سو کا نوٹ

اتوار 29 مارچ 2015

Aamir Khan

عامر خان

جیسے ہی ہم رات تین بجے لاہور موٹروے سے اُترکرماڈل ٹُاون کی طرف نکلے ہمیں پولیس ناکے پر روک لیا گیا میں نے دُوستوں سے کہا کے لاہور کے لوگوں کی طرح لاہور پولیس بھی جاگتی ہے۔جیسے ہی ہم کار سے نیچے اُترے ایک نوجوان پولیس آفیسر نے ہم سے پوچھا کے کہاں سے اس وقت تشریف لا رہے ہیں میں نے اپنے شہر جھنگ کا بتایا اور سا تھ میں یہ بھی بتایا کے ہم اپنے کیسی عزیز کو ا ئرپورٹ سے لینے جا رہے ہیں موصوف نے اپنے ایک اور ساتھی کو بلا لیا اور ہم سے پوچھ گچھ شروع ہو گی ۔


؛جی توآپ جھنگ سے لاہور آ ئے ہیں ؛ پولیس آفسیر کے نئے آنے والے ساتھی نے ہاتھ میں پکڑی ڈائری کھول کر میرے سامنے کر دی میرے جواب دینے سے پہلے ہی پنسل نکال کر بولے پتا نہیں ہے لاہور کے حالات کیا ہیں ٹی وی نہیں دیکھتے میں نے کہا سر آپ ٹھیک کہے رہے ہیں پر ہمارے پاس شناختی کارڈ،گاڑی کے کاغذات ہیں ہماری گاڑی کی تلاشی لے لیں ۔

(جاری ہے)


ٓ؛اب بات ادھر ہی ختم کرنی ہے یا تھانے جانا ہے پولیس والے نے سوال کیا کے جواب دیامیں ابھی یہی بات سوچ رہا تھا کے میرے دوست نے کہا سر آ جائیں آپ کو چائے پلائیں پولیس والا پہلی بار مسکرا کے بولا میں چائے نہیں پیتا میرے دوست نے سو کا نوٹ نکال کر اُس کے ہاتھ میں دے دیا ۔

ایک نوٹ ایسا اور نکالو اور جلدی سے یہاں سے چلے جاو پولیس والا جلدی سے پیسے پکر کر چلتا بنا۔
ٓ ناکے سے نکل کر ابھی تھوڑا ہی آگے آئیے تھے کہامحافظ اسکوڈ نے روک لیا۔
اُن کو بھی بتایا کے ہم نہ ناکے پہ پیسے دے دیا ہیں مہربانی کریں ہمیں جانے دیں ایک سپاہی ساتھ ہی غصے میں آگیا اپنے ساتھی سے بولا ان کے ساتھ بیٹھ کے تھانے آو ا ن کا علاج کرتے ہیں ؛وہ ناکے والے تھے ہم تھانے والے ہیں پولیس والا کھڑک کے بولا؛ اب بات یہاں بھی سوکے نوٹ پہ ختم ہوگی۔

نہ ہی ہماری گاڑی کی تلاشی ہوی نا کوئی کاغذات چیک ہوے نا شناختی کارڑ دیکھے ۔ا ور سو کے نوٹ نے ہماری جان بچالی۔
میر ا ایک دوست ہنستے ہوے بولا یار ہماری گاڑی میں بم بھی تو ہو سکتا تھا ساتھ کا ایک اور دوست بولا ہماری گاڑی چوری کی بھی تو ہو سکتی تھی کیا بم اور چوری کی گاڑی کی قیمت سو روپے ہے ۔
اس سفر کے بعد مجھے اتنی سمجھ آگی تھی کے ہمارے ملک میں چوری کی گاڑی کیسے پولیس والوں کی نظر سے بچ کے نکل جاتی ہے کیسے دہشت گرد ہمارے شہروں میں آزاد گھومتے ہیں روز گاڑی چور ی ہونا آئے دن دہشت گردی ہونا ہمارے اپنے محافظ چند رپوں کی خاطراپنے ہی لوگوں کی جان و مال کوخطرہ بن جاتے ہیں ۔

آج ہر جگہ سنُنے میں آتا فلاں روڑ سے مت گزرناوہاں پولیس کھڑی ہو گی مطلب اب چوروں ڈاکوں سے ڈر نہیں لگتا پولیس سے لگتا ہے وہ جیب خالی کر کے گھر جانے دیں گے۔
میں آج حکومت وقت اور ملک کی اندرونی سیکورٹی کے بڑے بڑے داوے کرنے والوں کو سادہ اور آسان لفظوں میں سمجھا دوں کے ہماری ملک کی اندرونی سیکورٹی سو روپے کی اوقات رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :