
تعلیم کی اہمیت اور ہماری بے حسی
یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایساپل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے
جمعہ 27 نومبر 2015

یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایساپل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔
(جاری ہے)
ایک بشر جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر خودگر اور خود گیر شخصیت کا حامل ہو جاتا ہے تو پھر اسکی ماحول سے مکالمے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے۔
اسکے بعد انسان تخلیق و تجدید کا ایک قابل فخر سرچشمہ بھی بن کراُبھر سکتا ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں امام غزالی، علامہ اقبال اور آئن سٹائن جیسے پرمہک پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے جن معاشروں میں مذکورہ بالا دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں افراد کی قدرتی حسِ اخلاق حسنِ اخلاق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عقیدہ، یقین، مقصدیت اور پہل کرنے کی اہمیت ایسے اعلیٰ اوصاف ہیں جو تعلیم یافتہ افراد کی زندگی کو بامعنی اور تخلیقی بنا دیتے ہیں۔ ملی نظامِ تعلیم کا دوسرا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے تہذیبی ورثے، علمی روایات، ثقافتی زیور اور اعلیٰ اقدار کو نہ صرف سنبھال کر اْن سے مستفید ہوں بلکہ اْن کا ایک تنقیدی جائزہ لیکر اْن میں بدلتے ہوئے ماحول اور حالات کے مطابق نئے رنگ بھی بھریں تخلیقی تعمیر نو کا یہ عمل بہت ضروری ہے۔علوم طبعی بھی ہیں اور روحانی بھی۔ شخصیت کی متوازن تعمیر کیلئے دونوں انتہائی اہم ہیں۔ طبعی علوم کی نفی رہبانیت یا دنیا سے فرار کی راہ دکھاتی ہے اور روحانی علوم سے دوری ہمیں وحشیت یا غیر انسانی رجحانات کی طرف دھکیلتی ہے اس لئے انسان کی متوازن نشو و نما کیلئے یہ دونوں بہت ضروری ہیں۔ جناب افتخار الدین منصور نے واپڈا ٹاؤن لاہور سے اپنے ایک خط میں بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ ”ہمارا نظامِ تعلیم ہماری اپنی تہذیب و ثقافت، ہماری اپنی تاریخی روایات اور کائنات کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ہونا چاہئے۔ کسی بھی دوسرے نظام کی نقالی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔“
ہم عمر بھر اپنی ساری توانائیاں اپنی معاشی آسودگی کے حصول میں صرف کرتے رہتے ہیں اور جب بہت ساری دولت، لامحدود جائیداد اور بے پناہ وسائل ہمارے ہاتھ میں آ جاتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کو کامیاب کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشی تو صرف ذریعہ حیات مقصدِ حیات نہیں۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے کہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
ہماری تعلیم Subject Based ہے Concept Based نہیں یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں دیتے۔ پھر ہمارے نظامِ تعلیم میں ا ستاد کا Skill Development کی طرف کوئی دھیان نہیں ہوتا۔ یعنی ایک سبق پڑھاتے وقت اگر ہم صرف لیکچر کی بجائے مباحثے کو ترجیح دیں تو بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناؤ کا ڈھنگ دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور مباحثے کے دوران دوسرے کی بات کاٹ کر اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنے لئے Speech Space حاصل کرنے کی Skills کی تربیت دینی بھی تعلیم کے مقاصد میں شامل ہے۔ تعلیم شائستگی کا درس دیتی ہے اونچا بولنا یا جیبوں میں ہاتھ ڈال کر استاد یا بزرگ کے سامنے کھڑے ہونا بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ درس گاہوں میں بچوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایک اچھے شہری کے حقوق کیا ہیں اور ذمہ داریاں کس قسم کی ہیں مثلاً یہ کہ آپ کو تقریر اور نقل و حرکت کی تو آزادی ہے اور فیئر ٹرائل کے بھی آپ حقدار ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو غور و فکر اور مذہبی آزادی بھی حاصل ہے لیکن یہ یاد رہے کہ آپ ریاست کے قوانین کے بھی تابع ہیں۔ اس لئے آپ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں بن سکتے۔ ریاست، پڑوسیوں اور اہل محلہ کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔ سڑکوں اور سیر گاہوں میں کچرا نہیں پھینکا جا سکتا۔ ملکی مفاد کے خلاف نہ صرف خود کچھ نہ کہنا ہے بلکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے متعلق اطلاعات فوراً انتظامیہ کو دینی ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی سٹیزن شپ کے بنیادی عوامل سے بھی ہماری آشنائی نہایت ضروری ہے۔ قارئین افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم آج بھی ہماری اصل ترجیح نہیں اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے ہم اتنے ہی بے حس ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Taleem Ki Ahmiyat is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2015 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.