خود پرستی

منگل 30 مارچ 2021

Anwar Hadayat

انور ہدایت

انسان روئے زمین پے اپنے رویوں کی بدولت ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔
مالک کون ومکاں نے تو انسان کو بے حد محبتوں سے نوازا ہے ۔انسان سے اپنی لازوال محبت کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ کل کائنات کو خلق کرنے کے بعد انسان کو بنایا کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو کسی قسم کی دقت نہ ہو۔
مگر آج کا انسان اس کی تمام تر محبتوں کو نظر انداز کر کے ایک بگڑی ہوئی انسانی شکل اختیار کر چکا ہے۔

اور یہاں تک بھول چکا ہے کہ کوئی ماورا ہستی بھی ہے جس کے قبضے میں ہم سب ہیں۔
مال و دولت کے نشے میں اس قدر محو ہو کہ رہ گیا ہے کہ اسے اپنے سوائے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔وہ ہر لمحہ اپنی دولت کو ہی ہوجھتا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کے بل بوتے سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں۔

(جاری ہے)


اور اپنے اندر خیال پیدا کر بیٹھا ہے کہ میری ہر مشکل کا حل میرے پاس موجود ہے وہ ہے
"میری دولت"
یہاں میں واضح کرتا جاوں کہ اس کا یہ خیال سرا سر غلط اور بے بنیاد ہے۔

اسے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اسے مہیا کرنے والا کون ہے؟
اگر اسے اس سوال کا جواب مل جائے تو وہ کبھی بھی بے راہ روی کا شکار نہ ہو ۔
مگر وہ تو اس حق میں ہی نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب ملے وہ تو اس قدر گر چکا ہے کہ ہر کسی کو وہ اپنی دولت کے پلڑے میں رکھ کر تولنے کی کوشش کرتا ہے اور ہاں اگر اسے پتا ہو کہ فلاں شخص سے مجھے کسی قسم کا مفاد حاصل ہو سکتا ہے تو وہ اس کے ساتھ اپنے روابط استوار رکھے گا ورنا نظر انداز کر دے گا ۔


یہ سب ذات اقدس سے دوری کی نشانیاں ہیں۔
اکثر پڑھا ہے اور سنا بھی ہے کہ
"نیکی کر دریا میں ڈال"
"ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے کو پتا نہ چلے"
اس طرح کے بیشمار اور جملے ہیں جو ہماری زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہم ان کے لغوی معنی سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔
مندرجہ بالا دونوں جملوں کا مطلب حقیقت میں ایک ہی ہے ۔

کہ اگر تو کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے تو مکمل پوشیدگی میں اسکی مدد کر۔
کبھی بھی مشہوری کے ساتھ ایسا کام نہ کر۔
مگر آج کا انسان زندگی کے اس مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہے۔وہ تو نیکی کے کام کرتا ہی اس واسطے ہے کہ معاشرے میں اس کے نام کی جے جے کار ہو۔
ایسی خواہشات کی تکمیل کی خاطر وہ لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہیں۔
ہم بات کرتے ہیں رمضان شریف کی ،جس کی آمد آمد ہے  .
رمضان شروع ہوتےہی لوگ ہوشیار ہو جاتے ہیں کہ آگیا وہ مہینہ جس میں میری حثیت کی بھر پور طریقے سے مشہوری ہو سکے گی اور پھر دھڑا دھڑ شروع ہو جاتے ہیں لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے،
روزہ افطاری کی بات کریں تو صاحب حثیت لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے ہم پلہ لوگوں کو دعوت دی جائے تاکہ انہیں دکھایا جا سکے کہ معاشرے میں ان کی کیا حثیت ہے۔


اور اگر دل چاہے کہ کسی غریب کی افطاری کروائی جائے تو اس صورت میں وہ احتمام کرتے ہیں کسی پبلک پلیس پر تاکہ آنے جانے والے تمام افراد دیکھ سکیں کہ فلاں شخص افطاری کروا رہا ہے۔
یہاں میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ اس طرح کرنے والے سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔جیسے پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ویسے ہی سب انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔


بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف اور صرف الہی خوشنوی کے لیے اس طرح کے کام کرتے ہیں۔
اس تحریر میں میرا اشارہ خاص طور پر ان لوگوں کی طرف ہے جو فقط اپنی نمود و نمائش کے کسی موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے
اور پھر ایسے ایسے کام کر گزرتے ہیں جس سے ایک مستحق شخص کی تزلیل ہو تی ہے۔
میرا مطلب ہے کہ اس مبارک ماہ میں اکثر دولت کے پجاری مستحق افراد کو جمع کرتے ہیں اور اپنے نام کا خوبصورت فیلکس لگا کر اس کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں تحائف پیش کرتے ہیں جس کے دوران بننے والی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر upload ہو رہی ہوتی ہیں جس سے وہ لوگوں کی بےشمار ہمدردیاں حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔

مگر یہ سب کرنے سے وہ غریب کی غریبی کو دنیا کے سامنے ننگا کر رہے ہوتے ہیں۔
معاشرے میں ایسے ایسے خوددار لوگ بھی ہیں جن کو اگر معلوم ہو کہ ان کے ساتھ ایسا ہونے والا ہے تو وہ کبھی بھی اس طرح کی مدد حاصل نہ کریں  کیونکہ وہ بھوکا رہنا تو برداشت کر لیں گے پر کبھی بھی اپنی تزلیل برداشت نہیں کریں گیں۔
اگر بات کریں عبادت خانوں کی تو وہاں بھی شہرت کے دلدادہ موقع ضائع نہیں جانے دیتے
بلکہ بڑی شان سے اپنی جیب سے بٹوا نکالتے ہوئے دوسروں پر نظر گماتے ہوئے نوٹ چندے کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں اور لوگوں پے اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔


ایک دفعہ میں کسی کے گھر عید کی مبارک باد دینے گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ پانچ عدد بکرے زبع کیے جارہے تھے اور کچھ لوگ گوشت حاصل کرنے کے لیے کھڑے تھے۔
کچھ ہی دیر میں قربانی کا گوشت تیار ہوا تو قصابوں کو جس طرح کہا گیا تھا وہ کر رہے تھے ۔
بکرے کی رانوں کو محفوظ کیا جارہا تھا میں نے سوچا کہ گوشت ذیادہ ہے اس لیے بڑے بڑے ٹکڑے لوگوں کو دیے جائیں گے۔


مگر ہوا کچھ اس طرح کہ وہ سارے بڑے گوشت کے ٹکڑوں کو اندر لے گے۔ ہوچھنے پے پتا چلا کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے گھر سے اس طرح کی ٹکڑے وصول ہونگے ۔
پھر باہر کھڑے ہوئے لوگوں میں گوشت تقسیم ہونے لگا دو دو بوٹیاں پکڑا کر رخصت کیا، یہ سب دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ ہے ہماری قربانی۔۔۔۔۔۔
یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دوست سے رخصت طلب کی اور روانہ ہوا ۔

اور یہ سوچتا جارہا تھا کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟
اسی سوچ بچار میں چلتا جا رہا تھا کہ میری نظر اچانک دو بچوں پر پڑی جو گندگی کے ڈھیر سے کھانے کی چیزیں اٹھا رہے تھے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آگیا کہ یہ کیسی زندگی ہے ؟
کسی کے پاس اتنا ہے کہ اس سے سنبھالنا مشکل ہے اور پھینک رہا ہے کچرے کے ڈھیروں پے اور دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جن کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہیں اور وہ کچرے کے ڈھیروں سے اٹھا اٹھا کر کھاتے ہیں۔


یہ ہے ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت جو ان دونوں بچوں کی بے بسی کے ذریعے ہماری ظاہری نمود و نمائش کو پھٹکار رہا تھا۔
غرض جس طرف بھی دیکھیں ناانصافی منہ چڑھاتی دکھائی دیتی ہے۔
مگر مجال ہے کہ ہم پر کچھ اثر ہو،
واضح کرتا جاوں کہ جہاں اس طرح کے لوگوں سے دنیا بھری ہوئی ہے وہاں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو خلق خدا کی مدد میں اس طرح مصروف عمل ہیں کہ مدد پانے والوں کو یہ تک پتا نہیں چلتا کہ انہیں ملنے والی مدد کس نے دی ہے۔


ایسے ہی لوگوں کی بدولت از روئے زمین پے اللہ پاک کا کرم قائم ہے ورنہ ہم کہاں اس قابل کہ اس طرح زندگیاں بسر کر سکتے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ بہت ہو گیا "خود پرستی کو پوجھنا"
خدارا ہوش کے ناخن لیں اور خود پرستی کو ترک کر کے اللہ کی خوشنودی کی خاطر کوشاں رہیں اور دوسروں کو وہ عزت دیں جس کے ہم خود طلبگار ہوتے ہیں۔
روپے پیسے کی خماری سے باہر نکلیں ،جو آپ کا نہیں اس رب کا عطا کردہ ہے وہ جب چاہے واپس لے لے۔


اس لیے وقت ہے کہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کریں اور پھر بھر پور کوشش کریں کہ اس میں کمی واقع کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں ۔
یہی وہ راہ ہے جس پے چل کے کر ہم اللہ پاک کی حقیقی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔جس سے وہ  ذات اقدس ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھول دے گی۔
دعا ہے بارگاہ الہی میں کے وہ کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :