حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی چادر کو مت استعمال کریں

پیر 19 مئی 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

آپس کی لڑائی، رقابت اور کسی کے اشارے پر ناچتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے ادارے اس حد تک گر جائیں گے، کبھی سوچانہ تھا مگر ایسا بھی نہیں کہ ان باتوں کو ناممکن خیال کیا ہو۔جب اشتہاردینے والی کمپنیوں نے بڑے اخبارات کے صفحہ اول کو مکمل طور پر خریدنے کا آغاز کیا تھا تب صحافت پر زوال کے آثار نظر آگئے تھے۔ اور پھر الیکٹرانک میڈیا کے نام پر ملک میں ٹی وی چینل کی دوڑ شروع ہوئی تو صحافی’ ماڈل‘ اور صحافت’شوبز‘ بن گئی۔


میڈیا ایک انڈسٹری ہے اور سرمایہ کاروہیں پیسہ لگاتا ہے جہاں سے دوگنا واپس ملنے کی امید ہو۔جب اخبارات کی حد تک تھاتو یہ معاملہ لاکھوں کروڑوں تک محدود تھا مگر ٹی وی چینل چلانے کیلئے کروڑوں نہیں اربوں روپے درکار ہوتے ہیں، یہاں صرف افرادی قوت(صحافی) کی ضرورت نہیں ہوتی، بڑی بڑی مہنگی مشینیں اور ان کو چلانے والے بھی درکار ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اربوں روپے لگانے والا کروڑوں کا منافع کمانا چاہتا ہے اور ریاستی اداروں میں کام کرنے والے اعلی عہدیداروں سے ’بہترتعلقات‘ کا بھی خواہش مند ہوتا ہے۔
چلیں اس حد تک تو قابل قبول ہے مگر جب میڈیا کے ادارے باقاعدہ پارٹی اور وہاں کام کرنے والے صحافی ’سیاسی کارکن‘ کاروپ دھار لیں تو صحافت کہیں پاتال میں دفن ہو کر بھی نظر نہیں آتی۔

ملک کے ٹی وی چینل تو کبھی دیکھے جانے کے قابل نہ تھے مگر اب تو بڑے اخبارات بھی پڑھتے وقت خیال آتا ہے کہ خبر کہاں ہے اور اگر کہیں ہے تو کون سے نیوز پیپر نے کس خبر کو درست طور پر رپورٹ کیا ہوگا؟۔ کس کا اعتبار کیا جائے؟۔اب آپ اگر ایک چینل دیکھتے ہیں تو دوسرے پر دکھائی گئی فوٹیج مشکوک ہوجاتی ہے اور انگریزی اخبار پڑھتے ہیں تو اردو زبان کے اخبار کی خبر کچھ اور کہہ رہی ہوتی ہے۔

جائیں تو جائیں کہاں؟۔
صحافت کا تو جو حال ہے مگر خبر اور تصویر آپ تک پہنچانے والوں کی بھی کچھ بات ہوجائے۔ اخبارات کی ترسیل کا کام ہاکر کے ذمے ہے مگر اس کی بلیک میلنگ اس قدر کبھی نہیں دیکھی کہ پیسے لے کر بھی اخبار نہ دے، جس قدر بدمعاشی ٹی وی چینل دکھانے والے کیبل آپریٹرز کررہے ہیں۔ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چینل کے مالکان کی مجال نہیں کہ کیبل آپریٹرز کے کسی مطالبے کو ماننے سے انکار کردیں۔

وہ کیبل آپریٹرز جو صارفین سے ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں ،اب یہ فیصلے بھی کرتے ہیں کہ آپ کیلئے کون سا چینل دیکھنا ضروری ہے اور کس ٹی وی چینل کو دیکھ کر آپ حرام کاری یا گناہ کبیرہ کا ارتکاب کریں گے۔ ملک میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی( پیمرا) کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ ٹی وی چینل کے مواد اور کیبل آپریٹرز کے کام پر نظر رکھے لیکن جس طرح ٹی وی مالکان اپنے’پر‘ دور تک پھیلا چکے ہیں اسی طرح کیبل آپریٹرزبھی کسی ادارے کو خاطرمیں نہیں لاتے۔

قانون حیران و پریشان یہ سب دیکھ رہا ہے۔
کیا یہ کسی کیبل آپریٹرز کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ طے کرے فلاں چینل نے غلط پروگرام چلایا ہے اور اس لیے کہ حکام اس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے تو ہم اسے دکھاناہی بند کردیتے ہیں۔ملک میں آئین اور قانون موجودہے، معاملہ پیمرا کے پاس زیر سماعت ہے اور لوگ عدالتوں میں بھی گئے ہیں، پھر 400روپے معاوضہ لے کر خدمات مہیا کرنے والا کیبل آپریٹر کون ہوتا ہے کہ وہ طے کرے یہ بات قومی مفاد میں نہیں اور وہ چیز اسلام کے خلاف ہے۔

آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں الطاف حسین کے بعد صرف کیبل آپریٹرز ہیں جن کی پریس کانفرنس تمام ٹی وی چینل بیک وقت اول تا آخر دکھاتے رہے ہیں۔کیا کوئی میرے علم میں اضافہ کر سکتاہے کہ دنیا کے کسی اور ملک میں کیبل آپریٹرز نامی یہ مخلوق پائی جاتی ہے اور یہ لوگ پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں؟۔
کیا جون ایلیا نے ایسے ہی موقع کیلئے کہا تھا کہ
زوالِ حال کے دن ہیں، کوئی کمال کرو
پھر آپ معاشرے پر بھی ایک نظر ڈالیں، اب کسی کو قتل کرنے یا کرانے کیلئے صرف ایک الزام ہی کافی ہے۔

اگر آپ کہہ دیں کہ یہ گستاخ ہے، اس نے مذہب کی توہین کی ہے۔ جھنگ میں درجنوں وکلاء کے خلاف مقدمہ درج ہوجائے گا اور شیخوپورہ کے علاقے شرق پور میں ایک نوعمر لڑکا تھانے میں زیر حراست چار بچوں کے باپ کو ٹھکانے لگادے گا، جی ہاں، اس مقتول پر توہینمذہب کا الزام تھا۔ان معاملات میں اب تھوڑا سا فرق یوں آیا ہے کہ پہلے یہ کام صرف مولانا حضرات کرتے تھے، اب میڈیا بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔

ایک ٹی وی چینل کے خلاف کئی میڈیا گروپ اس حد تک چلے گئے کہ اب جیو ٹی وی میں کام کرنے والے کسی کارکن کو کہیں کوئی ’ممتاز قادری ‘اگر ’سلمان تاثیر‘ بنادے تو کم ازکم مجھے حیرت نہیں ہوگی۔
صحافت کبھی اتنی مضبوط کشتی نہیں تھی مگر اب تو سمندر کے بیچ کھڑی ہے اور اس کے پیندے میں خود اس کے سوار سوراخ کرنے میں مصروف ہیں۔ان لوگوں کی خواہش ہے کہ کشتی کا ایک سوار ڈوب کر مرجائے مگر بے وقوف بھول رہے ہیں کہ یہ خودکشی کی کوشش ہے، وہ ڈوب کر مرے گا تو یہ بھی زندہ نہیں بچیں گے۔

میڈیا گروپوں کے مالکان اس لڑائی میں کارکنوں کو بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں، اور ہمارے دوست کہتے ہیں کہ کیا کریں ’بچوں کا پیٹ بھی تو بھرنا ہے‘۔
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر سننے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔کون یہ سیدھی سی بات نہیں جانتا کہ اس سب کا نکتہ آغاز کیا تھا اور یہ کہ جیو ٹی وی نیٹ ورک سے کون کس وجہ سے ناراض ہے۔عمران خان تو اس معاملے میں بہت بعد میں آئے، کام بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔

مارننگ شو جیو ٹی وی پر پیش کیا گیا نیوز چینل پر نہیں۔ اور قوالی کیا پہلی بار سنائی گئی؟۔ سوال بہت سادہ اور آسان ہیں، حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے ذکر والی یہ منقبت یا قوالی کب لکھی گئی؟ اور کس موقع پر پڑھنے یا گانے کیلئے لکھی گئی؟۔ کیا قوالی کی شاعری پر کسی کو اعتراض نہیں؟ دوسرے چینل پر کسی مارننگ شو میں تین بار دکھائی جائے تو پروا نہیں؟۔

کیا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ پہلے سے زیر عتاب میڈیا گروپ سے دانستہ یا نادانستہ غلطی ہوگئی تو سارے مکاتبِ فکر کا اسلام جاگ گیا۔
آپ یقین کریں ایک مسلک جو اس پروگرام کے خلاف احتجاج میں پیش پیش ہے ان کے گھروں کی تقریبا ہر شادی میں یہ قوالی گائی جاتی ہے۔گزارش صرف اس قدر ہے کہ آپ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں، اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی چادر کو مت استعمال کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :