تاراپا کا گاؤں

بدھ 11 اپریل 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

بڑھیا بڑے تحمل سے پر سکون لہجے میں با ت کر رہی تھی ۔ پا نچ صدیا ں پہلے ہسپا نو ی فا تحین کے ہا تھو ں بسنے والے اس گا ؤ ں میں رہنے کے لیے ذریعہ آمدن ہو نا ضروری ہے ۔ آمدنی کا یہ ذریعہ مستقل ہو نا چا ہیے ۔ کیو نکہ اس دو ر افتا دہ گا ؤں میں تو کو ئی کا روبا ری مواقع مو جو د نہیں ہیں ۔ اپنے بڈھے شو ہر کی طرف اشا رہ کر کے کہنے لگی ، جیسے ہم دونوں کا مستقل ذریعہ آمدن مو جو د ہے ۔

ہمیں سرکا ر کی طرف سے پینشن آتی ہے ۔
مہر بان بزرگ خا تو ن نے تا را پا کا کے سا تھ اپنی وابستگی کے با ر ے میں بتا یا کہ یہا ں زندگی بہت پر سکون ہے ۔ میرے سوال کے جواب میں شو خی سے کہنے لگی کہ میں تو جدی پشتی شہر ی ہو ں ، میرا یہ محبو ب پینڈو ہے ۔ اسی کی محبت میں نصف صدی پیشتر اس نخلستان میں آکر بس گئی ، اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی ۔

(جاری ہے)

یہ بتا تے ہو ئے بڑھیا نے پیا ر سے اپنے شو ہر کی طرف دیکھا اور اس کا ہا تھ تھا م لیا۔


لق و دق صحرا کے بیچ اس نخلستان میں دو سو کے قریب گھر ہو ں گے۔ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیں تو تین سو مکانا ت یقینا نہیں ہو گے ۔ چلی کا مجمو عی رقبہ پاکستان سے ملتا جلتا ہے ۔ جغرافیا ئی تقسیم اس پٹی نما ملک کی یو ں کی گئی ہے کہ اس پٹی کو 13 ریجن یا انتظامی یو نٹ بنا کر الگ الگ
شنا خت دی گئی ۔ چلی کا پہلا ریجن اسی ہسپا نوی طرز تعمیر کے شاہکا ر چھو ٹے سے گا ؤں کی نسبت سے ”تاراپاکا“ کہلا تا ہے ۔

سینکڑوں مربع میل رقبے پر پھیلے ملک کے شما ل میں واقع اس خطے کی سرحدیں پیرو اور بو لیو یا کے سا تھ ملتی ہیں ۔ ملک کی اہم ترین بندرگا ہیں اس خطے میں پا ئی جا تی ہیں ۔ دو بڑے شہر اریکا اوراقیقیٰ اس ریجن میں پا ئے جا تے ہیں ، جن میں پا کستا نیوں کی قا بل ذکر تعداد موجو د ہے ، سبھی کا روباری لو گ ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”تارا پاکا “ ٹیکس فری زون ہے ۔

مرکز سے دوری کے سبب اس علا قے کو خصو صی رعا ئیت دی گئی ہے ۔ٹیکس فری زون ہونے کے سبب
یہا ں کثیر تعداد میں غیر ملکی آبا د ہیں جو تقریباً سبھی کا روباری لو گ ہیں ۔ پاکستا نی زیا دہ تر گا ڑیو ں کے کا روبار سے متعلق ہیں ، مسلمان تو یہاں ترک ، ایرانی اور عرب بھی ہیں مگر یہ سعا دت پاکستا نیوں کو نصیب ہو ئی کہ انہوں نے یہاں پر شکوہ مساجد تعمیر کی ہیں جو کہ سبھی آبا د ہیں ۔


بڑے بڑے ملکو ں کے بڑے بڑے شہروں کی بڑی بڑی با تیں تو آپ سنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں ۔ مگر لا طینی امریکہ کے چلی میں
ہسپا نو ی نو آبا دیا تی عہد کا یہ گا ؤں آپ کو شا ید انٹر نیٹ پر بھی نہیں ملے گا، چونکہ یہ بستی بہت ہی دو ر افتا دہ اور تنہا ہے ، تاراپاکا جیسے مقا ما ت دریا فت کرنا مجھے بے حد پسند ہے ، جہا ں تک رسا ئی مشکل ہو اور کم کم سیا ح ہی اس طرف کا رخ کر تے ہو ں ۔

نخلستان میں بسے اس گا ؤں جا نے کے لیے مجھے دو چیزوں نے متحرک کیا ، ان میں پہلی تو طرز تعمیر اور آثا ر قدیمہ تھے۔ یہ گا ؤ ں چو نکہ سپین سے آئے عیسا ئی مبلغین اور فا تحین نے بسا یا تھا اس لیے قدیم ہسپا نوی طرز تعمیر یہا ں بے حد نما یا ں ہے ۔ سیلا ب زدہ قدیم آثا رکے علا وہ کہنہ کلیسا جو کہ عیسا ئی صو فی بزرگ سینٹ لو رانسو کے نام سے منسو ب ہے ، پوری شان کے سا تھ کئی صدیو ں سے ایستا دہ ہے ۔

دوسری وجہ جس نے اس سفر کی ترغیب دی وہ یہا ں کا پانچ صدیا ں پرانا قبر ستان ہے ۔ پرانے کتبے، تعویز قبرا اور لو ح مزار بہت سا ری کہانیا ں بیا ن کر تے ہیں ۔
اس گا ؤں کی کوئی خا ص معیشت نہیں ہے مگر ہر یا لی کے سبب کچھ لو گ یہاں مویشی پال لیتے ہیں اور پھر پروان چڑھا کر انہیں فروخت کر کے کچھ منا فع کما لیتے ہیں آمدن کا دوسرا ذریعہ عیسا ئی بزرگ سا ن لو رانسو کی درگا ہ سے وابستہ چھو ٹے ، بڑے ٹھیلے ، چھابے، ڈھابے ہیں ، جو کیتھولک عقیدے کے بزرگ کے کلیسا پر حا ضری کے لیے آنے والے زائرین کو روز مرہ کی بنیا دی ضروری اشیا ء اور سامان خو ردو نوش فروخت
کر تے ہیں ۔

البتہٰ سا لانہ مذہبی تقریبا ت یا برسی کے مو قع پرصور ت حا ل چند دن کے لیے یکسر بدل جا تی ہے ۔ جنگل میں منگل کا مقولہ یہا ں با لکل صا دق آتا ہے ۔ گزشتہ برسوں میں سا لا نہ میلے کے مو قع پر تقریبا ایک لاکھ معتقدین ملک کے طول و عرض سے اس مزار پر حاضری دینے کے لیے جمع ہو تے ہیں ۔
گا ؤں کے مقامی لو گو ں کی چا ندی ہو جا تی ہے کہ وہ فا ئیو سٹا ر ہو ٹل کے نرخوں پر مہما نو ں کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں۔

کچھ احبا ب نے فقط سا لانہ میلے کے دنوں کے لیے یہا ں مکان خرید چھو ڑے ہیں ۔ جو با قی تما م سال خا لی رہتے ہیں ۔ میلے کے دوران مذہبی منا جات ہو تی ہیں ۔ روحانی موسیقی بجا ئی جا تی ہے اور صو فی رقص پیش کیا جا تا ہے ۔
تا راپاکاگا ؤں میں داخل ہو تے ہی آثا ر قدیمہ نظر آنا شروع ہو جا تے ہیں۔ نیم مہندم مکا ن، سرائے، کہنہ با زار ، مگر خو بصورتی یہ ہے کہ اس سا رے منظر کا رنگ ، ڈھنگ با لکل ہسپانوی ہے، لگتا ہے مڈرڈ یا قر طبہ کے کسی نواحی گا ؤں میں آنکلے ہیں ۔

چلی کے ہزاروں کلو میٹرپر پھیلے شمالی علا قہ جا ت کا یہ سب سے زرخیز قطعہ اراضی کہلا تا ہے، گرچہ اس کا رقبہ انتہا ئی مختصر ہے ۔ یہا ں پہنچ کرپہلا خیا ل تو یہ آیا کہ آج سے پانچ سو سال پہلے ہسپانوی فو جی یہا ں پہنچے کیسے؟ اس وقت تو ہوائی جہا ز اور مو ٹر گا ڑیاں نہیں ہو تی تھیں ۔ منطقی سی با ت لگتی ہے کہ بحری جہا زوں سے آئے تھے۔ پھر ذہن میں خیال آیا کہ قریب ترین بندر گاہ بھی یہا ں سے سو میل دور ہے ۔

