تیسرا گھر

ہم نے سکول، مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اس کو بھی ایسا مقام دیں جو ہمارے بچوں اور جوانوں کو تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،یہ تیسرا گھر پہلے دو گھروں کی طرح ہی معتبر ہے،اس کی عزت اور احترم بھی اتنا ہی واجب ہے جتنا کہ باقی دو گھروں کا ہے

Sohail Raza Dodhy سہیل رضا ڈوڈھی جمعہ 6 مارچ 2020

teesra ghar
عموماً یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ گھر انسانوں سے ہوتے ہیں اور انسان وہ جس میں انسانیت ہو، احساس ہو، محبت و خلوص ہو ورنہ وہ انسان نہیں حیوان ہی کہلاتا ہے،اب انسانیت کے لئے سب سے زیادہ تربیت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور تربیت گھر سے ہوتی ہے،بات وہی کہ گھر انسانوں سے ہوتے ہیں اور انسانیت تربیت سے جڑی ہے، پیدائش سے لے کر موت تک ہم ہمیشہ دو گھروں کی ہی بات کرتے ہیں،پہلا تو وہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ مکان بیشک اپنا ہو یا کرائے کا، شادی سے پہلے ہو یا بعد میں، خود بنایا ہو یا وراثت میں ملا ہو ہم اسے گھر ہی کہتے ہیں کیوں کہ ہم وہاں رہتے ہیں اس مکان سے جڑی ہر چیز کا ہم سے ایک رشتہ بنا ہوتا ہے،اس کو سنوارتے ہیں اور مزید بہتر کرنے کی کوشش میں پوری زندگی کا سفر طے کرتے جاتے ہیں،وہاں سے ہماری تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور وہاں کا ماحول ہی انسان کے انسان بننے کی ابتدا ہوتی ہے،یوں ماں کی گود سے شروع ہونے والا زندگی کا سفر اپنی آخری منزل تک تو پہنچ جاتا ہے مگر انسان انسان بنتا ہے کہ نہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)


پہلے گھر کی تو بات ہو گئی کہ وہ گھر جہاں ہم رہتے ہیں، اب بات کرتے ہیں دوسرے گھر کی، غور کیا جائے کہ ہم اپنے گھر کہ علاوہ کونسی جگہ کو گھر کہتے ہیں وہ ہے ہماری عبادت گاہیں یعنی مسلمانوں کے لئے مسجدیں ایسی جگہ ہیں جس کو ہم اللہ کا گھر کہتے ہیں،اسی طرح غیر مسلم اپنی عبادت گاہوں کو گھر کہتے ہیں جیسے کہ گرجا گھر وغیرہ،دوسرے گھر میں ہمیں اپنے رب سے تعلق جوڑنے میں مدد ملتی ہے. وہ گھر جس کی عزت اور اخترام ہم اپنے گھر سے بھی کئی گنا زیادہ کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے،مگر یہاں بھی انسانیت کو اس گھر پر فوقیت دی گئے ہے، جیسے کہ ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک گھر سے دوسرے گھر تک کا سفر کیسا رہتا ہے اور کیا ان دونوں گھروں کہ علاوہ بھی کوئی جگہ ہے جسے ہم قبر میں جانے سے پہلے گھر کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم جہاں کام کرتے ہیں وہ ہمارا گھر ہو سکتا ہے؟ کسی پارک کو، ہوٹل کو، ہسپتال کو یا کوئی اور جگہ جہاں ہم بیشک روزانہ ہی جاتے ہو ہم اسے گھر نہیں کہتے. لہذا ابھی تک زندگی میں دو ہی جگہوں کو ہم لوگ گھر کہتے اور سمجھتے آئے ہیں ایک وہ جہاں ہم رہتے ہیں اور ایک وہ جہاں ہم عبادت کرنے جاتے ہیں یعنی اللہ کا گھر۔

 چلیں آج ہم اپنے ان دو گھروں میں ایک تیسرا گھر بھی شامل کر لیتے ہیں،اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہماری تربیت یافتہ ہونے اور کرنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے،اس تیسرے گھر کے بارے میں ہم نے اپنے بچوں کو ویسے ہی بتانا ہے جیسے ہم لوگ اپنے گھر اور مساجد کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے اور یہ اللہ کا گھر ہے،ان دو گھروں کہ بعد تیرا گھر متعارف کرواتے ہیں وہ ہے جہاں ہمارے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں،ہم نے سکول، مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اس کو بھی ایسا مقام دیں جو ہمارے بچوں اور جوانوں کو تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،یہ تیسرا گھر پہلے دو گھروں کی طرح ہی معتبر ہے،اس کی عزت اور احترم بھی اتنا ہی واجب ہے جتنا کہ باقی دو گھروں کا ہے۔

جب ہم اپنے اسکولوں، مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی گھر کا درجہ دے دیں گے تو ہمارے بچوں کے دل میں دوسرے دو گھروں کی طرح اس تیسرے گھر کی بھی اتنی ہی قدر ہو گی اور اتنا ہی انس ہو گا،ایک تو بچوں اور جوانوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ یہ ادارے جہاں ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ بھی اپنے گھر اور اللہ کے گھر کی طرح اہم ہیں تو ان میں رہنے والوں یعنی اساتذہ اور ساتھ تعلیم خاصل کرنے والوں کی عزت و اخترام بھی اتنا ہی اہم ہے جیتا اپنے گھر میں رہنے والے والدین بہن بھائیوں اور مزید رشتے داروں کا ہے اور مساجد میں علما کا ہے،جب استاد کو ہم روحانی والدین کی حیثیت دیتے ہیں تو اس جگہ کو بھی گھر کی حیثیت دینی ہو گی تا کہ یہ روحانیت کا رشتہ حقیقی رشتے کے برابر کر دیا جائے،اب گھر سے نکل کر گھر جانے کا تصور ہی انسان کی تربیت، روحانیت اور تعلیم کے عمل کو مضبوط بناتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

teesra ghar is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 March 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.