مریم نواز شریف نا شکری ہیں

ہفتہ 23 ستمبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

خدا خدا کر کے این اے 120 کا الیکشن تما م ہوا۔ نتائج کچھ ایسے حیران کن نہیں سامنے آئے۔کلثوم نواز چودہ ہزار ووٹوں سے الیکشن جیت گئیں۔ دوسرے نمبر پر حسب توقع پی ٹی آئی کی یاسمین راشد ہیں جنہوں نے سینتالیس ہزار ووٹ حاصل کیئے۔ ووٹوں کے برتری اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ توقع تھی۔یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ ماناجاتا ہے اور مدتوں سے کبھی ن لیگ نے یہاں سے کوئی الیکشن نہیں ہارا ۔

یہ نشست سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ عمران خان نے الیکشن سے پہلے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ یہ انتخاب کرپٹ حکمرانوں کے خلاف جہاد ہے ۔ مزید انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عوام کو چاہیے کہ عدلیہ کے حق میں ووٹ دیں جس سے کچھ لوگوں کو شائبہ ہوا کہ شائد فاضل عدلیہ بھی ایک امیدوا رکی حیثیت سے اس حلقے میں انتخاب لڑرہی ہے۔

(جاری ہے)

ان کو بھی کوئی انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔ ان کی بھی کوئی کمپین کی گئی ہے اور ان کو بھی ووٹ ڈالنے ہیں۔ عمران خان کو شائد یہ بات یاد نہیں رہی کہ اس ملک کی عدالتیں اس طرح کی گلی محلے کی سیاست کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتیں۔ وہ انصاف کے اصول پر چلتی ہیں تحریک انصاف کے قوائد پر نہیں۔
یہ پہلا حلقہ تھا جس کے انتخاب میں فاتح کی اہمیت نہیں تھی۔

سب کی نظریں برتری پر تھیں۔ کتنے ووٹوں سے انتخاب جیتا؟ کم برتری سے مراد یہ لی جانی تھی کہ عوام نے یہ مان لیا نواز شریف ایک کرپٹ حکمران ہیں۔ انہوں نے ملک کا پیسہ کھایا ہے۔ غریب عوام کی جیبیں لوٹی ہیں۔ یہ ڈاکو ہیں، ظالم ہیں اور چور لٹیرے وغیرہ وغیرہ ہیں۔ زیادہ ووٹوں سے جیت کا مطلب یہ ہوتا کہ عوام نے اپنے اس بیانیئے کو نہیں مانا ۔ ان کے مطابق نواز شریف ہی جمہوریت کے دعویدار ہیں۔

انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ خفیہ ہاتھ انکی نااہلی کی وجہ بنے ہیں۔ ان کو ایک سازش کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن مہم کا ماجرا بھی مزے کا ہے۔ یاسمین راشد صاحبہ کے ساتھ عوام اتنی شدومد سے مہم میں شریک نہیں ہوئے جتنے زیادہ ووٹ ان کو پڑ گئے ہیں۔ عمران خان نے ایک جلسہ کیا اور ایک ریلی نکالی جس میں ہزار افرد سے زیادہ لوگوں نے شرکت نہیں کی۔

عوام کی عدم دلچسپی پی ٹی آئی کی مہم میں بڑی واضح تھی۔ مریم نواز نے اپنی مہم بڑی بھرپور کی ۔ انہوں نے ہر یو نین کونسل کا دورہ کیا۔ کارکنوں کو متحرک کیا۔ الیکشن دن تک کارکنوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ حالانکہ ان کو کچھ بڑی واضح دشواریاں پیش تھیں۔ ایک تو جس پارٹی کی وہ مہم چلا رہی تھیں اسکے سربراہ کو حال ہی میں کرپشن کے جرم میں نا اہل قراردیا گیا تھا۔

حسن اتفاق سے وہ پارٹی سربراہ انکے والد بھی ہیں ۔ اصل امیدوار بیگم کلثوم نواز تھیں جو علالت کی وجہ سے ملک میں نہیں تھیں اور ایک دفعہ بھی حلقے کا دورہ نہیں کر سکیں۔ پنجاب حکومت نے اس طرح کھل کر مریم نواز کی مدد نہیں کی جس طرح کے الزامات لگائے گئے۔ شہباز شریف اینڈکمپنی سے سوائے ایک مبارک باد کی ٹوئیٹ کے کوئی مدد نہیں ملی۔مریم نواز نے قریبا تنہا یہ مہم چلائی اور چودہ ہزار کی برتری حاصل کی۔

جو کہ سچی بات ہے کہ اتنی زیاد ہ برتری نہیں ہے۔
قریبا ہر ٹی وی اینکرنے ریٹنگ کے چکر میں الیکشن سے پہلے حلقے سے لائیو پروگرام کیئے ۔ کسی بھی اینکر کو پی ٹی آئی کے سپورٹر نہ مل سکے۔ ہر طرف شیر کی دھاڑ سنائی دے رہی تھی۔بلے کا ذکر خال خال بھی نہیں تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ پی ایم ایل ن اس حلقے سے ایک واضح برتری حاصل کرے گی اور پی ٹی آئی کو عبرت ناک شکست ہو گی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔انتخابی نتائج کے مکمل ہونے پر دونوں پارٹیز کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگے۔ یاسمین راشد صاحبہ نے الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کا عندیہ دیا او فتح پانے کے باوجود مریم نواز نے بھی ناشکری کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ خفیہ ہاتھوں کا ذکر کیا۔ جو کہ سراسر ناشکری تھی۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس حلقے میں چند ایک ایسی پراسر حرکتیں ضرور ہوئی ہیں جن سے دھیان خفیہ ہاتھوں کی جانب جا سکتا تھا لیکن مریم نواز کو پھر بھی ناشکری نہیں کرنی چاہیے تھی۔

یہ بات درست ہے کہ جس حلقے میں پی ٹی آئی کا کارکن خال خال ہی نظر آتا تھا وہاں اچانک دو دن پہلے پی ٹی آئی کے دفتر سج گئے اور اجنبی لوگوں نے خان صاحب کے پوسٹروں تلے اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس حلقے میں جانے کس کی ایماء پرچوالیس لوگوں نے کاغذات نامزادگی داخل کرائے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ پانچ ، پانچ ، دس ، دس ووٹ لینے والوں نے بھی ووٹ کو تقسیم کیا۔

بقول رانا ثنا اللہ ان میں سے تیس کا تعلق ایک ہی پارٹی سے تھا۔ چوالیس نشانات میں سے اپنی پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان کو تلاش کرنے میں ووٹرز کو دشواری پیش آئی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جلدی میں ملی مسلم لیگ کا ایک امیدوار الیکشن میں کھڑا کیا گیا جس نے پانچ ہزارسے زیادہ ووٹ لیئے۔ یہ وہ جماعت ہے جو الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں ہے اور اسکے پوسٹرز پر پاکستان کی کالعدم تنظیم کے سربراہوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ایک اور مذہبی فرقے کے امیدوارنے اچانک اینٹری ڈال کر سات ہزار سے زیادہ ووٹ توڑ دیا۔ یہ بات بھی درست ہے الیکشن سے پہلے یو سی چیئر مینوں پر ریڈ کیا گیا انکے چہروں پر سیاہ نقاب ڈالے گئے اور انکو دھمکیاں دی گئیں اور الیکشن والے دن ان چیئر مینوں اور انکے خاندان کے کسی فرد کا چہرہ بھی پولنگ سٹیشن پر نظر نہیں آیا۔ سادہ لباس میں لوگ ان کے گھروں اور گھر والوں کی نگرانی کرتے رہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ووٹنگ میں جان بوجھ کر سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے تعطل کا مظاہرہ کیا گیا۔ سیکیورٹی کا کام صرف تحفظ تھا مگر انہوں نے ہر شخص سے نہ صرف کئی کئی دفعہ شناختی کارڈ مانگے ووٹ کی تصدیق کی بلکہ شماریاتی نمبر، گھرانہ نمبر اور ب فارم تک طلب کیا گیا۔ جو کہ ان کا کام نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے ایک ووٹ کے پڑنے میں کئی کئی منٹ لگ گئے۔

حالانکہ تصدیقی عملہ پولنگ سٹیشن میں تصدیق کے لئے ہی موجود تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ن لیگ کے ووٹروں کو کئی جگہ پریشان کیا گیا۔ خواتین کی ایک پولنگ سٹیشن سے دوسرے پولنگ سٹیشن تک دوڑیں لگوائی گئیں۔ یہ بات بھی درست ہے جن ووٹرز کے پاس پی ٹی آئی کی پرچی تھی انکے ووٹ جلد از جلد کاسٹ کروائے گئے۔ یہ بات بھی درست ہے بار بار درخواست کے باوجود پولنگ کا وقت نہیں بڑھایا گیا جو عموما بڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس احسن اقدام کو پی ٹی آئی نے فورا سراہا۔ حالانکہ کسی بھی جمہوری جماعت کو زیادہ ووٹ پڑنے کی خوشی ہونی چاہیے تھی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پانچ بجے سے پہلے سفید ویگو ڈالوں نے ٹریفک میں رخنے ڈالنے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے دس سے بارہ ہزار ووٹ پڑنے سے رہ گیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ میڈیا کے کارڈ ہونے کے باوجود کسی بھی رپورٹر کو باقاعدہ اجازت نامہ ہونے کے باوجود پولنگ سٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ بات بھی درست ہے ووٹنگ کے عمل میں تعطل اور اور الیکشن کمیشن کے پولنگ میں وقت کانہ بڑھانے اور پی ٹی آئی کے وقت نہ بڑھانے کی حمائت کی وجہ سے بہت سے لوگ کڑیوں سے کڑیاں ملا رہے رہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کلثوم نواز چودہ ہزار ووٹ سے جیت گئیں۔جیتنے کے بعد مریم نواز نے خفیہ ہاتھوں پر الزام لگا کر جو ناشکری کی ہے وہ انتہائی غیر مناسب تھی۔


مریم نواز کو تو الٹا ان خفیہ ہاتھوں کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔ انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کہ جو لوگ قائد اعظم، محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دے سکتے ہیں۔ جو خفیہ ہاتھ جونیجو جیسے شریف النفس انسان پر کرپشن کے الزامات لگا سکتے ہیں ۔ جو بھٹو کو پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں ، جو منتخب جمہوری وزراء اعظموں کو وطن بدر کر سکتے ہیں، جو جب چاہیں اپنی مرضی سے حکومت بنا اور گرا سکتے ہیں ، جو الطاف حسین کو لیڈر بنا سکتے ہیں، جو عمران خان کے دھرنے کروا سکتے ہیں جو جے آئی ٹی بنوا سکتے ہیں ، جو حسین نواز کی تصویر لیک کروا سکتے ہیں ، جو ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں تا عمر نا اہل قرار دلوا سکتے ہیں ان کے لئے ایک چھوٹا سا الیکشن جیتنا کیا ہی مسئلہ ہو سکتا ہے؟ پچاس ، ساٹھ ہزار ووٹ کو توڑنا کیا ہی مشکل ہو سکتا ہے؟یہ جو ووٹ مل گئے ہیں یہ انہی خفیہ ہاتھوں کی مہربانی ہے کہ ورنہ تو اس ملک میں کیا نہیں ہوتا۔

مریم نواز کو اپنے کارکنوں کے ساتھ خفیہ ہاتھوں کا نہ صرف شکریہ ادا کرنا چاہیے بلکہ ان کے حق میں نعرے بھی لگوانے چاہیں۔ خفیہ ہاتھ ۔ زندہ باد ۔ خفیہ ہاتھ۔ زندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :