فاطمہ تشدد کیس، پسِ آئینہ کچھ اور ہے

جمعرات 25 جولائی 2019

Anam Ahsan

انعم احسن

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک افسوس ناک خبرمحسن عباس کی اپنی اہلیہ پر تشدد کی رودادسنا رہی تھی۔اس خبر نے میری توجہ پوری طرح اپنی جانب مبذول کروائی۔کیونکہ معاملہ بنت ِحوا پر تشدد کا تھااور ایک عورت ہونے کے ناطے بلا شک و شبہ میری ہمدردیوں کا جھکاؤ عورت ہی کی جانب ہونا تھا۔دل خون کے آنسو رویا کہ لو!!! ایک اور بیٹی اس ظالم سماج کی بوسیدہ روایات کے ہتھے چڑھ گئی۔

کیونکہ فاطمہ سہیل نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنی تشدد سے آنے والی چوٹوں کی تصاویر لگا کر اس بات کا انکشاف کیا کے شادی کے بعد انکے شوہر انکو زدو کوب کا نشانہ بناتے رہے ہیں یہاں تک کہ جب وہ ایک بیوی سے ماں بننے کا سفر طے کرنے کے درپے تھیں تب بھی انکے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)


اس کے جواب میں محسن عباس نے پریس کانفرنس کی اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اپنی اہلیہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی۔

خیر میں نے اس قصے کا مکمل فالو اپ لینا شروع کر دیا21جولائی سے تادمِ تحریر متعدد بلاگز،تجزیے اوررپورٹس سامنے آئیں۔اخبارات اورٹی وی چینلز نے بھی خوب تڑکا لگا کر خبریں ہم تک پہنچائیں۔یہاں تک کے دنیا نیوز نے اپنے مشہور پروگرام میں سے بھی محسن عباس کو فارغ کرتے ہوئے ان سے لا تعلقی کا سرکلر جاری کر دیا۔جس طرح اس کہانی میں فاطمہ اور محسن کا مؤقف ایک دوسرے سے مختلف تھا اسی طرح تمام ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات بھی منقسم تھیں۔

لیکن لب و لباب ایک ہی تھا کہ عورت پر ظلم ہوا،عورت ہمیشہ کی مظلوم،عورت پنجرے میں قید،عورت غلام جبکہ مرد ظالم،عیاش،لاپرواہ،دھوکے باز،مردعورتوں پر حکمرانی کرنے والے،بیویوں کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے اور وغیرہ وغیرہ۔
میں یہ تحریر محسن عباس اور فاطمہ سہیل کی خود کو تماشا بنانے کی داستاں سنانے کی لئے نہیں لکھ رہی۔نہ ہی میرا مقصدکسی پر انگلی اٹھانا ہے۔

اور مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں کے ان دونوں میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔بلکہ مجھے اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں نے قلم اٹھانے پر مجبور کیاہے۔اختلاف یا اعتراف کا حق سب کو حاصل ہے میں انکی رائے کی قدربھی کرتی ہوں۔مجھے اس بات سے انکاربھی نہیں کے عورتوں کو ہر دور میں ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی تشد دکا نشانہ بنایا گیا ہے۔انکی عصمت دری کی جاتی ہے،بھرے بازار میں انکی عزت کا نماشا بنایا جاتا ہے،گھر سے باہر نکلے تو چھ سال کے بچے سے لیکر پچاس سال کے بڈھے بھی دیدے پھاڑ پھاڑ دیکھتے ہیں جیسے منڈی میں کوئی نیاجانورآیاہے اور جب یہ سب کر کے بھی آنکھوں کو ٹھنڈک نہیں ملتی توبھٹکتی روح کی تسکین کے لئے گھٹیا قسم کے جملے کسے جاتے ہیں اور اگر خواتین گھر پر رہیں تو انکو نت نئے ہتھکنڈوں سے ٹارچر کیا جاتا ہے اور ذہنی انتشارکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔


آئے روز اخبارات زندہ جلائی جانے والی،تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی،غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی اور تشدد برداشت کرتے کرتے کسی خستہ حال ہسپتال کے بستر پر دم توڑنے والی عورتوں کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آج بھی سسرالیوں کی بے جا ڈیمانڈز اور ظلم و ستم کے باوجود 90فیصد سے زیادہ گھر عورت ہی کی برادشت اور صبر کے تحت بس رہے ہیں۔

سونے پر سہاگا اگر کوئی خاتون پسند کی شادی کر لے توسال بعد ہی وہ شادی اسکے گلے کا طوق بن جاتی ہے جسکے ساتھ اسے تمام عمر بسر کرنی ہوتی ہے۔عورت کبھی بھی اپنا بسا بسایا گھر اپنے ہاتھوں سے نہیں برباد کرتی اور اگر وہ چند بچوں کی ماں بن جائے تو پھر خاموشی سے تمام حالات کا سامنا کرتے جاتی ہے اور تکالیف تن تنہا برادشت کرتی جاتی ہے۔ایسے میں اگر خدانخواستہ شادی ٹوٹ جائے تو سارا الزا م عورت پر ہی آتا ہے یہاں تک کے اسکا مجازی خدا ہی اسکے کردار پر انگلی اٹھا دیتا ہے تاکہ معاشرے میں انکی نام نہاد عزت اور وقار پر کوئی آنچ نہ آئے۔


میں یہ نہیں کہتی کے ساری عورتیں پارسا اور سارے مردظالم ہوتے ہیں۔ میں اس بات سے بھی انکار کرتی ہوں کہ عورت کی کہی ہوئی ہر بات اٹل ہوتی ہے۔جس طرح مرد اپنی مردانگی کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح عورت بھی اپنی مظلومیت بیچتی ہیں۔لہذا واقعے کی پوری حقیقت جانے بنا کسی بھی عورت کے چند آنسوؤں کی وجہ سے اس کو صادق اور امین مان کر اس کے شوہر کو طنزوتنقید کا نشانہ بنانا بالکل بھی ٹھیک نہیں۔

فاطمہ اور محسن میں سے کون مجرم ہے اور کون نہیں،یہ فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ نہ ہماری آنکھ نے ایسا دیکھا نہ ہمارے سامنے ایسا کچھ رونماہوا۔اس کہانی کی کھری کھوٹی کا فیصلہ انکو کرنے دیجیے جنکا یہ کام ہے۔میری نظر میں نہ فاطمہ مجرم ہے نہ ہی محسن کیونکہ ان پر ابھی جرم ثابت نہیں ہوا۔لیکن ایک لمحے کیلئے اپنی سوچ کا زاویہ تھوڑا بدل کر سوچیں اور اس واقعے کو غیر جانبداری سے پرکھیں۔


بہت سے سوال آپکے اذہان میں امڈ کر آئیں گے۔ایسے ہی سوالات میرے ذہن پر بھی سوار ہیں اول تو یہ کہ یہ ایک گھریلو مسئلہ ہے ناں کہ اجتماعی مسئلہ جسکی وجہ سے دونوں میا ں اور بیوی ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کا جنازہ سرعام نکال رہے ہیں۔دوسرایہ کہ ہم اس مسئلے میں بحث برائے بحث کر کے خود گالم گلوچ کیوں کریں؟کیا آپ نے یامیں نے اپنی آنکھوں سے محسن کو اس ظم کا ارتکا ب کرتے ہوئے دیکھا؟اگر ایک عورت اپنا گھر کبھی نہیں توڑنا چاہتی تو کیا ایک آدمی ایسا چاہے گا؟اگر ایک عورت اپنے بچوں کی خاطر شوہر کو نہیں چھوڑتی تو کیا ایک مرد ایسا نہیں کر سکتا اپنی اولاد کیلئے؟اگر ایک عورت جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے تو کیا آج کے اس دور میں مردوں کو نہیں بنایا جا رہا اس زیادتی کا نشانہ؟مردوں پر بھی تو تشدد کیا جاتا ہے بلاشک یہ ہاتھ سے نہیں کیا جاتا مگر زوجاؤں کی زبان کی تلخیوں اور لحجوں کی کڑواہٹ ایسا تشدد کرتی ہیں،انکو بھی گھریلو ناچاکیوں کی وجہ سے ٹارچر کیا جاتا ہے۔

ساس اور بہو کی لڑائی میں اگر کوئی پستا ہے تو وہ صرف مرد ہوتا ہے۔
فرق صرف کہانی کے دونوں رخ دیکھنے کا ہے۔مرد کو بھی تو سمجھیں۔وہ بھی ایک انسان ہے اگر عورت مختلف انتشار کا نشانہ بنتی ہے تو وہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔یہ معاشرہ جتنا عورتوں کا ہے مردوں کا بھی اتنا ہی ہے۔آزادی صرف عورت کو نہیں چاہیے مرد کو بھی چاہیے،سانسیں صرف عورت نہیں لیتی مرد بھی لیتا ہے،اگر عورت گھر کی امین ہے تو مرد بھی پورے کنبے کا واحد کفیل ہوتا ہے،اگر ماں کے قدموں تلے جنت ہے تواس ماں کا مجازی خدا بھی ایک مرد ہی ہے۔

مردبیٹا ہو یا بھائی،شوہر ہو یا باپ ہر روپ میں شفقت و محبت کا پیکر ہوتا ہے۔وہ اپنے لئے کچھ نیا خریدے یا نا خریدے اپنی بیوی اور بچوں کو ہر نعمت دینے کا خواہاں ہوتا ہے۔عورت تو اپنے بچوں کیلئے جیتی ہے لیکن مرد اپنی بیوی اور بچوں دونوں کیلئے ہر لمحہ قربانیاں دیتا ہے۔عورتوں کے اس معاشرے میں مرد کہیں گمنام نا ہو جائے۔
عورت اور مرد مل کرکسی بھی گھر کو جنت کی طرح آباد کر سکتے ہیں اور چاہیں تو اس گھر میں جہنم کی سی آگ بھڑکا کر اسی آگ کی بھنیٹ چڑھ جائیں۔

لیکن اس بحث سے ہٹ کر قابل غور بات یہ ہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے پر کیا اثر مرتب کر رہے ہیں؟ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ہمارے نوجوانوں کے کورے کاغذ جیسے ذہنوں پر ایک میاں اور بیوی کے پاک اور خوبصورت رشتے کی کیسی شبیہہ اتری ہو گی؟کیا قرآن پاک صرف ہاتھ رکھ کر اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کیلئے ہی رہ گیا ہے؟ او بھائی جس پاک کتاب پر آپ ہاتھ رکھ رہے ہیں کبھی اسکو کھول کر پڑھنے اور سمجھنے کی بھی زحمت کر لیں۔

آپ کے تمام مسائل کا حل اس پاک کتاب میں ہے۔
پہلے عاصمہ اور فیصل کا معاملہ سوشل میڈ یاسمیت اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز کا حصہ بنا اور اب اس سے ملتا جلتا محسن اور فاطمہ کا معاملہ۔سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا اب صرف اس قسم کی نام نہاد غیرتوں اور مظلومیت کے قصوں کو پھیلانے کا ذریعہ رہ گیا ہے؟کیا گھریلو مسئلے گھر کی چار دیواری میں سلجھنے کی بجائے ساری دنیا کے آگے ایک دوسرے کی کردار کشی اور عزت اچھالنے سے حل ہوں گے؟یہ لوگ ہماری سوسائٹی کو کس جانب لے کر جا رہے ہیں ہم اس بات سے غافل نہیں رہ سکتے۔

یہ کیسی آزادی ہے؟ کیسی خود مختا ری ہے یہ جسکا جھنڈا ہر مرد و عورت نے اٹھایا ہوا ہے؟لیکن ذہن ابھی بھی تاریک کوٹھریوں میں قید ہیں۔آزادی حق رائے کے اس تصورکے نام پرمرد اور عورت آزاد تو ہو ر ہے ہیں مگر معاشرے کے ناسور جڑیں مظبوط کر تے جا رہے ہیں۔یہ وہ سوال ہیں شاید جنکا جواب ہمیں کبھی نا مل سکے اور ہم سیاست کے داو بیچ میں ہی الجھے رہ جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :