
جب کھیت ویراں ہوں گے تو کھائیں گے کیا
جمعرات 29 جون 2017

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
کچھ امداد تو روایتی وراثت کی دیکھ بھال کے لئے بھی دی جاتی ہے جس کی تفصیلات کا مجھے خود اندازہ ہوا جب کچھ عرصہ سویڈن میں اس شعبہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔
زرعی شعبہ میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت نے کسانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک طرف کسان پٹواری کلچر اور افسر شاہی کے ہاتھوں خوار ہورہے ہیں دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے۔کھاد، کیڑے مار ادویات اور بیج من مانی قیمتوں پر فروخت ہورہے ہیں۔ پینسلین کا ٹیکہ جو پچاس روپے میں ہونا چاہیے وہ ایک ہزار روپے تک فروخت ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت پاکستان کسانوں کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی یا پھر اسے اس کا ادراک ہی نہیں۔ اضافی ٹیکس، اخراجات میں اضافہ، امدادی رقوم میں کمی اور پیداوار کی فروخت میں مسا ئل کسانوں کی کمر توڑ رہے ہیں اور وہ سراپا احتجاج ہیں۔ ایک صنعت کار تو اپنی صنعت کو ملک سے باہر بھی منتقل کرسکتا ہے لیکن ایک کسان اپنی زمین کا ٹکڑا کہیں نہیں لے جاسکتا۔ پاکستان کے پڑوس میں چین اور بھارت میں کسانوں کو بہت سی مراعات دی گئی ہیں جس وجہ سے پیداری لاگت کم ہوگئی ہے اور اب کم قیمت پر اپنی اجناس پاکستان برآمد کررہے ہیں جس سے ہمارے کسانوں کو اور نقصان ہورہاہے۔ کسانوں کا ایک اور بہت بڑا ستحصال آڑھتی Middle Man کرتے ہیں جوان کے منافع کا ایک بڑا حصہ اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ کسانوں کو ان سے نجات دلاتے ہوئے پیداوار کی خرید کا جدید نظام اپنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی زراعت کو اور بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ زرخیز زمینیں بڑھتی ہوئی رہائشی کالونیوں اور صنعتی اداروں کی نذر ہونے سے زیر کاشت رقبہ کم ہورہا ہے ۔صنعتی فضلہ کے ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں جس کی وجہ سے زیرزمین پانی میں مضر صحت دہاتوں کی مقدار میں اضافہ ہورہاہے جو فصلوں کے علاوہ پینے کے لئے صاف پانی کے مسائل میں اضافہ کررہاہے۔ پنجاب میں چاول کی کاشت کے علاقہ میں پانی میں سنکھیا کا تناسب بہت بڑھ گیاہے جس وجہ سے چاول میں بھی سنکھیا کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مضر صحت چاول پھیپھڑوں اور مثانے کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے ۔ پاکستان کا چاول دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتا ہے اور اس کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن اگر چاول میں سینکھیا کی مقدار کو قابو میں نہ کیا گیا تو ہماری چاول کی برآمدات بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ ہمیں اپنی زرعی ٰ تعلیم و تحقیق کے معیار اور استعداد کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں اس وقت چھبیس جامعات یا اداروں میں زراعت اور انیس میں امور حیوانات کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے لیکن ہماری کوئی ایک زرعی یونیوسٹی عالمی فہرست میں نمایاں مقام پر نہیں۔ پاکستان میں بہت سے زرعی تحقیق کے ادارے موجود ہیں جن میں پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، NARC اسلام آباد، NIAB فیصل آباد، NIFA فیصل آباد، NIBGEفیصل آباد، زرعی تحقیقاتی مرکز کوئٹہ اور چند دیگر تحقیقاتی مراکز شامل ہیں۔امور حیوانات کے شعبہ میں VRIلاہور، PRIراولپنڈی ، VRI پشاور، BRI پتوکی، LPRI بہادرنگر، خیری مورت، رکھ خیرے والا، جابا شیپ فارم مانسہرہ وغیرہ شامل ہیں۔ان تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کا جائیزہ لینے اور یہاں ہونے والی تحقیق کو عالمی معیار کا بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس سے ملکی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکے۔ صوبائی سطح پر محکمہ زراعت اور لائیوسٹاک بھی موجود ہے لیکن انہیں روایتی بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے عالمی معیار کے پیشہ وارانہ ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ ان تمام امور کا جائیزہ لے کر ایک قابل عمل اور مربوط زرعی پالیسی کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہم اپنی خوراک کے لئے بھی دوسروں کے دست نگر ہوتے جائیں گے۔ میانوالی کی تحصیل عیسی ٰ خیل کسان مبینہ طور پر صوبائی وزیر آبپاشی امانت اللہ خان شادی خیل اور انکے بھائی رکن قومی اسمبلی عبید اللہ خان شادی خیل کی جانب سے سیلابی نالے “ بڑوچ“ کا پہلے سے منظور شدہ نقشہ تبدیل کر کے اس کا رخ آبادی والے قصبوں مہرشاہ والی، سمندوالہ اور جنتی والہ کی طرف موڑنے پر سراپا احتجاج ہیں۔غریب عوام در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے اور لوگوں نے سیکرٹری محکمہ آبپاشی، ڈی سی او میانوالی،چیف سیکرٹری پنجاب، چیف کمشنر سرگودھا اور چیف انجنیئرمحکمہ آبپاشی سرگودھا کو درخواستیں بھی ارسال کی ہیں لیکن اس کاکوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر ان غریب کسانوں کی زمینیں نالہ برد ہوگئیں اور ان کے کھیت برباد ہوگئے تو وہ فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صورت حال کا نوٹس لے کر کسانوں کی داد رسی کرکے حقیقی معنوں میں خادم اعلیٰ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ زرعی یونیوسٹی فیصل آباد نے اپنے چھ طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرکے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دور کی یاد تازہ کردی۔ اس دور میں راقم اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اس وقت کئی طلباء کو یونیورسٹی سے نکالا گیالیکن آج کے جمہوری دور میں ایسے اقدامات ناقابل فہم ہیں اورحکومت پنجاب کو اس معاملہ میں مداخلت کرنی چاہیے۔ زرعی یونیورسٹی سیکورٹی کی طرف سے میڈیا کے نمائدگان پر تشدد قابل مذمت ہے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.