
مسلم ممالک کیوں روہنگا مسلمانوں کے مددگار نہیں
ہفتہ 16 ستمبر 2017

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
ان گفتہ بہ حالات کے باوجود سویڈش روہنگا ایسوسی ایشن کے صدر ابوالکلام کو توقع ہے کہ اگر حکومت پاکستان عملی اقدامات اٹھائے تو برما میں مسلمانوں کا قتل عام اور ظلم رک سکتا ہے۔ انہیں یہ امید اس لئے ہے کہ پاکستان کے برما درمیان طویل عرصہ سے دوستانہ تعلقات ہیں اور اگر پاکستان صرف دفاعی شعبہ میں ہی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دے تو یہ کارگر ہوگی ۔ انہوں نے بتایا کہ روہنگا مسلمانوں پر طویل عرصہ سے مظالم ہورہے ہیں اور 1942 میں بھی ان کی نسل کشی کی گئی ۔1971سے پہلے جب مشرقی پاکستان تھا ، اس وقت بھی برما میں 1952 اور 1962میں روہنگا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات ہوتے تھے لیکن پاکستان کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے حالات بہتر ہوجاتے تھے لیکن اب پاکستان کی خاموشی سے یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ روہنگا رہنماء کا یہ بھی کہناہے کہ پاکستان کے بہت سے صحافی، تجزیہ نگار اور کالم نویس روہنگا مسلمانوں کی تاریخ اور حقائق سے بے خبر ہیں اور میڈیا میں بہت سی بے بنیاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ کہ پہلے درست معلومات حاصل کریں پھر اس مسئلہ پر اظہار خیال کریں۔ ان کے مطابق چٹاگانگ میں مقیم مورخ پروفیسر محب اللہ، کینڈا کے ڈاکٹر عابد بہار اور امریکہ میں مقیم ڈاکٹر حبیب صدیقی کی تحقیق کا مطالعہ کرنا چاہیے یا پھر کراچی میں مقیم روہنگا پس منظر رکھنے والے کالم نگار سیف اللہ خالد اور مولانا نورالبشر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے تاکہ درست حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ابوالکلام نے عالم اسلامی کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر مسلمان ممالک برما پر سفارتی دباؤ ہی ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں یہ ظلم کا دور ختم نہ ہو۔ ان کا سوال تھا کہ اسلامی ممالک کیوں اپنے محکوم اور مجبور مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کرتے۔
روہنگا رہنماء کا سوال اپنی جگہ پر لیکن تاریخ میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ محکوم اور مجبور مسلمان ظلم کا شکار رہے لیکن ان کی کسی نے مدد نہ کی۔ صلاح الدین ایوبی اور یوسف بن تاشفین جیسے ہیرو مسلم تاریخ میں خال خال ہی ملتے ہیں۔مسلمان حکمران یک دوسرے کے ساتھ یوں بر سرپیکار رہے ہیں کہ جیسے جانی دشمن ہوں اور ان کے زوال کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ جب میں نے یہ پڑھا کہ محمد بن قاسم جو کہ ہمارا عظیم ہیرو ہے اسے خلیفہ وقت کے حکم پر پھانسی چڑھایا گیا تو کئی دن سکون کی نیند نہ آئی۔ فاتح اسپین عظیم جرنیل موسیٰ بن نصیر کے ساتھ خلیفہ وقت کا انسانیت سوز سلوک پڑھا تو دل خون کے آنسو رویا۔امویوں اور عباسیوں نے خلافت کے نام پر جو انسانی خون نہایا اسے کون بھلاسکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان بایزید یلدرم جس نے ہنگری، فرانس، رومی اور دوسرے یورپی ممالک کی مشترکہ فوج کو نکوپولس کے مقام پر زبردست شکست دے کر یورپ میں ان کی کمر توڑ دی ، اسی یلدرم کی سلطنت پر امیر تیمور نے حملہ کرکے تاراج کیااور یلدرم کو قید کردیا جہاں اسی حالت میں وہ انتقال کرگیا۔ یہی امیر تیمور جو کہ حافظ قرآن بھی تھا ، نے اسلامی دنیا میں زبردست قتل و غارت کی اور شام، عراق، ایران اور ثمر قند پر قبضہ کیا۔ امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کرکے شاہ نصیرالدین تغلق کو شکست دے کر دہلی پر بھی قبضہ کر لیا۔ امیر تیمور کا ظلم اور سفاکی اپنے جد امجد چنگیز خان سے بھی بڑھ کر تھی۔ سپین میں جب اشبیلہ ور قرطبہ میں مسلم حکومتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں تو اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی بلکہ انہوں نے مخالفین کی حمایت کی۔ جب ا سپین میں آخری مسلم حکومت غرناطہ کئی ماہ محاصرے میں رہی تو سلطنت عثمانیہ اور دیگرمسلم حکمرانوں میں سے کوئی ان کی مدد کو نہ آیا اورآخر کارسقوط غرناطہ کی صورت میں آٹھ صدیوں سے جاری مسلم حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ بھی مسلمان حکمران ہی تھے جنہوں نے غرناطہ کے محصور مسلمانوں اور اسپین میں آخری مسلم ریاست کی مدد کرے کی بجائے فاتح عیسائی بادشاہ فرنینڈس کو فتح پر مبارک باد دی۔ اسپین میں رہ جانے والے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے جس کے گواہ غیر جانبدار یورپی مورخین بھی ہیں لیکن کیا کسی مسلمان حکومت نے ان کی داد رسی کی۔ کیا کسی نے ان کے لئے آواز اٹھائی ۔اسپین کے مسلمان ظلم کی چکی میں پستے رہے اور مسلمان حکمران اسی طرح بے حس رہے جیسے ہمارے دور کے حکمران کشمیر، برما، فلسطین اور دیگر جگہوں میں ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں۔ جو لوگ آج بھی مسلمان حکمرانوں کومظلوموں کی مدد کے لئے پکار رہے ہیں وہ تاریخ سے نابلد ہیں۔
قطب الدین ایبک سے بہادر شاہ ظفر تک آپس میں لڑنے کی تلخ تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور غارت گری نے مغلوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی اورنتیجہ پنجاب میں سکھوں اور ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ ۔ جب ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہادت پائی، اس وقت ہندوستان کے دیگر مسلمان حکمران یا تو انگریزوں کے حلیف تھے یا غیر جانبدار۔ مسلمان کبھی بھی مذہب کے نام پر متحد ہوکر نہیں لڑے یہ عیسائی ہی تھے جنہوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف چودہ صلیبی جنگیں لڑیں۔ دل خراش واقعات کی فہرست طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ، مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اپنے اقتدار سے غرض ہے انہیں محکوم اور مجبور مسلمانوں سے کوئی غرض نہیں چاہے وہ روہنگا ہوں، کشمیری ہوں ، فلسطینی ہوں یا کوئی اور۔ مظلوم روہنگا کسے پکار رہے ہیں، علامہ اقبال تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.