احمد نورانی کا بیٹا کارٹون دیکھ رہا ہے

ہفتہ 28 اکتوبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

میں ابھی احمد نورانی سے مل کر آیا ہوں ۔ پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سرجیکل وارڈ نمبر 3کے ڈریسنگ روم کے باہر صحافیوں کا ہجوم تھا۔ ڈاکٹر نورانی کے سر کی پٹیاں کھول کر زخم کا دوبارہ جائزہ لے رہے تھے۔ کنپٹی پر ضرب شدید تھی۔ سر کے پچھلے حصے پر بھی زخم کے نشان تھے۔ جو کسی تیز دھار آلے سے لگائے گئے تھے۔ ڈریسنگ روم میں جانے کی سخت ممانعت تھی۔

ڈاکٹر صحافیوں سے التماس کر رہے تھے۔۔ صحافی عملے سے بحث کر رہے تھے۔ سب کی خواہش تھی کہ ایک نظر نورانی کو دیکھ لیں۔ صحافیوں کے پرزور اصرا رپر ڈاکٹرز نے ایک ایک شخص کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ بات کرنے سے منع کیا۔ صرف دیکھنے کی اجازت دی۔ موقع ملتے ہی میں ،ڈریسنگ روم میں داخل ہوا۔ سرکاری ہسپتال کا ڈریسنگ جتنا گندا ہو سکتا ہے اتنا ہی گندا تھا۔

(جاری ہے)

ایک طویل سٹریچر نما بستر پر احمد نورانی آنکھیں بند کیئے لیٹا تھا۔ ڈاکٹرز اور نرسز کا ایک پینل سر کے زخم کا جائزہ لے رہا تھا۔ زخم کی گہرائی کے سبب سر کے بال صا ف کر دیئے گئے تھے۔فضا میں ٹنکچر اور آیوڈین کی بو پھیلی تھی۔ احمد نوارنی کے ٹوٹے ہوئے چپل ابھی تک پاوں میں تھے۔ میلی سی جینز پر خون کے جا بجا داغ لگے ہوئے تھے۔ ملگجی سی سیاہی مائل شرٹ بھی خون آلود ہو رہی تھی۔

ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لیئے نوارانی نے آنکھیں کھولیں میں نے ہاتھ آگے بڑھایا مگر نوارنی نقاہت کے مارے اپنا ہاتھ آگے نہ کر سکا اور پھر آنکھیں موند لیں۔یوں لگتا تھا وہ دن بھر کی ہولناک کارروائی سے بہت تھک چکا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ چند خواب آور دوائیوں کا اثر ہے۔میں اس نورانی سے واقف نہیں تھا۔

نورانی تو ہمیشہ سے بڑے پرجوش طریقے سے ملتا تھا۔ مصحافہ ، معانقعہ اور بغل گیر ہوئے بغیر تو ملاقات کا آغاز ہی نہیں ہوتا تھا۔ ابھی بات کرنے کی نوبت کیا آتی کہ اگلے صحافی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے باہر نکلنا پڑا۔ اس دوران میں نے موبائل سے چلتے چلتے چند تصویریں کھینچیں اور میں پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سرجیکل وارڈ نمبر 3کے ڈریسنگ روم سے باہر نکل آیا۔


۔ ہسپتال سے نکلتے ہی انکے گھر جانے کا قصد کیا۔ چھوٹی سی گلی میں آج بہت سی کاروں کا رش تھا۔ بہت سے صحافی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نورانی کی گھروالوں کے دکھ میں شریک ہونے آئے تھے۔ لوگوں کی آمد کیے پیش نظرآج ڈرائنگ روم سے فرشی بستر اٹھا دیا گیا تھا۔ جانے کہاں سے دل جوئی کے لیے آنے والوں مہمانوں کے لیئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ نورانی کی اہلیہ بڑے حوصلے میں تھیں۔

والدہ کا حوصلہ ٹوٹ رہا تھا۔ انکے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ وہ کبھی بیٹے کی صحت اور زندگی کیلئے دعا کرتیں اور کبھی ان نامعلوم افراد کو کوسنے دینے لگ جاتیں۔ کبھی خوف سے چپ ہو جاتیں اور کبھی غصے سے مارنے والوں کو بدعائیں دینے لگتیں۔ نورانی کا بیٹا محمد رافع نظر نہیں آرہا تھا۔ پوچھنے پر بھابھی نے بتایا کہ جب گیارہ بجے کے قریب نورانی کی خون میں لت پت تصویریں سکرین پر چلنے لگیں تو رافع نے چیخ کر اپنی والدہ کو بلایا کہ ۔

امی ، امی ابو ٹی وی پر آ رہے ہیں۔ بھابی کو اس واقعے کی پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی۔ انہوں فورا ٹی وی کا چینل تبدیل کیا اور بچے کو کارٹون لگا دیئے کہ یہ تصویریں بچے کے ذہن پر نقش نہیں ہونی چاہیں۔
گیارہ بجے کے قریب نورانی اردو یونیورسٹی کے پاس سے گذر رہے تھے۔ ممتاز ڈرائیور بھی ساتھ تھا۔ تین موٹر سائکل سوار وں نے گاڑی کو
گھیر لیا۔

تینوں کالج کے سٹوڈنٹ کی عمر کے تھے۔ کسی نے منہ پر نقاب نہیں پہنا ہوا تھا۔ یہ موٹر سائیکل سوار اتنے تربیت یافتہ تھے کہ ان میں سے ایک نے موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کی چابی نکال لی۔ یہ وہی گاڑی ہی جس کی چابی گاڑی چلاتے چلاتے اکثر گر بھی جاتی تھی۔پولیس بھی سامنے تھی، راہگیر بھی موجود تھے۔ لیکن کام کرنے والوں نے نہائت سرعت سے اپنا کام کیا۔

چاقو اور موٹر سائیکل کے لاک سے شدید ضربات لگائیں۔ جس میں کنپٹی والی کاری تھی۔یہاں کچھ خون منجمد ہے۔ ڈاکٹر اسی زخم کی وجہ سے تشویش کا شکار ہیں۔اگلے چوبیس گھنٹے نوارنی کو نگہداشت میں رکھا جائے گا۔ اسکے بعد اگر کسی سرجری کی ضرورت ہوئی تو ڈاکٹراس کا جائزہ لیں گے۔
ہمارے مشترکہ دوست طاہر ملک نے نورانی کے بارے میں درست کہا ہے کہ اس کے رویے میں لچک نہیں ہے۔

وہ سیاہ اور سفید کے علاوہ کوئی اور رنگ جانتا ہی نہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان اسے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ نامعلوم افراد ہیں جو اب اتنے نا معلوم بھی نہیں رہے۔ اسکو جگہ جگہ لگے ناکوں سے چڑ ہوتی ہے۔ کنٹینروں سے بند کیئے راستوں سے وحشت ہوتی ہے۔ جمہوریت کے تقدیس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ووٹ کی حرمت اسکی ساری کشمکش ہے۔

ظلم استبداد کے خلاف وہ سینہ سپر رہتا ہے۔ وہ احمد فراز کا دلداہ ہے۔ سویلین بالا دستی کا نعرہ لگاتا ہے۔
ڈرسینگ روم کے باہر جمع صحافیوں میں سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ حملہ کرنے والے نامعلوم افراد کون تھے۔ اس لیئے کہ سب جانتے تھے۔سب جانتے ہیں ۔ سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا کہ ایساا ب کیوں کیا گیا؟ اب تو ٹوئیٹر اکاونٹ بھی ڈی اکٹیویٹ کر دیا گیا۔

خبر بھی خال خال ہی چھپتی ہے۔سوشل میڈیا پر بھی زبان بندی اختیار کر لی ہے ۔ اب کیوں مارا؟ ب کیوں حملہ کیا؟ اب کس بات کا غصہ نکالا؟ اب کس بات کا بدلہ لیا؟سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی سب سوال کرتے رہے ، سب سوال بنے رہے۔
احمد نورانی کے ساتھ جو واقعہ آج پیش آیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ نورانی کے ساتھ اس سے پہلے بھی اسطرح کے واقعات پیش آچکے ہیں ۔

کبھی فون پر دھمکا گیا، کبھی گھر پر آدھی رات کو نامعلوم افراد آگئے۔کبھی راستے میں روک لیا گیا ، کبھی کسی خفیہ دفتر میں طلبی ہوئی لیکن نورانی باز نہیںآ تا۔پاناما کیس کے حوالے سے اسکی رپورٹنگ نے اسکے شوق کو مزید مہمیز عطا کی ہے۔ وہ سچ کی تلاش میں رہتا ہے۔وہ اصل میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں۔
ہمارے دوست مطیع اللہ جان پر بھی سچ بولنے کی پاداش میں گاڑی پر اینٹوں سے وار کروا چکے ہیں۔


اس طرح کے واقعات سچ بولنے سے روکنے کی ایک مذموم کوشش ہوتی ہے۔ ایک شخص کا نشانہ بنا کر دوسروں کو دھمکایا جاتا ہے۔ لیکن نامعلو م افراد کو اب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ سفر اب رکنے والا نہیں ہے۔ جسم پر لگے زخم تو جلد مندمل ہو جاتے ہین لیکن وطن کو گھن کی طرح چاٹنے والوں نسلوں تک یاد رہتے ہیں۔ اسطرح کے واقعات سے اب لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے بہادر بن جاتے ہیں۔ سب ہی ہمت پکڑتے ہیں سب ہی نورانی بنتے ہیں۔
اب جب کہ سب سکرینوں پر اس واقعے کیبڑی بڑی خبر یں چل رہی ہیں اور نورانی کا بیٹا محمد رافع کارٹون دیکھ رہا ۔ اس لئے کہ اب ہم اس نئی نسل کے لیئے ٹی وی پر کارٹون ہی چھوڑے جا رہے ہیں سچ بولنے والے تو ہسپتالوں میں زندگی موت کی کشمکش سے گذر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :