اپنے رب سے تعلق قائم کریں
جمعہ 22 جنوری 2016
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
(جاری ہے)
انسان کے اندر یہ رویے اور خصوصیات اُس کی تخلیق کے ساتھ ہی رکھ دئے گئے ہیں یعنی BY DEFAULT انسا ن میں موجود ہیں۔ یہ اس کی سرشت میں ہیں جسے آپ انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں۔ جب انسانوں میں بے وفائی، ناشکراپن، احسان فراموش، مفاد پرست اور حسد جیسے جذبات پیدائشی طور پر موجود ہوتے ہیں تو پھر شکوہ یا گلہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بقول میاں محمد بخش کہ آدم ہمیشہ سے بے وفا ہے۔ انسان کی تخلیق کے وقت فرشتوں کا یہی اعتراض تھا کہ ایسی مخلوق پیدا کی جارہی ہے جس میں شر پھیلانے کا اختیار ہوگا۔ فرشتوں کا خالق انسان اورکائنات نے کیا خوب جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس انسان میں نیکی اور بدی دونوں کو اختیار کرنے کی صلاحیت ہی اسے دیگر مخلوقات سے اشرف بنائے گی۔ اسلام رہبانیت نہیں سکھاتا کہ انسان دوسروں سے کٹ کر تنہائی میں زندگی گذارے بلکہ اسلام معاشرہ میں دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق اور طرز عمل کے ساتھ جینے کا درس دیتا ہے۔
رب العزت نے جب انسان کو بنایا تو ساتھ ایک ہدایت نامہ بھی دے دیا اور واضع طور پر بتا دیا کہ جوانسان اس ہدایت پر عمل کریں گے وہ اپنی ان خامیوں پر قابو سکیں گے۔ ان خامیوں پر وہی لوگ قابو پاسکتے ہیں جو وحی خداوندی کو اپنی زندگی کا نصب العین بناتے ہیں ۔ایک روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے۔ صحابہ اکرام نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایاکہ ہا ں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے لیکن میں نے اپنے شیطان کو مسلمان کرلیا ہے۔رسول پاک نے کیا زریں اصول بتایا ہے جس سے انسان اپنے منفی جذبات اور خیالات کو مثبت خوبیوں میں بدل سکتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب انسان اپنا اور اپنے خالق کا تعلق سمجھتا ہے جو عبد کا معبود سے تعلق ہے۔ انسان جب اپنی تخلیق پر غور کرتا ہے اور اپنے آپ کو پہچانتا ہے تو وہ پھراپنے رب کو بھی پہچان سکتا ہے۔ قرآن پاک اسی پر غور کرنے کو کہتا ہے کہ اے انسان تو اپنی تخلیق پر غور کر۔ علامہ اقبال نے اپنے آپ کو پہچانے کے لیے خود ی کی اصطلاح استعمال کی۔ اُن کے مطابق خودی سے مراد اطاعت الہی، محبت رسول، ضبط نفس ، نیابت الہی اور تسخیر کائنات ہے۔ یہ تزکیہ نفس سے انسانی حد تک اللہ کے صفات کے کردار کی تعمیر ہے۔ جب اپنی رضا کو رب کی رضا کے مطابق کرلیا جاتا ہے تو پھر رب پوچھتا ہے کی اب تو بتا تیری کیا مرضی ہے۔ پھر وہ مقام آتا ہے کہ جو سورہ الزمر کی آیت ۳۶ میں ہے کہ کیا بندے کے لیے اللہ کافی نہیں۔بندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق بندگی سے پیدا ہوتا ہے یعنی
زندگی بے بندگی شرمندگی
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن، یا بندہ زمانہ
کچھ نیں نبھناں بندیا نال
رکھیں ثابت صدق اعمال
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.