حکومت کا چکر، اپوزیشن کے چکر

جمعرات 24 دسمبر 2020

Amina Malik

آمنہ ملک

عام عوام حکومت کا چکر سمجھنے کے چکر میں ہے کہ عوام کو آج تک ایسا حکمران کیوں میسر نہیں ہوا جو اپنے وعدوں اور دعووں کوایسے ہی  مکمل کرے جیسے جلسوں میں باتیں کرتا ہے۔ حکمران کبھی برے نہیں ہوتے، یہ چکر حکومت کا ہے جو بھی اس میں آتا ہے بدل جاتا ہے، ورنہ برسرِ اقتدار آنے سے قبل اور بعد تو سیاسی شخصیات عوام کے حق میں بول بول کر اپنا وقت، گلا اور پیسہ بے تحاشا ضائع کرتی ہیں۔

ابھی دیکھ لیجیے نا، مولانا، نونی اور پیپلے سب عوام کا دیکھ لے کر PDM کے جھنڈے تلے متحد ہیں، روزانہ ملک کو سب بری خبریں بھی یہی اپوزیشن اتحاد ہی دے رہا ہے اور بنی گالی ہے کہ عوام کو کوئی اچھی خبر سنانے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا۔
 پی ڈی ایم کا جلسہ اس کی نمایاں مثال ہے۔ ایک دوسرے کے مخالف، آگ برسانے والی پارٹیز، ایک خاندان بن کر حکومت کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں کیونکہ پی ڈی ایم حکومت میں نہیں ہے، اس لیے وہ عوام کے دکھ اور درد کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتی ہے، عوام کے مسئلہ حل کرنے کی باتیں کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ اپوزیشن صرف یہی چاہتی ہے کہ حکومت میں میں آکر ہی وہ عوام کے مسائل کو حل کرے۔

(جاری ہے)


 وہی بات کہ بارہ برس دہلی میں رہے، بھاڑ ہی جھونکا کیے
  اگر پی ڈی ایم کی کوئی پارٹی حکومت میں آ بھی گئی تو وہ بھی حکومت کے چکر میں گم ہو جائے گی اور اپنے وعدوں سے مکر جائے گی۔ بچارے عوام پھر بے بس ہو کر دیکھیں گے اب کون سا مہدی بچا ہے۔
  بہت غور و فکر کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہر بار عوام  کو کرپٹ حکمران ملے یا ہر بار عوام کا فیصلہ غلط ہو۔

کیونکہ ووٹ لیتے وقت تمام سیاست دان اور پارٹیز مکمل طور پر عوام کو اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب ہوتی ہیں کہ وہ ان کے تمام مسائل کا حل نکالیں گے اور ایسے ظاہر کرتی ہے جیسے ان سے زیادہ دکھ اور کسی کو نہیں۔ دوسرا عوام کے پاس اور آپشنز ہی نہیں۔ یہی لوگ ہیں جن میں سے کسی کو اقتدار دینا ہوتا ہے۔بس یہ لوگ ہیں کہ حکومت میں آتے  ہی ان میں عوام کے درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے یا شاید ان کے کان اور آنکھیں بند ہو جاتی ہیں جو انھیں عوام کا درد اور چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی۔

غربت  کے نیچے دبی ہوئی عوام دکھائی نہیں دیتی۔
  کئی دنوں سے اپوزیشن کے پیٹ میں بھی عوام کے درد اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں پاکستان ڈرامہ موومنٹ کا بھرپور مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ کبھی لاہور میں کبھی ملتان میں، ہمارے پاکستانی معاشرے کے ڈرامے بھی  کچھ ایسے ہی ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ اپنے مفاد کے لیے  ان لوگوں کو بھی آستین میں پالنا پڑتا ہے جن کا چہرہ تو دور نام لینا بھی گوارا تک نہیں ہوتا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ہمارے سیاست کے  لوگ ہمارے ڈراموں سے سبق سیکھ رہے ہیں یا پھر مواد کی کمی کے باعث ہمارے ڈراموں کو سیاست کے اوپر ڈرامے بنانے پڑتے ہیں اور عوام بچاری ادھر بھی اور ادھر بھی، صرف ڈرامے ہی دیکھ رہی ہے۔
  کبھی حکومت کے، کبھی اپوزیشن کے، عوام بھی کیا کرے؟ ان کے ڈرامے دیکھ کر طیش میں آ کر اپنا ہی نقصان کر کے پھر سے وہیں کھڑی  ہوتی ہے جہاں سے اٹھتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام سب کچھ جانتے ہوئے  بھی ان کے ڈراموں کو سنجیدہ لے کر ان کے وعدوں پر اندھا اعتماد کر لیتی ہے کیونکہ وہ اور کیا کرے؟ انہیں تو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔
  بات یہی ہے کہ عوام کے دکھ درد تو یہ لوگ سمجھتے ہیں مگر حکومت میں آتے  ہی گرگٹ بھی انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے اور سوچتی ہے  کہ یہ ان سے سیکھے کیونکہ اس قدر تیزی سے رنگ بدلنے کا فن اس کے پاس بھی نہیں۔

حکمران ایسے ہی بد نام ہے،  یہ تو بس حکومت کا اثر ہے۔ حکومت کرنا ایک خمار میں مبتلا کر دیتا ہے اور کئی لوگوں کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے اقتدار پر آسیب ہے۔ یہاں جو آئے گا، یادداشت کھو بیٹھے اور جن بھوت اس پر حاوی ہو جائیں گے جبکہ جو اس آسیب زدہ اقتدار سے نکلیں ہوں گے، وہ اسے حاصل کرنے کیلئے راتیں تارے گن گن کر گزاریں گے۔ آخر حکومت کا بھی ایک اپنا مزا، اپنا نشہ ہے۔
  اگر حقیقتاً کوئی عوام کی بھلائی کرنا چاہتا ہے تو حکومت میں نہ رہتے ہوئے بھی ایسے اقدامات اٹھا کر دکھائے جس سے عوام کی بھلائی ہو۔ یہ حکومت ملنے نہ ملنے کا ڈرامہ ختم ہونا چاہیئے۔ کسی کی بھلائی اقتدار لے کر نہیں کی جاتی، اس کے لیے صرف ارادہ درکار ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :