یہ ایک المیہ ہے کہ ہم نے علامہ اقبال کو محض ایک شاعر سمجھا اور یہی ان کا تعارف بنا دیاہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم انہیں شاعر مشرق کا مقام دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعر نہیں تھے اور اگر ہم نے اپنی قوم کوفکر اقبال سے روشناس کروایا ہوتا تو انتہا پسندی، عدم برداشت، بے راہ روی اور دین کی اصل تعلیمات سے دوری کی جو فصل ہم کاٹ رہے ہیں اس سے ہمیں چھٹکارا مل جاتا ۔
در حقیقت اقبال پیامبر قرآن تھے اور ان کا سب سے بڑ ا کارنامہ یہی تھا کہ انہوں نے امت مسلمہ کا تعلق قرآن حکیم سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے غیر قرآنی تصورات کو مسترد کیا اور عشق مصطفے ٰ ﷺ کی شمع کو قلوب میں منور کرنے کی کوشش کی۔قوم کی حالت زار دیکھ کر وہ افسوس کا اظہا رکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسلمان! تو صوفی اور ملا کے فریب اور کم نگاہی کا غلام ہے اور قرآن کی حکمت سے پیغام حیات اور زندگی بسر کرنے کا طریقہ حاصل نہیں کر رہا۔
(جاری ہے)
تمہارا تعلق تو قرآن کی آیات سے صرف اتنا سارہ گیا ہے کہ تمہارے ہاں کسی پر جب نزع کا عالم ہوتا ہے تو سور ہ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے کہ مرنے والے کی جان آسانی سے نکل جائے۔ وہ فرماتے ہیں
بہ بند صو فی و ملا اسیر ی
حیات از حکمت قرآں نگیر ی
بآ یا تش تراکار ی جزایں نیست
کہ از یسینِ اْو آساں بمیر ی
ہم اپنی نوجوان نسل کو اقبال پڑھاتے ہی کتنا ہیں؟ چند عام ہی نظمیں اور کچھ اشعار پڑھا کر ہماری توقع یہ ہے کہ نوجوان اقبال کے شاہین بنیں۔
ہم سے اتنا بھی نہیں کہ ہم تعلیمی نصاب میں خضرراہ، طلوع اسلام، ابلیس کی مجلس شوریٰ، اجتہاد، خطاب بہ جوانان اسلام ، ساقی نامہ، مسجد قرطبہ میں لکھی گئی دعا، جواب شکوہ ، پیرو مرید اور مسجد قرطبہ ہی شامل کردیتے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اگر ہم کلام اقبال سے یہ نظمیں پڑھا تے تو دیکھتے کیسی قوم تیار ہوتی۔ یونیورسٹی سطح پر خطبات اقبال کو شامل نصاب کرنے سے مستقبل کی نسل میں ایک تحقیق و جستجو کے نئے دروازے کھلتے اور ان کا دین کے بارے میں فہم بہت بہتر ہوتا۔
فکر اقبال بے راہ رروری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور انسان دوستی، مساوات، برداشت اور محبت کا درس دیتی ہے۔ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں اور ان کے کلام میں ہر دور کے انسان کے لئے رہنمائی ہے۔ وہ قرآنی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہیں جو بے عملی، سستی، اور دوسروں کے دست نگر ہونے کی بجائے تحقیق، تفکر اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اقبال صرف مرض کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ آج ہر کوئی زوال امت کی بات کرتا ہے اور بُرے حالات کا رونا رویا جاتا ہے۔ بڑی لمبی بحثیں اورٹاک شو ہوتے ہیں۔ کمیشن بٹھائے جاتے ہیں لیکن اس دانائے راز نے ایک شعر میں وہ اہم وجہ بتا دی کہ
باقی نہ رہی تیری آئینہ ضمیری
اے کشتہء سلطانی و ملائی وپیری
انہوں نے درست کہا کہ ان تین چیزوں نے امت مسلمہ کو تباہ کیا ہے اور اگر پھر سے عروج حاصل کرنا ہے تو ان تینوں سے جان چھڑانی پڑے گی۔
انہوں کے قوموں کے عروج و زوال کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا اور قرآن پر ان کی نظر تھی اسی برملا کہا کہ جسے تم مقدس سمجھ رہے ہو اس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ خرابی کی وجہ بھی یہی ہیں وہ لکھتے ہیں
تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
قرآن انسان کو اس کے مقام سے آشنا کرتا ہے اور اقبال نے اسی کو اپنے کلام کا مرکزی موضوع بنایاہے۔
انسانی عظمت کے منافی تمام امور کا رد کرتے ہوئے وہ خودی ،عمل اور کردار سازی کی تعلیم دیتے ہیں۔آج ہر کوئی تعلیم کی کمی کو پستی اور زوال کی وجہ قرار دیتا ہے لیکن علامہ نے درست کہا کہ تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن ہمیں تربیت کی زیادہ ضرورت ہے۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کے پاس تعلیم اتنی زیادہ نہ تھی لیکن وہ وہ تربیت اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔
آج ہم میں تعلیم عام ہے لیکن تربیت کا یونیورسٹیوں میں بھی فقدان ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تربیت اور کردار سے عاری ہیں۔ دولت سے ہم تعلیم خرید سکتے ہیں تربیت نہیں۔پورے ملک میں کرپشن اور صادق وامین پر باتیں اور بحث ہوتی ہے۔کئی تو ان کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جن اقوام نے اس کی روح کو پا لیا وہی دنیا میں قابل عزت ہیں۔
سویڈن کی نائب وزیر اعظم مونا سیلن نے سرکاری رقم سے کچھ ذاتی اشیاء خریدیں اور اپنے بچوں کی فیس ادا کی بعد میں انہوں نے وہ رقم واپس کردی اور معافی بھی مانگی لیکن اس حرکت کی وجہ سے وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئیں اور ان کے کردار پر ہمیشہ کے لئے یہ ٹھپہ لگ گیا۔ سویڈن کی میڈیکل یونیورسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ میں ایک سرجن کی تعیناتی کرنے والے پورے بورڈ حتیٰ کہ وائس چانسلر اور مشاورتی کمیٹی کو برطرف کردیا گیا ۔
قصور یہ تھا کہ ایک نااہل کو ملازمت دی گئی تھی۔ پاکستان میں پانامہ لیکس کا قضیہ ابھی جاری ہے لیکن اگر یہی کچھ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ہوتا تو نہ صرف ذمہ دا ر بلکہ ان کی نسلیں بھی منہ چھپاتی پھرتیں۔ تعمیر جہاں سنگ و خشت سے نہیں ہوتی افکار و نظریات پر مبنی کردار و عمل سے ہوتی ہے اور فکر اقبال آج بھی اس ضمن میں مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