خدا حافظ

منگل 4 مئی 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

2 مئی میرا یوم پیدائش ہے جس دن ہم پیدا ہوتے ہیں وہ دن ہر انسان کے لیے خاص ہوتا ہے میں اس دن کو بہت شور شرابہ کر کے منانے کے حق میں نہیں ہوں سادگی سے یہ دن اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے گزارنا چاہیے کہ میں نے اب تک کیا کیا اور آئندہ مجھے کیا کرنا چاہیے اس دن کی مناسبت سے میں آپ کو اپنے بارے میں تھوڑا سا بتاتا ہوں،
بہاولپور کی تحصیل یزمان سے قلعہ دراوڑ جاتے ہوئے صحرا شروع ہو جاتا ہے یہ صحرائے چولستان کہلاتا ہے سردیوں میں اس صحراء میں شدید دھند اور سردی پڑتی ہے اور گرمیوں میں میں شدید لو اور گرمی ہوتی ہے،  میں 2 مئی کو اس صحراء کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا شدید گرمی کا عالم تھا وہاں بجلی اور سوئی گیس کا آج بھی کوئی تصور نہیں ہے، ہمارے خاندان کا پیشہ زمینداری اور بکریاں چرانا تھا، گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی ہر گھر نے نماز کے لیے اپنی ایک جگہ متعین کی ہوتی تھی، گاؤں میں واحد ایک پرائمری سکول تھا جہاں سب بچے ایک استاد سے تعلیم حاصل کرتے تھے سب بچے گھروں سے ٹاٹ لے کر جاتے تھے یہ سکول ہمارے گھر سے قریباً 2 کلومیٹر کی دوری پر تھا سخت جاڑا ہو یا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ گاؤں کے سب بچے اس سکول میں جمع ہوتے تھے، گاؤں میں لوگوں نے کنویں بنائے ہوئے تھے جس سے انسان اور جانور دونوں اپنی پیاس بجھاتے تھے، نہری پانی یا بارش کا پانی بھی اکثر جوہڑوں میں جمع ہو جاتا تھا جو کبھی کپڑے سے صاف کر کے پینے کے کام آتا تھا یہ میرے پیدا ہونے تک کا حال ہے میں پیدا ہوا زمانے نے تھوڑی ترقی کر لی اور ہمارے گھر میں نلکا لگ گیا اب سب اس نلکے کا پانی پینے لگے میں ذرا بڑا ہوا تو اسی مٹی اور ریت میں کھیلتے ہوئے بچپن گزرنے لگا، اس مٹی میں کھیلتے ہم کبھی بیمار نہیں ہوئے تھے ہم سارا دن دھوپ، چھاؤں میں پھرتے کبھی بکریوں کے پیچھے بھاگنا کبھی مٹی کے کھلونے بنا کر کھیلنا کبھی بیر توڑ کر کھانا یہ ہمارے بچپن کی کل دنیا تھی،  ابا جی کو وہاں مستقبل نظر نہ آیا تو نوکری کی تلاش میں بہاولپور آئے ابا جی کہتے ہیں کہ میں جب پہلی بار بہاولپور آیا تو یہاں کوئی جاننے والا نہیں تھا پورا شہر اجنبی تھا لیکن تب زمانہ اچھا تھا جلد ہی ایک جگہ نوکری مل گئی، ابا جی شہر نوکری کرنے لگ گئے ہم گاؤں میں خوش تھے، ہم تین بہن بھائی ہیں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تھا مجھ سے بڑے بہن بھائی سکول جاتے تھے کبھی کبھار مجھے بھی لے جاتے، میرا دل نہ لگتا استاد جی واپس بھیج دیتے ابا جی مہینے بعد گھر جاتے تھے اور پھر وہ دو تین دن ہمارے لیے عید جیسے ہوتے تھے ہماری زندگی ایک ڈگر پر چل رہی تھی جب اچانک اماں اور ابا جی نے شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا  ہم نے سامان باندھا اور بہاولپور آ گئے، گاؤں سے شہر آنا بڑا مشکل ثابت ہوا اجنبی لوگ، اجنبی زبان ہمیں بڑی دیر لگی خود کو سمجھاتے،
میں سکول جاتا ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے کی کوشش کرتا اساتذہ کرام بہت اچھے تھے انہوں نے مجھ پر توجہ دی میں نے جلد ہی اردو سیکھ لی، ابا جی نے جب دیکھا کہ بچے پڑھائی میں دلچسپی لینے لگے ہیں تو گھر میں مختلف رسائل و جرائد اور ایک مستقل اخبار لگوا دیا ہم فارغ اوقات میں ان کا مطالعہ کرتے جس سے ہمارے علم میں بے پناہ اضافہ ہوا، ہم نے شہر میں خود کو سیٹ کر لیا اب گاؤں بھی یاد آتا تھا کبھی کبھار ملنے چلے جاتے تھے وہاں سے واپس آنے کو دل نہیں کرتا تھا لیکن پھر بھی اماں ابا جی زبردستی لے آتے، میں پڑھائی میں تھوڑا نکما تھا پڑھائی کے علاوہ  غیر نصابی سرگرمیوں اور مختلف مقابلہ جات میں حصہ لینے لگا، میٹرک کے دوران مجھے کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق پیدا ہو گیا میں مختلف بک سٹالوں پر چلا جاتا کتابیں خریدتا اور پڑھنے لگتا ایسے کرتے میں نے بہت جلد تاریخ اسلام اور الرحیق المختوم جیسی کتابیں پڑھ لیں،  میں مقابلوں میں حصہ لیتا کبھی جیت کر مغرور ہوجاتا تو کبھی ہار کر مایوس لیکن ان سب کے پیچھے ایک شخص ایسا تھا جو میری ہر بات کو اہمیت دیتا میں ہار جاتا مجھے حوصلہ دیتا میں رو پڑتا مجھے دلاسہ دیتا میں جیت کر آتا تو میرا ماتھا چوم لیتا میرے ابا جی نے ہر حال میں میرا ساتھ دیا اور اس مقام تک وہ میرے ساتھ کھڑے ہیں، میں پریشان ہوتا تو ابا جی تسلی دیتے اور اماں جی مصلیٰ بچھا کر میرے لیے دعا کرتیں، اماں جی اکثر میرے لیے پریشان ہو جاتیں تو مجھ سے پوچھتیں پتر تو کچھ بن جا زندگی بڑی مشکل ہے'' میرے جواب دینے سے پہلے ہی ابا جی کہتے میرا پتر ہمارا نام روشن کرے گا مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں کیسے کروں گا مجھ میں تو کوئی ایسی خاص بات نہیں تعلیمی لحاظ سے بھی کمزور ہوں لیکن پھر اماں اور ابا جی کے ہاتھ اپنے لیے اٹھے دیکھتا تو سکون مل جاتا،  میں نے تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا میں جو دیکھتا جو سوچتا اس کو اپنے لفظوں میں لکھنے کی کوشش کرتا جب 10 کالم ہوئے تو ابا جی نے کہا کسی اخبار میں دے کر دیکھو شائع ہو جائیں گے میں نے ابا جی سے کہا وہاں مجھ سے بہت اچھے اور پرانے لکھنے والے موجود ہوتے ہیں وہ میرے کالم شائع نہیں کریں گے لیکن اباجی کے زور دینے پر میں نے مختلف اخبارات کے دفاتر کے چکر لگانے شروع کر دیے، آخر کار ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کہا ہم لگا دیں گے میں ان کو کالم دے آیا میرے کالم لگنا شروع ہو گئے،
میں نہیں جانتا یہ ماں باپ کی دعائیں ہیں یا اللہ کا فضل ہے لیکن اس میں میرے والدین کا بہت ہاتھ ہے وہ مجھے ہر موڑ پر حوصلہ دیتے رہے مجھے سمجھاتے رہے میں لکھتا رہا، میں نے کم عمری میں بہت کچھ حاصل کرلیا لیکن اب آہستہ آہستہ ان سب چیزوں سے دور جانا چاہتا ہوں میرے نزدیک یہ سب بے معنی ہے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے یہ آج ہے کل نہیں ہوگا کوئی آج دنیا میں پیدا ہو رہا ہے اور کوئی مر رہا ہے، کوئی آج اپنا مستقبل روشن کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی سب کچھ ہار کر بیٹھا ہے، یہ زندگی ہے اس میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے یہ سب بہت جلد ختم ہونے والا ہے، میں اپنا گزرا وقت دیکھتا ہوں تو بہت عجیب سا لگتا ہے یوں لگتا ہے سب وقت ضائع ہوا ہے اب بھی جتنی کامیابیاں حاصل کر رہا ہوں ایک جھٹکے سے سب ختم ہو جائیں گی میری زندگی کا سال، مہینے دن بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں ہم یوم پیدائش کو بڑی خوشی سے مناتے ہیں درحقیقت ہم اپنی زندگی کا ایک سال کھو چکے ہوتے ہیں، ہم ساری زندگی لاحاصل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں لیکن ابدی زندگی کا نہیں سوچ پاتے لیکن حقیقت وہی ہے جب میں اس زندگی کا سوچتا ہوں مجھے دنیا کی ہر رونق میں وحشت محسوس ہوتی ہے یہ سب نظر کا دھوکہ ہے بہت جلد سب ختم ہونے والا ہے ہم جتنی مرضی ترقی کر لیں بڑے سے بڑا آدمی بن جائیں لیکن ہم چاہ کر بھی وقت کو روک نہیں پارہے ہر لمحہ ہم موت کے قریب ہو رہے ہیں، تو کیوں نہ ہم ابدی زندگی کی تیاری کرلیں دنیا وی لذتوں سے دور ہو کر حقیقی خوشی کو تلاش کریں، مجھے حقیقی خوشی دو چیزوں میں ملتی ہے اللہ کی یاد اور والدین کی اطاعت میں، جتنا وقت میں اپنے والدین کے پاس گزارتا ہوں مجھے لگتا ہے یہی میرا اصل وقت ہے باقی تو محض دھوکہ ہے آنکھ جھپکتے ہی سب ختم اور کسی دن ہم ساری دنیا کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے آخری سفر پر روانہ ہو جائیں گے وہاں سے لوٹ کر نہیں آئیں گے، دنیا کی رونقیں ایسی ہی رہیں گی لیکن ہم نہیں ہوں گے، دنیا کی ظاہری رونق سے باہر نکلیں دل کی وحشت کو قرار دیں یہ کامیابیاں یہ ترقیاں سب ادھر رہ جائیں گے اور پھر ایک دن کے لیے نہیں ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہ دیا جائے گا میری باتیں میری تحریریں سب ادھر رہ جائے گا،
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :