی پاک بھارت کشیدگی کی طرح، اہم ترین عامل پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہی ثابت ہوا۔ خود بھارت کے جریدہ”انڈیا ٹوڈے“ میں اس کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق 21 فروری 1987ء کی صبح اچانک جنرل ضیاء کا طیارہ دہلی ائرپورٹ پر اترتا ہے۔ ان دنوں جے پور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا تھا، جنرل ضیا نے ائرپورٹ پر اترتے ہی کہا کہ وہ خیر سگالی کے جذبہ سے صرف پاک بھارت میچ دیکھنے آئے ہیں۔ تاہم، چنائے روانگی سے پیشتر جب وہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے ملے تو ان کے قومی سلامتی کے مشیر کی موجودگی میں بغیر کسی تمہید کے صاف صاف لفطوں میں کہہ دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور یہ جنگ ایٹمی جنگ میں بدل ہو سکتی ہے۔
راجیو گاندھی اور ان کے مشیرکیلئے یہ ایک بم شیل تھا۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے قریب ہے، لیکن یہ خبر نہ تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ چنانچہ، اس کے بعد ہی جنگ کا خطرہ ٹلا اور اگلے روز جب راجیو گاندھی نے جنرل ضیاء کے اعزاز میں ڈنر دیا تو دونوں راہنماؤں نے یکساں طور پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا۔چند ہفتوں بعد مارچ میں ڈاکٹر عبدالقدریر خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ بھارت، پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے، کیونکہ،پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے، ا ور نہ صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے، بلکہ آن واحد میں بھارت کو نیست ونابود کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
سی آئی اے کی ان دستاویزات کی واضح گواہی کے بعد اب ا س میں کسی شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہی کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان شہید کی زندگی ہی میں پاکستان مکمل طور پر ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ اس تناظر میں آج 17 اگست 1988ء کا دن، جہاں سوویت یونین کے خلاف عسکری تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کے سرفروش مجاہدوں کا یوم شہادت ہے، وہاں یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنے اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والے پاکستان کے عظیم محافظوں کی یاد بھی دلاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
مزید عنوان
General Zia Ul Haq Aur General Akhtar Abdul Rehman Ki Life Me Hi Pakistan Atomic Power Ban Chuka Tha is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 August 2025 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.