مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

جمعرات 1 اپریل 2021

Ali Haider

علی حیدر

آج صبح  مجھے میڈیکل سٹور سے دوا لینے جانا پڑا  ۔ راستے میں میری نظر دو کم سن بچوں پر پڑی جو 23 مارچ کے موقع پر  کھمبے کے ساتھ لگاٸی جانے والی فلیکس اتارنے میں مگن تھے۔میں رک کر انھیں دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہ فلیکس اتار چکے تھے ۔ان کے چہرے پر خوشی کے آثار یوں نمایاں تھے جیسے انہیں کوٸی بہت بڑا خزانہ مل گیا ہوں۔مگر مجھےاچانک اپنے اتنا قریب دیکھ کر وہ سہم گۓ ۔

میں نے بھی پڑھے لکھے لوگوں کی طرح سخت لہجہ میں انھیں اچھا خاصہ لیکچر سنا دیا ۔تو ایک بچہ ڈرے ہوۓ انداز میں ایک سمت اشارہ کرتے ہوۓ بولا : "صاحب جی ہم اس چوک میں بیٹھ کر جوتے پالش کرتے ہیں۔بارش کی وجہ سے وہاں پر کیچڑ تھا تو یہ فلیکس وہاں نیچے بچھانے کےلیے اتاری تھی"۔میں ایک دم کےلیے حواس باختہ ہو گیا اور میری آنکھیں  نم ہوگٸیں ۔

(جاری ہے)

میں نے شفقت بھرے لہجے میں فلیکس دکھانے کو کہا کہ کہیں اس پر مقدس آیات یا مقدس ہستیوں کے نام تو نہیں لکھے  ہوۓ۔

انجانے میں کہیں گستاخی نا ہو جاۓ۔ یہ سننا تھا کہ اس بچے نے فورا فلیکس میرے حوالے کر دی ۔  جس پر لکھے نغمہ کا پہلا جملہ یہ تھا کہ "مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے"۔ میری روح کو جھنجھوڑنے کےلیے یہ جملہ ہی کافی تھا۔یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان دو بچوں سمیت ہر وہ بچہ جو کسی نا کسی وجہ سے سکول جانے سے محروم ہے،مجھ سمیت میرے وطن کے ہر نام نہاد پڑھے لکھے شخص پر ہنس رہا ہو۔

۔وہ قوم جس کے کروڑوں بچے سکول کی نعمت سے محروم ہوں،وہ قوم دوسروں کے بچوں کو پڑھانے کے نعرے لگانے کا حق نہیں رکھتی۔
میں نے جب ان  سے سکول میں داخلہ دلوانے کی بات کی تو دوسرا  بچہ جو اب تک خاموش کھڑا تھا، معصوم نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولا: "ہمیں تعلیم نہیں اپنے بہن بھاٸیوں کےلیے روٹی چاہیے"۔
اس ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جو صبح سویرے اپنے ننھے سے بچہ کو روزی کمانے گھر سے نکلتا دیکھتی ہوگی ۔

کیا وہ نہیں سوچتی ہوگی کہ کاش میں  اپنے بچوں کو مزدوری کےلیے نہیں بلکہ سکول کےلیے تیار کرتی ؟
اسلامی دنیا کا مضبوط ترین قلعہ پاکستان اللہ کے فضل سے ایٹمی قوت ہے ۔دشمنان اسلام کی نظروں میں ہر وقت چبھتا رہتا ہے۔مگر بدقسمتی سے میرے وطن میں شرح خواندگی  بہت کم ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق16-2015 میں شرح خواندگی % 58 اور 19-2018 میں صرف دو فیصد بڑھ %60 تک پہنچ سکی ۔


ﯾﻮﻧﯿﺴﮑﻮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﻮﺍﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﯾﺎ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﻣﻮﺍﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﻨﮯ، ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ، ﺗﺸﺮﯾﺢ ﮐﺮﻧﮯ، ﺗﺨﻠﯿﻖ، ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ہے اور بدقسمتی سے میرے ہم وطنوں کو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کی 19-2018 کی رپورٹ کے مطابق  پراٸمری تک00,000, 2,39  بچوں نے داخلہ لیا۔

مڈل تک یہ تعداد کم ہو کر7600000  رہ گٸ اور میٹرک تک صرف 00000, 41 ملین بچے پہنچنے میں کامیاب ہوۓ ۔  ایک بار دوبارہ پراٸمری اور میٹرک کے بچوں کے اعدادوشمار پر غور کریں تو آپ کو اس میں ایک کروڑ اٹھانوے لاکھ
(00000 1,98) کا فرق نظر آۓ گا ۔ آخر کیوں بچوں کی اتنی بڑی تعداد میٹرک تک بھی نا پہنچ پاٸی ۔اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کالج تک پہنچتے پہنچتے تعداد صرف00000 18  رہ گٸ ۔


کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ بچے تعلیم حاصل کیوں نہیں کر پاتے؟
پاکستان دولخت ہو چکا ہے۔ایک امیر کا پاکستان اور دوسرا غریب کا پاکستان۔ غریب کا بچہ اول تو سکول جا نہیں پاتا اور اگر مشکل سے چلا بھی جاۓ توغریب کا بچہ سرکاری سکول میں جاۓ گا جن کا معیار کرپشن  اور عدم توجہ کی وجہ سے گر چکا ہے  ۔کوچنگ اور ٹیوشن کا تو وہ بیچارہ تصور ہی نہیں کر سکتا   ۔

اور اگر وہ سخت محنت مزدوری اور لگن کے بعد کسی اچھے کالج اور یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جاۓ تو ہمارے معاشرے کا المیہ دیکھیے کہ اس کا ایسے  بچے کے نمبروں سے موازنہ کیا جاتا ہے جو  معیاری پراٸیویٹ انگلش میڈیم سکول سے پڑھا ہوا ہو ۔بہترین کوچنگ سنٹرز اور ٹیوشن سنٹرز اسے میسر رہے ہونگے  اور اسے ہر وہ چیز میسر ہوگی جس کی دوران تعلیم ضرورت پڑھ سکتی ہے۔

۔کوٸی یہ نہیں دیکھے گا کہ یہ بچہ کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے ۔اس نے کون کون سی رکاوٹیں عبور کی ہیں۔مقابلہ کے نام پر غریب طالبعلموں کے حق کا یہی سے استحصال کیا جاتا ہے ۔ایک قاٸد کا  پاکستان تھا جہاں "پہلے آٶ پہلے پاٶ" کا اصول لاگو تھا اور ایک آج کا پاکستان ہے جہاں ''پیسے لاٶ،پہلے پاٶ'' کا قانون چلتا ہے ۔
انگلش میڈیم اور رٹہ سسٹم نے ذہانت کے معیار کو گرا دیا ہے ۔

انگلش ذہانت کا معیار تصور کی جاتی ہے۔بستوں کے وزن اور ساٸز بڑھتے جا رہے ہیں مگر علم کم ہوتا جا رہا ہے ۔بچے ذہنی طور پر دباٶ کا شکار ہیں اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ سکول ،سکول کم اور ٹارچر سیل زیادہ محسوس ہوتے ہیں ۔”سکول ،گھر اور ٹیوشن سنٹر“ اس سرکل سے بچہ کبھی نکل ہی نہیں پاتا ۔ اور نا ہی وہ دنیا کو کبھی اپنی نظر سے دیکھ پاتا ہے ۔


ہماری درسگاہیں پڑھا تو رہی ہیں مگر سکھا نہیں رہیں ۔۔پڑھے لکھے جاہلوں کی بہتات ہوتی جا رہی ہے ۔افسوس کہ ہمارے معاشرے میں معاشرتی علوم اور اخلاقیات  بھی فقط پڑھاۓ جاتے ہیں جبکہ یہ سکھانے کے مضمون ہیں۔
دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا نعرہ لگانے سے پہلے اپنی قوم کے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں ۔ورنہ یہ ہی بچے  ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں ہمارے ہی دشمن بن جاٸیں گے ۔

انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے ۔اگر ہم نے جہالت پر قابو نا پایا تو ہمارا ہی سینہ ہو گا اور ہماری ہی گولی ۔۔اور  مکار دشمن ہمارے وطن عزیز کے نونہالوں کے معصوم ذہنوں میں نفرت کی آگ لگا کر ہولی کھیلتا رہے گا۔پھر نا ہمارے مسجد مدرسے محفوظ رہیں گے اور نا ہی سکول ۔اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :