سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے

بدھ 24 مارچ 2021

Anwar Hadayat

انور ہدایت

جب میں سکول میں پڑھنے والا بچہ تھا تو یہ جملہ پڑھنے اور سننے کو ملتا تھا
جب کھبی بھی T V میں کسی شخص کو سگریٹ پیتا ہوا دکھاتے تو ساتھ چھوٹا سا یہ جملہ ضرور لکھتے تھے۔
اور ریڈیو میں جب کبھی کسی بھی سگریٹ کی مشہوری چلائی جاتی تو اس کے بعد ایک با رعب آواز یہ جملہ پڑھتی
سگریٹ نوشی مضر صحت ہے ( وزارت صحت)
ایک عرصہ گزر جانے کے بعد میں خود ایک معلم بن گیا ہوں اور یہ جملہ آج بھی اسی طرح استعمال ہو رہا ہے۔


ایسا کیوں یے؟
جبکہ اس جملے میں ایک  سبق موجود ہے ۔
اس میں واضح طور پر سمجھایا جا چکا ہے کہ اس سے انسانی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اس کا  ذیادہ استعمال انسان کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے اور بالآخر موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔

(جاری ہے)


عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ہمارے لیے نقصان دے ہے۔
آج ہم اسی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ ایسے کون سے عناصر تھے اور ہیں جن کی موجودگی سے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور نا ہی کبھی عمل کروانے کی کوشش کی گئی۔


آئیے اس راز سے پردہ اٹھا نے کی کوشش کرتے ہیں۔
آغاذ ایک مثال کی مدد سے کروں گا
جب ہم طلبا کو سائنس کا مضمون پڑھاتے ہیں تو ہمیں وضاحت کے  لیے ان  کے سامنے عملی کام کرنے پڑتے ہیں تاکہ طلبا سمجھ سکیں کہ جو پڑھایا گیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درس و تدریس میں اگر کسی چیز کو سمجھانا مقصود ہو تو اس کا عملی مظاہرہ کرنا اور ان سے کروانا ایک لازمی جزو ہوتا ہے جس کے بغیر درس و تدریس کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا ۔


تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ایک جملہ لکھ دینے سے اور خوبصورت آواز میں پڑھ دینے سے عوام اس پر عمل  پیرا ہو جائے۔
ایسا ہرگز نہیں ہو گا کیونکہ ماضی سے لے کر دور حاضر تک سگریٹ بنانے والی تمام فیکٹریاں بھاری رقوم ٹیکس کی مد میں دیتی ہیں۔
اور پھر اگر اشتہار چلانے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کام کیوں کرتے ہیں؟
تو جواب ملتا ہے کہ ہماری سرکار انہیں بنانے کی اجازت دیتی ہے اور ہم اپنی روزی روٹی کے لیے اشتہار چلا دیتے ہیں اگر وہ اجازت نہ دیں تو ہم اشتہار کیسے چلا سکتے ہیں۔


اور ساتھ معصوم وضاحت دیتے ہیں کہ ہم ان کے اشتہار کے ساتھ وزارت صحت کا پیغام بھی تو چلاتے ہیں "سگریٹ نوشی مضر صحت ہے"
اب یہاں پے ان لوگوں کو ہی قصور وار ٹھہرانا بھی کم عقلی کا ثبوت ہو گا ۔
دیکھا جائے تو کسی حد تک وہ بھی اپنی جگہ درست ہیں۔اگر ایک کمپنی ان کے اشتہار نہیں چلاتی تو دوسری چلائے گی اور دوسری نہیں تو تیسری ، اس طرح ان کا کام تو روکا نہیں جا سکے گا اگر روکیں تو کس قانون کے تحت؟
کیونکہ قانون ساز ادارے تو خود ان کو اجازت نامہ فراہم کرتے ہیں کہ وہ سگریٹ بنانے کی فیکٹریاں لگائیں
اس طرح کی سر پرستی کرنے سے حکومتی خزانے میں عربوں روپے ٹیکس کی مد میں آتے ہیں۔


زندگی میں جب کبھی بھی اس کی روک تھام کے لیے کسی بھی مہم کا آغاذ ہوتا ہے تو اس وقت میں دل کھول کر ہنستا ہوں یہ سوچ کر کہ اس سے بڑا مذاق ہو ہی نہیں سکتا ۔
کارخانوں میں دھڑا دھڑ بنایا جائے اور پھر کہا جائے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے ،یہ مذاق نہیں تو کیا ہے؟
مدتوں سے نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔
اگر مشاہدہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ ہماری نوجوان نسل نہ صرف سگریٹ بلکہ اس طرح کے بیشمار اور نشوں میں الجھی ہوئی ہے۔


اور ایسا کرنے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ ایسا کرنے سے اپنے والدین کے خوابوں کا گلا گھونٹتے ہیں اور یہ راستہ انہیں تباہی کی جانب ہاتھ تھامے لیے جا رہا ہوتا ہے۔ جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔
یوں تو بیشمار نشے نت نئے ناموں سے وطن عزیز میں دستیاب ہیں۔
ان میں سے اگر ہم بات کریں شراب کی جو سرےعام تیار ہو رہی ہے اور باآسانی نامور ہوٹلز میں فروخت کا کام بھی عروج پر ہے۔


اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ شراب حرام ہے۔
یہ سب کر کے ہم عوام کو کیوں بیوقوف بنا رہے ہیں؟
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ یوٹیوب پر میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ویڈیو بنانے والا ایک ہوٹل کے باہر ویڈیو بنا رہا تھا جس میں لوگ شراب خریدنے آ جا رہے تھے وہ ان سے سولات کر رہا تھا کہ آپ یہاں سے خرید کر آگے کاروبار کرتے ہو یا خود پیتے ہو تو وہ پر اعتماد طریقے سے جواب دیتے تھے نہیں ہم خو اپنے پینے کے لیے خریدتے ہیں۔


پھر اس نے ایک اور سوال کیا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے تو بتایا 25000روپے
یہاں آپ خود سوچیں اتنی تنخواہ وصول کرنے والے میں ہمت ہے کہ وہ شراب خرید کر پی سکے, ہر گز نہیں، وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے یا شراب پی لے ۔کوئی ایک کام ہو سکتا ہے۔
پھر آپ خود سوچیں کہ وہ ایسا کام کیوں کرتے ہیں اگر خود کے لیے نہیں تو پھر کس کے لیے؟
یہاں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی کے لیے خریدتا ہے، وہ یہ کام خود نہیں بلکہ کوئی دوسرا اس سے کرواتا۔


کیونکہ اس کی اتنی حثیت ہی نہیں، تنخواہ مزدور کی اور نخرے نوابوں کے، کیسے ممکن ہے۔
اس سارے عمل میں غریب بدنام ہوتا ہے ۔
یہاں بھی دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ ان ہوٹلز کو اجازت نامہ کون فراہم کرتا ہے کہ سرعام شراب کی فروخت کریں ۔
وہ سیانے کہتے ہیں نا "قمیص اٹھانےسے اپنا پیٹ ہی ننگا ہوتا ہے"
یہ ہمارے ملک میں آتی کہاں سے ہے؟
صاحب ! جہاں سے دوسری ممنوع اشیا آتی ہیں یہ بھی وہاں ہی سے آتی ہیں اور وطن عزیز میں بھی اس کی تیاری کے لیے فیکٹریاں موجود ہیں جو کہ لائسنس یافتہ ہیں۔


یہ سب کچھ ہونے کے بعد ہم کہیں کے ہماری نسل کو کون بچائے گا؟
ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا ،کیونکہ کوئی بیرونی طاقت ہماری نسل کو محفوظ کرنے نہیں آئے گی۔
دیکھیں ہم ان سب نشہ آور چیزوں کو فراہم کرنے والوں کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے،اگر ایسا کرتے ہیں تو قصور وار ہم ہی گردانیں جائیں گے اور بعد میں مختلف وضاحتوں کے ساتھ چپ کرا دیا جائے گا۔


اور پھر ہو سکتا ہے اس جرم کی بھاری سزا بھی مقدر بن جائے۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ اگر کچھ ہو نہیں سکتا تو پھر اتنا سارا لکھنے کا کیا مقصد؟
میرے لکھنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ سارے کھیل کی وضاحت کی جا سکے اور پھر اس کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اولاد کے ساتھ اپنے رویے بہتر بنائیں تاکہ وہ اپنے مسائل ہمارے ساتھ شئیر کرتے دقت محسوس نہ کریں ،تب جا کے ہم اس قابل ہونگے کہ ان کی بہتر راہنمائی کر سکیں  اور اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری اولاد کبھی بھی بے راہروی کا شکار نہیں ہو پائے گی۔
اللہ تعالی ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسل کو اس مہلک مرض سے محفوظ رکھے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :