
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
فزیشن اور سرجن. سرجن کا نام ذرا دل دہلا دینے والا ہوا کرتا تھا کیونکہ سرجری اس زمانے میں زندگی اور موت کا کھیل ہوا کرتی تھی.
افشاں خاور
جمعرات 14 اگست 2025

جناب یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریکوری روم Recovery Room کا کوئی کانسپٹConcept نہیں ہوتا تھا مریض سرجری کے بعد ہوش میں واپس آنے کا مرحلہ اپنے ورثا اور دیگر مریضوں اور ان کے ورثا کے درمیان گزارتا تھا.
(جاری ہے)
یقین مانیے یہ مرحلہ خاصہ عبرت انگیز ہوا کرتا تھا
آ ج کل کے نوجوان ڈاکٹرز اور نئی نسل کو ایتھرانستھیسیا Ether Anaesthesia کے بارے میں شاید بالکل اندازہ نہ ہو لیکن اگر ہم اسے سادہ انداز میں بیان کریں تو یوں سمجھ لیجئے کہ پتھنگ Pithing سے اگلا ایڈوانس سٹیپ ایتھرEther Anaesthesia کا تھا
ہمیں یاد ہے ذرا ذرا ہمارے گھر کے بالکل سامنے انکل سرجن کا گھر ہوا کرتا تھا اور وہ اپنے گھر میں پرائیویٹ مریض کی سرجری کر کے مریض کو ریکوری Recovery کے لیے گیراج میں منتقل کر دیا کرتے تھے ڈاکٹرز کالونی ہونے کے ناطے ارد گرد بھی سارے ڈاکٹرز رہتے تھے جن کی اکثریت گھر کے باہر والے کمرے میں ہی شام کو پرائیویٹ پریکٹس کرتی تھی
یوں ریکوری فیز Recovery Phase والا مریض اپنے لواحقین دیگر شعبوں کے مریضوں اور ارد گرد آنے جانے والے تمام افراد کے لیے عبرت کا باعث بنتا اس مرحلہ میں مریض عموما کافی بے چین ہوتا اور اپنے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کرتا
بعض اوقات ورثا کو مریض کے بازووں اور ٹانگوں پر چڑھ کر بیٹھنا پڑتا تاکہ مریض اپنی جگہ سے زیادہ نہ ہلے اور اس کے زخم کو سینے کے لیے سرجن کے لگائے ہوئے ایک ایک انگل لمبے ٹانکے کھل نہ جائیں
یہ ان دنوں کی بات ہے جب زخم میں پیپ پڑنے کی وجہ سرجری میں صفائی کا فقدان نہیں بلکہ موسم کا قصور سمجھا جاتا تھا
ٹانکے خراب ہونے پر کوئی سرجن کو الزام نہیں دیتا تھا بلکہ مریض کی بد احتیاطی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا
ڈاکٹر، فزیشن، سرجن ان دنوں باپ کی جگہ پر ہوا کرتے تھے. ان کی نیت اور قابلیت پر شبہ اس زمانے کی ریت روایت نہ تھی ان دنوں گوگل Google چیٹ جی پی ٹی Chat GPT اور وی لوگرز V-Loggers ابھی کوسوں دور تھے اور کوئی بھی انسان محض فون پر سرچ Search کرکے ڈگری یافتہ ڈاکٹر کی قابلیت پر شک نہیں کر سکتا تھا
مجھے آج تک یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے جس بی ایچ یو BHU کو اپنی خدمات کے لیے منتخب کیا وہاں بجلی نہیں تھی ہم نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے گھر میں بجلی لگوائی ہوئی تھی ایک رات گردن کے شدید زخم کے ساتھ ایک مریض لایا گیا اور بجلی سے محروم ہسپتال اپنی خدمات پیش کرنے سے قاصر تھا قریبی ٹی ایچ کیو THQ ہسپتال 50 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور اس زمانے کی تیز ترین گاڑی دو گھنٹے میں وہاں تک لے جا سکتی تھی
جی آپ نے بالکل درست پڑھا تیز ترین گاڑی میں صرف بس تھی اور سڑکیں نہ ہونے کے برابر
مریض کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور ٹی ایچ کیو THQ ہسپتال میں ڈاکٹر کی موجودگی بھی یقینی نہ تھی ان دنوں موبائل فون تو کجا اس علاقے میں لینڈ لائن فون بھی مہیا نہیں تھا خیر مریض کو ہمارے ڈرائنگ روم میں منتقل کیا گیا اور ایک کمپاؤنڈر، خاک روب اور والد صاحب پر مشتمل ٹیم نے مریض کی سرجری مکمل کی
ابلی ہوئی کپاس، ابلا ہوا پانی والدہ کی مدد سے ہمارے کچن سے مہیا ہوا، یہی اس زمانے کی معیاری جراثیم کش پریکٹس تھی خیر وہ برکتوں کے دن تھے اور اللہ ڈاکٹر کے وسائل سے قطع نظر اس کی محنت پر رحم فرماتا تھا
مریض آٹھویں دن گھر چلا گیا اور کچھ ماہ بعد اس کی والدہ اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی کچھ چنگیریں بطور تحفہ دینے آ ئی
بہر کیف وقت بدلا، لوگ اور اقدار بدلے، شاید ڈاکٹرز میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی . مشاہدے میں آیا کہ جہاں مریض کے دل میں ڈاکٹر کا احترام کم ہوا تو وہیں ڈاکٹر کے دل سے ہمدردی نے بھی بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا نہ جانے پہلے تبدیلی کس طرف سے آئی. لیکن دکھ یہ ہے کہ اب تبدیلی دونوں طرف رونما ہو چکی ہے
اب مریض کلائنٹ Client میں تبدیل ہو چکا ہے اور ڈاکٹر کو قصائی یا بہت ہوا تو بزنس مین سمجھا جاتا ہے نہ جانے کون صحیح ہے اور کون غلط
کیا پتہ اکثریت کیسز میں دونوں رائے ہی ٹھیک ہوں
ہمیں ابھی وہ اچھا زمانہ یاد ہے کہ ہم نے اپنے والد صاحب کو سرجیکل سکرب Surgical Scrub پہنے آپریشن تھیٹر سے باہر کبھی نہ دیکھا نہ ہی وہ ہسپتال کی عمارت سے باہر سفید کوٹ میں نظر آئے
خیر زمانہ بدلا ،ادویات بدلیں، ہسپتال بدلے اور نظام بدلا
آ ج کل ترقی یافتہ دور ہے اور ڈاکٹر صاحبان اور سٹاف سرجیکل سکرب میں گروسری کرتے نظر آتے ہیں
ہماری گنہگار آنکھوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کو سرجیکل سکرب، سفید اوور آل اور گلے میں سٹیتھوسکوک ڈال کر الفتح سے گروسری Grocery کرتے دیکھا. ہم نے عرض کی بی بی کیا ارادہ ہے، اس مصروف جگہ سے سو 100 قسم کے جراثیم ہسپتال لے جائیں گی کیا؟
انہوں نے ہمیں گھور کر دیکھا اور فرمایا کہ میں آ ئی سی یو ICU سے سیدھا گھر جا رہی ہوں ،جراثیم منتقلی کا کوئی چانس نہیں
ہم نے عرض کی کہ بی بی گروسری Grocery سٹور کا جراثیم تو واقعی آ ئی سی یو ICU نہیں جا سکے گا لیکن جو جراثیم اپ آئی سی یو ICU سے لائی ہیں اور یہاں پر فوڈ آیلز Food Aisle میں گھوم کر بانٹ رہی ہیں اس پر بھی ذرا وضاحت دے دیں، وہ ہمیں گھور کر دوسری طرف چلی گئی
خیر ایک بار پھر ہم آپ کو اپنے پسندیدہ زمانے میں لیے چلتے ہیں، بچپن میں ہم عموما سال میں دو ایک بار خاصے بیمار ہوا کرتے تھے عموما سردیوں میں موسم خزاں میں ہمیں نمونیا ہو جایا کرتا تھا ہمارے علاج کے کچھ مدارج ہوا کرتے تھے
پہلے دو تین دن والد صاحب کا علاج چلتا عموما چوتھے دن ہمیں ہمارے ننھیالی شہر منتقل کر دیا جاتا اور اگلے تین چار دن ہم اپنے خالو جان کے زیر علاج رہتے ہیں ہمارے خالوجان 1970 کی دہائی میں دو بار لندن جا کر دو الگ الگ سپیشلٹیز Specialities کی تربیت نامکمل چھوڑ کر واپس آ چکے تھے اور عمومی طور پر لوکلی ٹرینڈ ڈاکٹر سے زیادہ قابل مانے جاتے تھے
اس دوران ہمارے نانا جان سے جو کہ 1925 کے میڈیکل گریجویٹ تھے، اعزازی مشورہ لیا جاتا لیکن اس پر عمل ہرگز نہیں کیا جاتا تھا، کیونکہ ان کی پریسکرائبڈ Prescribed اکثر ادویات اب بننا بھی بند ہو چکی تھی
وقت بھی عمر و عیار کی طرح جانے کیسے چالیں چلتا ہے اپنے زمانوں کے ہرفن مولا اگلے وقتوں کے بھولے بھگ بن جاتے ہیں
خیر ہم اپنی کہانی کی طرف آ تے ہیں اگر ہمیں خالو جان کے علاج سے افاقہ نہ ہوتا تو میرے والد صاحب اپنے ایک ملنے والے سینیئر ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جاتے وہ ایک جانے مانے فیملی فزیشن تھے اورعموما گھر کے برامدے میں مریض دیکھا کرتے تھے ان کا گھر کسی خانقاہ کا منظر پیش کرتا ہر طرف مریض بکھرے پڑے ہوتے اگر کسی کو بینچ یا چارپائی نہ ملتی تو فرش پر ہی چادر ڈال کر بیٹھ جاتا
والد صاحب کی بدولت ہمیں البتہ بیٹھنے کے لیے ایک چھوٹا سا تین ٹانگوں والا اسٹول مل جاتا جو کہ اپنی قدامت کی وجہ سے اڑھائی ٹانگوں والے سٹول میں تبدیل ہو چکا تھا اس سٹول پر توازن قائم کر کے بیٹھنا ہمارے لیے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے کے برابر لگتا تھا
اس ڈاکٹر صاحب کے گھر کے لیے ہم نے خانقاہ کا لفظ کچھ غلط استعمال نہیں کیا وہاں کچھ اللہ کے حکم سے معجزے ہوا کرتے تھے . ہم جیسے ہی وہاں سے واپس آتے تو ہمارا بخار اترنے لگتا اور ہم سیب کھانا شروع کر دیتے
اس طرح فزیشن کا لفظ ہماری یادداشت میں الٹیمیٹ ہیلر Ultimate Healer کی شکل اختیار کر گیا
قاعدہ کچھ یوں ہیں کہ عموما ہر بچی اپنے ٹین ایج ایئرز Teenage Years سے پہلے اپنے والد کو عقل کل سمجھتی ہے اور یہی حال ہمارا تھا
اب جب ہمارے والد صاحب اس فیملی فزیشن کے پاس جاتے تو ہمارے علاوہ اپنے کچھ اور مریضوں کے کیس بھی ڈسکس Discuss کرتے اور ان سے ایکسپرٹ اوپینین Expert Opinion لیتے تو آ پ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ فیملی فزیشن ہمیں کتنے دانا بینا محسوس ہوتے
یہ وہ زمانے تھے جب لوگ رشتے کا انتخاب، گھر کی خریداری اور پیشے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے سکول کے ہیڈ ماسٹر اور اپنے علاقے کے فیملی فزیشن سے مشورہ کرتے. ان کے لیے اس پیشہ سے منسلک افراد ان کی فیملی کا حصہ ہوتے. یہ دونوں افراد اپنے علاقے کے ہر گھر کی ہسٹری اور نفسیات سے واقف ہوتے اور بچوں سے لے کر بزرگوں تک سب کے لیے فادر فگر ہوتے
وقت گزرنے کے ساتھ میڈیکل فیلڈ میں کافی تبدیلیاں آئیں، لیکن عمومی طور پر یہ تبدیلیاں شہر کے ماڈرن اور جدید علاقوں تک ہی محدود رہیں
پرانے علاقوں میں فیملی فزیشن آج بھی اپنی عبادت میں مشغول و مصروف ہیں
جی ہاں آ پ نے بالکل صحیح پڑھا آج کل کے دور میں کوالیفائیڈ ،Qualified تجربہ کار ایم بی بی ایس MBBS ڈاکٹر کے لیے نہایت ہی معقول معاوضہ کے بدلے مریض کو تشخیص، ادویات، کونسلنگ Counselling اور فالو اپ Follow Up دینا ڈاکٹری نہیں عبادت ہے
نام تو صحیح سے یاد نہیں لیکن گئے وقتوں میں سرجری کی ایک موٹی ٹیکسٹ بک Text Book ہوا کرتی تھی اور اس کے اندر ایک فرشتے کا خاکہ بنا ہوتا تھا والد صاحب کہا کرتے تھے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے علاج کے لیے اللہ تعالی نے فرشتے مقرر کیے ہوئے تھے اور وہ بطور طبیب انسانوں کا علاج کرتے تھے پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری اللہ نے انسان کو سونپ دی اس لیے وہ کہتے تھے کہ جب ڈاکٹر اپنے منصب پر ہوتا ہے، تو وہ عورت یا مرد نہیں ہوتا، وہ مثل فرشتہ ہوتا ہے. اور صرف اپنے اللہ کی مقرر کردہ حدود اور حکم کے مطابق اپنے مریضوں کا علاج کرتا ہے. اس کے اپنے جذبات، ریسزم Racism ، جانبداری یا اس طرح کی کسی بھی انسانی جبلت کے اظہار کا حق اس کے پاس نہیں ہوتا
خیر اب اس طرح کے ڈاکٹر خال خال ہی نظر اتے ہیں اور جب دکھ جائیں تو بڑا اچھا لگتا ہے
خیر موضوع ذرا لپیٹتے ہیں والد صاحب اور شوہر صاحب دونوں کی سپیشلٹیز Specialities فیملی فزیشن سے بالکل الگ سہی لیکن دونوں کے دوستوں میں فیملی فزیشن شامل تھے ان کی مہربانی کی بدولت ہمیں گاہے بگاہے فیملی فزیشن کے منعقدہ جنرل ہیلتھ اوئیرنس Genral Health Awareness پروگرام میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے
ڈاکٹر صاحب کے ایک نہایت قریبی دوست جو کہ ذاتی حیثیت میں ہمارے بہت بڑے محسن ہیں وہ عموما ان پروگرامز کے روح رواں ہوا کرتے ہیں ایسے مواقع پر عموما سینئر ڈاکٹرز یا اسپیشلسٹس Specialists کی طرف سے مختلف موضوعات پر معلومات پیش کی جاتی ہیں اور گروپ ڈسکشن کے ذریعے تمام سامعین بھی اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں
ایسے ہی کسی ایک موقع پر انہوں نے اپنے ایک مریض کا واقعہ سنایا جو کہ ہمیں لگا کہ سب کا حق بنتا ہے کہ وہ اس واقعہ کو سنیں
مذکورہ ڈاکٹر صاحب کے ایک پرانے مریض ایک دن شدید پریشانی اور اضطراب کی کیفیت میں ان کے کلینک آئے اور بتایا کہ ان کا پالتو بکری کا بچہ شدید بیمار ہے. فیملی فزیشن صاحب نے ان کو گائیڈ کیا کہ جانوروں کے لیے الگ سے ڈاکٹر صاحبان ہوتے ہیں، جو کہ جانوروں کا علاج کرتے ہیں. یہ سن کر مریض نے بتایا کہ وہ اس بکری کے بچے کو شفا خانہ حیوانات لے گئے تھے اور وہاں اسے کوئی ٹیکہ لگایا گیا جس کے فورا بعد بکری کے بچے کی حالت غیر ہو گئی ہے مریض نے مزید کہا کہ مجھے اللہ کے حکم سے آپ پر یقین ہے آپ ڈاکٹر ہیں اور آ پ کچھ کریں
بقول فیملی فزیشن کے، پہلے تو وہ بہت پریشان ہوئے کہ اب اس یقین اور اعتماد کا وہ کیا جواب دیں. خیر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے لوگ ڈگری کے ساتھ علم بھی حاصل کرتے تھے. نہ جانے تب طالب علم محنت زیادہ کرتے تھے یا برکتوں کے زمانے تھے، کہ علم نافع ہوا کرتا تھا یعنی نفع اور فائدہ دینے والا علم
خیر ڈاکٹر صاحب نے بکری کے بچے کا معائنہ کیا اور ان کو اندازہ ہو گیا کہ ڈ رگ ری ایکشن Drug Reaction ہے انہوں نے متعلقہ انجکشن نکالا اور بکری کے بچے کے وزن کے حساب سے مقدار لے کر اسے لگا دی
اللہ کا حکم، مریض کا یقین اور ڈاکٹر کا خلوص، بکری کا بچہ جھٹ چنگا بھلا ہو گیا اور مریض خوش خوش اسے لے کر گھر لوٹ گیا
اس واقعہ کے دو پہلو ہیں. پہلا پہلو ایک ہیپی اینڈنگ Happy Ending ہے کہ مریض امید لے کر آیا اور خوش خوش واپس چلا گیا
اس واقعہ کا دوسرا پہلو، ایک برسوں پہلے کیا ہوا ایک بہت مشکل اور قربانی پر مبنی فیصلہ ہے
یہ وہ مقام ہے جہاں ایک قابل لائق فائق میڈیکل گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ‘کھل جا سم سم’ کی مانند ڈگری کو ہاتھ میں لے کر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے دروازے اپنے اوپر کھول کر اس طلسم ہوشربا میں کھو جائے، یا پھر اس غریب ملک میں بسنے والے غریب، نادار اور بے بس لوگوں کے لیے اپنا وقت اور علم وقف کر دے
جی ہاں فیملی فزیشن کی پریکٹس پھولوں کا راستہ قطعا نہیں ہوتی. محدود وسائل، لامحدود مریض جن میں ایک دن کے نومولود سے لے کر 95 سالہ بزرگ شامل ہوتے ہیں.
وہ فیملی فزیشن جن کی رہائشیں مطب کے آس پاس ہو خاص طور پر پبلک پراپرٹی Public Property سمجھا جاتا ہے. کسی کی طبیعت خراب ہوئی ادھر رات کو تین بجے ڈاکٹر صاحب کا دروازہ بجا
میڈیکل گریجویٹ سے فیملی فزیشن بننے کا سفر ہفتے کا ہر دن اور ہر دن کا ہر گھنٹہ مانگ سکتا ہے
بہت بار تو فیملی فزیشن کو عید کے دن بھی آرام کا موقع نہیں ملتا، کیونکہ بیماری عید کا دن تھوڑی نہ دیکھتی ہے
ہمارا مشاہدہ ہے کہ بہت بار جب فیملی فزیشن کے گھر والوں میں کوئی چل بستا ہے، تو اس وقت بھی اپنے غم میں نڈھال یہ مسیحا کسی نیم جان ہلکان بچے کو ڈرپ لگا کر پانی اور نمکیات کی کمی پوری کر رہا ہوتا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
جہد مسلسل--اردو پوائنٹ کے25سال
-
اوورسیز پاکستانیز ہمارے دل کے قریب
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
مزید عنوان
Dard e Dil Ke Waaste Paida Kiya Insaan Ko is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 August 2025 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.