بھلا ہسپا نوی اس بیا با ن میں لینے کیا آئے تھے؟بہت سا رے انسانی ارتقاء کے متعلق اسیے سوالات کے جوابات ایسی جگہوں پر جاکر ملتے ہیں۔یہاں انسانی بستی بسنے کی وجہ تو صحرا میں سبزے کا واحد ٹکڑا ہو نا سمجھ میں آجا تا ہے ، مگر یہ بھی گرہ کھلتی ہے کہ ما ضی میں انسا نوں کی زندگی کتنی
سا دہ اور ضرورتیں کتنی محدود ہو تی تھیں ۔ فقط کھانا اور پانی ، یہ دو چیزیں جہا ں میسر آجا تیں تو لو گ خو شی خو شی اس جگہ آبا د ہو جا یا کر تے تھے۔


گا ؤں کے وسط میں گرجا گھر کے ارد گرد بہت رونق تھی ۔ اس رونق کا سبب سیا ح نہیں تھے۔ بلکہ دو ر دراز علا قوں سے آئے ہو ئے سینٹ لورا نسو کے عقیدت مند حضرات و خواتین تھیں ۔ چرچ میں لمبی قطا روں میں لو گ اپنی با ری کا انتظا ر کر رہے تھے۔ زیا دہ تر ان میں بیمار و نا دار لو گ ہی تھے جو اپنی صحتیا بی و شفا پا نے کے لیے حا ضری بھرنے آئے تھے۔ کلیسیا کے با ہر لنگر تقسیم ہو رہا تھا۔

یہاں پر بھی لمبی قطا ریں تھیں مگر دھکم پیل بالکل نہیں تھی۔ نیا ز میں مچھلی سے تیا ر کردہ ”سبیچے “ تقسیم ہو رہے تھے۔ یہ پیرو کا قومی کھا نا بھی ہے ۔ کچی مچھلی کوتا زہ لیموں کے رس میں لمبا عرصہ بھگو نے کے بعد اس میں پیا ز کی قاشیں اور دھنیا دال کر تیا ر کیا جا تا ہے ۔سچ پو چھیں تو یہ انتہا ئی لذیز کھانا ہے ۔
قدیم عما رتوں کو دیکھ کر حیرت ہو تی ہے ۔

اس لیے بھی کہ گھروں کے لکڑی کے دروازے بالکل اسی ڈیزائن کے ہیں جیسے ہما رے گھروں میں آج بھی چو بی دروازے استعمال ہو تے ہیں ۔ایک اور خو بصورت پہلو جس کا ذکر اس گا ؤں کے طرز تعمیر کے تذکرے میں ضروری ہے ، وہ عما رتو ں کے محراب ہیں ۔ گھروں کے بر آمدوں میں بھی لکڑی کے محراب بنا ئے گئے ہیں ۔ قا بل ذکر با ت یہ ہے کہ ان کا ڈیزائن با لکل وہی ہے جو اسلامی آرٹ یا عرب فن تعمیر کا
خا صہ ہے ۔

قابل فہم با ت ہے کہ عربوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی تھی ، جس کا ایک پر تو اور پہلو یہ عما رتی محراب ہیں جو ہسپانیہ اپنے فا تحین جنگجوؤں کے سا تھ یہاں لے آیا تھا۔ گا ؤں کے مرکز میں کلیسا کا مینا ر بھی عرب فن تعمیر کا حصہ لگتا ہے ۔ اس کلیسا کا ایک حصہ عبا دت اور دعا ئیہ اجتما ع کے لیے مخصو ص ہے ، جبکہ دوسرا حصہ میو زیم محسو س ہو تا ہے ۔

سا ن لو رنسو سے منسو ب اس انتہا ئی سا دہ اور کشا دہ چرچ کے میو زیم میں حضر ت عیسٰی علیہ السلام کی زندگی کے آخری عشا ئیے کا منظر پتھر سے بنے مجسمو ں سے مجسم کیا گیا ہے ۔ یسو ع مسیح کے مصلو ب ہو نے سے بیشتر را ت، کھانے کی میز پر، اپنے اصحا ب کے سا تھ گفتگو کا منظر ، تصویری شکل میں تو با رہا اور بہت سا ری پینٹنگز میں یقینا قا رئین بھی ملا حظہ فرما چکے ہو ں گے، مگر مجسم شکل میں ، ان تمام اصحا ب ِمسیح کے نام کے سا تھ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا ۔ جس بزرگ کے نام اور دم ، قدم بسے اس کہنہ گا ؤں کی رونق ہے وہ سان لو رانسو بھی تبلیغ کی غرض سے اسپین سے ہی آئے تھے۔ تا را پا کا لا طینی امریکہ میں ہسپا نوی نو آبا دیا تی عہد کی ایک جیتی جا گتی یا دگا ر تصویر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :