لاش ماں کی گود میں

منگل 23 فروری 2021

Anwar Hadayat

انور ہدایت

عنوان پڑھتے ہی آپ پریشان ہو گئے ہونگے کہ یہ کیسا عنوان ہے اور کس کی لاش ماں کی گود میں ہے؟
ان سوالوں کے جواب کی وضاحت ہم ضرور کریں گے ۔
میرا مطلب اولاد کی لاش ماں کی گود میں ہے۔یہ والدین کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوتا ہے کہ جب والدین اپنی اولاد کا آخری سفر دیکھیں۔
یہ ہمارے والدین کے لیے برداشت کرنا بہت دشوار ہے ۔

کیونکہ والدین ہمیشہ سے اپنی اولاد کی ہر روز خوشیاں دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔
اور اس خیال سے بھی ان کی جان جاتی ہے اس لیے وہ اپنی اولاد کی حفاظت ہر ممکن طریقے سے کرتے ہیں اور اگر کبھی بچہ جسمانی کمزوری کا شکار ہو تو وہ اسے ہر اس جگہ لے جاتے ہیں جہاں سے پتا چلے کہ اس کا علاج ممکن ہے۔اس کے لیے چاہے جتنے بھی پیسے خرچ کرنے پڑیں کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

علاج معالجے کے لیے قرض مانگنے کی ضرورت پڑے تو گریز نہیں کرتے  ۔
یہ ایک جسمانی کمزوری کی بات ہے جس کی وجہ سے والدین کو اپنی پروا تک نہیں رہتی اور اگر خدانخواستہ اگر وہ کسی بیماری کا شکار ہو تو ان پے کیا گزرتی ہے؟
یہ والدین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
دو سال پہلے کی بات ہے کہ مجھے سندس فاونڈیشن Sundas Foundation گجرات جانے کا موقع ملا جہاں تھیلیسیمیا کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔


وہاں یوں تو کافی مریضوں سے ملاقات ہوئی مگر وہاں میں ایک ایسی بھی بچی سے ملا
جس سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ انسان اس قدر بھی گر سکتا ہے کہ جہاں اسے خودغرضی اور لالچ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔
وہ ننھی بچی اپنی ماں کی گود میں تھی جو تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا تھی ۔اور ماں بھی کوئی ذیادہ عمر کی نظر نہیں آتی تھی
میرا مطلب ہے ابھی وہ نوجوان تھی۔


ہوچھنے سے معلوم ہوا کہ وہ بچی پیدائشی تھیلیسیمیا کی مرضیہ ہے اور جب اس بیماری کا اس کے سسرال والوں کو علم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے ختم کر دیا جائے مگر ماں ڈھال بن کر اپنی بیٹی کے سامنے کھڑی ہوگئی
ماں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے بجائے اس کے کہ اس کی تعریف کی جاتی اور اسے دلاسا دیا جاتا انہوں نے اس کو حکم صادر کیا کہ اگر تو ہمارے راستے میں رکاوٹ بنے گی تو ہم تجھے دھکے مار کر گھر سے نکال دیں گے۔


ماں آخر ماں تھی کیسے برداشت کر سکتی تھی کی اس کی بیٹی کو وہ اس کے سامنے مار دیں ۔
تب اس نے وہ کڑوا زہر پینا پسند کیا جو ایک بیوی کبھی بھی سوچ نہیں سکتی کہ وہ جیتے جی اپنے خاوند سے جدا ہو ،
اپنی بیٹی کو لے کے سسرال سے نکل آئی کے میں خود اسے پال لوں گی۔
اور لگی تلاش کرنے کسی مسیحا کا جو اس کی بیٹی کو اس موذی مرض سے مخلصی عطا فرمائے اور بالآخر وہ اس ادارے میں پہنچ گئی جہاں اس کی بیٹی کا علاج مفت ہو رہا تھا ۔


ماں کے حوصلے کو دیکھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہوگئیں مگر آنسوں کو جذب کرتے ہوئے اسے حوصلہ دیا اور مذید پوچھا کہ کیا آپ کو اس بیماری کی حقیقت کا علم ہے کہ یہ کیسی بیماری ہے؟ اور کیا اس کا مکمل علاج ہے بھی یا نہیں اور اس نے ایک ٹھنڈی  سانس لیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے مجھے یہ بیٹی عطا کی ہے اور یہ بیماری بھی اسی کی دین ہے ،جہاں تک ہو سکا میں اس کی بیماری سے جنگ لڑونگی ،،،،،،،آگے اس کی مرضی وہ غفور و رحیم ہے
جو چاہے کر سکتا ہے۔


یہ سب دیکھ کر دل بے ساختہ کہہ اٹھا ماں ماں ہے ماں جیسا دنیا میں کوئی نہیں۔
مگر اس کے برعکس آج ہم دور حاضر کی اولاد پر نظر ڈالیں تو وہ اپنی ہی رنگ رلیوں میں مست ہیں۔
میں بات کروں گا G.T.Road پر ہونے والے ڈراموں کی جس کو ہم ون ویلنگ One Wheeling کہتے ہیں۔
آجکل یہ کثیر تعداد اس شغل میں مصروف ہے۔
لگی شغل اس لیے لکھا ہے کیونکہ جب کبھی بھی ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم موج مستی کر رہے ہیں۔

اور یہ سب کرنے کے بعد وہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ویڈیو بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پے اپ لوڈ کرتے ہیں جس کے فخر محسوس کرتے ہیں۔مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس طرح کی حماقتوں سے دوسرے بچوں کو بھی تباہی کی راہ پے گامزن کرتے ہیں۔
اس طرح دیکھا دیکھی یہ بیماری اب پورے وطن عزیز میں عام ہوتی جا رہی ہے۔
جس کو موت کا کھیل کہیں تو غلط نہیں ہو گا۔


اس کی روک تھام کے لیے کوئی جامع قانون سامنے نہیں آیا ۔
اس سلسلے میں میری ملاقات موٹر وے پولیس کے آفیسر سے ہوئی جس میں میں نے ان سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں ان لوگوں کو نہیں روکتے؟
آئے دن انگنت حادثات ہو رہے ہیں تو انہوں نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ ہم ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جب کبھی بھی ان کو روکنے کی غرض سے ان کا پیچھا کرتے ہیں تو وہ اس وقت مذید تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بڑے حادثے کا شکار نہ ہو جائیں
اسلیے ہم انہیں ڈراتے دھمکاتے ضرور ہیں۔


مذید وضاحت کی کہ جب تک ان کے خلاف کوئی باقائدہ قانون سازی نہ ہو اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا۔
اور اگر کبھی کسی کو پکڑ بھی لیں تو دوسرے ہی لمحے والدین یہ کہہ کہ لے جاتے ہیں کہ بچے ہیں غلطی ہو گئی ہے ائندہ احتیاط کریں گے۔
میرے خیال ہے کہ ایسے بچوں کے خلاف  سخت کاروئی عمل میں لانی ضروری ہے۔ تاکہ اس خونی کھیل کو روکا جاسکے۔
بچے ذرا بھی خیال نہیں کرتے کہ اگر خدانخواستہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا  تو ان کے والدین کا کیا ہوگا؟ بس انہیں تو اپنی من مانی کی فکر رہتی ہے۔


وہ کبھی نہیں سوچتے کہ ماں صبح سویرے اپنے لخت جگر کو جگاکر ناشتہ کرواتی ہے اور سکول/کالج کے لیے دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی ہے۔ مگر اس بیچاری کو کیا پتا کہ سکول/کالج کا تو اک بہانہ ہی ہوتا ہے اصل میں وہ تو اپنی رنگ رلیوں کے لیے نکل رہا ہوتا ہے۔
بیٹے کے جانے کے بعد ماں تو بچوں کی واپسی کی راہ دیکھنے لگ جاتی ہے کہ ابھی میری اولاد آئے گی اس کے لیے کھانا تیار کرنا ہے کپڑے تیار کرنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔


مگر ذرا سوچیں اس وقت ماں کا کیا حال ہوتا ہے  ۔ جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کا بیٹا اپنے پاوں پر نہیں بلکہ کسی کے کندھوں پر آیا ہے
وہ لمحہ والدین کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا اور اگر کسی کی جان بچی ہوئی ہو تو وہ باقی زندگی اپاہج بن کر گزارتا ہے ۔
اس طرح کے حادثے سڑکوں پر آئے دن ہوتے رہتے ہیں مگر سوال نہیں پیدا ہوتا کہ ہمارے نوجوان ان سے کوئی سبق حاصل کریں۔


وہ خود تو مرتے ہیں اور اپنے ساتھ کئی اور جانیں لے جاتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
یہ خونی کھیل کب تک کھیلا جاتا رہے گا؟
خدارا کوئی تو ہو جو اس کھیل کو روکےکیونکہ آئے روز کئی مائیں بے اولاد ہو جاتی ہیں
کوئی تو ان کی فریا سنے،،،،،،یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟
میرے خیال میں دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں جو انسان کرنا چاہے اور کر نہ سکے کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔


مگر اس خونی کھیل کو ختم کرنے کے لیے فرد واحد کی کاوش سے کام نہیں چل سکے گا بلکہ اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا
جس میں والدین ، اساتذہ کرام اور انتظامیہ شامل ہیں۔
اگر والدین اپنے بچوں کی ترتیب اچھے طریقے سے کریں کہ ان میں اپنے اچھے برے کی تمیز کرنا آجائے تو میرا نہیں خیال کہ وہ کسی کی بات نہ سنیں ۔ اور مذید اپنے بچوں کو دی جانے والی موٹر سائیکل کو چیک کرتے رہیں کہ اس کا استعمال کیسا کیا جا رہا ہے۔

اگر کوئی شک ہو تو بروقت اصلاح کریں ۔
کیونکہ ہوتا یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں پر خرچ تو کرتے ہیں مگر دھیان نہیں رکھ پاتے جس کی وجہ سے اکثر بچے بےراہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خدارا اپنے بچوں کے ساتھ اپنے رشتوں کو مضبوط بنائیں اور انہیں راہ راست پے چلنے کی تلقین کریں۔
اور اساتذہ کرام کا بھی فرض ہے کہ اپنے طلبا پر تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح پر خصوصی توجہ دیں اور اگر کسی بری عادت کو دیکھیں تو ان کی بہتر سطور پر راہنمائی کی جائے اور ہو سکے تو ان کے والدین کو بھی بروقت مطلع کیا جائے۔


میرے خیال کے مطابق اگر اس طرح ہو جائے تو ہم اپنی نوجوان نسل کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اور پھر ہمیں کسی قانون کا بھی سہارا نہیں لینا پڑے گا اور ہم اپنے بچوں کو کامیاب زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہو سکیں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :