
عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا
اتوار 18 دسمبر 2016

عمار مسعود
(جاری ہے)
عوام کی عدالت کا فیصلہ ماضی میں ہمیں کئی مشکلوں سے نکال چکا ہے۔ جب ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو تب بھی عوام کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا تھا۔ جب ضیاء الحق کا ریفرینڈم ہوا تب بھی عوام کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا تھا۔ جب محترمہ فاطمہ جناح سے الیکشن میں بدسلوکیاں کی گئیں، ریڈیو پر خطاب سنسر کیا گیا تو تب بھی یہی کہا گیا ہو گا کہ عوام کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے۔ جب بھٹو نے مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج نہ تسلیم کئے ہوں گے تب بھی پناہ عوام کے فیصلے میں حاصل کی گئی ہو گی۔حتی کے جب بھٹو کو پھانسی دی گئی ہو گی تو بھی ایک ڈکٹیٹر نے یہی کہا گیا کہ عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی کسی نے اپنی سوچ عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنی ہو۔ عوام کو دھوکہ دینا ہو، عوام کے اختیارات سلب کرنے ہوں۔عوامی رائے عامہ کا مذاق اڑانا ہو تو ذمہ داری عوام کی عدالت کے فیصلے پرڈال دی جاتی ہے۔اس تمہیدسے سبق یہ بھی ملتا ہے جب بھی کوئی شخص یا جماعت بلاوجہ عوام کے فیصلے کا شور کر ے تو اس فرد، جماعت اور اس لمحے سے خوف زدہ رہنا چاہیے۔
آج پھر ہمیں عوام کا ایک اور فیصلہ درپیش ہے۔ پی ٹی آئی پانامہ کیس سپریم کورٹ میں لے آئی۔ ثبوت نہ پہلے کسی بات کے تھے نہ ہی اب کوئی ایسا کاغذ دستیاب ہے۔ مقدمے میں ثبوت نہ ہوں تو نتیجہ سامنے ہی ہوتا ہے۔ متوقع نتیجے سے خوف زدہ ہو کر پی ٹی آئی کی جانب سے تین باتیں کی جا رہی ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ حکومت پاک فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتی ہے۔یہ بات فوج کے مورال کے لیئے، اس ادارے کی ساکھ کے لیئے اور افواج پاکستان کی اقدار کے لئے کس قدر ضرررساں ثابت وہ سکتی ہے اس کا گمان شائد خان صاحب کے ذہن میں نہ ہومگر اس بہتان کے مضمرات بہت دور تک جا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ شریف برادران کی کورٹ بننے جا رہی ہے۔ وہ ادارہ جو انصاف کے لئے قائم ہے اس پر اس طرح کی تہمت لگا کر سارے نظام انصاف کو رسوا کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔اور تیسری اور آخری بات جو سننے میں آرہی ہے وہ سب سے پریشان کن ہے کہ عدالت کا فیصلہ جو مرضی ہو عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔جی تو چاہتا ہے کہ کوئی ان سے سوال کرے کہ کیا جو ضمنی انتخابات میں ہوا وہ عوام کا فیصلہ نہیں تھا؟ کیا جلسوں میں کم ہونے والے تعداد عوام کا فیصلہ نہیں تھا؟ کیا پشاور میں اپنی جماعت کے وزیروں کی بغاوت عوام کا فیصلہ نہیں تھا؟
اب جو پارلیمنٹ میں شور شرابہ ہے، جو جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا ہے، جو استحقاق کی بات ہو رہی اس میں پی ٹی آئی سے بہت دیر ہو گئی ہے۔ اگر کوئی شخص ساڑھے تین سال سورج کو اندھیرے کی علامت بتائے اور پھر وہ اچانک ہی اسی سورج کو نہ صرف روشنی کا منبع قرار دے بلکہ اپنے حصے کی روشنی بھی مانگے تو ایسی غیر جمہوری جماعتوں کے مقدر میں صرف تاریکی رہ جاتی ہے۔جمہوریت کے نام پر حقوق ایک دم نہیں ملتے اس کے لئے اس کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ پارلیمان کو احترام دینا پڑتا ہے۔ اس کے قوانین کی پاس داری کرنی ہوتی ہے۔ اس نظام کوگالی دینے والوں کو جمہوریت اتنی جلدی عزت نہیں دیتی۔اس کے لیئے برسوں عوام کے ووٹ کا احترام کرنا پڑتا ہے۔
رہا مسئلہ عوام کی عدالت کے فیصلے کا تو جمہوریت میں عوام کی عدالت کا فیصلہ صرف الیکشن کے ذریعے سنایا جاتا ہے۔ اس نظام میں خلق خد ایمپائر کی انگلی کے ذریعے نہیں ا ووٹ کے ذریعے اپنے حق میں آواز بلند کرتی ہے ۔ اور اس کے لئے دھرنا نہیں ، بلکہ دو ہزار اٹھارہ کا انتظار کرنا ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.