موسم بدلا رُت گدرائی

ہفتہ 15 ستمبر 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

چاول کی فصل جاپان میں تیار ہوگئی ہے۔آج کل کٹائی کا موسم ہے۔دیہی علاقوں کی فضا میں دھان کی بھینی بھینی خوشبوپھیلی ہوئی ہے۔پہلی کٹائی میں روایتی معبدوں میں دیوتاؤں کے حضورپیش کی جاتی ہے۔ستمبر کا پہلا عشرہ اس بار سمندری طوفان کی تباہ کاریوں اور زلزلے کے نقصانات کی خبروں کے ساتھ گزرامگر پھر بھی صدیوں پرانی ثقافتی اور مذہبی رسومات جو نئی فصل آنے کی خوشی میں منائی جاتی ہیں اپنے روایتی جوش و جذبے کے ساتھ جاری ہیں۔

عبادت گاہوں کے ارد گرد کھانے،پینے کی اشیاء کے اسٹال سجے ہیں اور بچوں کی دلچسپی کا سامان بک رہاہے۔ایساسماں ہمارے ہاں میلوں،ٹھیلوں میں نظرآتا ہو۔جیسے بزرگانِ دین کی درگاہوں پر عرس کے موقع پر رونق ہوتی ہے۔بالکل ویسی ہی گہماگہمی دیہی جاپان میں ان دنوں عبادت گاہوں کے اطراف نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)


جاپان ایک صنعتی معاشرہ ہے،مگرثقافتی اعتبار سے اس کی سماجی بنیادیں زراعت کے شعبے سے جڑی ہوئی ہیں۔

جس طرح قدیم ہندوستان کا معاشرہ چار ذاتوں میں بٹا ہوا تھا،جو بڑی حد تک انسان کا پیشہ بھی طے کرتی تھیں،جس میں برہمن کھشتری،ویش اور شودر تھے۔اس سے ملتی جلتی صورتحال ہمیں قدیمی جاپانی معاشرے میں بھی نظر آتی ہے۔یہاں بھی سماج کی چار پرتیں،درجے یا ذاتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔بھارتی سماج میں برہمن بھگوان کے سر سے پیدا ہوئے سمجھے جاتے تھے اور شودر ذات کا جنم بھگوان کے پاؤں سے ہوا۔

اسی عقیدے کی بنیاد پر برہمن مذہبی شعبے کے انچارج ہزاروں سال سے ہیں،کھشتری جنگجوتھے،حفاظت اور جنگ ان کا پیشہ،ویش کاروبار کرتے تھے۔جبکہ شودر ناپاک سمجھے جاتے مگر مزدوری یہی کرتے تھے۔جاپان میں یہ تقسیم توموجود تھی مگر اس قدرظالمانہ نہیں تھی۔جیسے ہندوستانی معاشرے میں تھی۔یہاں اس تقسیم کی بنیادکام کی تقسیم تھی۔کسی انسان کی توہین وتذلیل مقصودنہ ہوتی تھی۔


یہ چارسماجی درجے کچھ یوں تھے۔بادشاہ اوراس کے خاندان کو پہلااورسب سے بلند درجہ حاصل رہاہے۔دوسرے درجے پر سمورائی اور ان کے جنگجوسپاہی ہوتے تھے۔تیسرے درجے پر کسان تھے،کھیتوں میں کام کرتے اورسادگی سے زندگی بسرکرتے ۔کاروباری لوگ سماجی درجے بندی میں چوتھے اور آخری درجے پر سمجھے جاتے تھے۔بادشاہ اور اسکے خاندان کو مذہبی تکریم ہمیشہ سے حاصل تھی اور اب تک ہے۔

بادشاہ کو صرف حکومتی اختیار کی بنیاد پر قابل احترام نہیں جانا جاتابلکہ اسے زمین پر خدا کا اوتار مانا جاتا تھا۔خداکا نائب یا خلیفہ ہونا ایک مختلف بات ہے۔جاپانی بادشاہ کو خدائے مجسم اور زندہ جاوید خدا ماناجاتا تھا،اسکی پوجا کی جاتی تھی،عام لوگوں کو ہندوؤں اور سکھوں کیطرح مرنے کے بعد جلایا جاتاہے،جبکہ بادہ شاہ کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد بادشاہ نے ریڈیو پر اعلان کردیا تھاکہ وہ اب خدا یا اس کا کوئی اوتار نہیں ہے۔مگر پھر بھی عوام میں صدیوں سے جیسی اس کی تکریم تھی،اب بھی ہے۔
سمورائی یوں توایساموضوع ہے کہ اس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔مگرمختصر بیان کریں تو یہ طبقہ بادشاہ کے وفا دارجاگیرداروں اورجنگجوؤں پرمشتمل تھا۔پوراجاپان ان جاگیرداروں میں تقسیم تھا،ان کے اپنے قلعے اور مسلح افواج تھیں ان کی تعداداگر ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرورتھی۔

سمورائی طبقے کے علاوہ کسی کو تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔قانون یہ تھا اور سماج میں تسلیم شدہ حقیقت بھی کہ سمورائی کے علاوہ کوئی بہادر نہیں ہو سکتا ۔اب سماج میں فقط سمورائی طبقے کے خاندانی نام باقی ہیں،سماج میں ان کا پیشہ ختم ہو چکا ہے۔دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد اب کاروباری طبقے کو کسان طبقے سے زیادہ اہمیت اور تکریم حاصل ہوگئی ہے۔

میرے جاپانی دوست کھوگوکویہ کمال حاصل ہے کہ وہ کسی بھی آدمی کاخاندانی نام جان کر بتا سکتا ہے کہ وہ تاریخی اعتبار سے سمورائی طبقے سے ہے،کسان پیشہ یاپھر کاروباری خاندان سے تعلق رکھتاہے۔بادشاہ کے خاندان کانام بالکل علیحدہ ہے مگر شاہی خاندان بھی نام سے پہچاناجاتاہے۔ایسے خاندانی ناموں کی کل تعدادپانچ سو کے قریب ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شہری ان پانچ سو خاندانی ناموں کی فہرست میں سے اپنی مرضی کا نام چن سکتا ہے۔

باالفاظ دیگر اپنی ذات خود چن سکتا ہے۔
مجموعی طورپرجب کوئی غیر ملکی شہری جاپانی شہریت اختیار کرتا ہے تو اسے ان پانچ صدخاندانی ناموں میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے اپنے نام کا لاحقہ بناناہوتا ہے۔میرے جاپانی دوست کھوگوسان کا مشورہ ہے کہ اگر میں جاپانی شہریت کبھی اختیارکروں تومجھے سمورائی نام رکھنا چاہئے۔میں اسے ہمیشہ تسلی دیتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا،حاسدین نے میرے دوست کے بارے میں مشہور کررکھا ہے کہ وہ آدھا پاگل ہی نہیں پورا چریا ہے۔

یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ہر نام کے آخر میں جاپانی لوگ ”ساں“ کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ لفظ ”ساں“صاحب یاسائیں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ہرنام کے ساتھ لاحقے کے طور پراس کااستعمال ضروری ہے۔اس ”ساں“کے بغیر کسی کانام پکارناسنگین بدتمیزی شمار کیا جاتا ہے۔مثال سے واضح کروں دھوبی صاحب،مکینک صاحب ،نائی صاحب،ڈرائیورصاحب،بھائی صاحب،چاچا صاحب ،خالہ صاحبہ ،بشیرصاحب، یہ روایتی مشرقی معاشرہ ہے،ادب ،آداب اور رکھ رکھاؤ کایہاں پر بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔


عطرفروشوں کی زبان میں بات کی جائے توجاپان کی فضا نیوٹرل ہے۔عمومی طور پر ہوا میں کسی بھی طرح کی کوئی مہک ،خوشبو یا بدبوآپ کو نہیں آئے گی۔یہ آیام مگر خصوصی ہیں۔مضافاتی علاقے تازہ دھان کی مسحورکن مہک سے معطرہیں۔جس طرح پنجاب میں گندم کی کٹائی کے موقع پر”وساکھی“کا روایتی تہوارمنایاجاتا ہے،اس دیس میں چاول کی کٹائی کے موقع پرتیوہارکامنظرنظرآتا ہے۔

گلی گلی سے جلوس نکلتے ہیں۔مذہبی اور ثقافتی جوش وجذبے کے ساتھ نکلنے والے ان جلوسوں کے شرکاء روایتی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔آگے آگے نوبت بجتی ہے اور ڈھول کی تاپ پیچھے پیچھے بچے ہونٹوں سے بانسری لگائے سر بکھیرتے جاتے ہیں۔نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ان جلوسوں کے آگے کوئی نہ کوئی خوفناک شکل والابھوت نما فلیٹ ہوتاہے یا کسی جانور کی شبیہ بڑے سائز میں اہل علاقہ نے تیار کی ہوتی ہے۔

اس بابت میں نے سوال کیا تو جواب ملا کہ یہ بدروحوں کو ڈرانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ان جلوسوں کی منزل قریب ترین معبد ہوتے ہیں۔وہاں دعاکرکے شرکاء گھروں کارخ کرتے ہیں۔محرم کے ایام عزا میں تعزیے کے جلوس اور ربیع الاول میں عید میلادالنبی کے جلوس سے ملتی جلتی تصویر آج کل یہاں کے مضافاتی علاقوں کی سڑکوں پرنظرآرہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :