سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ عوام کو بائیک چلانی چاہیے یا نہیں!

منگل 2 فروری 2021

Aansa Rana

آنسہ رانا

 مگر سوال یہ بن چکا ہے کہ بائیک چلانی چاہئے یا اڑانی چاہیے ۔ جی ہاں آپ سب نے دیکھا ہوگا بلکہ روزانہ ناصرف دیکھتے ہوں گے بلکہ خود بھی اس تجربے سے گزرتے ہوں گے ۔ کہ کیسے بائیک سوار آپ کو غلط اور ٹیک کرتا ہے۔ اور کیسی خطرناک  تیزی سے موڑ کاٹتا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ان کو کہیں پہنچنے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ شاید یہ چولہے پر دودھ ابالنے کیلئے رکھ کے آتے ہیں اور ان کو یہ پریشانی ہوتی ہے کہ  ہمارے گھر پہنچنے تک دودھ ابل ہی نہ جائے یا پھر انکے منے کو شوشو آیا ہوتا ہے ۔

اور یہ اسے ابھی آیا کہہ کر انتظار میں چھوڑ آتے ہیں۔ اور اب اس جلدی میں ہوتے ہیں کہ کہیں ہمارے پہنچنے سے پہلے منے کا شو  شوبے قابو نہ ہوجائے اور اسی لیے ان کی بائیک  بے قابوہوئی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

آپ بھی سوچیں گے کہ بائیک تو مرد چلاتے ہیں اور میں زنانہ مثالیں دے رہی ہوں دراصل عورت ہونے کی وجہ سے مجھے تو یہی دو مقام زیادہ ایمرجنسی کے لگتے ہیں ۔

جب میرا دل چاہتا ہے کہ میں چلنے کی بجائے اڑ سکوں، تو میرا کام نہ بڑھے ۔ خیر! میں روزانہ اپنے بچوں کو سکول پہنچانے جاتی ہوں تو گاڑی چلانے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ یہ بائیک سوار  ہوتے ہیں ۔
جن کے اپنے ہی اصول وقواعد ہیں۔ ٹریفک کے اصولوں کو یہ لوگ زیادہ نہیں مانتے۔ اگر صرف دائیں ہاتھ سے اوور ٹیک کرنے کی اجازت ہے تو ان کو دائیں ہاتھ پر " کیڑی جتنی"  جگہ بھی نظر آئے گی تو یہ وہاں سے بھی اوورٹیک کر لیں گے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو بائیک تھرڈ لین میں چلانی چاہئے، تو آپ غلط سمجھتے ہیں ۔ یہ فرسٹ لین میں ہی چلائیں گے کیونکہ یہ بائک کو سو کلو میڑ فی  گھنٹہ کی رفتار سے اڑانا بھی جانتے ہیں۔  اگر ٹریفک سگنل پر انکو رکنا  ہے تو یہ چالان کے ڈر سے شاید رک تو جائیں گے لیکن اگر یہ سگنل سے دور ہیں اور ان کو ڈر ہے کہ سگنل کھلنے پر ان کی باری نہیں آ سکے گی ۔

تو یہ گاڑیوں کے درمیان سے اسی "کیڑی جتنی" جگہ سے بائک نکالتے ہوئے سب سے آگے جا کے کھڑے ہوجائیں گے ۔ بلکہ اس آخری حد تک جائیں گے جہاں دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کا راستہ بھی بلاک ہو جائے گا ۔  اگر ان کو یوٹرن لینا  ہے اور یہ تھرڈ لین میں ہیں تو بھی یہ سب کو آگے سے کراس کرتے ہوئے اور ان کے راستے بلاک کرتے ہوئے یوٹرن کے لیے اپنی بائیک نکال کے لے جائیں گے۔

جی ہاں! ٹریفک کے اصول جائیں بھاڑ میں! یہ ان کے باپ کی سڑک ہے ۔ اس لیے ان کا جو دل چاہے وہ یہ کریں گے.
 بائیک والوں کو گاڑی والوں سے خاص قسم کی  پرخارش ہوتی ہے ۔اگر تو آپ چھوٹی گاڑی والے ہیں۔ پھر بھی یہ آپ کو کچھ رعایت دے دیں گے ۔ لیکن اگر آپ بڑی  گاڑی والے ہیں تو پھر آپ ان کے دشمن ہیں۔ پھر یہ جان بوجھ کر بائیک گاڑی کے آگے رکھیں گے۔ ہارن سن کے بھی سائیڈ پر نہیں ہوں گے ۔

راستہ نہیں دیں گے اورکچھ من چلے تو گاڑی سے آگے نکل جانے کے لیے ریس بھی لگائیں گے دراصل گاڑی کا آگے نکل جانا ان کی غیرت بائیکانہ کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
 کبھی کبھی ان کی تیزی کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید اقبال نے شاہینوں کی طرح تیزی سے لپکنے ، جھپٹنے اور پلٹنے کا جوسبق دیا تھا وہ ان شاہینوں نے اچھے سے سیکھ لیا ہے ۔ لیکن میں ان شاہینوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگر یہ اقبال کے باقی سب  اسباق بھی سیکھ لیتے تو اس قوم پر بڑا ہی احسان کرتے۔


 اور کبھی جو کوئی بائیک والا اپنی تیزی اور غلط ڈرائیونگ کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ تو خیال آتا ہےکاش کہ نوجوان یہ یاد رکھیں کہ بائیک چلانے کے قابل ہونے میں ان کے والدین کی سترہ ، اٹھارہ سال کی محنت شامل ہے ۔  اپنی تیزی کے نتیجے میں یہ وقت سے پہلے ہی  بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ اور ماں باپ کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :