گھر کے بڑے

ہفتہ 11 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

یہ فروری کا دوسرا ہفتہ تھا شام کے 5 بج رہے تھے میں ایک ہوٹل کے اوپن ایریا میں بیٹھا چائے پی رہا تھا میں اپنے لئے شام کو کچھ وقت لازمی نکالتا ہوں میں خود کو ٹریٹ کرتا ہوں اپنے گزرے دن پر غور کرتا ہوں اگلے دن کے لئے نئی امید کے ساتھ خود کو تیار کرتا ہوں، اللہ کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہوں دل سے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں اور شام ڈھلے پیدل ہی گھر کی طرف لوٹ آتا ہوں، ایسے ہی میں بیٹھا کہیں خیالات میں گم تھا ایک آواز نے میری تنہائی کا سکوت توڑا میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ایک چھ یا سات سال کا بچہ ہاتھ میں پھولوں کے گجرے لئے کھڑا تھا،
"بھائی ایک گجرا لے لو" میں نے غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا وہ میرے پاس بیٹھ گیا میں نے اسے پانی کا گلاس بھر کر دیا اور اس سے پوچھنے لگا کہ بیٹا تمہاری عمر تو پڑھنے کی تم یہ کیوں بیچ رہے ہو۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔
 تو بچہ کہنے لگا کہ کچھ دن سے میری ماں بیمار ہے باپ وفات پا گیا ہے دو چھوٹی بہنیں، آج گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا اور ماں کی دوائی لانے کو پیسے نہیں تھے تو یہ گجرے بیچنے نکلا ہوں کہ یہ پچاس کے گجرے لے کر بیچوں گا تو شام کو ماں کی دوائی کے پیسے آجائیں گے۔۔۔۔۔ مجھے نہیں جاننا تھا کہ یہ بچہ جھوٹا ہے یا سچا اسکی ماں واقع بیمار ہے یا وہ جھوٹ بول رہا تھا مجھے بس اس بچے کی معصومیت اور انسانیت کو پرکھنا تھا مجھے اسکے چہرے پر ایک خوشی کی لہر چاہیے تھی مجھے وہ سب کرنا تھا جو ہر شخص نہیں کرتا، وہ میرے پاس بیٹھا رہا شام ڈھل رہی تھی میں نے اسکی خودداری کو دیکھتے ہوئے گجرے رکھ کر کچھ پیسے دئے وہ خوشی خوشی گھر کی طرف بھاگنے لگا
 اس نے گجرے بیچ لئے تھے اپنی ماں کی دوائی کے پیسے اکٹھے ہو گئے تھے اور وہ اپنی مستی میں کھیلتا ہوا جا رہا تھا حقیقت میں یہ بچے اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں۔

۔۔
لیکن میرے لئے بہت سے سوال چھوڑ گیا کہ کیا ہم زندہ ضمیر کے لوگ ہیں کیا ہم اپنے محلے میں دیکھتے ہیں ایسے لوگوں کے حالات  نہیں ہم تو کہتے ہیں سب فراڈ ہے مانگنے کے ڈھنگ ہیں لوگوں کے۔۔۔۔۔ وہ فراڈ ہے یا سچ ہے لیکن ہے تو ایک بچہ ایک انسان ہے دنیا کی کوئی قیمت ایک انسان کی خوشی سے بڑھ کر نہیں ہوتی آپ ایسے بچوں سے کچھ نہیں سکتے تو انہیں دھتکاریں بھی مت،
یہ بچے اگر تو سچے ہیں تو چپکے سے انکی مدد کیا کریں ایسے گھرانوں کو ڈھونڈ کر انکا خیال رکھا کریں، لیکن اگر یہ فراڈ ہیں تو پھر بھی اس معاشرے میں انکی مدد کیا کریں  ان بچوں میں اکثر کم عمری میں جنسی تشدد کی اذیت سے بھی گزرتے ہیں کیونکہ ہر شخص انسانیت کی قدر نہیں جانتا ہر شخص اپنے اپنے مفاد کے لئے انکا استعمال کرتا ہے، یہ بچے آپکو ہر شہر ہر گلی میں نظر آئیں گے یہ کسی دکان پر بھی کام کرتے نظر آئیں گے یہ کبھی آپ کو چائے کے ڈھابے پر یخ سردی میں برتن دھوتے بھی نظر آئیں گے یہ آپکو تپتی دوپہر میں گولے بیچتے بھی نظر آئیں گے یہ آپکو ورکشاپس پر کسی درندہ صفت استاد کے ہاتھوں زنجیر میں بندھے بھی نظر آئیں گے یہ آپکو ہر جگہ نظر آئیں گے بس آپ تھوڑا سا غور کر کے انکو پہچاننے کی کوشش کریں آپکو انکی آنکھوں میں اذیت نظر آئے گی، پھر آپ ایسے بچوں کا خیال کریں اللہ اجر عطاء فرمائیں گے  
خدا کی قسم اللہ کی طرف سے آپکو وہ کچھ مل جائے گا جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا اللہ ک واسطہ دیتا ہوں انسانیت کا درد دل میں رکھیں،
اس دنیا میں اگر آپ کسی ایک ایسے بچے کے چہرے پر خوشی لے آئے تو آپ دنیا کے خوش قسمت انسان ہوں گے،
جہاں آپ ہر دن ہر ہفتے ہر مہینے بہت سی فضول جگہوں پر پیسے لٹا دیتے ہیں ان میں سے کچھ حصہ علیحدہ رکھ لیا کریں جو ہر ہفتے یا مہینے بعد کسی ایسے بچے کے گھر دے دیا کریں میں ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے آپ سب کی ایک بار پھر منت کرتا ہوں کہ کوشش کریں کے کوئی آپکے محلے میں ایسا گھر نا ہو جو رات بھوکا سوئے،
بس اور کچھ نہیں کہتا میں آپ سب سے بس میرے لئے اور انسانیت کے لئے یہ کر دیں کہ کوئی آپکے حلقہ احباب میں بھوکا نا رہ جائے انسانیت کی خدمت کریں اللہ آپکو بہت اجر عطاء فرمائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :