تعلیمی اداروں کی بندش

جمعرات 18 مارچ 2021

Anwar Hadayat

انور ہدایت

اس عنوان ہے غور کیا جائے اور سوشل میڈیا کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص اپنے ہی انداز سے اس پے بات کرتا ہوا نظر آتا ہے اور پھر ایسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ جو یہ بات کہہ رہا ہے سچ ہے باقی سب جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کی خبروں کو پڑھتے اور سنتے ایک سال ہو گیا ہے اب تو صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکام بالا کے جاری کردہ فیصلوں کے جوابات وقت سے پہلے ہی تیار کر لیتے ہیں۔


ایسا کیوں ہے؟
یہ اس لیے ہے کہ عوام اس طرح کے فیصلے سن سن کر عادی ہو گئی ہے اور اسے پتا چل گیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کون سا فیصلہ آنے والا ہے۔
اس مرتبہ تعلیمی اداروں کی بندش کے اعلان کے جواب میں جب طلبا نے کہا کہ " لو جی پھر لمبی بندش ہو گی" تو میں یہ سن کر حیران نہیں ہوا کیونکہ ہمارے طلبا بھی تو اسی دور کی پیدا وار ہیں۔

(جاری ہے)


طلبا کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی کسی سخت رد عمل کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے کہا
"اللہ خیر کرے گا"
مگر اس کے بعد کافی دیر اسی سوچ بچار میں رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
وطن عزیز کو خدانخواستہ ان پڑھ اور گنوار نسل دینے کی سازش تو نہیں کی جا رہی۔


کیا قائداعظم کی محنت،
علامہ اقبال کا خواب،
یا سر سید احمد خان کی فروغ تعلیم کی جدوجہد کوفراموش کرنے کی کوشش تو نہیں،
پھر طویل سوچ بچار کے بعد خیال آیا کہ شاید ہو سکتا ہے کہ طلبا کو محفوظ رکھنے کی ہی کاوش ہے۔ کیونکہ اگر بچے صحت مند ہونگے تب ہی پڑھ سکیں گے،
بیمار بچے کیسے اپنی پڑھائی جاری وساری رکھ سکتے ہیں
یہ بالکل سو فیصد درست بات ہے جس کو نظر انداز کرنا کسی حماقت سے کم نہ تھا۔


اور پھر گورنمنٹ نے بھی تو اس طرح کی بندش کے فیصلے کوئی خوشی سے تو نہیں کیے ان کو بھی تو احساس ہے کہ اس سے معیار تعلیم کس طرح تباہ ہو سکتا ہے۔ مگر وہ مجبور تھے۔
ان کی سب مجبوریاں اگر ہم کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ کے دیکھیں کہ اس سارے عمل سے فوائد کتنے ہیں اور نقصانات کتنے ہیں؟
میرے خیال کے مطابق فوائد کی نسبت نقصانات کی شرح ذیادہ اور تباہ کن ہے۔


مگر یہ سب اس وقت نظر آئے گا جب ہم حقیقت کا چشمہ لگا کر چیزوں کو پرکھنے کی کوشش کریں۔
بات کرتے ہیں فروری 2020 میں ہونے والی تعلیمی اداروں کی بندش پر،
جب اس وقت ادارے بند کیے گئے تو حکم صادر کیا گیا کہ طلبا کو آن لائن پڑھایا جائے اور پھر تمام ادرے شروع ہو گے اس کام کو سر انجام دینے۔ اور مختلف زرائع کا استعمال کرتے ہوئے طلبا کو پڑھانا شروع کیا۔


اب اگر میں آپ سے یہ سوال پوچھوں کہ آپ کے خیال کے مطابق کتنے فیصد طلبا مستفید ہوئے تو جواب غیر یقینی سا ہو گا ۔
کیونکہ تمام طلبا کے پاس ایک اچھے موبائل فون کا ہونا ممکن نہیں اور اگر ہے بھی تو انٹرنیٹ  کی مسلسل دستیابی بھی ایک مسلئہ ہے ۔
یہ درست ہے کہ اکثر لوگوں سے اس موضوع پر بات تو انہوں نے جواب دیا کہ موبائل تو آجکل کوڑا اٹھا نے والوں کے پاس بھی ہے۔

میں نے کہا آپ درست فرما رہے ہیں مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو موبائل تو کیا وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کے کھلا بھی نہیں سکتے وہ اپنے بچوں کو اس طرح کی سہولتیں کہاں سے مہیا کریں۔
غرض کہ اس طرح کے بیشمار مسائل نے جنم لیا اور ان کے حل بھی تلاش کیے گئے مگر نتیجہ خاطر خواہ حاصل نہ ہو سکا
میں خود بھی شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوں اور اس دوران آن لائن پڑھا نے کے عمل میں شامل تھا جس کے دوران دیکھا گیا کہ اکثر طلبا اپنے آپ کو اپنے موبائل پے Activeکرکے اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے تھے اور معلم کو یہی معلوم ہوتا تھا کہ طلب علم کلاس ہڑھنے میں مصروف ہے۔


یہاں والدین بچارے بھی کیا کرتے اپنے کام کاج کرتے کہ ان کی نگرانی۔۔۔۔۔
لہذا اس سارے عمل کے دوران دیکھا جائے تو طلبا کا کافی نقصان ہو چکا ہے جس اندازہ لگانا دشوار ہے۔
اور پھر اس سارے سلسلے کے بعد امتحان لینے کا آغاذ ہوا تو طلبا میں خوشی کی لہر دوڑی کہ تمام پرچے نقل کر کے ہوں گے اور ایسا ہی ہوا
کتابیں کھوکنا تو درکنار طلبا نے اپنے پرچے دوسروں سے حل کروا لیے اور نتیجہ پاس نکلا۔


جس سے طلبا اور ان کے والدین دونوں خوش ہوگئے۔
مگر حقیقت کیا ہے وہ یہ ہے کہ طلبا پاس تو ہو گے مگر سمجھا کچھ نہیں،سیکھا کچھ نہیں۔
ہاں البتہ طلبا نقل کرنے کی مہارتوں سے روشناس ضرور ہو گے ہیں جس سے معاشرے میں ایک بگڑی ہوئی نسل نے جنم لے لیا ہے۔جو پڑھائی سے باغی ہیں اور ایک طویل عرصہ کے بعد طلبا ابھی درسگاہوں میں اپنے آپ کو معمول پر لانے کی کوشش میں تھے کے دوبارہ تعلیمی اداروں کی بندش کا فرمان جاری ہو گیا اور والدین ہو گئے پریشان کہ ایک اور تعلیمی سال کا  نقصان۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تعلیمی ادارے بند ہوئے وہاں دوسری جانب تفریحی مقامات کی رونقیں اپنے عروج پر ہیں
جلسے، جلوس، دھرنے، شادیاں غرض یہ کہ سب ہر جگہ ہو رہا ہے ۔بس مسلئہ ہے تو صرف تعلیمی اداروں کا ، جہاں سب سے ذیادہ SOPsپر عمل درآمد ہوتا ہے اور اسی کو بند کرنے میں پہل کی جاتی ہے۔
ذرا غور طلب بات ہے کہ اس موذی مرض کی ویکسین پاکستان میں آچکی تھی تو اس کا بروقت اور مناسب استعمال کیوں نہیں ہوا جس کی وجہ سے ایک دفعہ پھر تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا۔


اور اب دوبارہ خبریں گردش میں ہیں کہ اس دفعہ پھر بغیر امتحان لیے اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی جائے گی۔
ذرا سوچیں کہ یہ فیصلہ طلبا کے حق میں درست ہے؟
نہیں ہر گز نہیں
کیونکہ جماعت نہم کو جماعت دہم میں ترقی دے دی گئی اور گیارہویں جماعت کو بارہویں میں، اور کہا گیا کہ اس سال ہونے والے امتحان کی بنیاد پر نتیجہ مرتب کیا جائے گا ۔

مگر اس فیصلے میں بھی ان طلبا کے متعلق سوچا نہیں گیا جنہوں نے مستقبل میں میڈیکل / انجرینگ کالج داخلہ لینا تھا ۔
اور اگر اس سال بھی ایسا ہوتا ہے تو محکمہ کس بنیاد پے اسناد جاری کرے گا؟
اور ان تمام طلبا کے مستقبل کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ،ان والدین کی خواہشات کو کون پورا کرے گا جن کے لیے وہ دن رات جدوجہد کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کسی مقام تک پہنچ سکے۔


مندرجہ بالا تمام سوالات کے جواب مجھے کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ ماسوائے اس کہ کہوں "اللہ بہتر کرے گا"
وہ ذات اقدس ضرور بہتر ہی کرتی ہے
مگر خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتا ہے۔
آخر میں میری درخواست ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملے میں پر نظرثانی کی جائے جہاں SOPs پر سب سے ذیادہ عمل کیا جاتا ہے۔
تاکہ طلبا کے مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے جن کے ہاتھوں میں کل پاکستان کا نظام ہو گا ۔
تمام حقائق آپ کے سامنے ہیں اور فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کا فرمان درست ہے یا غلط۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :